Saturday, 7 July 2018

قطب الارشاد مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ

قطب الارشاد مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ
 
امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی 6 ذی قعدہ 1244ھ بمطابق 1869ء بروز پیر چاشت کے وقت اس دنیائے آب وگل میں تشریف لائے۔ آپ رحمہ الله کی پیدائش مشہور تاریخی مقام گنگوہ میں حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی 
رحمہ اللہ کے مزار مبارک سے متصل اپنے آبائی مکان میں ہوئی، آپ رحمہ الله کے والد ماجد کا نام مولانا ہدایت احمد صاحب رحمہ اللہ ہے۔ آپ رحمہ اللہ اپنے والد ماجد او روالدہ دونوں کی جانب سے شریف النسب، شیخ زادہ، انصاری اور ایوبی النسل تھے، سلسلہ نسب حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔
حضرت گنگوہی رحمہ اللہ میں بچپن ہی سے غیرت وحمیت، اہتمام نماز اورگناہوں سے نفرت جیسی صفات موجود تھیں، چناں چہ خود ذکر فرماتے ہیں کہ الله تعالیٰ نے مجھے بچپن میں ایسا یقین نصیب فرمایا تھا کہ اگر دوران کھیل نماز کا وقت آجاتا تو بلا کسی تاخیر کے کھیل چھوڑکر نماز کے لیے چلا جاتا تھا اور لوگوں سے کہہ دیتا کہ ہم نے اپنے ماموں صاحب سے سنا ہے کہ تین جمعہ کا چھوڑنے والا منافق لکھا جاتا ہے۔ اندازہ کیجیے کہ جس فرمان رسول سے عموماً لوگ غفلت کا شکار ہوتے ہیں، حضرت مولانا رحمہ اللہ صغر سنی میں اس کا کتنا خیال رکھتے تھے!
تعلیم وتربیت
آپ رحمہ اللہ نے ابتدائی دینی تعلیم ایک مقامی استاد میاں جی قطب بخش صاحب 
رحمہ اللہ سے حاصل کی، اس کے بعد فارسی کی کتابیں اپنے بڑے بھائی مولانا محمد عنایت احمد صاحب رحمہ اللہ او رمولانا محمد تقی صاحب رحمہ اللہ سے پڑھیں، فارسی کے بعد عربی پڑھنے کا شوق ہوا تو آپ رام پور تشریف لے گئے اور وہاں مولانا محمد بخش صاحب رحمہ اللہ سے عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ مولانا محمد بخش رحمہ اللہ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپ رحمہ اللہ کو دہلی جانے کا مشورہ دیا، استاد کے مشورہ کو حکم سمجھتے ہوئے آپ رحمہ اللہ نے 1261 میں دہلی کا سفر کیا، چوں کہ اس دور میں دہلی علوم وفنون کا مرکز تھا او رمختلف عظیم ہستیاں حلقہ درس لگائے ہوئے تھیں، لیکن مولانا رحمہ اللہ کی ذہین طبیعت کو کہیں تشفی نہ ہوئی، آخر ایک دن آپ رحمہ اللہ مولانا مملوک علی نانوتوی رحمہ اللہ کے حلقہ درس میں گئے تو وہاں دل لگ گیا اور فیصلہ کرلیا کہ یہیں پڑھوں گا۔
مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ الله ان دونوں مولانا مملوک علی صاحب رحمہ اللہ کے پاس زیرتعلیم تھے، چناں چہ اپنے زمانہ کے شمس وقمر نے ایک جگہ تعلیم حاصل کرکے کتاب وسنت کی ایسی تحریک چلائی کہ پورا برصغیر پاک وہند علم دین سے جگمگا اٹھا، یہ دونوں حضرات پوری جماعت کے ذہین وفطین طلباء میں سے تھے بسا اوقات علمی مسائل میں مناظرہ تک کی نوبت آجاتی تھی، تمام طلباء ان حضرات کی نکتہ سنجیوں سے خوب محفوظ ہوتے تھے، اساتذہ ان مناظروں کا فیصلہ کرتے ہوئے فرماتے تھے: ” رشید احمد حق پر ہے، مگر قاسم اپنی تیزی سے ہاتھ نہیں آتا۔“ (تذکرة الرشید، ص:30)
