Tuesday 31 May 2022

ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﻮﮞ کو ﮐﯿﺴﮯ ﭘﺘﮧ ﭼﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﺎﺭﺵ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﮯ

ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﻮﮞ کو ﮐﯿﺴﮯ ﭘﺘﮧ ﭼﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﺎﺭﺵ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﮯ؟
ﺁﺝ ﮨﻢ ﺁﭖ ﮐﻮ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﮐﭽﮫ ﺣﻘﺎﺋﻖ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ "ﺳﻮﺭۃ ﻧﻤﻞ" ﮐﯽ ﺁﯾﺖ ﻧﻤﺒﺮ 17 ﺍﻭﺭ 18 ﻣﯿﮟ ﺍلله ﮐﺎ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮨﮯ ﮐﮧ:
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
وَ حُشِرَ لِسُلَیۡمٰنَ جُنُوۡدُہٗ  مِنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ  وَ الطَّیۡرِ  فَہُمۡ  یُوۡزَعُوۡنَ ﴿۱۷﴾ (سورہ النمل آیت نمبر 17)
ترجمہ: اور سلیمان کے لئے ان کے سارے لشکر جمع کردیئے گئے تھے جو جنات، انسانوں اور پرندوں پر مشتمل تھے، چنانچہ انہیں قابو میں رکھا جاتا تھا۔ (٩)
تفسیر: 9: یہاں بتانا یہ مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو جو سلطنت عطا فرمائی تھی، وہ صرف انسانوں پر ہی نہیں، بلکہ جنات اور پرندوں پر بھی تھی، چنانچہ جب ان کا لشکر چلتا تھا تو اس میں جنات، انسان اور پرندے سب شامل ہوتے تھے، اور اس طرح لشکر کے افراد اتنے زیادہ ہوجاتے تھے کہ انہیں قابو میں رکھنے کا خاص اہتمام کرنا پڑتا تھا، لیکن نظم و ضبط پھر بھی قائم رہتا تھا۔
حَتّٰۤی  اِذَاۤ  اَتَوۡا عَلٰی وَادِ  النَّمۡلِ ۙ قَالَتۡ نَمۡلَۃٌ  یّٰۤاَیُّہَا النَّمۡلُ ادۡخُلُوۡا مَسٰکِنَکُمۡ ۚ لَا یَحۡطِمَنَّکُمۡ  سُلَیۡمٰنُ  وَ جُنُوۡدُہٗ ۙ وَ ہُمۡ  لَا یَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۸ (سورہ النمل آیت نمبر 18)
ترجمہ: یہاں تک کہ ایک دن جب یہ سب چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا: چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جاؤ، کہیں ایسا نہ ہوکہ سلیمان اور ان کا لشکر تمہیں پیس ڈالے، اور انہیں پتہ بھی نہ چلے۔ (تفسیر: آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﺎﮞ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ (علیہ السلام) ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍلله تعالى ﻧﮯ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺻﻼﺣﯿﺖ ﺑﮭﯽ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ۔ 
ﺟﻮ ﺑﺎﺕ ﻗﺮﺁﻥ ﻧﮯ ﭼﻮﺩﮦ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﺘﺎﺋﯽ، ﺁﺝ ﮐﯽ ﺟﺪﯾﺪ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺗﺠﺮﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﻧﺘﯿﺠﮯ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ ﻣﻌﺎشرتی نظام ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺗﻨﮯ ﻣﺸﮑﻞ ﺳﺴﭩﻢ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻋﻘﻞ ﺩﻧﮓ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔
ﺳﺎﺋﻨﺲ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﺎﮞ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﮈاٹا ﻣﻨﺘﻘﻞ ﮐﺮکے ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎﻃﺮﯾﻘﮧ ﯾﮧ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﻮﺍﺩ ﻧﮑﺎﻟﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﭼﯿﻮﻧﭩﯽ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﭘﺮ ﭼﭙﮑﺎ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﭼﯿﻮﻧﭩﯽ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺳﺎﺭﺍ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﮈﯼ ﮐﻮﮈ ﮐﺮﮐﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﮐﺜﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﮧ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﺎﮞ ﭼﻠﺘﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﺭﮎ ﮐﺮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﭼﯿﻮﻧﭩﯽ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﻣﻨﮧ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ آﮔﮯ بڑھتی ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﯾﮧ ﻭﮦ ﻋﻤﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﮈاٹا ﻣﻨﺘﻘﻞ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ.
ﺟﺪﯾﺪ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﺎﮞ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﯾﮏ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﯽ ﮔﺰﺍﺭﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﮐﺜﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﮧ ﺑﺎﺭﺵ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﺎﮞ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮﮔﻮﻝ ﭼﮑﺮ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﭩﯽ ﮐﮯ ﭘﮩﺎﮌ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﯿﮟ، ﺗﺎﮐﮧ ﺑﺎﺭﺵ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ داخل ﻧﮧ ہوﺳﮑﮯ۔ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻭﻗﺖ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﺎﺭﺵ ﮐﺎ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﻗﺪﺭﺗﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺳﻨﺴﺮ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﮨﺎﺋﯿﮉﺭﻭﻓﻮﻟﮏ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺟﺐ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﯽ ﮐﺎ ﺗﻨﺎﺳﺐ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﯾﮧ ﺳﻨﺴﺮ ﺍﺳﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻣﺎﻍ ﮐﻮ ﺑﺎﺭﺵ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﭘﮩﻨﭽﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﺎﮞ ﺑﺎﺭﺵ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﯿﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﺮﻟﯿﺘﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﻣﺤﮑﻤﮧ ﻣﻮﺳﻤﯿﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﻋﻤﻞ ﮐﻮ ﺩﮬﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﯽ ﮐﺎ ﺗﻨﺎﺳﺐ ﻧﻮﭦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺑﺘﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺑﺎﺭﺵ ﮐﮯ ﮐﯿﺎ ﺍﻣﮑﺎﻧﺎﺕ ﮨﯿﮟ۔ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮔﻮﺍﮦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ غور و فکر ﮐﯿﺎ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﺎ ﺣﺠﻢ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﭘﺮﻧﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﮐﯿﺴﮯ ﭘﺮﻭﺍﺯ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔ چنانچہ جہاز کے سب سے پہلے موجد مسلمان ہی ہیں۔ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﻏﻮﺭﻓﮑﺮ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﯽ ﺍﯾﺠﺎﺩﺍﺕ ﮐﺮسکتے ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻧﺴﻞ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ: "کائنات ﻣﯿﮟ ﻋﻘﻞ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﻧﺸﺎﻧﯿﺎﮞ ﮨﯿﮟ"۔ (صححہ: #S_A_Sagar )

Wednesday 25 May 2022

ختمِ نبوت پر چہل حدیث

ختمِ نبوت پر چہل حدیث 
بقلم: ڈاکٹر محمد سلطان شاہ
صدرشعبہ عربی وعلوم اسلامیہ، جی، سی یونیورسٹی، لاہور

(نوٹ: اس مضمون میں صحاحِ ستہ کی تمام احادیث ”موسوعة الحدیث الشریف الکتب السنة“ مطبوعہ دارالسلام للنشی التوزیع الریاض، ۲۰۰۰ ، سے نقل کی گئی ہیں اور احادیث کے نمبرز اس کے مطابق ہیں).

