Thursday, 19 July 2018

ناخن کاٹنے کا مستحب طریقہ

ناخن کاٹنے کا مستحب طریقہ
سوال:- {2103} ناخن کاٹنے کا سنت طریقہ کیا ہے ؟ اور کس ترتیب سے ناخن کاٹنا چاہئے؟ (عبد المجید، مہدی پٹنم)
جواب:- امام غزالی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت سے شروع کرے، اور اس کے بعد کی چاروں انگلیوں کے ناخن تراشنے کے بعد بائیں ہاتھ کے ناخن چھوٹی انگلی سے کاٹتے ہوئے انگوٹھے پر ختم کرے پھر آخر میں دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کا ناخن تراشے، (۱) لیکن محققین کا خیال ہے کہ اس سلسلہ میں کوئی حدیث ثابت نہیں، چنانچہ علامہ ابن دقیق العید نے لکھا ہے کہ اس کے مستحب ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔ (۲) اور خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی صراحت کی ہے کہ ناخن کاٹنے میں انگلیوںکی ترتیب کا احادیث میں کوئی ذکر نہیں۔ 
’’و لم یثبت فی ترتیب الأصابع عند القص شییٔ من الأحادیث.‘‘ (۳)
البتہ چوں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ دائیں جانب سے اس کی ابتداء ہو، (۴) اور ناخن کاٹنا بھی ایک اچھا کام ہے ، اس لیے پہلے دائیں ہاتھ کا، پھر بائیں ہاتھ کا ناخن تراشنا چاہئے۔
ناخن کاٹنے کے آداب
سوال:- {2104} ناخن کاٹنے کا شرعا بہتر طریقہ کیا ہے؟ (آفتاب الدین، گلبرگہ)
(۱) احیاء العلوم : ۱/۱۲۷ ۔ محشی ۔
(۲) فتح الباری : ۱۰/۴۲۴۔
(۳) فتح الباری : ۱۰/۴۲۴۔
(۴) صحیح البخاري، حدیث نمبر: ۱۶۸ ، باب الیمین في الوضوء و الغسل ۔ محشی ۔