مولانا مملوک علی رحمہ اللہ کے علاوہ آپ رحمہ اللہ نے بعض علوم عقلیہ مولانا مفتی صدر الدین صاحب رحمہ اللہ سے بھی پڑھے اور حدیث شریف کے اسباق قدوة العلماء حضرت مولانا شاہ عبدالغنی مجددی رحمہ اللہ سے پڑھے۔ نانوتوی اور گنگوہی رحمہما الله دونوں شاگرد یہاں بھی اپنی ذہانت وذکاوت کی وجہ سے استاد کی خصوصی عنایات کے مستحق ٹھہرے، حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی دہلی میں تعلیمی مدت تقریباً چار سال بنتی ہے، اس مدت کو ملاحظہ کیا جائے اور پھر آپ رحمہ اللہ کے علم واستعداد کو دیکھا جائے (جس کا مخالفین بھی اعتراف کرتے تھے) توبے ساختہ دل سے آواز اٹھتی ہے #
        لیس علی الله بمستنکر
        ان یجمع العالم فی واحد
تدریس
یوں تو الله تعالیٰ نے آپ 
رحمہ اللہ کو تمام علوم میں مہارت تامہ عطا فرمائی تھی، لیکن حدیث وفقہ سے آپ رحمہ اللہ کو بہت زیادہ شغف تھا، اپنے زمانہ میں آپ رحمہ اللہ حدیث اور فقہ کے امام تسلیم کیے جاتے تھے، فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ کو آپ نے چودہ مرتبہ سے زیادہ پڑھایا تھا، تقریباً 49 سال تک درس حدیث دیتے رہے۔ اس دوران سینکڑوں طلبائے کرام نے آپ رحمہ اللہ سے دورہ حدیث کی تکمیل کی، آپ رحمہ اللہ کے درس حدیث میں ایک بڑ ی اور اہم خوبی یہ تھی کہ مضمون حدیث سن کر اس پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا تھا، یہ خاص اثر اس لیے تھا کہ آپ رحمہ اللہ سب سے زیادہ متبع سنت تھے، آپ رحمہ اللہ کی تدریس میں محویت کا ایسا عالم ہوتا تھا کہ ہر شریک درس کی یہ خواہش ہوتی کہ سلسلہ درس مزید دراز ہو اور جب سبق ختم ہوتا تو ہرایک یہ سمجھتا کہ ابھی تشنگی باقی ہے۔
سلوک وتحصیل معرفت
خدا طلبی او رمعرفت خداوندی کا شوق ازل سے آپ 
رحمہ اللہ کے قلب مبارک میں الله تعالیٰ نے ودیعت فرمایا تھا، چناں چہ تحصیل علم کا سلسلہ ختم ہونے کے بعداب مرشد کامل کی تلاش ہوئی اور یہی جستجو آپ رحمہ اللہ کو تھانہ بھون لے آئی اور وہاں پر حضرت حاجی امداد الله مہاجر مکی رحمہ اللہ سے بیعت ہوئے بیعت کے چند ہی دنوں بعد حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ نے آپ رحمہ اللہ کو خلافت دیتے ہوئے فرمایا: ”میاں مولوی رشید احمد! جو نعمت الله تعالیٰ نے مجھے دی ہے وہ میں نے تجھے دے دی آئندہ اس کو بڑھانا تیرا کام ہے“۔
اس خدائی نعمت کو ( جس کے لیے دردر کی خاک چھاننا پڑتی ہے) پاکر جب آپ رحمہ اللہ واپس گنگوہ تشریف لائے تو حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی رحمہ اللہ کی خانقاہ، جو تین سو سال سے ویران او رخراب وخستہ پڑی تھی، کو مرمت کرکے آباد کیا اور وہیں پر ذکر وفکر الہٰی میں مشغول ہوگئے، ہر وقت استغراق، محویت اور تفکر کے عالم میں رہتے۔
اکثر تمام شب روتے روتے گزر جاتی، والدہ ماجدہ نے آپ رحمہ اللہ کے لیے نیلے رنگ کی ایک چاد ربنائی تھی کہ رات کو مسجد آتے جاتے خنکی سے محفوظ رکھے۔ مولانا کی گریہ وزاری اور آنسوؤں کی کثرت کی وجہ سے اس کا رنگ کئی جگہ سے متغیر ہوگیا تھا۔
آپ رحمہ اللہ رات کے آخری پہر میں اس انداز اور جذب وکیفیت سے ذکر جہر فرماتے کہ ایسا معلوم ہوتا کہ ساری مسجد کانپ رہی ہے۔ خود پر جو حالت گزرتی ہوگی اس کی کسی کو کیا خبر #
        جس قلب کی آہوں نے دل پھونک دیے لاکھوں
        اس قلب میں یا الله! کیا آگ بھری ہو گی
تواضع وانکساری
باوجود فضل وکمال کے، آپ 