اللہ تعالیٰ جل مجدہ نے انسانیت کی راہنمائی کے لئے انبیاء ورسل کو مبعوث فرمایا اور اُن پر وحی نازل فرمائی تاکہ وہ الوہی پیغام پر عمل پیرا ہوکر اپنے امتیوں کے سامنے لائق تقلید نمونہ پیش کرسکیں۔ نبوت و رسالت کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ علیہ التحیة والثناء پر اختیام پذیر ہوا۔ خلاّقِ عالمین نے اپنے محبوبِ مکرم صلى الله عليه وسلم کو رحمة للعالمین کے لقب سے سرفراز فرمایا، جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہر عالم کے لیے رحمت کبریا ہیں۔ اس کے علاوہ رب کریم نے حضور سید انام صلى الله عليه وسلم پر دین مبین کی تکمیل فرمادی اور وحی جیسی نعمت کو تمام کردیا اور اسلام جیسے عالمگیر (Universal)، ابدی (Eternal) اور متحرک (Dynamic) دین کو رہتی دُنیا تک کے لئے اپنا پسندیدہ دین قرار دے دیا۔ قرآن مجید میں حضور اکرم، نبی معظم، رسول مکرم صلى الله عليه وسلم کے آخری نبی ہونے کا اعلان اس آیت مبارکہ میں کیاگیا:
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ، وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا. (سورة الاحزاب: ۳۳-۴۰)
محمد صلى الله عليه وسلم تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے، اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ (بریلوی، احمد رضاخان، کنزالایمان فی ترجمة القرآن، لاہور: ضیاء القرآن پبلی کیشنز، ص: ۵۰۹)
یہ نص قطعی ہے ختم نبوت کے اس اعلان خداوندی کے بعد کسی شخص کو قصرِ نبوت میں نقب زنی کی سعی لاحاصل نہیں کرنی چاہئے۔ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مہبطِ وحی صلى الله عليه وسلم کے بہت سے ارشادات کتب احادیث میں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔ یہاں ایسی احادیث پر مبنی اربعین پیش کی جارہی ہے تاکہ منکرین ختم نبوت پر حق واضح ہوسکے اور یہ عمل اس حقیر پرتقصیر کے لئے نجاتِ اُخروی کا باعث ہو، کیونکہ محدثین کرام نے اربعین کی فضیلت میں روایات نقل فرمائی ہیں۔ حافظ ابی نعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی المتوفی ۴۳۰ھ نے حلیة الاولیاء وطبقات الاصفیاء میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضى الله تعالى عنه سے مروی یہ روایت درج کی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
من حفظ علی اُمتی أربعین حدیثا ینفعہم اللّٰہ عز وجل بہا، قیل لہ: أدخل من أی أبواب الجنة شئت.
جس شخص نے میری اُمت کو ایسی چالیس احادیث پہنچائیں جس سے اللہ تعالیٰ عز وجل نے ان کو نفع دیا تو اُس سے کہا جائے گا جس دروازے سے چاہو جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (الاصفہانی، ابی نعیم احمد بن عبداللہ، حلیة الاولیاء وطبقات الاصفیاء، مصر: مکتبہ الخانجی بشارع عبدالعزیز ومطبعة السعادہ بجوار محافظہ، ۱۳۵۱ھ/۱۹۳۲/)۔ ۴:۱۸۹)
۱- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَثَلِیْ وَمَثَلُ الْاَنْبِیَآءِ مِنْ قَبْلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بَیْتًا فَاَحْسَنَہ وَاَجْمَلَہ اِلاَّ مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِیَةٍ فَجَعَلَ النَّاسَ یَطُوْفُوْنَ وَیَعْجَبُوْنَ لَہ وَیَقُوْلُوْنَ، ہَلَّا وُضِعَتْ ہٰذِہِ اللَّبِنَةُ؟ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ، وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ.
میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔ (صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین صلى الله عليه وسلم، حدیث: ۳۵۳۴، ۳۵۳۵)
۲- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
نَحْنُ الْاٰخِرُوْنَ وَنَحْنُ الْأَوَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَنَحْنُ اَوَّلُ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ، یبدأ أَنَّہُمْ أُوْتُوْا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِنَا وَاُوْتِیْنَاہُ مِنْ بَعْدِہِمْ.
ہم سب آخر والے روزِ قیامت سب سے مقدم ہوں گے اور ہم سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ حالانکہ (پہلے والوں) کو کتاب ہم سے پہلے دی گئی اور ہمیں ان سب کے بعد۔ (صحیح مسلم، کتاب الجمعہ، باب ہدایة ہذہ الامة لیوم الجمعة، حدیث: ۱۹۷۸، ۱۹۷۹، ۱۹۸۰، ۱۹۸۱، ۱۹۸۲)
۳- حضرت ابوحازم فرماتے ہیں کہ میں پانچ سال تک حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه کے ساتھ رہا۔ میں نے خود سنا کہ وہ یہ حدیث بیان فرماتے تھے کہ نبی مکرم رسول معظم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔
کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُہُمْ الأَنْبِیَاءُ، کُلَّمَا ہَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہ نَبِیٌّ وَاِنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ، وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ فَیَکْثُرُوْنَ، قَالُوْا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: فُوْا بِبَیْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ، أَعْطُوْہُمْ حَقَّہُمْ، فَاِنَّ اللّٰہَ سَائِلُہُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاہُمْ.
بنی اسرائیل کی سیاست خود ان کے انبیاء کرام کیا کرتے تھے۔ جب کسی نبی کی وفات ہوجاتی تھی تو اللہ تعالیٰ کسی دوسرے نبی کو ان کا خلیفہ بنادیتا تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے عرض کیا، اُن کے متعلق آپ کیا حکم دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہر ایک کے بعد دوسرے کی بیعت پوری کرو اور ان کے حق اطاعت کو پورا کرو، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی رعیت کے متعلق اُن سے سوال کرے گا۔ (صحیح البخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب ذکر عن بنی اسرائیل، حدیث: ۳۴۵۵)
۴- حضرت انس رضى الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم علیہ الصلوٰة والتسلیم نے انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی کو ملاکر اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ کَہَاتَیْنِ.
میں اور قیامت اس طرح ملے ہوئے بھیجے گئے ہیں جس طرح یہ دونوں انگلیاں ملی ہوئی ہیں۔ (صحیح البخاری، کتاب التفسیر، سورة والنازعات، حدیث: ۴۹۳۶، کتاب الطلاق، باب اللعان، حدیث: ۵۳۰۱، کتاب الرقاق، باب قول النبی صلى الله عليه وسلم، بعثت انا والساعة کہاتین، حدیث: ۶۵۰۳، ۶۵۰۴، ۶۵۰۵)
۵- امام مسلم نے تین اسناد سے یہ حدیث بیان کی ہے:
سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم، وَفِیْ حَدِیْثِ عُقَیْلٍ: قَالَ: قُلْتُ لِلزُّہْرِیْ: وَمَا الْعَاقِبُ؟ قَالَ: الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہ نَبِیٌّ.
میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے سنا، عقیل کی روایت میں ہے زہری نے بیان کیا عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اسمائہ صلى الله عليه وسلم، حدیث: ۶۱۰۷)
۶- حضرت جبیر بن مطعم رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسولِ معظم، نبی مکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
اِنَّ لِیْ أَسْمَاءً، اَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَاَنَا الْمَاحِی یَمْعُو اللّٰہُ بِیَ الْکُفْرَ، وَاَنَا الْعَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمَیَّ، وَأَنَا الْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہ اَحَدٌ.
بے شک میرے کئی اسماء ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں اور ماحی ہوں یعنی اللہ تعالیٰ میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر ہوں لوگوں کا حشر میرے قدموں میں ہوگا، اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ شخص ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اسمائہ صلى الله عليه وسلم، حدیث: ۶۱۰۶)
۷- حضرت محمد بن جبیر اپنے والد گرامی حضرت جبیر بن مطعم رضى الله تعالى عنه سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
لِیْ خَمْسَةُ أَسْمَآء اَنَا مُحَمَّدٌ، وَاَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِی الَّذِیْ یَمْحُوا اللّٰہ بِیَ الْکُفْرَ، وَأنَا الْحَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمِیْ، وَأَنَا الْعَاقِبُ.
میرے پانچ نام ہیں۔ میں محمد ہوں، اور میں احمد ہوں اور ماحی ہوں یعنی اللہ تعالیٰ میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا۔ میں حاشر ہوں یعنی لوگ میرے بعد حشر کئے جائیں گے اور میں عاقب ہوں۔ یعنی میرے بعد دُنیا میں کوئی نیا پیغمبر نہیں آئے گا۔ (صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب ما جاء فی اسماء رسول اللہ صلى الله عليه وسلم حدیث: ۳۵۳۲، صحیح البخاری، کتاب التفسیر، باب من بعد اسمہ احمد، حدیث: ۴۸۹۶)
۸- امام مسلم نے ثقہ راویوں کے توسط سے حضرت ابوموسیٰ الاشعری رضى الله تعالى عنه سے یہ روایت نقل کی ہے:
کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم یُسَمِّی لَنَا نَفْسَہ أَسْمَاءَ، فَقَالَ أَنَا مُحَمَّدٌ، وأَحْمَدُ، وَالْمُقَفِّی، وَالْحَاشِرُ، وَنَبِیُّ التَّوْبَةِ، وَنَبِیُّ الرَّحْمَةِ.
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ہمارے لئے اپنے کئی نام بیان کئے، آپ نے فرمایا: میں محمد ہوں اور احمد ہوں اور مقفی اور حاشر ہوں اور نبی التوبة اور نبی الرحمة ہوں۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اسمائہ صلى الله عليه وسلم، حدیث: ۶۱۰۸)
۹- حضرت جبیر بن مطعم رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ الصلوٰة والتسلیم نے فرمایا:
اَنَا مُحَمَّدٌ، وَاَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِی الَّذِیْ یُمْحٰی بِیَ الْکُفْرُ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی عَقِبِیْ، وَأَنَا الْعَاقِبُ، وَالْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہ نَبِیٌّ.
میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں میری وجہ سے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹادے گا، میں حاشر ہوں لوگوں کا میرے قدموں میں حشر کیا جائے گا، اور میں عاقب ہوں، اور عاقب وہ ہوتا ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اسمائہ صلى الله عليه وسلم، حدیث: ۶۱۰۵)
۱۰- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
کَیْفَ أَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَاِمَامَکُمْ مِنْکُمْ.
اس وقت تمہاری کیا شان ہوگی جب حضرت عیسیٰ عليه السلام کا نزول ہوگا اور امام تم میں سے کوئی شخص ہوگا۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان نزول عیسیٰ بن مریم حاکما بشریعة نبینا محمد صلى الله عليه وسلم، حدیث: ۳۹۲)
۱۱- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
لاَتَقُوْمَ السَّاعَةُ حَتّٰی یَقْتَتِلَ فِئَتَانِ فَیَکُوْنَ بَیْنَہُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِیْمَةٌ، دَعْوَاہُمَا وَاحِدَةٌ، وَلاَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی یُبْعَثَ دَجَّالُوْنَ کَذَّابُوْنَ قَرِیْبًا مِنْ ثَلاَثِیْنَ، کُلُّہُمْ یَزعُمُ أَنَّہ رَسُوْلُ اللّٰہ.
قیامت اُس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک دو گروہ آپس میں نہ لڑیں، دونوں میں بڑی جنگ ہوگی اور دونوں کا دعویٰ ایک ہوگا اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تیس کے قریب جھوٹے دجال ظاہر نہ ہولیں۔ ہر ایک یہ کہے گا میں اللہ کا رسول ہوں۔ (صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوة فی الاسلام، حدیث: ۳۵۷۱)
۱۲- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور خیرالانام صلى الله عليه وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
لَمْ یَبْقَ مِنَ النَّبُوَّةَ اِلاَّ الْمُبَشِّرَاتُ قَالُوْا، وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ قَالَ: الرُّوٴْیَا الصَّالِحَةُ.
نبوت میں سے (میری وفات کے بعد) کچھ باقی نہ رہے گا مگر خوش خبریاں رہ جائیں گی۔ لوگوں نے عرض کیا خوشخبریاں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا اچھے خواب۔ (صحیح بخاری، کتاب التعبیر، باب المبشرات، حدیث: ۶۹۹۰)
۱۳- حضرت ابواُمامہ الباہلی رضى الله تعالى عنه سے مروی ایک روایت میں ہے کہ حضور ختمی المرتبت صلى الله عليه وسلم نے ایک خطبہ میں یہ الفاظ ارشاد فرمائے:
أَنَا اٰخِرُ الْأَنْبِیَاءِ، وَأَنْتُمْ اٰخِرُ الأُمَمِ.
میں آخری نبی ہوں اور تم آخری اُمت ہو۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب الفتن، باب فتنہ الدجال وخروج عیسیٰ ابن مریم وخروج یأجوج ومأجوج، حدیث: ۴۰۷۷، المستدرک للحاکم حدیث: ۸۶۲۱)
۱۴- حضرت عرباض بن ساریہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور خیرالانام صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
اِنِّیْ عَبْدُاللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْن.
بیشک میں اللہ کا بندہ ہوں اور انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ (المستدرک للحاکم، تفسیر سورة الاحزاب، حدیث: ۳۵۶۶، جلد:۷، ص: ۴۵۳۔ مسند احمد، حدیث عرباض بن ساریہ، جلد۴، ص: ۱۲۷)
۱۵- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور خاتم الانبیاء علیہ التحیة والثناء نے ارشاد فرمایا:
نَحْنُ الآخِرُوْنَ مِنْ أَہْل الدُّنْیَا، وَالأَوَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، الْمُقْضِیُّ لَہُمْ قَبْلَ الْخَلاَئِقِ.
ہم (امت محمدیہ صلى الله عليه وسلم) اہل دنیا میں سے سب سے آخر میں آئے ہیں اور روزِ قیامت کے وہ اولین ہیں جن کا تمام مخلوقات سے پہلے حساب کتاب ہوگا۔ (صحیح مسلم، کتاب الجمعة، باب ہدایة ہذہ الأمة لیوم الجمعة، حدیث: ۱۹۸۲)
۱۶- حضرت ضحاک بن نوفل رضى الله عنه راوی ہیں کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ وَلاَ اُمَّةَ بَعْدَ اُمَّتِیْ.
میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری اُمت کے بعد کوئی امت نہیں ہوگی۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، عن ضحاک بن رمل الجہنی، حدیث: ۸۱۴۶، ج: ۸، ص: ۳۰۳)
۱۷- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه راوی ہیں کہ حضور ختمی المرتبت صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
کُنْتَ أَوَّلَ النَّبِیِّیْن فِی الْخَلْقِ وَاٰخِرُہُمْ فِیْ البَعْثِ.
میں خلقت کے اعتبار سے انبیاء کرام میں پہلا ہوں اور بعثت کے اعتبار سے آخری ہوں۔ (الفردوس بمأثور الخطاب للدیلمی، حدیث: ۴۸۵۰، ۳:۲۸۲، حدیث: ۷۱۹۰، ۴:۴۱۱)
۱۸- حضرت عبداللہ بن مسعود رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے انہیں درود شریف کے یہ الفاظ سکھائے:
اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ صَلاَتَکَ وَرَحْمَتَکَ وَبَرَکَاتِکَ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ، وَاِمَامَ الْمُتَّقِیْنَ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ، مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ اِمَامَ الْخَیْرِ، (وَقَائِدِ) الْخَیْرِ، وَرَسُوْلِ الرَّحْمَةِ، اَللّٰہُمَّ ابْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُوْدًا یَغْبِطُہ بِہِ الأَوَّلُوْنَ وَالاٰخِرُوْنَ (اسکے بعد پورا درود ابراہیمی ہے)
الٰہی اپنا درود ورحمت اور برکات رسولوں کے سردار، متقیوں کے امام ابو نبیوں کے خاتم محمد پر نازل فرما جو تیرے بندے اور رسول اور امام الخیر اور (قائد) الخیر اور رسول رحمت ہیں۔ الٰہی آپ صلى الله عليه وسلم کو اس مقام محمود پر فائز فرما جس پر اولین وآخرین رشک کرتے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب اقامة الصلوٰة والسنة فیہا، باب ما جاء فی التشہد، حدیث: ۹۰۶)
۱۹- حضرت ابن عباس رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے:
لَمَّا مَاتَ اِبْرَاہِیْمُ ابْنُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم صَلَّی رَسُوْلُ اللّٰہ صلى الله عليه وسلم وَقَالَ: اِنَّ لَہ مُرْضِعًا فِی الْجَنَّةِ وَلَوْ عَاشَ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا.
جب اللہ کے پیغمبر صلى الله عليه وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اس کے لئے جنت میں ایک دودھ پلانے والی (کا انتظام) ہے۔ اگر وہ زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب ما جاء فی الجنائز، باب ما جاء فی الصلاة علی ابن رسول اللہ صلى الله عليه وسلم وذکر وفاتہ، حدیث: ۱۵۱۱)