جواب:- رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ناخن کاٹنے کی ترغیب دی ہے، لیکن ناخن کاٹنے کا طریقہ کیا ہو؟ کسی صحیح حدیث میں اس کی تفصیل نہیں ملتی، گویا آپ 
صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا منشا تھا کہ اس مسئلہ میں وسعت باقی رہے، ویسے فقہاء نے اپنے اجتہاد سے آداب و مستحبات کے درجہ میں کچھ باتیں لکھی ہیں، اور وہ یہ ہیں کہ ہفتہ میں ایک بار ناخن کاٹنا چاہئے، یہ افضل طریقہ ہے، اوسط درجہ یہ ہے کہ دو ہفتہ میں ایک بار کاٹ لے، بہر حال چالیس دن سے زیادہ تاخیر نہیں ہونی چاہئے، دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت سے شروع کرے، اور چاروں انگلیوں کے ناخن کاٹنے کے بعد بائیں ہاتھ کے ناخن کاٹے، پھر آخر میں دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کا ناخن تراشے، یہ بھی مستحب ہے کہ کاٹا ہوا ناخن دفن کردے، خاص کر بیت الخلاء، یا گندی جگہ میں ڈالنا مکروہ ہے، اور بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ اس سے بیماری پیدا ہوتی ہے، یہ ساری تفصیلات فتاوی عالمگیری میں فتاوی قاضی خاں کے حوالہ سے ذکر کی گئی ہیں۔ (۱)
..................
صحیح یہی ہے کہ ناخن کاٹنے کا کوئی طریقہ سنت سے ثابت نہیں ہے، امام غزالی رحمہ اللہ نے احیاء العلوم میں اس طریقے کو ذکر کیا ہے اور اس کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ طریقہ سنت ہے؛ لیکن محققین، مثلا: حافظ ابن حجر، علامہ سیوطی، علامہ ابن دقیق العید، ابو عبد اللہ المارزی المالکی، علامہ نوی رحمہم اللہ کی رائے یہی ہے کہ ناخن کاٹنے میں سنت سے کوئی طریقہ ثابت نہیں ہے؛ البتہ علامہ نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مستحب یہ ہے کہ پہلے دائیں ہاتھ کے ناخن کاٹے جائیں پھر بائیں ہاتھ کے۔ 
قال الحصکفي: وفي شرح الغزاویة: روي أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بدأ بمسبحتہ الیمنی الی الخنصر، ثم بخنصر الیسری الی الابہام، وختم بابہام الیمنی۔ و ذکر لہ الغزالي في الاحیاء وجہا وجیہا۔۔۔ قلتُ: وفي المواہب اللدنیة: قال الحافظ ابن حجر: انہ یستحب کیفما احتاج الیہ، ولم یثبت في کیفیتہ شيء، ولا في تعیین یوم لہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ قال ابن عابدین: قولہ: (قلتُ الخ) وکذا قال السیوطي، وقد أنکر الامام ابن دقیق العید جمیع ہذہ الأبیات، وقال: لا تعتبر ہیئة مخصوصة، وہذا لا أصل لہ في الشریعة، ولا یجوز اعتقاد استحبابہ؛ لأن الاستحباب حکم شرعي لا بد لہ من دلیل۔ (الدر المختار مع رد المحتار: ۶/۴۰۶، کتاب الحضر والاباحة، فصل في البیع، ط: دار الفکر، بیروت) قال النووي: ویستحب أن یبدأ بالید الیمنی، ثم الیسری، ثم الرجل الیمنی، ثم الیسری۔ قال الغزالی في الاحیاء: یبدأ بمسبحة الیمنی، ثم الوسطی، ثم البنصر، ثم الخنصر، ثم خنصر الیسری الی ابہام الیمنی، وذکر فیہ حدیثا وکلاماً لا أوثر ذکرہ، والمقصود أن الذي ذکرہ الغزالي لابأس بہ الا في تاخیر ابہام الیمنی، فلا یقبل قولہ فیہ؛ بل یقدم الیمنی بکمالہا، ثم یشرع في الیسری، وأما الحدیث الذي ذکرہ، فباطل لا أصل لہ۔ (المجموع شرح المہذب: ۱/۲۸۳، ط: دار الفکر، بیروت)
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
...................
ناخن تراشنے کے لیے کوئی خاص دن کوئی خاص وقت اور کوئی مخصوص طریقہ مروی نہیں ہے، جب چاہے جس دن چاہے اور جس انگلی سے چاہے شروع کرسکتا ہے، البتہ بعض فقہاء نے جمعہ کے دن جمعہ کی نماز کے بعد کاٹنے کو مستحب قرار دیا ہے۔ 
وفي التنویر ویستحب قلم أظافیرہ یوم الجمعة وکونہ بعد الصلاة أفضل (در مختار: ۹/۵۸۰-۵۸۱) 
اسی طرح ناخن تراشنے کا طریقہ بعض فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے، جو صرف اولیٰ ہے مسنون نہیں ہے۔ طریقہ یہ ہے: داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے کاٹتے ہوئے خنصر تک آئے، اور پھر بائیں ہاتھ کی خنصر سے کاٹتے ہوئے داہنے ہاتھ کے انگوٹھے پر ختم کرے، جب کہ پیر کے اندر داہنے پیر کی خنصر سے شروع کرے اور بائیں پیر کی خنصر پر ختم کرے۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
...........
ناخن کاٹ کر پھینک دینے میں مضائقہ نہیں، البتہ موقع نجس میں ڈال دینا کراہت و گناہ کا باعث ہے اور اس کو دفن کردینا بہتر ہے، فإذا قلم أظفارہ أو جزّ شعرہ ینبغي أن یدفن ذلک الظفر والشعر المجزور فإن رمی بہ فلا بأس وإن ألقاہ في الکنیف أو في المغتسل یکرہ ذلک لأن ذلک یورث داء (ہندیة: ۵/۳۵۸) ناخن کاٹنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی سے ابتداء کرے اور بائیں ہتھ کے ناخن کاٹتے ہوئے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے پر لاکر ختم کرے اور پیر میں دائیں پیر کی سب سے چھوٹی انگلی سے شروع کرے اور بائیں پیر کی چھوٹی انگلی پر ختم کرے، اگر اس کی رعایت نہ ہوسکے تو کوئی مضائقہ نہیں، جس طرح ہوسکے کاٹ لے وینبغي أن یکون ابتداء قص الأظافیر من الید الیمنی وکذا الانتہاء بہا فیبدأ بسبابة الید الیمنی ویختم بإبہاہما وفي الرجل یبدأ بخنصر الیمنی ویختم بخنصر الیسری (ہندیہ: ۵/۳۵۸)
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
..................

No comments:

Post a Comment