رحمہ اللہ نہایت متواضع اور منکسر المزاج تھے، آپ رحمہ اللہ اپنے کو کبھی بھی کسی دوسرے پر ترجیح نہیں دیتے تھے۔ ایک دفعہ آپ رحمہ اللہ نے دوران درس ایسی بلیغ تقریر فرمائی کہ طلبہ جھوم اٹھے اور آپ رحمہ اللہ کے سامنے ہی آپ رحمہ اللہ کی تعریف کرنے لگے تو آپ رحمہ اللہ رو پڑے اور بے ساختہ قسم کھاکر فرمایا: ”اپنے کو تم میں سے کسی کے برابر بھی نہیں سمجھتا، چہ جائیکہ زیادہ سمجھوں“۔
آپ رحمہ اللہ کو قسم کھانے کی مطلق عادت نہ تھی، لیکن اس موقع پر بلااختیار آپ رحمہ اللہ سے قسمیہ الفاظ صادر ہوگئے۔
ایک دفعہ درس حدیث کے دوران بارش شروع ہوگئی، طلبہ نے بارش سے بچانے کی غرض سے جلدی جلدی کتابیں او رتپائیاں اٹھائیں اورچل دیے، اچانک طلبہ نے دیکھا کہ حضرت مولانا رحمہ اللہ نے اپنے کندھے کی چادر میں طلبہ کی جوتیاں ڈالی ہوئی ہیں اور اٹھائے چلے آرہے ہیں، طلبہ بہت زیادہ نادم وحیرت زدہ ہوئے تو فرمایا: ”اس میں کون سی بری بات ہے، تمہاری خدمت کرنا تو میری نجات کا باعث ہے، طلبائے دین کے لیے تو مچھلیاں سمندر میں، چیونٹیاں بلوں میں دعا کرتی ہیں اور فرشتے تمہارے قدموں کے نیچے اپنے پر بچھاتے ہیں اور تم تو مہمانان رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہو۔“
جب1857ء کا ہول ناک حادثہ ختم ہوا تو حکومت برطانیہ نے ہر اس آدمی کو تختہ دار پر لٹکادیا جس کے متعلق ذرا سا بھی شبہ ہوا کہ یہ تحریک آزادی سے متعلق ہے چناں چہ حاجی امداد الله مہاجر مکی، مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ اور مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہم الله کے نام گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے۔ حضرت صاحب رحمہ اللہ تو مکہ مکرمہ ہجرت فرماگئے۔
مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا گنگوہی رحمہا الله روپوش ہوگئے، لیکن مخبر کی خبر رسانی سے آپ رحمہ اللہ کو گرفتار کیا گیا اور سہارن پور کی کال کوٹھڑی میں رکھا گیا۔ تین چار دن کال کوٹھڑی میں بند رہے، تحقیقات اور پیشی پر پیشی ہوتی رہی، آخر عدالتی فیصلے کے تحت آپ رحمہ اللہ کو مظفر نگر جیل بھیج دیا گیا۔
وہاں پر آپ رحمہ اللہ تقریباً چھ ماہ رہے، اس عرصہ میں آپ رحمہ اللہ کے عزم واستقلال، بلند ہمتی او رحق گوئی میں کچھ فرق نہ آیا۔ بالآخر جب حکومت کو کوئی ثبوت آپ کے متعلق نہیں ملا تو آپ رحمہ اللہ کو باعزت رہا کردیا گیا۔
تصانیف
مولانا گنگوہی 
رحمہ اللہ کو تصنیف وتالیف سے کچھ زیادہ شغف نہ تھا، البتہ مسائل شرعیہ اور خالصتاً مختلف فیہ مسائل میں رفع تضاد کے لیے کچھ نہ کچھ لکھ دیتے تھے۔ آپ رحمہ اللہ کی مشہور تصانیف یہ ہیں۔
#   رد الطغیان فی اوقاف القرآن… قرآن مجید کے اوقاف کو بدعت ثابت کرنے والوں کا جواب۔
#  ھدایة الشیعہ… ایک شیعہ عالم ہادی علی لکھنوی کے اعتراضات کے جوابات۔
#  زبدة المناسک… حج کے مناسک سے متعلق ایک عام فہم رسالہ۔
#   قطوف دانیہ… قراء ة فاتحہ خلف الامام کے جوابات۔
#  سبیل الرشاد… ردعدم تقلید۔
#   رسالہ تراویح… بیس رکعات تراویح کا احادیث سے ثبوت۔
#   لطائف رشیدیہ… آیات قرآنی کے۔ نکات وغیرہ۔
#  تصفیة القلوب… حضرت حاجی صاحب کی تصنیف”ضیاء القلوب“ کا اردو ترجمہ۔
وفات حسرت آیات
جمادی الاولیٰ1322ھ کو آپ 
رحمہ اللہ تہجد کی نماز میں مشغول تھے کہ آپ کے پاؤں کی دو انگلیوں کے درمیان کسی جانور نے کاٹا۔ آپ نے معمولی زخم سمجھ کر توجہ نہ دی، آخری یہی زخم وفات کا سبب بنا۔
انالله واناالیہ راجعون
مولانا محمد عبدالله معتصم

No comments:

Post a Comment