۲۰- امام ابن ماجہ سے مروی روایت میں حضرت ابراہیم رضى الله تعالى عنه کے بارے میں ہے:
مَاتَ وَہُوَ صَغِیْرٌ وَلَوْ قُضِیَ أَنْ یَکُوْنَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم نَبِیٌّ لَعَاشَ ابْنُہ، وَلٰکِنْ لاَ نَبِیَّ بَعْدَہُ.
ابراہیم رضى الله تعالى عنه کا انتقال ہوا جب وہ چھوٹے تھے۔ اگر فیصلہ (تقدیر) یہ ہوتا کہ حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کے بعد کوئی نبی ہو تو ان کا صاحبزادہ زندہ رہتا۔ لیکن آپ صلى الله عليه وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب ما جاء فی الجنائز، باب ما جاء فی الصلاة علی ابن رسول اللہ صلى الله عليه وسلم وذکر وفاتہ، حدیث: ۱۵۱۰)
۲۱- حضرت ابن عباس رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے:
اَیُّہَا النَّاسُ اِنَّہ لَمْ یَبْقَ مِنْ مُبَشِّرَاتِ النَّبُوَّةِ اِلاَّ الرُّوٴْیَا الصَّالِحَةُ یَرَاہَا الْمُسْلِمُ أَوْ تُرٰی لَہ.
اے لوگو علاماتِ نبوت میں سے صرف رویائے صالحہ (سچا خواب) ہی باقی ہے جو مسلمان خود دیکھتا ہے یا اس کے لئے کوئی دیکھتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب تعبیر الرؤیا، حدیث:۳۸۹۹، صحیح مسلم کتاب الصلوٰة، باب النہی عن قرأة القرآن فی الرکوع والسجود، حدیث: ۱۰۷۴)
۲۲- حضرت سعد بن ابی وقاص رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے:
خَلَّفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم عَلِیَّ بْنَ اَبِیْ طَالِبٍ، فِی غَزْوَةِ تَبُوْکَ، فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! تَخَلَّفْنِیْ فِی النِّسَآءِ وَالصِّبْیَانِ؟ فَقَالَ: اَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہٰرُوْنَ مِنْ مُوْسٰی؟ غَیْرَ أَنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ.
نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے غزوئہ تبوک میں حضرت علی بن ابی طالب رضى الله تعالى عنه کو ساتھ نہیں لیا بلکہ گھر پر چھوڑدیا تو انھوں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑ دیا۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تم میرے ساتھ ایسے ہوجاؤ جیسے ہارون، موسیٰ کے ساتھ لیکن میرے بعد نبوت نہیں۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضى الله تعالى عنه ، حدیث: ۶۲۱۸-۶۲۲۱)
۲۳- ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضى الله تعالى عنها سے روایت ہے کہ حضور خاتم الانبیاء علیہ التحیة والثناء نے ارشاد فرمایا:
قَدْ کَانَ یَکُوْنُ فِی الأُمَمِ قَبْلَکُمْ، مَحَدَّثُوْنَ، فَاِنْ یَکُنْ فِیْ اُمَّتِیْ مِنْہُمْ اَحَدٌ فَاِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ مِنْہُمْ، قَالَ: ابْنُ وَہْبٍ: تَفْسِیْرُ مُحَدَّثُوْنَ، مُلْہَمُوْنَ.
تم سے پہلے پچھلی اُمتوں میں محدث تھے۔ اگر اس امت میں کوئی محدث ہوگا تو وہ عمر بن الخطاب ہیں۔ ابن وہب نے کہا محدث اس شخص کو کہتے ہیں جس پر الہام کیا جاتا ہو۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة۔ باب من فضائل عمر رضى الله تعالى عنه، حدیث: ۶۲۰۴)
۲۴- حضرت عقبہ بن عامر رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
لوْ کَانَ نَبِیٌّ بَعْدِیْ لَکَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ.
اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔ (جامع ترمذی، ابواب المناقب، باب قولہ صلى الله عليه وسلم: ”لو کان نبی بعدی لکان عمر“ حدیث: ۳۸۸۶)
۲۵- حضرت ام کرز الکعبیة رضى الله تعالى عنها سے روایت ہے کہ انھوں نے حضور ختی المرتبت صلى الله عليه وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
ذَہَبَت النَّبُوَّةُ وَبَقِیَتِ الْمُبَشِّرَاتُ.
نبوت ختم ہوگئی، صرف مبشرات باقی رہ گئے۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب تعبیر الرؤیا، حدیث: ۳۸۹۶)
۲۶- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه راوی ہیں کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے:
فَاِنِّیْ آخِرُ الْاَنْبِیَاءِ، وَاِنَّ مَسْجِدِیْ آخِرُ الْمَسَاجِدِ.
بے شک میں آخر الانبیاء ہوں، اور میری مسجد آخرالمساجد ہے۔ (صحیح مسلم،کتاب الحج، باب فضل الصلوٰة بمسجدی مکة والمدینة، حدیث:۳۳۷۶)
۲۷- حضرت نعیم بن مسعود رضى الله تعالى عنه راوی ہیں کہ حضور خاتم النّبیین صلى الله عليه وسلم نے اپنے بعد نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کی اطلاع ان الفاظ میں دی:
لاَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی یَخْرُجَ ثَلاَثُوْنَ کَذَابًا کُلُّہُمْ یَزْعمُ اَنَّہ نَبِیُّ.
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تیس کذاب ظاہر نہ ہوجائیں جن میں سے ہر ایک کا دعویٰ یہ ہو کہ وہ نبی ہے۔ (ابن ابی شیبہ فی مصنفہ، حدیث: ۳۷۵۶۵، ۷/۵۰۳)
۲۸- حضرت ابوذر رضى الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ حضور سیدانام صلى الله عليه وسلم نے اُن سے مخاطب ہوکر کہا:
یٰا أَبَا ذَرٍ أَوَّلُ الْاَنْبِیَاء آدَمُ وَآخِرُہ مُحَمَّدٌ.
اے ابوذر! انبیاءِ کرام میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور سب سے آخری حضرت محمد صلى الله عليه وسلم ہیں۔ (الفردوس بمأثور الخطاب للدیلمی، عن ابوذر، حدیث: ۸۵:۱/۳۹)
۲۹- حضرت مصعب بن سعد اپنے والد حضرت سعد رضى الله تعالى عنه سے روایت کرتے ہیں:
أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم خَرَجَ اِلٰی تَبُوْکَ وَاسْتَخْلَفَ عَلِیًّا فَقَال: أَتُخَلِّفُنِیْ فِی الصِّبْیَانِ وَالنِّسَاءِ؟ قَالَ: أَلاَ تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلاَّ أَنَّہ لَیْسَ نَبِیٌّ بَعْدِیْ.
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم تبوک کی جانب روانہ ہوئے اور حضرت علی رضى الله تعالى عنه کو اپنی جگہ چھوڑا تو انھوں نے عرض کیا: کیا آپ صلى الله عليه وسلم مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جارہے ہیں؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کیا تو اس پر راضی نہیں کہ تجھے مجھ سے وہی مناسبت ہو جو ہارون کو موسیٰ سے تھی۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوئہ تبوک، حدیث: ۴۴۱۶)
۳۰- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور سیدانامصلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
فُضِّلَتْ عَلٰی الأَنْبِیَآءِ بِسِتٍّ اُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمْ ونُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِیَ الْمَغَانِمُ، وَجُعِلَتْ لِیْ الأَرْضُ طَہُوْرًا وَمَسْجِدًا، وَأُرْسِلْتُ اِلی الْخَلْقِ کَافَّةً، وَخُتِمَ بِیَ النَّبیُّوْنَ.
مجھے تمام انبیاء کرام پر چھ باتوں میں فضیلت دی گئی اوّل یہ کہ مجھے جوامع الکلم دئیے گئے اور دوسرے یہ کہ رُعب سے میری مدد کی گئی۔ تیسرے میرے لئے غنیمت کا مال حلال کردیاگیا۔ چوتھے میرے لئے تمام زمین پاک اور نماز پڑھنے کی جگہ بنادی گئی۔ پانچویں میں تمام مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ چھٹے یہ کہ مجھ پر انبیاء کا سلسلہ ختم کردیاگیا۔ (صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب المساجد وموضع الصلاة، حدیث: ۱۱۶۷)
۳۱- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ کَانَتْ تَسُوْسُہُمْ اَنْبِیَائُہُم کُلَّمَا ذَہَبَ نَبِیٌّ خَلْفَہ نَبِیُّ وَّ اِنَّہ لَیْسَ کَائِنًا فِیْکُمْ نَبِیٌّ بَعْدِیْ.
بنی اسرائیل کا نظام حکومت ان کے انبیاء کرام (علیہم الصلوۃ والسلام) چلاتے تھے جب بھی ایک نبی رخصت ہوتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی آجاتا اور بے شک میرے بعد تم میں کوئی نبی نہیں آئے گا۔ (ابوبکر عبداللہ بن محمد ابی شیبہ، امام، المصنف، جلد۱۵، ص: ۵۸۔ کراچی: ادارة القرآن ۱۴۰۶ھ)
۳۲- حضرت سعد رضى الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی رضى الله تعالى عنه سے ارشاد فرمایا:
أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی غَیْرَ اَنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ.
کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون تھے۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضى الله تعالى عنه، حدیث: ۶۲۱۸)
۳۳- حضرت جابر بن سمرہ رضى الله تعالى عنه کی روایت کردہ حدیث میں ہے:
وَرَأَیْتُ الْخَاتَمَ عِنْدَ کَتْفِہ مِثْلَ بَیْضَةِ الْحَمَامَةِ یُشْبِہُ جَسَدَہ.
اور میں نے آپ صلى الله عليه وسلم کے کندھے کے پاس کبوتر کے انڈے کے برابر مہر نبوت دیکھی جس کا رنگ جسم کے رنگ کے مشابہ تھا۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اثبات خاتم النبوة، حدیث: ۶۰۸۴)
۳۴- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں:
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلى الله عليه وسلم بَیْنَا أَنَا نَائِمٌ أُتِیْتُ خَزَآئِنَ الأَرْضِ فَوُضِعَ فِیْ یَدَیَّ اُسْوَارَانِ مِنْ ذَہَبٍ فَکَبُرَ ا عَلَیَّ وَأَہَمَّانِیْ فَأُوْحِیَ اِلَیَّ أَنِ انْفُخْہُمَا فَنَفَخْتُہُمَا فَذَہَبَا فَأَوَّلْتُہُمَا الْکَذَّابِیْن الَّذِیْنَ أَنَا بَیْنَہُمَا صَاحِبَ صَنْعَآءِ وَصَاحِبُ الْیَمَامَةِ.
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا، میرے پاس زمین کے خزانے لائے گئے اور میرے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن رکھے گئے جو مجھے بہت بھاری لگے اور میں ان سے متفکرہوا، پھر مجھے وحی کی گئی کہ میں ان کو پھونک مار کر اُڑادوں۔ میں نے پھونک ماری تو وہ اڑگئے۔ میں نے اس خواب کی یہ تعبیر لی کہ میں دو کذابوں کے درمیان ہوں۔ ایک صاحب صنعاء ہے اور دوسرا صاحب یمامہ۔ (صحیح مسلم، کتاب الروٴیا، حدیث: ۵۹۳۶)
۳۵- حضرت ابن عباس رضى الله تعالى عنه سے مروی ایک حدیث مبارکہ کے آخر میں ہے:
فَأْوَّلْتُہُمَا کَذَّابَیْن یَخْرُجَانِ مِنْ بَعْدِیْ فَکَانَ اَحَدُہُمَا الْعَنْسِیَّ صَاحِبَ صَنْعَآءَ وَالآخَرُ مُسَیْلِمَةَ صَاحِبُ الْیَمَامَةِ.
میں نے اس کی یہ تعبیر لی کہ میرے بعد دو جھوٹے شخصوں کا ظہور ہوگا۔ ایک ان میں سے صنعاء کا رہنے والا عنسی ہے دوسرا یمامہ کا رہنے والا مسیلمہ ہے۔ (صحیح مسلم، کتابالروٴیا، حدیث: ۵۸۱۸- ۲۲۷۴)
۳۶- حضرت وہب بن منبہ حضرت ابن عباس رضى الله تعالى عنه سے ایک طویل حدیث کے ذیل میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن حضرت نوح عليه السلام کی امت کہے گی:
وَأَنّٰی عَلِمْتَ ہٰذَا یَا أَحْمَدُ وَأَنْتَ وَأُمَّتُکَ آخِرُ الأُمَمِ.
اے احمد! آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ حالانکہ آپ صلى الله عليه وسلم اور آپ کی اُمت اُمتوں میں آخری ہیں۔ (المستدرک للحاکم، باب ذکر نوح النبی، حدیث: ۴۰۱۷-۲،۵۹۷)
۳۷- حضرت سعد بن ابی وقاص رضى الله تعالى عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی رضى الله تعالى عنه کے متعلق فرمایا:
أَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلاَّ اَنَّہ لاَ نَبِیْ بَعْدِیْ.
تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسیٰ عليه السلام کیلئے ہارون عليه السلام تھے۔ سنو بلاشبہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
اس روایت کی بابت راوی کے استفسار پر حضرت سعد نے فرمایا: ”میں نے اس حدیث کو خود سُنا ہے۔“ انھوں نے اپنی دونوں انگلیاں کانوں پر رکھیں اور کہا اگر میں نے خود نہ سُنا ہوتو میرے دونوں کان بہرے ہوجائیں۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضى الله تعالى عنه، حدیث: ۶۰۹۵)
۳۸- حضرت علی المرتضیٰ رضى الله تعالى عنه کی روایت کردہ ایک طویل حدیث مبارکہ میں ہے:
بَیْنَ کَتِفَیْہ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ وَہُوَ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ.
حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہے اور آپ صلى الله عليه وسلم آخری بنی ہیں۔ (جامع الترمذی، ابواب المناقب، باب وصف آخر من علی رضى الله تعالى عنه، حدیث: ۳۶۳۸)
۳۹- حضرت عامر اپنے والد حضرت سعد بن ابی وقاص رضى الله تعالى عنه سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی رضى الله تعالى عنه سے فرمایا:
أَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی، اِلاَّ اَنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ.
تم میرے ساتھ ایسے ہو جیسے ہارون موسیٰ کے ساتھ تھے مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علی بن أبی طالب رضى الله تعالى عنه، حدیث: ۶۲۱۷۔ سنن ابن ماجہ، کتاب السنة، باب فی فضائل اصحاب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم، فضل علی بن أبی طالب رضى الله تعالى عنه، حدیث:۱۲۱)
۴۰- علامہ علاء الدین علی المتقی نے ”کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال“ میں حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کا یہ قول رقم کیا ہے:
لا نبی بعدی ولا أمة بعدکم، فاعبدوا ربکم، أقیموا خمسکم وصوموا شہرکم، وأطیعوا ولاة أمرکم، أدخلوا جنة ربکم.
میرے بعد کوئی نبی نہیں اور نہ ہی تمہارے بعد کوئی اُمت، پس تم اپنے رب کی عبادت کرو اور پنج گانہ نماز قائم کرو اور اپنے پورے مہینے کے روزے رکھو اور اپنے اولوالامر کی اطاعت کرو، (پس) اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (علی المتقی الہندی کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال، حدیث: ۴۳۶۳۸، بیروت: موسوعة الرسالة، ۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵/ ج:۱۵، ص: ۹۴۷)
۴۱- علاء الدین علی المتقی نے ”کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال“ میں یہ حدیث نقل کی ہے:
لا نبوة بعدی الا المبشرات، الریا الصالحة. (ایضاً، حدیث ۴۱۴۲۲، ج: ۱۵، چ: ۳۷۰)
۴۲- علامہ علاؤالدین علی المتقی بن حسام الدین الہندی رحمة الله عليه نے ”کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال“ میں حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے:
یا ایہا الناس! انہ لا نبی بعدی ولا امة بعدکم، الا! فاعبدوا ربکم وصلوا خمسکم، وصوموا شہرکم، وصلوا ارحامکم، وادوا زکاة اموالکم طیبة بہا انفسکم، واطیعوا ولاة امرکم، تدخلوا جنة ربکم.
اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں اور نہ ہی تمہارے بعد کوئی اُمت ہے۔ سنو! اپنے رب کی عبادت کرو اور پنجگانہ نماز پڑھو اور اپنے مہینے (رمضان) کے روزے رکھو اور اپنی رشتہ داریاں جوڑو اور اپنے اموال کی زکوٰة خوشدلی سے ادا کرو اور اپنے اولوالامر کی اطاعت کرو، تم جنت میں داخل ہوجاؤگے۔ (علی المتقی الہندی کنزل العمال فی سنن الاقوال والافعال، حدیث: ۴۳۶۳۷، بیروت: موسوعة الرسالة، ۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵/، ج: ۱۵، ص: ۹۴۷)
۴۳- حضرت سعد بن ابی وقاص رضى الله تعالى عنه سے امام احمد بن حنبل نے یہ حدیث مبارکہ نقل کی ہے کہ جب غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی رضى الله تعالى عنه کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تو انھوں نے عرض کیا:
یا رسول اللّٰہ، اتخلفنی فی الخالفة، فی النساء والصبیان؟ فقال: اما ترضی ان تکون منی بمنزلة ہارون من موسیٰ؟ قال: بلی یا رسول اللّٰہ، قال: فادبر علی مسرعا کانی انظر الی غبار قدمیہ یسطع، وقد قال حماد: فرجع علی مسرعا.
یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے پیچھے رہ جانے والوں میں (یعنی) عورتوں اور بچوں میں جانشین بنارہے ہیں؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تو اس بات سے خوش نہیں کہ تجھے مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون عليه السلام  کی موسیٰ عليه السلام سے تھی؟ عرض کیا: یا رسول اللہ! کیوں نہیں؟ اُس (راوی) نے کہا: پس علی رضى الله تعالى عنه تیزی سے مُڑے تو میں نے گویا ان کے قدموں کا غُبار اُڑتے دیکھا اور حماد نے کہا: پس علی تیزی سے مُڑے۔ (المسند للامام احمد بن حنبل، حدیث: ۱۴۹۰، احمد محمد شاکر (شرحہ وضع فہارسہ) مصر: دارالمعارف، ۱۳۷۴ھ/۱۹۵۵/، ج: ۳، ص: ۵۰)
۴۴- امام بیہقی نے السنن الکبریٰ میں، امام طحاوی نے مشکل الآثار میں، علامہ جلال الدین سیوطی نے الدرالمنثور میں، علامہ علی المتقی الہندی نے کنزالعمال میں، امام ہیشمی نے مجمع الزوائد میں حضور ختمی المرتبت صلى الله عليه وسلم کا یہ ارشاد گرامی نقل کیا ہے:
لا نبی بعدی ولا أمة بعدک. میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمت نہیں۔ (زغلول، ابوطاہر محمد السعید بن بسیونی، موسوعة اطراف الحدیث النبوی الشریف، بیروت: دارالفکر، ۱۴۱۴ھ/۱۹۹۴/، ج: ۷، ص: ۲۸) (صححہ: #S_A_Sagar )
https://saagartimes.blogspot.com/2022/05/blog-post_94.html

کیا سونا بھی کوئی فن ہے؟

کیا سونا بھی کوئی فن ہے؟
ایس اے ساگر 
صحت مند انسانی زندگی کے لئے بلاشبہ نیند سب سے عظیم نعمت ہے۔ چناچہ جب نیند انسان سے قریب ہوتی ہے تو اس وقت انسان سب سے لذیذ قسم کا کھانا، پھل، میوے بلکہ سب سے محبوب ترین رشتہ دار ماں باپ، بیوی بچوں سے بھی منہ موڑلیتا ہے اور نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔۔ حتی کہ ماں یا باپ کا جنازہ بھی گھر میں رکھا ہو، تب بھی نیند کے آنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔۔ پتہ چلاکہ نیند خدا کی دی ہوئی بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ اپنی بے اعتدالیوں کے سبب انسان نے اس نعمت کو مصیبت بنا رکھا ہے. غنیمت ہے کہ ڈاکٹر حمزة الحمزاوی Dr. Hamza Al-Hamzawi نے اپنے لیکچر "The Art of Sleeping" یعنی 'سونے کا فن' میں خاطر خواہ روشنی ڈالی ہے:
1: عشاء کے بعد 9 سے 12 بجے رات تک سونا:
ان اوقات کے دوران سونا سب سے زیادہ فائدہ مند ہے.
ایک انسان اپنی نیند کا 80% ان اوقات میں پوری کر سکتا ہے۔ کیونکہ ان اوقات میں نیند کے لیے برکت ہے، سو اس وقت کی نیند۔۔۔۔۔
1گھنٹہ کی نیند=3 گھنٹے کی نیند
اس وقت کے دوران
pineal gland (دماغ کا گلینڈ)
ایک ہارمون پیدا کرتا ہے جس کا  نام 'melatonin ہے۔۔۔
یہ صرف اسی صورت میں پیدا ہوتا ہے اگر
1. سونے کے دوران کمرے میں تاریکی ہو۔
2. اگر نیند نہیں آ رہی تب بھی  انسان سکون سے لیٹ جائے۔
Melatonin)
ہارمون ہمیں سونے میں مدد کرتا ہے ۔۔۔)
2: 12 سے 2 بجے رات کو سونا۔۔
ان اوقات کے دوران سونے سے انسان کی 20% کی گہری نیند پوری ہوجاتی ہے۔۔
اس کے بعد کا سونا ..نیند کے لئے فائدہ مند نہیں ۔۔۔۔ (چونکہ انسان اپنی 100% نیند پوری کرچکا ہوتا ہے)
ان اوقات میں سونا
1 گھنٹہ نیند= 1 گھنٹہ نیند
3: 2 بجے سے 5 بجے تک یعنی فجر سے پہلے کے اوقات:
یہ ایک بہترین وقت ہے کچھ یاد کرنے کے لئے،
اللہ سے لو لگانے کے لئے ذکر اور استغفار کرنے کے لئے اور ذہنی ارتکاز ۔۔۔ مراقبہ کے لئے
4: دن کو سونا  (فجر کے بعد):
یہ بالکل بھی فائدہ مند نہیں
3 گھنٹےکی نیند= 1 گھنٹے کی نیند
(اس وقت سونے میں کوئی برکت نہیں یہ بلکہ یہ سارا دن کاہلی سستی اور توجہ میں کمی کا باعث بنتی ہے)
5: فجر کی نماز سے طلوع آفتاب تک سونا:
ان اوقات میں
Pineal gland
دوسرا ہارمون خارج کرتا ہے جس کا نام ہے 'seretonium'.
یہ ہارمون ان اوقات میں صرف اسی صورت خارج ہوتا ہے۔۔
1۔ انسان جاگ رہا ہو،
2. روشنی کے ساتھ ساتھ ہلکی پھلکی ذہنی ورزش بھی ہو۔
(فجر کی نماز وقت پر ادا کرنا اور اللہ کا ذکر کرنا)۔ یہ وقت ہے ذکر و ازکار کا۔۔۔ اور غور و فکر کرنے اور دن کو ہونے والے کاموں کی منصوبہ بندی اور ترجیحات طے کرنے کا۔۔۔۔
6:  ورزش، اور واک وغیرہ کو طلوع آفتاب کے بعد ہی کرنا چاہیے۔
7: انسانی دماغ میں
Pineal gland سے melatonin ہارمون
کا خارج ہونا.... 40 سال بعد کم ہوتا جاتا ہے۔۔۔ اور 50 سال کی عمر میں یہ اخراج رک جاتا ہے، اس وقت انسان کا جسم اس ہارمون کو ہی استعمال کرتا ہے جو گزشتہ برسوں میں جسم میں محفوظ ہوا تھا، اب اگر کوئی انسان الزائمر اور  شیزوفرینیا جیسے دماغی امراض کاشکار ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ  زندگی بھر  دیر سے سویا کرتا تھا۔۔۔۔۔۔۔!
قَیلولہ، حَیلولہ، عَیلولہ، فَیلولہ، غَیلولہ، لَیلولہ کیا ہے؟
'لُغات واصطِلاحات' کے تحت ڈاکٹر شیخ ولی خان المظفر رقمطراز ہیں؛
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قیلولہ کا لغوی معنی کیا ہے، اس کی مدت کتنی ہے اور قرآن وحدیث میں اس کا ثبوت کیا ہے، کیونکہ اس معاملے کا تعلق بھی ہے؟ 
اس کے جواب یہ ہے کہ (قَیلُولَۃ) عربی زبان سے ثلاثی مجرد کے باب ضرب سے مشتق اسم مصدر نکرہ ہے، عربی سے اردو میں حقیقی معنی و ساخت کے ساتھ داخل ہوا، اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ جمع: قَیلُولے (قَے (ی لین) + لُو + لے)، قائلہ: قیلولہ کرنے کا وقت مَقِیل: قیلولہ کرنا۔ اصطلاح میں؛
نصف النہار کو کھانا کھانے کے بعد قدرے لیٹنا، 
دوپہر کو کھانے کے بعد آرام کرنا، 
دوپہر کا سونا، 
ظہر کی نماز کے بعد یا بعض محققین کے یہاں نمازِ ظہر سے پہلےتھوڑا سا آرام کرنا، 
وقفہ کرنا، 
سکون حاصل کرنے کے لئے استرخاء واستراحت کرنا، 
اس کی کم از کم مدت 5 سے 10 منٹ ہیں، کمی بیشی بھی ممکن ہے، سونا ضروری بھی نہیں، بتکلف اپنے آپ کو سویا ہوا ظاہر کرنا بھی قیلولہ کی ایک قسم ہے۔ اسلام میں قیلولہ مسنون و مستحب عمل ہے، کئی احادیث میں قیلولہ کا تذکرہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی قیلولہ فرماتے تھے۔ مثلاً: صحیح البخاری: 6281 میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سیدنا انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے گھر میں جاکر قیلولہ کا تذکرہ ہے۔ اس کے علاوہ فرمان نبی ﷺ ہے: 
قیلولہ کیا کرو کیونکہ شیاطین قیلولہ نہیں کرتے۔ (سلسلہ صحیحہ للالبانی: 1647)۔ نیز قیلولہ سے یادداشت اچھی ہوتی ہے اور فرد کی کارکردگی میں اچھا خاصااضافہ بھی ہوتا ہے۔ اب جاکر امریکی سائنسدانوں نے پتہ چلایا ہے کہ تین سے پانچ سال کی عمر کے بچوں میں لنچ کے بعد ایک گھنٹے کی نیند ان کی ذہنی قوت کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ محقیقین کے مطابق قیلولہ کرنے والے بچوں نے شکل و حجم کو پرکھنے کے ٹیسٹ میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ تحقیق کے دوران بچوں کے ذہنی معائنے سے پتہ چلا ہے کہ قیلولہ کرنے والے بچوں کے ذہن کے سیکھنے والے حصوں میں زیادہ سرگرمی دیکھنے میں آئی ہے۔ تحقیقاتی ٹیم نے پہلی بار ایسی شہادت پیش کی ہے کہ قیلولہ بچوں کی پڑھائی اور ذہنی قوت کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بچوں کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان میں قیلولہ کی عادت ختم ہوجاتی ہے لیکن کم عمر بچوں میں اس کی ایسی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے کہ بڑے ہوکر بھی وہ قیلولہ کے عادی ہوں۔ برطانیہ کے رائل کالج کے مطابق سائنسدانوں کو گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ معلوم ہے کہ مختصر نیند سے بالغ لوگوں کی ذہنی کارکردگی میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے، لیکن اب تک ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ قیلولہ کم عمر بچوں کی یادداشت کے لئے بھی مفید ہے۔ انھو ں نے کہا کہ یہ تحقیق انتہائی اہم ہے، کیونکہ ابھی تک بچوں کی تربیت کرنے والے اداروں کی دن کو بچوں کی نیند کے بارے میں رائے بٹی ہوئی تھی لیکن اب ہمیں پتہ چلا ہے کہ دن کی نیند بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی رات کی۔چین، جاپان اور اسپین میں بھی کام اور پڑھائی کے دوران قیلولے پر تجربات کے بعد کئی مقامات پر اس کا اہتمام ہونے لگا ہے، ہمارے یہاں دینی مدارس میں قیلولہ باقاعدہ معمولات میں سے ہے، اگلے دن تہجد اور فجر کے لئے اٹھنے میں پچھلے دن کے قیلولے کو بڑی اہمیت حاصل ہے، کمپیوٹر پر کام کرنے والوں کے لئے تو تقریباً صحت کے اصولوں کے مطابق ضروری بتایا گیاہے، اسی سے باب افعال میں إقالہ ہے، جو فسخِ عقد کو کہاجاتاہے۔ 
(حَیلُولَۃ): باب نصر سے اسم مصدر نکرہ ہے، حائل بننا، رکاؤٹ ہونا، طلوعِ آفتاب سے قبل نمازِفجر کے متصلاً بعد سونا، یہ وقت رزق میں برکت کا ہے، اس وقت سونا روزی میں رکاؤٹ اور حائل ہوتا ہے اس لئے اسے حیلولہ کہتے ہیں، حَولٌ:سال، طاقت، استطاعت، قدرت، لاحَول ولا قُوّۃَ اِلاّ باللہ میں حَول اسی معنی میں ہے، البتہ اس پورے کلمے کو مختصراً حَوقَلہ کہاجاتا ہے، جیسے بَسمَلہ وحَمَدَلَہ۔ حَولَ، ج حَوالَی: لگ بھگ، آس پاس، اریب قریب، تقریباً، حَوَل: بھینگا پن۔ حال، ج احوال بھی اسی مادّہ سے ہے۔ تحوّل: موڑ، تبدیلی، انتقال۔ الإِحالہ والتحویل: حوالہ کرنا، پے آرڈر یا:ڈرافٹ بنانا۔ محاوَلہ: کوشش، ٹرائی، تجربہ۔
(عَیلُولَۃ): علت، بیماری، اصطلاح میں عصر کے بعد سونا، جو بوریت، ضیقِ قلب اور دیگر جسمانی امراض کا سبب بنتا ہے۔ عِلَّۃ: بیماری، عیب، سبب، حجت، دلیل، عُذر، سر چشمہ، ج عِلِل، علات۔ الاِعلال والتعلیل: علت نکالنا، بِھلانا، علم صرف ونحو کی ایک مشہور اصطلاح، باب کرُم اور افتعال سے: بیمار ہونا، عَلّۃ: سوکن ،ج عَلّات، اسی سے عَلاتی بھائی کی اصطلاح ہے، یعنی باپ شریک کئی ماؤوں کی اولاد۔ ایک تعریف یہ بھی کی گئی ہے: (العیلولۃنوم قبل طلوع الشمس وقبل العشاء ،ہويورث الفقر وشتات الامر).
(فَيلولة): یہ وہ نیند ہے جو طلوعِ آفتاب کے فوراً بعد ہوتی ہے، اس میں پختہ نیند نہیں ہوتی، جس سے طبیعت ناساز ہوجاتی ہے، چڑچڑاپن اور کمزوری کی باعث ہوتی ہے، تکثیر بلغم کی سبب بھی بنتی ہے، (فَلّ) کُند ہونے کے معنی میں ہے، (وهو نوم بعد طلوع الشمس في صدر النهار، و يحدث الفتور لان حرارة الشمس تدارك البرودة الا انّ البرودة غالبة من جهة عدم اشتداد الحرارة وبرودة النوم، فلا يحصل النضج التام فيحصل الفتور والضعف الناشئان عن عدم نضج البنية وزيادة المادة البلغمية) . 
(غَيلولة): ہلاک ہونا، تباہ ہونا، (غَلّ): خیانت، فراڈ، غروبِ آفتاب کے وقت سونا، یہ نیند مہلک بیماریوں کی باعث بنتی ہے، (وهو النوم في آخر النهار، و هذا النوم يورث الامراض المهلكة في الظاهر والباطن، ووقت انبساط الشيطان وجنوده .وفي مجمع البحرين في الحديث : والغيلولة تورث السقم ، وفُرِّرت بالنوم آخر النهار)، اسی سے اغتیال ہے جس کا معنی ہے: ٹارگٹ کلنگ، جان سے مارنا. 
(لَیلُولَۃٌ): رات کی طرح نیند کا ماحول بنانا، یہ (لیلٌ، ج لَیَال: رات) سے صبح کی نیند کے عادیوں نے ایک اصطلاح بنانے کی کوشش کی ہے۔ بہرحال عربی میں اس وزن کے اور بھی مصادر ہیں، مثلاًٍٍ: کینونۃٌ، صیرورۃ وغیرہ۔
نیند کی 7 قسمیں:
1۔ غفلت کی نیند: مجلس میں بیٹھ کر سونا،
2 ۔ بدبختی کی نیند: اوقات نماز میں سونا،
3۔ لعنت کی نیند: فجر کی نماز واوقاتِ برکت سے محرومی کی،
4۔عقاب کی نیند: فجر کے بعد متصلاً سونا،
5۔راحت کی نیند: قیلولہ والی،
6۔ اجازت کی نیند: عشاء کے بعد،
7۔حسرت وافسوس کی نیند: شبِ جمعہ میں عبادت کئے بغیر سونا۔ (اما نوم الغفلة ففي مجلس الذكر، ونوم الشقاوة في وقت الصلاة، ونوم اللعنة في وقت الصبح ، ونوم العقوبة بعد صلاة الفجر ، ونوم الراحة في وقت القيلولة . ونوم الرخصة بعد صلاة العشاء ، ونوم الحسرة في ليلة الجمعة). 
عمومی طور پر نیند کی یہ مراتب ومراحل ہیں:
النُّعَاس؛ اونگنا،
الوَسَن، اونگھ کا غلبہ ہوجانا،
3۔ التَّرْنِيق، اونگھتے ہوئے نیند میں چلاجانا،
الكَرَى 
الغُمْض، ان دونوں میں بیداری اور نیند کی کشمکش ہوتی ہے،
التَّغْفِيق، ایسا سونا جس میں پاس والے کی گفتگو بھی سنی جاسکتی ہے،
الإغْفَاءوالغفوۃ، ہلکی نیند،
التَّهْوِيم والغِرَاروالتَّهْجَاع، تھوڑی دیر کی نیند،
الرُّقَاد، دیر تک کے لئے نیند،
10۔ الهُجُودوالهُجُوع والهُبُوع، گہری نیند،
11۔ التَّسْبِيخ، بہت شدت سے آئی ہوئی نیند۔ (قرآن کریم میں درج ذیل مقامات نیند کی مختلف اقسام کاتذکرہ ہے: البقرہ:255۔ آل عمران:154۔الأنفال: 11۔الفرقان: 47۔النبإ: 9۔الكهف: 18۔یس: 52۔الأنفال: 43۔الروم: 23۔ الصافات: 102۔ الزمر: 42۔)
کس طر ح سونا چاہئے؟
حضرت براء بن عاذب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جب بستر پر آتے تو داہنی کروٹ پر سوتے تھے (بخاری شریف و ترمذی)۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم عام طور پر دائیں کروٹ پر آرام فرماتے تھے اور دایاں ہاتھ داہنے رخسار کے نیچے ہوتا۔ یہ تھا طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سونے کا اور اسی کی ترغیب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دی تھی۔ آئیے اب جانتے ہیں کہ اس انداز سے سونے کی سائنسی اہمیت کیا ہے؟
نیند کا قلب پر اثر:
دائیں کروٹ پر سونے سے قلب (دل) پر زیادہ زور نہیں پڑتا، کیونکہ دوران خون کے عمل کے وقت، قلب کے بائیں طرف کا حصہ دائیں کروٹ ہونےکی حالت میں، بائیں طرف اوپر ہوتا ہے، اسے خون کو پمپ کرنے میں زور نہیں لگانا پڑتا جس سے قلب پر کم دباؤ پڑتا ہےا ور خون قلب سے نکل کر جسم میں آسانی سے گردش کرتا ہے۔
معدہ پر اثر:
ہم جب کھانا کھاتے ہیں تو وہ غذا، منہ سے کھانے کی نالی (Esophagus) سے معدہ (Stomach) میں آجاتی ہے ۔معدہ سے لگ کر ایک آنت کا حصہ (Duodenum) اور ساتھ میں پتہ (Gallbladder)، جگر سے ملتا ہے۔ دائیں طرف یہ اعضاء ہونے کی وجہ سے ہم داہنی کروٹ لیٹتے ہیں تو معدہ کے اندر کی غذا آسانی سے آنت میں آجائے گی۔اس کے بعد نظام ہضم کے عمل میں جگر، پتہ اور دوسری آنتیں حصہ لے گی، یہ تمام کام دائیں جانب کروٹ لینے کی وجہ سے آسانی سے سرانجام پاتا ہے۔ غرض کہ دائیں کروٹ پر لیٹنے سے نہ تو نظام ہضم پر زور پڑتا ہے اور نہ ہی قلب پر دباؤ پڑتا ہے۔ یہ دونوں عمل ٹھیک ہونے کی وجہ سے پھیپھڑے بھی صحیح طریقے سے عمل تنفس کا کام سرانجام دیں گے اورا س کے ساتھ ہی ساتھ انسانی جسم کے باقی اعضاء بھی صحیح کام کریں گے۔
کس طرح لیٹنا نہیں چاہئے:
آئیے اب دیکھتے ہیں کہ ہمیں کس طرح لیٹنا نہیں چاہئے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو پیٹ کے بل لیٹتے دیکھا تو فرمایا: 
”اس طرح لیٹنا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے“۔(ترمذی)۔ 
میڈیکل سائنس ہمیں یہ معلومات فراہم کرتی ہے کہ منہ کے بل اوندھے لیٹنے سے دل وگردہ پر برا اثر پڑتا ہے۔ نیز نظام ہضم پر بھی دباؤ پڑتا ہے۔
قیلولہ کی سائنسی اہمیت:
سائب بن یزید کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ جب دوپہر کو ہمارے پاس سے گزرتے تو فرماتے، “جاؤ قیلولہ کرو”۔ (شعیب الایمان 182، جلد 5)۔ اسی طرح حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ قیلولہ کرو کیونکہ شیطان قیلولہ نہیں کرتا (طبرانی، ابو نعیم، دیلمی)۔ ایک اور حدیث کے راوی حضرت سہل ابن سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ جمعہ کے دن جمعہ کے بعد کھانا کھاتے اور قیلولہ کرتے۔ (بخاری، ترمذی)
پروفیسر جم ہارن، ڈائریکٹر سلیپ ریسرچ لیبارٹری انگلینڈ کا کہنا ہے کہ
Our Body Rhythms Takes a Dip Between 2pm to 4pm .Hence Most
People Feel Sleepy
یعنی؛ ”دوپہر 2 سے 4 بجے تک انسانی جسم میں اتار چڑھاؤ (تغیریات) کا گہرا عمل ہوتا ہے، اس لئے زیادہ تر لوگوں پراس وقت نیند کا غلبہ ہوتا ہے ۔” چناچہ پروفیسر جم ہارن تجویز کرتے ہیں کہ اگردوپہر 20 منٹ تک سویا جا ئے تو کام کرنے کی قوت بڑھ جائے گی اور جسم میں چستی اور راحت محسوس ہوگی ۔
مندرجہ بالا رپورٹ سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ 1400 سال قبل جو طریقہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے ہمیں بتایا وہ کتنا جدید سائنسی عمل ہے، جسے آج ماہرین فن سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر سونے کے وقت کا صحیح تعین کیا جائے اور صحیح طریقہ اپنایا جائے جو سنت رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے مطابق ہوتو یہ انسانی جسم کے لئے فائدہ کا سبب بنے گا۔
حضرت باقر رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے یہاں حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا بستر کیسا تھا؟ 
انھوں نے کہا کہ،
چمڑہ کا تھا، جس کے اندر کھجور کے درخت کی چھال بھری ہوئی تھی (شمائل ترمذی)، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے گھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر ٹاٹ کا تھا جس کو دوہرا کرکے نیچے بچھا دیا کرتے تھے۔
.....
ً. ‏​‏​أنواع النووووم
معلومه صدمتني!!
سبع انواع للنوم
1. نوم الغافلين :
هم ينامون في مجلس فيه ذكر الله
عز وجل وذكر رسوله الكريم.
2. نوم الاشقياء :
هم ينامون وقت الصلاة.
3. نوم الملعونين :
هم ينامون عند صلاة الصبح ، احدى الروايات " من فاتته ليالي الصبح 3 أيام حشر مع المنافقين"
4. نوم المعذبين :
هم ينامون بين الطلوعين يعني أذان الصبح وطلوع الشمس ، والمقصود ان الشخص سيعذب العذاب الفعلي لأن في هذا الوقت تتوزع الأرزاق والبركة يوميا على البشر وهو وقت استجابة الدعاء.
5. نوم الراحة :
الذي يريح الانسان وأي رؤيا يراها تكون حتما صادقة.
6. النوم المرخوص :
النوم بعد العشائين ،، أي لا بأس به.
7. نوم الحسرة :
النوم ليلة الجمعه ، ففي احيائها الخير الكثير لأنها الليلة التي ينظر بها الله الى عبده.
‏​‏​‏​‏​‏​‏​‏​‏​‏​‏​‏​‏؟! لماذا نمسح الرسائل التي تتحدث عن الأمور الدينية!ونقوم بإعادة إرسال (الرسائل العادية)؟ یقول صلى الله عليه وآله وسلم ”بلغوا عني ولو آية“ وقد تكون بإرسالك هذه الرسالة لغيرك قد بلغت آية تقف لك شفيعةً يوم القيامة .
خمسة معلومات:
1- هل تعلم:
عندما ينتهي الأذان لا تحرم نفسك من دعوه مستجابه بعد ترديدك الأذان وقول الدعاء المأثور، انشر فغيرك لا يعلم ، اللهم قد بلغت اللهم فاشهد . .
.....
2- هل تعلم :
اين توضع ذنوبك و أنت في صلاتك ؟
قال رسول الله صلى الله عليه وعلى اله ( ان العبد اذا قام يصلي اتى بذنوبه كلها فوضعت على راسه وعاتقيه فكلما ركع او سجد تساقطت عنه )
يامن تتعجل في الركوع والسجود أطل سجودك و ركوعك بقدر ماتستطيع لتتساقط عنك الذنوب فلاتفوت هذا الاجر " من گتم علما لجمہ اللہ بلجام من نار يوم القيآمه " . .
........
3- هل تعلم :
ماتت امرأه صالحه فكانوا كلما زاروا قبرها وجدوا رائحة تراب القبر (ورداً) فقال زوجها إنها كانت لاتترك قراءة سورة الملك قبل نومها . فهنيئا لمن جعل قراءتها عادة له فإحرص عليها لأنها تنجي من عذآب القبر" آخبر بها من تحب " ولأني أحبك آخبرتك . . 
.........
4- هل تعلم :
عند قرآءة آية الكرسي بعد كل صلآة يصبح بينك وبين الجنه الموت فقط !
...........
5- هل ..تعلم:
عند الانتهاء من الصلاة لا تستعجل وأبقى جالسا مدة لأن الملائكة تدعي لك عند ربك ،
..أما أنا ...فأرسلتها لمن أحببت  في الله وحده
_ لا تكتم علماً خيراً تجزى به
في 20 ثانيه
https://saagartimes.blogspot.com/2022/05/blog-post_73.html



غیبت،عیب جوئی، طعنہ زنی اور حق تلفی کے کیا احکام ہیں؟

غیبت،
عیب جوئی، طعنہ زنی 
اور حق تلفی کے کیا احکام ہیں؟

بقلم: ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

غیبت، عیب جوئی، طعنہ زنی اور حق تلفی: یہ سب جہنم میں لے جانے والے گناہ ہیں جن سے ہمیں ہر حال میں بچنا چاہئے۔ سورۃ الھمزۃ، 
ترجمہ: ’’بڑی خرابی ہے اُس شخص کی جو پیٹھ پیچھے دوسروں پر عیب لگانے والا، (اور) منہ پر طعنے دینے کا عادی ہو، جس نے مال اکٹھا کیا ہو اور اُسے گنتا رہتا ہو۔ وہ سمجھتا ہے کہ اُس کا مال اُسے ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ ہرگز نہیں! اُس کو تو ایسی جگہ میں پھینکا جائے گا جو ریزہ ریزہ کرنے والی ہے، اور تمہیں کیا معلوم وہ ریزہ ریزہ کرنے والی چیز کیا ہے؟ اللہ کی سلگائی ہوئی آگ، جو دلوں تک جا چڑھے گی۔ یقین جانو وہ اُن پر بند کردی جائے گی، جب کہ وہ (آگ کے) لمبے چوڑے ستونوں میں (گھرے ہوئے) ہوں گے۔‘‘
وَیْل کے معنی بربادی، بڑی خرابی اور عذاب کے ہیں، نیز جہنم کی ایک وادی کا نام بھی وَیل ہے، یعنی جو حضرات تین گناہوں (غیبت، طعنہ دینا اور ناحق مال جمع کرنا) میں مبتلا ہیں انہیں جہنم کی ویل نامی وادی میں ڈالا جائے گا۔
سورۃ الماعون میں مذکور ہے کہ نمازوں میں کوتاہی کرنے والوں کو بھی جہنم کی اسی وادی میں ڈالا جائے گا۔ ھمَزۃ اور لُمَزَۃ، مبالغے کے صیغے ہیں۔ ھمْزٌ کے معنی اشارہ بازی کرنے کے اور لَمْز کے معنی عیب لگانے یا طعنہ دینے کے ہیں۔ کسی شخص کا مذاق اڑانا، کسی کا عیب نکالنا، کسی کی پیٹھ پیچھے برائی کرنا یعنی غیبت کرنا، اسی طرح کسی کو طعنہ دینا اور کسی کو ذلیل کرنا اور برا بھلا کہنا، یہ ساری شکلیں اس آیت کے مفہوم میں داخل ہیں اور یہ سب گناہ کبیرہ ہیں، جن سے بچنا ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔ ان گناہوں میں مبتلا ہونے والے اشخاص کو جہنم میں سخت عذاب دیا جائے گا، اگر موت سے قبل حقیقی توبہ نہیں کی۔ غرض یہ کہ اللہ کے بندوں میں بدترین لوگ وہ ہیں جو چغل خور ہیں اور دوستوں و رشتے داروں کے درمیان جھگڑا کراتے ہیں، شریفوں کی پگڑیاں اچھالتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کے عیب تلاش کرتے رہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سورۃ الحجرات میں ارشاد فرماتا ہے: نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ جن کا مذاق اڑا رہے ہیں، خود اُن سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ جن کا مذاق اڑا رہی ہیں، خود اُن سے بہتر ہوں۔ اور تم ایک دوسرے کو طعنے نہ دیا کرو، اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو۔ ایمان لانے کے بعد گناہ کرنا بہت بری بات ہے۔ اور جو لوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں تو وہ ظالم لوگ ہیں۔
اس آیت میں ہمیں غیبت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے ارشاد نبویؐ کی روشنی میں سمجھیں کہ غیبت کسے کہتے ہیں۔۔۔ ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا: ’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ غیبت کیا ہے؟ صحابۂ کرامؓ نے جواب دیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اپنے بھائی کی اس بات کا ذکر کرنا، جسے وہ ناپسند کرتا ہو۔ کہا گیا اگر وہ باتیں اس میں موجود ہوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ بات اس کے اندر ہو تو، تم نے غیبت کی اور اگر نہ ہو تو وہ بہتان ہوگا۔‘‘ (مسلم)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ غیبت کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کے سامنے کسی کی برائیوں اور کوتاہیوں کا ذکر کیا جائے، جسے وہ برا سمجھے اور اگر اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں جو اس کے اندر موجود ہی نہیں ہیں تو وہ بہتان ہے۔ کسی مسلمان بھائی کی کسی کے سامنے برائی بیان کرنا یعنی غیبت کرنا، ایسا ہی ہے جیسے اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانا۔ بھلا کون ایسا ہوگا جو اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے غیبت سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اس سے نفرت دلائی ہے۔
ارشاد باری ہے: ’’تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے، تم کو اس سے گھن آئے گی۔‘‘
(سورۃ الحجرات)
معراج کے سفر کے دوران حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت و دوزخ کے مشاہدے کے ساتھ مختلف گناہ گاروں کے احوال بھی دکھائے گئے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس رات مجھے معراج کرائی گئی، میں ایسے لوگوں پر گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے، جس سے وہ اپنے ہی چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے۔ میں نے جبرئیلؑ سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں ( ان کی غیبت کرتے ہیں) اور ان کی بے آبروئی کرنے میں پڑے رہتے ہیں۔‘‘ (ابوداود)
جو ناجائز طریقے سے مال حاصل کرکے گن گن کر رکھتا ہو۔ دیگر آیاتِ قرآنیہ و احادیث نبویؐ سے معلوم ہوتا ہے کہ مطلقاً مال کا جمع کرنا، گناہ نہیں ہے، بل کہ مال اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے، جس کے ذریعے انسان اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن شریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ صرف جائز و حلال طریقے سے ہی مال کمائے کیوں کہ کل قیامت کے دن ہر شخص کو مال کے متعلق اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہوگا کہ کہاں سے کمایا یعنی وسائل کیا تھے اور کہاں خرچ کیا یعنی مال سے متعلق حقوق العباد یا حقوق اللہ میں کوئی کوتاہی تو نہیں کی۔ غرض یہ کہ حصول ِ مال کے لیے کوشش اور جستجو کرنا، نیز مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مال جمع کرنا مذموم نہیں ہے اگر مال کو جائز وسائل سے حاصل کیا جارہا ہے اور حقوق کی ادائی مکمل کی جارہی ہے۔
مال کی محبت میں وہ اس طرح منہمک ہوگیا کہ وہ آخرت کو بھول گیا، اور اس کے اعمال سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ میں ہمیشہ زندہ رہوں گا، حالاں کہ ہر چیز فنا ہونے والی ہے، سوائے اللہ کی ذات کے۔ حکومت اللہ ہی کی ہے، اور اُسی کی طرف ہم سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ انسان جہاں بھی ہوگا، ایک نہ ایک دن، موت اسے جاپکڑے گی، چاہے وہ مضبوط قلعوں میں ہی کیوں نہ رہ رہا ہو۔
ہر شخص کا مرنا یقینی ہے لیکن موت کا وقت اور جگہ سوائے اللہ کی ذات کے کسی بشر کو معلوم نہیں۔ چناں چہ بعض بچپن میں، تو بعض عنفوان شباب میں اور بعض ادھیڑ عمر میں، جب کہ باقی بڑھاپے میں داعی اجل کو لبیک کہہ جاتے ہیں۔ بعض صحت مند تن درست نوجوان سواری پر سوار ہوتے ہیں لیکن انہیں نہیں معلوم کہ وہ موت کی سواری پر سوار ہوچکے ہیں۔ لہذا ہمیں توبہ کرکے نیک اعمال کی طرف سبقت کرنی چاہیے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پانچ امور سے قبل پانچ امور سے فائدہ اٹھایا جائے۔ بڑھاپا آنے سے قبل جوانی سے۔ مرنے سے قبل زندگی سے۔ کام آنے سے قبل خالی وقت سے۔ غربت آنے سے قبل مال سے۔ بیماری سے قبل صحت سے۔
جہنم کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ (سورۃ التحریم )
اسی طرح فرمان الٰہی ہے: نہ تو اُن کا کام تمام کیا جائے گا کہ وہ مر ہی جائیں، اور نہ اُن سے جہنم کا عذاب ہلکا کیا جائے گا۔ (سورۃ فاطر) یعنی جہنم میں نہ موت آئے گی اور نہ ہی عذاب کم کیا جائے گا۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں مذکور ہے کہ جہنمیوں کی غذا کھولتا ہوا پانی، کانٹوں اور گلے میں اٹکنے والا کھانا، زخموں کے دھوون اور پیپ، پگھلا ہوا تانبا وغیرہ ہیں، یعنی انتہائی تکلیف دہ چیزیں ہی جہنمیوں کو کھانے اور پینے کے لیے دی جائیں گی۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: جب ایک دفعہ اُن کی کھال جل چکی ہوگی تو ہم اُس کی جگہ دوسری نئی کھال پیدا کردیں گے تاکہ عذاب چکھتے ہی رہیں۔ (سورۃ النساء) اسی طرح فرمان الٰہی ہے: دوزخیوں کو مارنے کے لیے لوہے کے گُرز (ایک قسم کا ہتھیار) ہیں، وہ لوگ جب بھی جہنم کی گھٹن سے نکلنا چاہیں گے پھر اُسی میں دھکیل دیے جائیں گے اور اُن سے کہا جائے گا کہ جلنے کا عذاب چکھتے رہو۔ (سورۃ الحج)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جہنم کو ایک ہزار سال تک دھونکا گیا تو اُس کی آگ سرخ ہوگئی۔ پھر ایک ہزار سال تک دھونکا گیا تو اُس کی آگ سفید ہوگئی۔ پھر ایک ہزار سال تک دھونکا گیا تو اُس کی آگ سیاہ ہوگئی۔ چناں چہ جہنم اب سیاہ اندھیری والی ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جہنمیوں میں سب سے ہلکا عذاب اُس شخص پر ہوگا جس کی دونوں جوتیاں اور تسمے آگ کے ہوں گے، جن کی وجہ سے ہانڈی کی طرح اُس کا دماغ کھولتا ہوگا۔ وہ سمجھے گا کہ مجھے ہی سب سے زیادہ عذاب ہورہا ہے، حالاں کہ اُس کو سب سے کم عذاب ہوگا۔ (بخاری و مسلم)
جہنم ایسا موضوع ہے کہ اس پر سینکڑوں کتب تحریر کی گئی ہیں۔ انتہائی تکلیفوں کی جگہ جہنم سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم اپنی دنیاوی زندگی اللہ کے احکام اور نبی اکرمؐ کے طریقے کے مطابق گزارنے کی کوشش کریں۔ اِن مذکورہ گناہوں کے مرتکبین کو ایسی آگ میں ڈالا جائے گا جو دلوں تک جا چڑھے گی۔ ویسے تو آگ کی خاصیت یہی ہے کہ وہ انسان کے اعضاء کو جلا دیتی ہے، لیکن اس آگ کا خاص مزاج یہ ہوگا کہ وہ پہلے اُن دلوں کو پکڑے گی جو مال کی محبت میں آخرت کو بھول گئے تھے۔ خالق کائنات نے جہنم میں ایک ایسی خاص آگ بنائی ہے جس کا سب سے پہلا حملہ اُن دلوں پر ہوگا جن میں لوگوں کے لیے بغض و عناد اور مال کی ایسی محبت جگہ کرگئی تھی کہ وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اتباع سے مانع بنی۔ بعض مفسرین نے اس آیت کی تفسیر اس طرح بیان فرمائی ہے کہ دنیا کی آگ جب انسان کے بدن کو لگتی ہے تو دل تک پہنچے سے قبل ہی انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے، لیکن آخرت میں موت تو آتی نہیں تو وہ دل تک پہنچے گی۔ لمبے لمبے ستونوں کا مطلب یہ ہے کہ آگ کے اتنے بڑے بڑے شعلے ہوں گے جیسے ستون ہوتے ہیں اور دوزخی اس میں بند ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے لیے جہنم سے نجات کا فیصلہ فرمائے۔ (صححہ: #S_A_Sagar )
https://saagartimes.blogspot.com/2022/05/blog-post_25.html

Wednesday 18 May 2022

مختلف عمر کے مختلف فضائل

مختلف عمر کے مختلف فضائل
سوال: کیا یہ حدیث صحیح ہے مسند احمد اور مسند ابو یعلیٰ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بچہ جب تک بالغ نہیں ہوتا اس کے نیک عمل اس کے والد یا والدین کے حساب میں لکھے جاتے ہیں اور جو کوئی برا عمل کرے تو وہ نہ اس کے حساب میں لکھا جاتا ہے نہ والدین کے۔ پھر جب وہ بالغ ہو جاتا ہے تو قلم اس کےلئے جاری ہو جاتا ہے اور دو فرشتے جو اس کے ساتھ رہنے والے ہیں ان کو حکم دے دیا جاتا ہے کہ اس کی حفاظت کریں اور قوت بہم پہنچائیں ۔جب حالتِ اسلام میں چالیس سال کی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو (تین قسم کی بیماریوں ”جنون‘ جذام اور برص“ سے محفوظ کردیتے ہیں۔ جب پچاس سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا حساب ہلکا کردیتے ہیں‘ جب ساٹھ سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی طرف رجوع کی توفیق دے دیتے ہیں۔ جب ستر سال کو پہنچتا ہے تو سب آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اسی 80 سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی حسنات کو لکھتے ہیں اور سیئات کو معاف فرما دیتے ہیں۔ پھر جب نوے سال کی عمر ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سب اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیتے ہیں اور اس کو اپنے گھر والوں کے معاملے میں شفاعت کرنے کا حق دیتے ہیں اور اس کی شفاعت قبول فرماتے ہیں اور اس کا لقب امین اللہ اور اسیر اللہ فی الارض (یعنی زمین میں اللہ کا قیدی) ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس عمر میں پہنچ کر عموماً انسان کی قوت ختم ہو جاتی ہے‘ کسی چیز میں لذت نہیں رہتی‘ قیدی کی طرح عمر گذارتاہے اور جب ارذل عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اس کے تمام وہ نیک عمل نامہ اعمال میں برابر لکھے جاتے ہیں جو اپنی صحت و قوت کے زمانے میں کیا کرتا تھا اور اگر اس سے کوئی گناہ ہو جاتا ہے تو وہ لکھا نہیں جاتا۔
جواب: مذکورہ حدیث کو مسند ابی یعلی میں ذکر کیا گیا ہے، حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں:
"حدثنا منصور بن أبي مزاحم حدثني خالد الزيات حدثني داوود بن سليمان عن عبد الله بن عبد الرحمن بن معمر بن حزم الأنصاري : عن أنس بن مالك رضي الله عنه -رفع الحديث- قال: (المولود حتي يبلغ الحنث ما عمل من حسنة كتبت لوالده أو لوالديه، وما عمل من سيئة لم تكتب عليه ولا على والديه، فإذا بلغ الحنث جرى عليه القلم أمر الملكان اللذان معه أن يحفظا وأن يشددا فإذا بلغ أربعين سنة في الإسلام أمنه الله من البلايا الثلاثة: الجنون والجذام والبرص فإذا بلغ الخمسين خفف الله من حسابه فإذا بلغ الستين رزقه الله الإنابة إليه بما يحب فإذا بلغ السبعين أحبه أهل السماء فإذا بلغ الثمانين كتب الله حسناته وتجاوز عن سيئاته رضي الله عنه فإذا بلغ التسعين غفر الله له ما تقدم من ذنبه وما تأخر وشفعه في أهل بيته وكان أسير الله في أرضه فإذا بلغ أرذل العمر لكي لا يعلم بعد علم شيئا كتب الله له له مثل ما كان يعمل في صحته من الخير فإذا عمل سيئة لم تكتب عليه)
محشی نے اس حدیث پر صحت کا حکم لگایا ہے۔ (مسند ابی یعلی، مسند عبداللہ بن عبدالرحمن عن انس بن مالک :۶/۳۵۱، ط: دارالمامون للتراث)
لیکن علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے مسند ابی یعلی کی سندیں نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ اسی طرح کی روایتیں مسند احمد میں اختصار کے ساتھ مذکور ہیں، اور  حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایات بھی ذکر کی ہیں، اس کے بعد فرمایا کہ ابو یعلی کی روایت میں بعض ضعیف جدًّا (بہت زیادہ ضعیف) راوی پائے جاتے ہیں، اور بعض ایسے راوی جو مجہول ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
"وروى بعده بسنده إلى عبد الله بن عمر بن الخطاب عن النبي صلى الله عليه و سلم قال مثله، ورجال إسناد ابن عمر وثقوا على ضعف في بعضهم كثير، وفي أحد أسانيد أبي يعلى ياسين الزيات، وفي الآخر يوسف بن أبي ذرة، وهما ضعيفان جدًّا. وفي الآخر أبو عبيدة بن الفضيل بن عياض وهو لين، وبقية رجال هذه الطريق ثقات، وفي إسناد أنس الموقوف من لم أعرفه". (مجمع الزوائد ، باب فیمن طال عمره من المسلمین :۱۰/۳۴۰، ط:دارالفکر بیروت)
اور بچے کے بارے میں اضافہ چوں کہ صرف مسند ابی یعلی کی روایات ہی میں ہے اور اس کے رجال شدید ضعیف ہیں، اس لیے ان روایات میں دیگر جو فضائل ہیں وہ تو قابلِ قبول ہیں، لیکن مسند ابی یعلی والی روایت قابل قبول نہیں ہوگی.
فقط  واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144105200112
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن (صححہ: #S_A_Sagar )
------
نوے برس کی عمر تک پہنچنے والے کے لیے ایک فضیلت کی تحقیق
سوال: اس بات کی کیا دلیل ہے کہ جو شخص نوے برس کی عمر میں مرے تو وہ شہید  ہے؟
جواب: تلاش بسیار کے باوجود سوال میں مذکور بات کی کوئی دلیل ہمیں نہیں ملی، البتہ اس کے قریب قریب  حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ملتی ہے، جس میں نوے برس کی عمر تک پہنچنے پر اگلے پچھلے گناہوں کی معافی کا  ذکر ہے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا مِنْ مُعَمَّرٍ يُعَمَّرُ فِي الْإِسْلَامِ أَرْبَعِينَ سَنَةً، إِلَّا صَرَفَ اللَّهُ عَنْهُ ثَلَاثَةَ أَنْوَاعٍ مِنَ الْبَلَاءِ : الْجُنُونَ، وَالْجُذَامَ، وَالْبَرَصَ، فَإِذَا بَلَغَ خَمْسِينَ سَنَةً لَيَّنَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْحِسَابَ، فَإِذَا بَلَغَ سِتِّينَ رَزَقَهُ اللَّهُ الْإِنَابَةَ إِلَيْهِ بِمَا يُحِبُّ، فَإِذَا بَلَغَ سَبْعِينَ سَنَةً أَحَبَّهُ اللَّهُ، وَأَحَبَّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، فَإِذَا بَلَغَ الثَّمَانِينَ قَبِلَ اللَّهُ حَسَنَاتِهِ، وَتَجَاوَزَ عَنْ سَيِّئَاتِهِ، فَإِذَا بَلَغَ تِسْعِينَ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، وَسُمِّيَ أَسِيرَ اللَّهِ فِي أَرْضِهِ، وَشَفَعَ لِأَهْلِ بَيْتِهِ." (مسند أحمد،  مُسْنَدُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، رقم الحديث: ١٣٢٧٩) 
لیکن علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے "الموضوعات"  میں لکھا ہے:
"هذا الحديث لايصح عن النبي صلى الله عليه وسلم. اهـ"
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کے علاوہ دیگر محدثین مثلًا  قاضی شوکانی رحمہ اللہ نے بھی اسے موضوعات میں شمار کیا ہے۔
فقط واللہ اعلم 
فتوی نمبر : 144204200571
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن (صححہ: #S_A_Sagar )
https://saagartimes.blogspot.com/2022/05/blog-post_53.html

اپنی کم مائیگی پر غم نا کریں ہوسکتا ہے آپکو رزق کے بدلے کچھ اور دیدیا گیا ہو

اپنی کم مائیگی پر غم نا کریں ہوسکتا ہے آپکو رزق کے بدلے کچھ اور دیدیا گیا ہو.
ایک بڑے محدث فقیہ اور امام وقت فرماتے ہیں کہ
 ○ ليس شرطا أن يكون الرزق مالا 
 قد يكون الرزق خلقا أو جمالا
رزق کے لئے مال کا ہونا شرط نہیں
یہ بھی تو ہوسکتا ہے کسی کو رزق کی صورت اچھا اخلاق یا پھر حسن و جمال دے دیا گیا ہو
○ قد يكون الرزق عقلا راجحا
 زاده الحلم جمالا وكمالاً
یہ بھی تو ہوسکتا ہے کسی کو رزق کی صورت میں عقل و دانش دے دی گئی ہو اور وہ فہم اس کو نرم مزاجی 
اور تحمل و حلیمی عطا  دے 
○ قد يكون الرزق زوجا صالحا
 أو قرابات كراما وعيالا
یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ کسی کو رزق کی صورت میں بہترین شخصیت کا حامل شوہر یا بہترین خصائل و اخلاق والی بیوی مل جائے.  
مہربان کریم دوست اچھے رشتہ دار یا نیک و صحت مند اولاد مل جائے.
○ قد يكون الرزق علما نافعا 
 قد يكون الرزق أعمارا طوالا
یہ بھی تو ہوسکتا ہے کسی کو رزق کی صورت علم نافع دے دیا گیا ہو اور  یہ بھی ہو سکتا ہے  کہ اُسے رزق کی صورت لمبی عمر دے دی گئی ہو.
○ قد يكون الرزق قلبا صافيا
 يمنح الناس ودادا ونَوالا
یہ بھی تو ہوسکتا ہے کسی کو رزق کی صورت ایسا پاکیزہ دل دے دیا گیا ہو جس سے وہ لوگوں میں محبت اور خوشیاں بانٹتا پھر رہا ہو.
○ قد يكون الرزق بالا هادئا إنما المرزوق من يهدأ بالا
یہ بھی تو ہوسکتا ہے کسی کو رزق کی صورت ذہنی سکون دے دیا گیا وہ شخص بھی تو خوش نصیب ہی ہے جس کو ذہنی سکون عطا کیا گیا ہو.
○ قد يكون الرزق طبعا خيّرا 
 يبذل الخير يمينا وشمالا
یہ بھی تو ہوسکتا ہے کسی کو رزق کی صورت نیک و سلیم طبع عطاکی گئی ہو۔ وہ شخص اپنی نیک طبیعت کی وجہ سے اپنے ارد گرد خیر بانٹتا پھرے.
○ قد يكون الرزق ثوبا من تقى
 فهو يكسو المرء عزا وجلالا
یہ بھی تو ہوسکتا ہے کسی کو رزق کی صورت تقوٰی کا لباس پہنا دیا گیا ہو اور اس شخص کو اس لباس نے عزت اور مرتبہ والی حیثیت بخش دی ہو.
○ قد يكون الرزق عِرضَاً سالماً
 ومبيتاً آمن السِرْبِ حلالاً
یہ بھی تو ہوسکتا ہے کسی کو رزق کی صورت ایسا عزت اور شرف والا مقام مل جائے جو اس کے لئے حلال کمائ اور امن والی جائے پناہ بن جائے.
○ ليس شرطا أن يكون الرزق مالا
 کن قنوعاً و احمد الله تعالى
○ پس رزق کے لئے مال کا ہونا شرط نہیں 
جو کچھ عطا ہوا
اس پر مطمئن رہو
اور اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرتے رہو.
الہی بہترین ایمان اور نفس مطمئنہ کی سعادت عطاء فرما .. آمین اللھم آمین (صححہ: #S_A_Sagar )
https://saagartimes.blogspot.com/2022/05/blog-post_18.html


Wednesday 11 May 2022

ہر سوال کا جواب نہ دینا خدائی اصول ہے

ہر سوال کا جواب نہ دینا خدائی اصول ہے

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«وَاللَّهِ إِنَّ الَّذِي يُفْتِي النَّاسَ فِي كُلِّ مَا يَسْأَلُونَهُ لَمَجْنُونٌ»
(اللہ کی قسم جو شخص لوگوں کے ہر سوال کا جواب دیتا ہے وہ پاگل ہے۔)
اس حدیث کے راوی اعمش فرماتے ہیں کہ مجھ سے حَکَم بن عُتَیبَہ -جو تابعین میں سے ہیں- نے فرمایا:
«لَوْ كُنْتُ سَمِعْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ مِنْكَ قَبْلَ الْيَوْمِ مَا كُنْتُ أُفْتِي فِي كَثِيرٍ مِمَّا كُنْتُ أُفْتِي»
(اگر آج سے پہلے میں نے آپ سے یہ حدیث سنی ہوتی تو اکثر جو فتوے دیا ہوں نہ دیا ہوتا۔)
(العلم لزهير بن حرب: ص 8، حدیث نمبر 10، وجامع بیان العلم وفضلہ لابن عبدالبر: 2/843، حدیث نمبر 1590) صححہ: #S_A_Sagar
https://saagartimes.blogspot.com/2022/05/blog-post_11.html

Wednesday 4 May 2022

عقل کا مرکز کہاں ہے دل یا دماغ؟؟ عقل کا استعمال کیا ہے؟؟ عقل میں اضافہ کیسے کریں؟؟؟

عقل کا مرکز کہاں ہے دل یا دماغ؟؟ عقل کا استعمال کیا ہے؟؟ عقل میں اضافہ کیسے کریں؟؟؟

عقل کا مرکز کہاں ہے؟ دل یا دماغ؟؟

سوال: سوال یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں اچھائی اور برائی کا مرکز دل کو قرار دیا ہے یعنی اگر دل کی اصلاح ہوجائے تو تمام بدن اور اعمال کی اصلاح ہو جائے گی اور اگر دل میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو تمام بدن اور اعمال میں بگاڑ پیدا ہوجائے گا اور اسی طرح علم کا مرکز سینے کو قرار دیا ہے نہ کہ دماغ کو لیکن سائنسی اور تجرباتی حقائق اس کے خلاف ہیں سائنسی حقائق انسان کے خیالات اور اعمال کا مرکز دماغ کو قرار دیتے ہیں نہ کہ دل کو. میں اپنے سوال کو واضح کرنے کی خاطر کچھ آیات اور احادیث کے معانی لکھ رہا ہوں۔ آیات: (۱) اور اپنے رب کو یاد کیا کر اپنے دل میں اور ذرا دھیمی آواز سے بھی اس حالت میں کہ عاجزی بھی ہو اور اللہ تعالیٰ کا خوف بھی ہو (ہمیشہ) صبح کو بھی اور شام کو بھی اور غافلین میں سے نہ ہو۔ (الاعراف) بند لگا دیا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر پردہ اور ان کے لئے سزا بڑی ہے (البقرۃ) الحدیث: (۱) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جس شخص کے قلب میں قرآن شریف کا کوئی حصہ محفوظ نہیں وہ بمنزل ویران گھر کے ہے (رواہ الترمذی) (۲) حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جس شخص نے کلام اللہ پڑھا اس نے علوم نبوت کو اپنی پسلیوں کے درمیان لے لیا گو اس کی طرف وحی نہیں بھیجی جاتی۔ حامل قرآن کے لیے مناسب نہیں کہ غصہ والوں سے غصہ کرے یا جاہلوں کے ساتھ جہالت کرے حالانکہ اس کے پیٹ میں اللہ کا کلام ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جس طرح سورہ اعراف میں دل کا ذکر ہے کہ اپنے رب کی یاد کیا کر اپنے دل میں کیا یہ ممکن ہے؟ حالانکہ انسان جب کوئی چیز یاد کرتا ہے تو دماغ میں یا دماغ کی مدد سے یاد کرتا ہے نہ کہ دل میں کیونکہ انسان کا علمی اور معلوماتی مرکز دماغ ہی ہوتا ہے۔ اب میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے تو اس نے اتنی بڑی غلطی (نعوذبااللہ) کیوں کی؟ حالانکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ وہ لوگوں کی غلط فہمی کو دور کردیتے۔ ایک اور سوال ذہن میں ابھر رہا ہے کہ انسان کا بنانے والا اللہ تعالیٰ ہے وہی انسان کے جسم کے متعلق بہتر جانتا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ یہ بات نہیں کر سکتا لہٰذا یہ کتاب (نعوذ باللہ) آسمانی نہیں یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بنائی ہے۔ لہٰذا آپ سے گذارش ہے کہ مجھے اس پیچیدگی سے نکالنے کی بلاتعصب کوشش کریں اگر میری باتیں صحیح ہیں تو آپ بھی جواب دیجئے اور اگر غلط ہیں تو خدا کے لئے جلد از جلد میرے شکوک و شبہات کو دور کرنے میں میری مدد کریں اور مجھے دوزخ سے بچائیے۔

جواب: چونکہ زیربحث مسئلہ میں اکثر پڑھے لکھے لوگ شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کا شکار ہیں جس سے دین و ایمان کے ضیاع کا خطرہ ہے اس لئے مناسب یہ ہے کہ اس پر کسی قدر تفصیل سے گفتگو کی جائے تاکہ اس مسئلہ کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جائے اور مسئلہ ہر اعتبار سے الم نشرح ہوجائے۔

مقصودی مباحث سے قبل چند بنیادی باتیں معلوم ہونا ضروری ہیں تاکہ راہ حق کے متلاشی تقلیدی تاریکیوں اور جانبدارانہ آراء سے ہٹ کر ایک منزل کو متعین کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوں اور علوم و فنون کی قدر و منزلت اور باہمی تفاوت کے تعین کے لیے کسی شخص کی ذات یا اس کی مخصوص آراء سے نکل کر صداقت اور واقعیت کے واضح معیار کے تحت دلائل و براہین کا جائزہ لیتے ہوئے سنجیدگی سے غور و فکر کیا جاسکے۔

وہ علوم و فنون جن کے بنیادی نقطہ نظر میں دلائل نقلیہ اور اخبارِ صادقہ سے ہٹ کر اپنے تجربات اور اپنی سوچ و فہم اور دور رسی سے اخذ نتائج کے بعد چند بنیادی اصول وضع کر لیے گئے اور مزید امعان فکر سے مسائل کے ایک مرتب مجموعہ کی شکل میں اس پر علم یا فن کا اطلاق کیا جانے لگا اور رفتہ رفتہ وہ مستقل علم و فن کی حیثیت سے شہرت اختیارکر گئے ان کی چند اقسام ہیں جن میں سے زیربحث موضوع کے متعلق چند ایک مفید علوم کو ذکر کیا جاتا ہے۔

ریاضیات: اس علم کا تعلق حساب و ہندسہ یا ہیئت وفلکیات سے ہے دینیات سے بہر کیف اس کو نفیاً یا اثباتا کوئی سروکار نہیں ان کے متعلق یہ کہنا چاہیے کہ یہ سراسر علوم برھانیہ سے لگاؤ رکھتے ہیں اور جو کوئی بھی انہیں اچھی طرح جانتا ہے ان کی قدر و قیمت اور افادیت کا انکار نہیں کرسکتا۔

منطق: اس فن پر غور کیجئے تو اس کے معروف قواعد دینی تقاضوں سے متصادم نہیں معلوم ہوتے اس کا علم دین سے براہ ٔ راست نفیاً یا اثباتاً کوئی لگاؤ نہیںکیونکہ اس میں تو صرف یہ بحث کی جاتی ہے کہ دلائل کیا ہیں؟ ان کی جانچ پرکھ کے کیا پیمانے ہیں؟ برہان کسے کہتے ہیں اس کے شرائط اور مقدمات کی نوعیت کیا ہے؟ تعریف کس سے تعبیر ہے؟ اور کیونکر اسے ترتیب دیا جاتا ہے؟ اس کے علاوہ اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ علم کی دو قسمیں ہیں تصور یا تصدیق تصور کو تعریف وحدّ کے ذریعے معلوم کیا جاتا ہے اور تصدیق کی پہچان برہان و دلیل سے ہوپاتی ہے ظاہر ہے کہ ان میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کو دین کے منافی قرار دیا جائے۔

طبیعات، سائنس: اس علم میں اجسام عالم سے بحث کی جاتی ہے جیسے کہ آسمان ، نجوم و کواکب،پانی ، ہوا، مٹی، آگ، حیوانات، نباتات اور معادن وغیرہ اس میں ان کے تغیرات، استحالات اور امتزاجات کی کیفتیں بیان کی جاتی ہیں یہ بحث ایسی ہی ہے جیسے ایک معالج یا طبیب انسان اور اس کے اعضائے رئیسہ و خادمہ کو نظر و فکر کا ہدف قرار دیتا ہے پھر جس طرح علم طب میں اور دین میں کوئی منافات نہیںاسی طرح طبعیات کے مبنی برحقیقت مسائل اور دین میں بھی کوئی تصادم نہیں۔

الٰہیات: اس فن میں حکماء نے بہت ٹھوکریں کھائیں ہیں اس سلسلے میں ان کی کتابوں کا بنظر انصاف مطالعہ کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان حضرات نے جب دلیل و برہان کی محکمی اور استواری بیان کرنا چاہی تو اس کیلئے تو ایسی کڑی شرطیں ٹھہرائیں کہ جن سے یہ قطعیت و یقین کے درجہ تک پہنچ جائیں۔ جب الٰہیات پر گفتگو کا موقع آیا تو ان شرائط کا حق ادا نہ کیا بلکہ انتہا درجے کے تساہل سے کام لیا۔ جو کوئی بھی ان کے قابل وثوق علوم (ریاضی و منطق وغیرہ) کا مطالعہ کر تا ہے وہ ان کے دقائق سے متاثر ہو کر اور یہ دیکھ کر کہ ان میں جن دلائل کو پیش کیا گیا ہے وہ کس درجہ واضح اور محکم ہیں متعجب ہوتا ہے معاملہ اگر صرف تحسین و استعجاب تک محدود رہتا تو اس میں کوئی مضائقہ نہ تھا اصل مصیبت یہ ہے کہ یہ اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتا ہے کہ ان کے تمام علوم و افکار دلائل کی محکمی و وضوح کے اعتبار سے ایسے ہی پختہ اور ناقابل تردید ہیں اور اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب یہ ان کے اقوال غیر سدیدہ کو دوسروں سے سنتا ہے تو اس پر سر دُھنتا ہے بلکہ بسا اوقات خود بھی ازراہ تقلید ان کے پروپیگنڈہ میں ان کا ہم نوا ہوجاتا ہے مگر اس کی طرف توجہ نہیں جاتی کہ جہاں ریاضیات میں ان کے استدلال کی عمارت دلیل و برہان کی استواریوں پر مبنی ہے وہاں الٰہیات میں یہ محض تخمین کے بل بوتے پر چلتے ہیں مگر اس کا فرق عوام کو ہر گز نہیں ہو سکتا اس کو تو کچھ وہی لوگ جانتے ہیں جنہوں نے ان علوم میں گہرے غور و فکر سے کام لیا ہو اور ان کی جزئیات و فروع کا تجربہ کیا ہو۔ (ماخذہ المنقذ من الضلال للغزالی / ص:۲۱ وما بعدہ)

مشاہداتی اور تجرباتی نوعیت کی سائنسی معلومات جن کی پشت پہ درست مشاہدہ اور صحیح تجربہ کا سہارا ہو ان سے حاصل شدہ نظریات و افکار کا دین و شریعت سے کوئی تصادم نہیں اور نہ دین ان علوم کی تحصیل میں رکاوٹ ہے چنانچہ مذہبی تعلیمات اور مذہبی کتب میں کہیں بھی مفید علوم اور قابل قدر فنون سے لا تعلق رہنے اور دوررس سوچ و فکر کے ذریعے کائنات کے طبعی اور تکوینی امور سے جدید اکتشافات کے حصول کو نظر انداز کرنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ اسلام ہر نافع اور مفید امر کی اجازت دیتا ہے اور مضر اور غیر مفید اور بے کار شئی سے روکتا ہے اسی لیے یہ دین فطرت ہے لہٰذا یہ سائنس اور طبیعات کے مبنی برحقیقت مسائل اور جدید اکتشافات سے ترقی کی راہ میں ہر گز رکاوٹ حائل نہیں کرتا۔

لیکن مشاہدات اور تجربات سے ہٹ کر سائنس کے بعض وہ مسائل ہیں جو کسی مضبوط بنیاد پر استوار نہیں کیے گئے بلکہ وہ محض تخیلات اور مفروضات پر مبنی نظریات ہیں محض ایک ذہنی اختراع اور وھمی مفروضہ کو نظریہ کا جامہ پہنا کر پیش کر دیا گیا اور شاگردان رشید نے بڑوں کی قابلیت اور تسلیم شدہ بزرگی کے آگے ’’سر تسلیم خم‘‘ کہتے ہوئے ان تخیلات و مفروضات کو من وعن تسلیم کر لیا اور صدھا برس تک ان مفروضات اور قیاس آرائیوں کو سائنس میں مسلمات کا درجہ دیا گیانہ ان کی صداقت سے بحث کی گئی نہ ان کے دلائل کو نقل و عقل کے اعلیٰ معیاری اصولوں پر پرکھنے کی کوشش کی گئی۔ مگر بعد میں مفکرین نے ان نظریات کی بلند و بالا عظیم الشان عمارت میں شگافیں ڈال دیں اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سائنس کے ان نظریات اور مفروضات کی عمارت زمین بوس ہو گئی اور کتابوں میں ان کا تذکرہ تردید کے لیے کیا جانے لگا۔

مثال کے طور پر گیلیلیو کے زمانے تک سائنس کے اس اصول کو قطعی تصور کیا جاتا تھا کہ بھاری چیزیں ہلکی چیزوں کی نسبت تیزی سے نیچے گرتی ہیں لوگ اس نظریے کی تصدیق کرنے کیلئے تجربہ کو بھی گناہ سمجھتے تھے مگر گیلیلیو نے آکر اس نظریہ کی تردید کی اور ثابت کیا کہ ہلکی اور وزنی چیزیں ایک ساتھ گرتی ہیں۔ (دیکھئے کتاب، انسان کے کارنامے)

متقدمین سائنس دانوں کے اہم نظریات میں سے ایک نظریہ قانونِ علیت ہے جس کے تحت انہوں نے تصوراتی دنیا میں خدا کے وجود کو ایک عضو معطل کے درجہ میں بلند و بالا مقام پر بٹھا دیا، مگر مسلمان مفکرین میں امام غزالی ؒ نے اور بعد میں اسکاٹ لینڈ کے ذہین اور طباع فلسفی ڈیوڈ ہیوم نے اس نظریے کے خلاف آواز اٹھائی اورمسلمہ قانونِ علیت پر ضرب کاری لگاتے ہوئے اس کی تاروپود بکھیر کر رکھ دی(دیکھئے سر گزشت غزالی /ص:۶۲، تاریخ فلسفہ، مصنفہ الفرڈ ویبر، اردو ترجمہ از ڈاکٹر عبدالحکیم / ص: ۳۵۹)

فیثا غورث اور اس کے نظریہ کے حامی ہمیشہ آفتاب ساکن ہے ساکن ہے کہ رٹ لگاتے رہے اور صدیوں یورپ کی معقولی بھی اسی سبق کو دھراتے رہے بالآخر یہ نظریہ غلط ثابت ہوا اور مانا گیا کہ سورج بھی اپنے طور پر گھومتا ہے (دیکھئے انسان کے کارنامے)

عصرجدید کے مادہ پرستانہ سائنسی نظریات میں سے سب سے اہم نظریہ ارتقاء ہے جو علمی حقیقت سے زیادہ محض ایک مفروضہ ہے اور اس کو علمی حقیقت ثابت کرنے کی تمام کوششیں اب تک ناکام ہوچکی ہیں اور برابر ہوتی جا رہی ہیں یہ دور جدید کا سب سے اہم اور معرکۃ الآراء مسئلہ ہے جس پر علمی اعتبار سے اتنا کام ہو چکا ہے کہ شاید ہی کسی دوسرے مسئلہ پر ہوا ہو۔ اس مسئلہ کو بنیاد بنا کر کھیتوں اور باغیچوں میں تجربات کئے جارہے ہیں اور لیبارٹریوں میں مسلسل جانچ پڑتال کی جارہی ہے چمپانزی بندروں کو برابر ٹریننگ دی جارہی ہے تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ سدہائے جانے پر وہ بھی انسان بن سکتے ہیں؟ اسی طرح دنیا بھر کے مختلف حیاتاتی نمونوں کو اکٹھا کیا جارہا ہے اور اس مقصد کے لیے کرّہ ارض کا گوشہ گوشہ چھانا جا رہا ہے سمندروں کو کھنگالا جا رہا ہے اور زمین کے اندر گڑے ہوئے اُحفوری آثار و باقیات تک کو کھود کر نکالا جارہا ہے لیکن اس تمام کدو کاوش کے باوجود کوئی ایسی حقیقت دریافت نہیں ہو سکی جس کو قانون فطرت کا نام دیا جاسکے، اور اس سلسلے میں اب تک جتنے دعوئے کیے گئے ہیں وہ بلا دلیل اور بلا ثبوت ہیں جن کی حیثیت قیاسات و مفروضات سے زیادہ نہیں اسی بناء پر اب خود دنیائے سائنس میں یہ خیال زور پکڑتا جا رہا ہے کہ نظریہ ارتقاء محض ایک قیاس ومفروضہ ہے جو سائنسی نقطۂ نظر سے ثابت نہیں۔

چنانچہ حال ہی میں آکسفورڈ سے ایک قابل قدر کتاب ’’قاموس جہالت‘‘

(The Encyclopedia Ignorance) کے نام سے شائع ہوئی ہے جس میں ساٹھ مستند ماہرین سائنس کے مختلف موضوعات پر فکر انگیز مقالات موجود ہیں ان میں سے ایک مضمون کا عنوان ہی ’’نظریہ ارتقاء کے مغالطے‘‘ (The Fallacices of Enolutaion Theory) اور اس مضمون کا حاصل یہ ہے کہ انسان نام نہاد ارتقائی قوانین کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا، اور ان کو حقائق کا نام دینا ایک مغالطہ ہے۔

(دیکھئے کتاب تخلیق آدم اور نظریہ ارتقائ/ ص:۳۹)

اس سے سائنس دانوں کے ان تمام تجربات اور بلند وبانگ دعاوی کی حقیقت بھی واضح ہو گئی جو آج تک نظریہ ارتقاء کو سائنسی اور تجرباتی نوعیت کا مسئلہ ثابت کرنے کے لیے پیش کئے جاتے رہے وہ یہ نہ معلوم کر سکے کہ وہ اس نظریہ کے تسلیم کرنے میں تحقیق و تجربہ سے زیادہ تقلید و جمود کی راہ پر گامزن ہیں۔

اب زیرنظر مسئلہ کے متعلق کچھ عرض کیا جاتا ہے اولاً طبی اور سائنسی تحقیقات اور فلسفیانہ اندازِ فکر سے اس پر گفتگو کی جاتی ہے اس کے بعد انشاء اللہ فلسفۂ اسلامی کے نقطۂ نظر سے اس کی وضاحت کی جائے گی۔

علم وادراک احساس وشعور کے حوالے سے متقدمین سائنس دانوں کے کلام میں اس قدر اضطراب اور اختلاف نظریات نہیں جس قدر دورِجدید کے سائنس دانوں کا کلام پراگندہ اور منتشر ہے اور طبی اصطلاحات بھی تقریباً مسئلہ شعور و احساس میں متوافق اور یکجہتی کی جانب مائل نظر آتی ہیں۔

چنانچہ علم طب میں احساس و شعور کے مراکز کی تعیین کچھ یوں ہے کہ دماغ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے بطن اول کے مقدم میں حسّ مشترک کا مقام ہے اور اس کے ساتھ ہی بطن اول کے مؤخر حصہ میں خیال کا محل ہے اور بطن مؤخر کے ابتدائی حصہ میں قوت وہمیہ جاگزین ہے اور بطن مؤخر کے پچھلے حصہ میں قوہ حافظہ محصور ہے اور بطن وسط قوت متخیلہ کا محل ہے (ان قوی کے ادراکات اور ان میں اختلافات کی تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو نفیسی۔ نفیس بن عوض / ص:۷۱ وما بعدہ، اور قانونچہ فی الطلب / ص:۱۹ وما بعدہ اور اطلس تشریح الانسان)

اطباء تمام حواس کا مبدأ دماغ کو قرار دیتے ہیں اور دماغ سے آگے کسی اور محل و مقام کی طرف ان کا رجوع تسلیم نہیں کرتے اور اس بارے میں چند تجربات اور دلائل سے سہارا لیتے ہیں (جن کی تفصیل عنقریب معلوم ہو گی)۔

علم کا مرکز شیخ ارسطو کے نزدیک:

لیکن شیخ ارسطو اور ان کے متبعین حواس کا مبدأ دماغ سے آگے دل کو قرار دیتے ہیں اور اپنے دلائل اور تجربات سے اس مسئلہ کو مبرھن کرتے ہوئے اطباء سے جدا نظریہ رکھتے ہیں بلکہ دل کو مبدأ حواس قرار دینے میں تو ارسطو تجربات سے ایک قدم آگے معاینہ تک کا دعویٰ کرتے ہیں۔

(دیکھئے ارسطو کی کتاب، اجزاء الحیوان/ ص:۷۰-۱۰۰، ۱۳۲)

بوعلی سینا:

فلسفہ ارسطو سے دنیا کو روشناس کرانے والے ان کے علم کے جانشین شیخ بو علی سینا اپنی کتاب ’’الشفائ‘‘ میں بڑے شدو مد سے اطباء کی رائے اور ارسطو کے فلسفے کا اختلاف ذکر کرتے ہوئے یوں محاکمہ کرتے ہیں کہ ظاہری طور پر اطباء کی رائے درست معلوم ہوتی ہے لیکن نظرِ دقیق اور تحقیق عمیق کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ارسطو کا مؤقف ہی صحیح ہے کہ تمام حواس کا مبدأ دماغ سے بھی آگے دل ہے۔

(دیکھئے، الشفاء (طبعیات) ج:۳، ص:۱۳، ۴۰، ۴۶، ۲۵۴)

اور فلسفہ ارسطو کے دوسرے ترجمان ابونصر فارابی تو ایک ہی موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ تمام قویٰ اور حواس کا مبدأ و منبع قلب ہے اور دماغ آلہ احساس و ادارک ہے۔

ابونصر فارابی:

چنانچہ ابو نصر فارابی کی کتاب’’آراء اہل المدنیۃ الفاضلۃ‘‘ کے اقتباس کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

قوۃ حاسہ میں ایک رئیس ہے اور باقی اس کے خدام اور توابع کی حیثیت سے کام کرتے ہیں اور یہ خدام اور توابع مشہور حواس خمسہ ہیں جو آنکھوں کانوں اور باقی جگہوں میں پھیلے ہوئے ہیں ان حواس میں سے ہر ایک ایک مخصوص حس کا ادراک کرتا ہے اور قوت رئیسیہ وہ ہے جہاں یہ پانچوں جا کر مجتمع ہو جاتے ہیںاور اس کا مقام قلب ہے ان خدام توابع اور رئیس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک صدر مملکت ملک کے مختلف مقامات پر اپنے مخصوص آدمیوں کو بھیجتا ہے تاکہ ہر جگہ کے حالات کا صحیح علم اس تک پہنچائیں اس طرح یہ حواس دل کے ہاں مختلف اشیاء کے علوم و ادراکات بہم پہنچاتے ہیں اور تابع اور علوم کی حیثیت سے اس کے لیے کام کرتے ہیں۔ (ص: ۴۵، ۴۶)

اسی کتاب میں ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

قلب عضو رئیس ہے، جس کے اوپر بدن کے کسی دوسرے عضو کی حکومت نہیں پھر دوسرے نمبر پر رئاست و حکومت دماغ کا عمل ہے اس میں بھی کسی قدر اقامت کا پہلو پایا جاتا ہے لیکن اس کی حکومت اور رئاست اولی نہیں بلکہ ثانوی درجہ کی رئاست ہے کیونکہ دماغ ہی کے سہارے باقی اعضاء پر حکومت کرتا ہے کیونکہ دماغ دل کا خادم ہے اس لیے جو امر دل کا مقصود طبعی ہو اس میں باقی اعضاء دماغ کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ (ص: ۴۸،۴۹)

اطباء کے دلائل:

لیکن اطباء درج ذیل تجربات کی روشنی میں حواس کا مبدأ و محل دماغ کو قرار دیتے ہیں:

-1 اگر دماغ پر کوئی چوٹ لگ جائے یا دماغ کو کوئی آفت پہنچ جائے تو تمام حواس معطل ہو کر رہ جاتے ہیں اور اپنا کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ تمام حواس کا محل دماغ ہے نہ کہ دل۔

-2 جب دماغی اعصاب کو نیچے سے مضبوطی سے باندھ دیا جائے یا کاٹ دیا جائے تو اس بندھے ہوئے یا کٹے ہوئے عضو کی حس و حرکت ختم ہو جاتی ہے۔

-3 جب انسان کوئی نشہ آور چیز استعمال کرے تو اس کے اثرات دماغ تک پہنچ جانے کی وجہ سے بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے۔

-4 حواس (جو آلاتِ ادراک ہیں) کا نفوذ دماغ کی طرف ہے قلب کی طرف نہیں نیز اعصاب جو حرکات اختیاریہ کیلئے ذریعہ بنتے ہیں وہ بھی دماغ کی طرف پہنچتے ہیں قلب کی طرف نہیں پہنچتے۔

مندرجہ بالا تجربات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دماغ ہی حواس کا مرکزی مقام ہے اوریہیں سے حواس کی ابتداء ہوتی ہے جو آگے جا کر جسم کے مختلف اعضاء میں پھیل جاتے ہیں۔

(دیکھئے نفیسی/ ص:۷۱، تہافت الفلاسفہ للغزالیؒ/ ص:۳۵۶، تفسیر کبیر للرازیؒ/ ج:۲۳ ص:۱۶۸)

شیخ ارسطو کی طرف سے

مگر دل کو مرکز و مبدأ احساسات قرار دینے ولے حضرات کی طر ف سے ان تجربات کا یہ جواب دیا گیا کہ ان تمام تر تجربات سے صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ دماغ کے ساتھ بھی حواس کا تعلق ہے لیکن دل کے مبدأ و منبع احساس ہونے کی نفی پھر بھی نہیں ہوتی کیونکہ دماغ دل کے لیے آلہ اور وسیلہ کی حیثیت سے کام کرتا ہے اور مؤثر(قلب) کی تاثیر کے مقصود تک پہنچنے کیلئے آلہ (دماغ) کی سلامتی اور آفات سے حفاظت شرط ہے اگر آلہ (دماغ) میں کوئی خامی اور نقص پیدا ہو جائے تو قلب ا س کے بغیرادراک و احساس کے منازل طے نہیں کر سکتا اور نہ قویٰ حسیہ اپنے احساسات کو اس تک پہنچا سکتی ہیں تو دماغ قلب کیلئے آلۂ قریبہ ہے اور حواس قلب کیلئے آلہ بعیدہ ہیں تو جیسے جسم کے باقی اعضاء کو مبداء احساسات قرار دینا درست نہیں اسی طرح احساسات کی دماغ تک محدودیت کا نظریہ بھی صحیح نہیں بلکہ تمام حواس کا مبداء قلب ہے۔

(دیکھئے۔ تفسیر کبیر للرازی / ج۲۳۔ ص:۱۶۸، شرح المواقف/ ج۲، ص:۶۳، ہدیہ سعیدیہ/ ص:۲۱۰)

شیخ ارسطو کے دلائل:

ان حضرات نے اپنے مؤقف پر دلائل قائم کرتے ہوئے کہا۔

-1 یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ جب کوئی آدمی کسی مسئلہ میں بہت زیادہ غور فکر کرتا ہے اور اس کو حل کرنے میں بہت زیادہ سوچ و بچار سے کام لیتا ہے تو بسا اوقات اسے دل کے اندر اکتاہٹ سی محسوس ہونے لگتی ہے اور اس معاملہ میں زیادہ غور وفکر کرنے کیلئے دل کو مشقت میں ڈالنا پڑتا ہے اگر دل غو و فکر ، تحقیق و جستجو پر راضی ہو تو انسان پورے نشاط سے مسئلہ کی تحقیق کر سکتا ہے اور دل میں ملال اور اکتاہٹ ہونے کی صورت میں تحقیق کماحقہ انجام نہیں پاتی۔

-2 نیز یہ امر بھی تجربہ شدہ ہے کہ بعض آدمی فطری طور پر یا مشکل اور کھٹن مراحل سے گذرنے کی وجہ سے سخت دل ہوتے ہیں اور ان کے برعکس بعض لوگ نہایت نرم دل اور حساس طبع واقع ہوئے ہیں اور ان دونوں طرح کے لوگوں کے افکارو تصورات اور خیالات و جذبات میں نمایا ں فرق نظر آئے گا یہ اختلاف اسی وجہ سے ہے کہ ایک کے دل میں سختی اور شجاعت کا وصف زیادہ ہے لہٰذا اس کے دل نے مناسب سوچ دے کر جوارح سے کام سرزد کرائے جبکہ دوسرے کے دل میں نرمی ہے اور شجاعت کا مادہ قلیل ہے اس لیے اس کا دل مناسب سوچ پیدا کر کے جوارح سے افعال سرزد کرواتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ فکر، سوچ اور تدبیر نیز افعال جوارح کا مرکز و منبع قلب ہے باقی تمام اعضاء اسی کے تابع ہو کر مصروف کار ہیں۔

-3 انسان کا دل عام حالات میں جبکہ کسی قسم کا خوف و ہراس نہ ہو اعتدال کے ساتھ اپنی مقررہ حرکات و سکنات کی انجام دہی میں مصروف رہتا ہے لیکن اچانک جب کوئی خطرناک معاملہ یا خوف و ہراس کی صورت پیش آجائے تو دل کی دھڑکنوں کے اعتدال میں نمایاں تبدیلی محسوس ہونے لگتی ہے اور دل میں خوف و ہراس سے نکلنے ا ور نفس کو بچانے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے جس کیلئے تمام اعضا ء دل کی ماتحتی میں کام کرنے لگ جاتے ہیں تو دل کی ضربات میں اس واضح تبدیلی سے معلوم ہو ا کہ خارجی امور سے دل متاثر ہو کر جلد ہی مستقبل کیلئے فیصلہ کرتا ہے اور جوارح اس کے مطابق کام کرنے لگ جاتے ہیں ۔

(دیکھئے: تفسیر کبیر للرازی /ج۔ ۲۲ ص، ۱۶۶- ۱۶۸، موت القلب او موت الدماغ)

اس کے علاوہ شیخ ارسطو اور ان کے متبعین بو علی سینا اور فارابی وغیرہ دل ہی کو مبدأ و منبع احساس قرار دیتے ہیں اور ان کے نزدیک احساسات و ادراکات کیلئے دماغ کی حیثیت ایک آلہ کی ہے۔

حکماء فلاسفہ اور متکلمین:

قرون وسطیٰ کے حکماء، فلاسفہ اور متکلمین کے ہاں بھی یہ مسئلہ معرکۃ الآراء رہا ہے چنانچہ بعض حضرات نے تو حواس باطنہ کی بالکلیہ نفی کرتے ہوئے یہ رائے قائم کی کہ تمام امور جزئیہ و کلیہ کا ارتسام نفس ناطقہ میں ہوتا ہے ان لوگوں نے حواس باطنہ کے فلسفے کو بمع تمام تر تفصیلات کے مسترد کر دیا اور دماغ کیلئے کسی نوع کا علم و ادراک بھی ثابت نہیں مانا کیونکہ دماغ میں گوشت پوست اور مغز و استخوان میں بذاتہ ایسی کوئی چیز نہیں جس میں علم نقش ہوتا نظر آتا ہو اور اشیاء کی صور اور تمثیلات وہاں دیکھی جا سکتی ہوں اور علم و ادراک بھی کوئی محسوس اور مرئی چیز نہیں لہٰذا اس کا محل و مرکز نفس ناطقہ ہے جو مادہ کی تلویث اور آلائش سے یکسر پاک اور منزہ ہے۔

لیکن حکماء کے دوسرے طبقہ نے یہ نظریہ پیش کیا کہ اگرچہ تمام امورِ جزئیہ وکلیہ کا مدرک نفس ناطقہ ہی ہے مگر نفس مجرد عن المادۃ اور بسیط ہونے کی وجہ سے براۂ راست جزئیات مادیہ کا ادراک نہیں کرتا ، بلک جزئیات مادیہ کی صور کا ارستام حواس میں ہی ہوتا ہے۔ اس سے یہ واضح ہے کہ علم کے مقام اور محل میں اختلاف کے پیش نظرحواس خمسہ باطنہ کے اثبات اور عدم اثبات میں نظریات مختلف ہیں بعض حضرات ان کو ثابت مانتے ہیں اور بعض حضرات ان کی تردید کرتے ہیں ۔ (دیکھئے ۔ حاشیہ سیالکوٹی علی الخیالی/ ص:۳۳، ص:۳۷- وکشاف اصطلاحات الفنون/ج:۱ ص:۳۰۳ وشرح المواقف/ ج : ۶ ص: ۶۳)

قرون وسطی سے لے کر آج تک حواس اور ذہن کے بارے میںسائنس دان متعدد نظریات کے حامل رہے ہیں جن میں جے بی پراٹ، ٹی ایچ ہسکلے، مارگن، الکزنڈر، ہولٹ ڈبلیو آرکلفرڈ وغیرہ کے اساسی اور نظریاتی اختلافات سر فہرست ہیں۔ (دیکھئے ۔ ڈاکٹر ڈی یس رابنس کی کتاب مقدمہ فلفسہ حاضرہ اردو ترجمہ از ڈاکٹر میر ولی الدین / ص:۱۲۲)

سائنس دانوں کاعمومی دعویٰ یہ ہے کہ علم کے ذرائع حواس میں منحصر ہیں لیکن کانٹ اور ان کے متبعین انگریزی مذہب کے فلاسفہ پر زبردست تنقید کرتے ہوئے حوا س میں علم کی محصوریت کی نفی کرتے ہیں ان کا یہ دعویٰ ہے کہ حواس کے علاوہ اور بھی ذرائع علم ہیں۔

(دیکھئے حکایات فلسفہ مصنفہ ول ڈران اردو ترجمہ از احسان احمد صاحب /ص: ۳۲۶)

ڈیوڈ ہیوم اور انکے ہم نواؤں نے تو ذہن کے تصور کو بالکل ہی ختم کردیا (دیکھئے حکایات فلسفہ/ ص: ۳۲۸، ۳۳۰) اور مونٹین، شاردن وغیرہ نے حواس اور عقل کے ذریعے سے حاصل شدہ علم کو ناقابل یقین قرار دے کر شک کی راہیں ہموار کیں۔

(دیکھئے تاریخ فلسفہ جدید ، مصنفہ ہیر لڈہونڈنگ اردو ترجمہ از ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب/ ج: ۱ ص:۳۴)

سائنس دانوں کا اضطراب:

خلاصہ یہ ہے کہ سائنس دان اس مسئلہ کے صحیح حل میں اضطراب و تحیر میں مبتلا ہیں اور ان کی باتوں میں زبردست انتشار ہے جس کی وجہ سے کئی ارتیابی اورثبوتی فرقوں نے جنم لیا اور کئی نتیجیت اور ہمہ روحیت کی طرف مائل ہے۔

چنانچہ ڈاکٹر ڈی یس رابنسن اس مسئلہ کے متعلق لکھتے ہیں:

سائنس کی رو سے بدن و ذہن کا مسئلہ اب تک لاینحل ہے جیسا کہ باخبر لوگ جانتے ہیں ہمیں اب بھی کسی ما بعد الطبیعاتی نظرئیے یا طریقاتی مفروضے کو اختیار کرنا پڑتا ہے گو بعض علماء نفسیات اس کیخلاف ہمیں متاثر کرنے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کریں۔ (مقدمہ فلسفۂ حاضرہ/ ص: ۱۲۴)

نیز یہ امر بھی قابل غور ہے کہ سائنسی تحقیقات ہر دور میں بدلتی رہی ہیں ایک زمانہ میں ایک مفروضہ قائم کیا گیا لیکن آنے ولاے وقت نے جلد ہی ان سائنسی تجربات کی حقیقت عیاں کر دی اور سائنس دانوں کو اس کی بجائے دوسرا نظریہ اپنانا پڑا۔

نئی دریافتیں اتنی زیادہ تعداد میں ہورہی ہیں اور نظریات اتنی تیزی سے بدلتے رہتے ہیں کہ سائنس دان ہر وقت ایک بحرانی کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں بلکہ شاید یہ بحرانی کیفیت جدید سائنس کے مخصوص اندازِ فکرہی سے پیدا ہوتی ہے ۔ (دیکھئے ژاک ماری تن کا مضمون تشریح و تلخیص از حسن عسکری صاحب ، ماہنامہ البلاغ جلد ۲ شمارنمبر۱۰ / ص:۳۸)

لہٰذا سائنسی مفروضات کو حتمی قرار دے کر اس سے ماوراء ہر نظریہ کی تردید کو لازم سمجھنا اور ان بدلتے ہوئے سائنسی تجربات کو آخری اور فیصلہ کن قرار دینا غیر محسوس تقلید کا نتیجہ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ علم کے مقام اور مرکز کی تعیین کا مسئلہ جدید سائنس کی روشنی میں سائنس کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ اس کو سائنس کا مسئلہ قرار دینا اور سائنسی تجربات کی رو سے اس میں گفتگو کرنا ایک مغالطے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ سائنس دان کی نظر میں بحیثیت سائنس دان صرف مندرجہ ذیل چیزیں معنویت رکھتی ہیں۔

(۱)۔ جس چیز کا مشاہدہ کیا جا سکے اور جسے ناپا جا سکے۔

(۲)۔ وہ طریقہ کار جس کی مدد سے مشاہدے اور پیمائش کا کام تکمیل پائے ۔

(۳) مشاہدے اور پیمائش کے ذریعے حاصل ہونے والے حقائق کی از سر نو تشکیل جو ریاضی کی مدد سے انجام پاتی ہے اور جس میں کم و بیش وحدیت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

(ماہنامہ البلاغ، جلد ۲ شمارہ نمبر ۱۰/ ص:۲۹)

اسی لیے جدید سائنس کے تحت جو علوم آتے ہیں انہیں ’’علم مظاہر‘‘ (Science Of Phenomenor) کہا جاتا ہے۔

پروفیسر ژاک ماری تن لکھتے ہیں:

سائنس حقیقت تک پہنچتا تو ہے لیکن اس حقیقت کے صرف مظاہری پہلو کو دیکھتا ہے یعنی ا س پہلو کو جس کی تعریف مشاہدے اور پیمائش کے ذریعے متعین ہوتی ہے (البلاغ، جلد ۲ شمار نمبر ۱۰/ ص:۱۰)

ایک اور مقام پر پروفیسر موصوف، سائنس اور فلسفے کے بنیادی فرق کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

سائنس مظاہر کا علم ہے اس کے ثمرات تو عجیب و غریب ہوتے ہیں لیکن ان کی قیمت انقلابی تبدیلیوں کی شکل میں ادا کرنی پڑتی ہے سائنس کا کام یہ ہے کہ مادے اور فطرت میں عمل اور رد عمل کے جو بہت سے قابل مشاہدہ اور قابل پیمائش سلسلے چلتے رہتے ہیں ان کے رموزی نقشے ہمارے لیے تیار کر دے اس بیان سے چار نتائج بیان برآمد ہوتے ہیں۔

(۱)۔ سائنس کا موضوع مظاہر ہیں، روح اور خدانہیں دوسرے الفاظ میں سائنس کا موضوع کثرت ہے وحدت نہیں۔

(۲)۔ سائنس کا طریق کار مشاہدہ اور پیمائش ہے جوان حقائق کا علم حاصل کرنے میں مفید نہیں ہو سکتا جہاں مشاہدہ اور پیمائش ممکن نہیں۔

(۳)۔ مادے کے سلسلے میں بھی سائنس صرف اس کے عوامل کا مطالعہ کرتا ہے۔

(۴)۔ اگر مادے اور فطرت کی حقیقت سمجھنے کا سوال ہو تو سائنس عوامل سے آگے نہیں جاسکتا۔

(البلاغ، جلد ۲ شمار نمبر ۱۲/ ص: ۲۸)

زیربحث مسئلہ سائنسی تجربات اور مشاہدات کے دائرے سے خارج ہے کیونکہ جدید سائنس میں کسی چیز کے مظاہری پہلو سے بحث کی جاتی ہے اور علم و ادراک اور ان کے مقام و محل کی تعیین کا مسئلہ مشاہدہ و حس کی دسترس سے خارج ہے البتہ اگر اسے فلسفے کا مسئلہ قرار دیا جائے تو بجا ہے کیونکہ فلسفی کی نظر اشیاء کے مظاہری پہلو سے آگے ما بعد الطبیعات تک سے بحث کرتی ہے (اور اس بارے میں فلاسفہ کے مختلف نظریات اور اختلافی اقوال گذشتہ صفحات میں قلمبند کئے جاچکے ہیں)۔

محققین فلاسفہ اور حکماء زیربحث مسئلہ میں تنگ نظری اور محدودیت کے حصار میں محبوس نہیں رہتے بلکہ تمام تر اختلافات کے باوجود اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ دماغی عصبات اور حسی مشاعر تک علم و ادراک کی تحصیر نہیں بلکہ اصل مدرک اور عالم نفسِ ناطقہ مجرد عن المادہ ہے۔

علم طب، جسم اور اس کی صحت و مرض تندرستی و بیماری کے دائرہ سے خاج امور سے بحث نہیں کرتا، اس کا موضوع جسم اور عوارض جسم من حیث الصحۃ والمرض میں منحصر ہے لہٰذا اطباء کی دماغی مشاعر کی تشریحات اور حواس کی تحصیران کا موضوع بحث اور ان کے علم کا دائرہ کار ہے علم طب میں نفسِ ناطقہ اور روحانی امور سے بحث کرنا جہاں خروج عن المبحث ہوگا وہاں یہ طبی نقطہ نظر میں لا یعنی بحث ہوگی۔

سائنسی اور طبی تجربات اپنے اپنے موضوع علم کے اندر رہتے ہوئے زیر بحث مسئلہ میں کافی و شافی رہنمائی سے قاصر ہیں جہاں تک طبی تجربات یا سائنسی حقائق کی رسائی ہو سکی ہے تو صرف وہاں تک تحقیقات کے بعد اس کو مسئلے کا کلی حل سمجھ کر کے بیٹھ جانا تنگ نظری ہے۔

محض سائنسی تجربات کی عدم رسائی کو ان دینی مذہبی تصورات کے خلاف ہر گز نہیں کہا جائے گا کیونکہ عالم غیب اورعالم امر کے مشاہدات اور تجربات سے سائنسی آلات بے بس اور عاجز ہیں اور بے بسی و درماندگی میں تقابل اور تصاد م کی بجائے تسلیم وقبولیت کا رنگ ہونا چاہیے۔

قلب کے معانی:

سائل کو سب سے بڑا اشتباہ یہ ہوا کہ قرآن پاک کی آیات اور احادیث مبارکہ کی نصوص میں جہاں کہیں ’’قلب‘‘ کا لفظ آیا ہے تو اس سے ایک ہی معنیٰ(قلب جسمانی) مراد لیا گیا اور اس کے بعد کی تمامتر تفریعات اسی پر مبنی ہین جن سے شکوک و شبہات نے جنم لیا، جبکہ ’’قلب‘‘ کا لفظ مندرجہ ذیل متعد د معانی کیلئے استعمال ہوا ہے۔

(۱) گوشت کا ٹکڑا جو سینہ کے بائیں جانب موضوع ہے۔ (۲) عقل (۳) جوہر نورانی (۴) کسی چیز کا وسط (۵) کسی چیز کا خلاصہ اور مغز (۶) رائے اور تدبیر (۷) معرفۃ (۸) ادارک وتعقل۔

(دیکھئے۔ مختار صحاح المعجم الوسیط، لسان العرب، بحوالہ، مجلہ مجمع الفقہ الاسلامی، العدد الثالث الجزء الثانی/ ص: ۶۱۱، کشاف اصطلاحات الفنون/ ج:۳ ص:۱۱۷۰، حاشیہ شرح المقاصد للدکتورر عبدالرحمن عمیرہ / ج:۲ ص:۳۳۰ ، بیضاوی مع شیخ زادہ / ج: ۱ ص: ۱۲۳ و حاشیۃ القنوی علی البیضاوی / ج: ۱ ص: ۲۷۵)

قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں بیشتر مقامات پر لفظ ’’قلب‘‘ سے یہ جسمانی قلب (گوشت کا ٹکڑا) مراد نہیں کیونکہ ’’قلب‘‘ اس معنی کے اعتبار سے گوشت کا ایک حصہ ہے جو عالم محسوسات ظاہر ی میں ہے اور بہائم بلکہ مردہ میں موجود ہے جس سے کوئی دینی غرض متعلق نہیں (البتہ یہ اطباء کا موضوع بحث ہے) بلکہ قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں اکثرو بیشتر مقامات پر ’’قلب‘‘ سے مراد جوہر نورانی اور لطیفہ ربانی ہے جس کو قلب جسمانی سے خاص تعلق ہے مگر اس تعلق کے ادراک میں انسانی عقول متحیر و مضطرب ہیں اس تعلق کے بارے میں تمثیلاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ جیسے اعراض کا اجسام سے یا صفات کا موصوف سے یا کاریگر کا آلہ سے یا مکین کا مکان سے تعلق ہوتا ہے کچھ اسی طرح قلب روحانی اور قلب جسمانی کا تعلق سمجھ لیا جائے۔

قلب (بمعنی جوہر نورانی) کو کبھی ’’عقل‘‘ سے بھی تعبیر کرتے ہیں اور کبھی اس پر ’’روح‘‘ کا اطلاق بھی کیا جاتا ہے اور کبھی لفظ ’’نفس‘‘ بولا جاتا ہے۔

یہی جوہر اور لطیفہ انسان کی حقیقت اور مدرک، عالم، مخاطب، معاتب مکلف اور معدن اخلاق وملکات ہے قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں اسی کی اصلاح کا ذکر ہے کیونکہ قلب جسمانی کی اصلاح اور صحت سے بحث طبی مسائل کا نقطہ نظر ہے اور قرآن پاک کا ہدف نہ ہی طبی دقائق اور باریکیاں بیان کرنا ہے اور نہ سائنسی پیچیدگیوں کا حل تلاش کرنا ہے بلکہ یہ اصلاحِ خلق کیلئے اللہ تعالیٰ کا نازل فرمودہ کلام ہے جو اللہ نے بنی نوعِ انسان کی رشد و ہدایت اور صلاح وفلاح کیلئے عام فہم اور سادہ اندا ز میں نازل فرمایا ہے۔

(ماخذہ۔ احیاء العلوم للغزالی/ ج: ۳ ص: ومجموعہ رسائل للغزالی / ج: ۳ ص:۳۱۔۳۲، ومجلہ مجمع الفقہ الاسلامی، العدد الثالث، الجزء الثانی / ص: ۵۹۴ وما بعدہ وص:۶۱۱ وما بعدہ )

ڈاکٹر محمد علی البار لکھتے ہیں:

قلب (بمعنی لطیفۂ ربانیہ، مدرکہ، عالمہ ) کے ادنیٰ سر تک بھی علوم تجربیہ (سائنس) اور طب کی رسائی نہیں تو اس کی حقیقت کی معرفت بڑی دور کی بات ہے (موت القلب او موت الدماغ/ ص:۱۴)

آخری گذارش:

ہر آدمی کا اپنے مطالعہ اور اپنی تحقیق پہ اعتماد کرتے ہوئے علوم نقلیہ و عقلیہ کے مسائل کے مابین موازنہ کرنا بڑی خطرناک بات ہے اس کیلئے درج ذیل علوم و فنون (جیسے منطق، فلسفہ، صرف، نحو، ادب، بلاغۃ، علم کلام، فقہ و اصول فقہ، تفسیر و اصول تفسیر، حدیث و اصول حدیث وغیرہ) میں کمال مہارت شرط ہے اس کے بغیر جا بجا بھٹکنے اور ٹھوکریں کھانے کا قوی احتمال ہے اس لیے ہمدردانہ گذارش ہے کہ قرآن پاک اور احادیث ِ مبارکہ کے صحیح فہم کیلئے خود انحصاری اور خوداعتمادی کی بجائے کسی مستند اور ماہرعالم دین سے رجوع کرنا چاہیے اور وقت کے چلتے ہوئے نعروں سے متأثر ہوکر خالق کائنات اللہ جل شانہ کے کلام ازلی میں بیان کردہ اصولی اور سرمدی حقائق میں شکوک و شبہات پیدا کرنے یا انہیں رد کرنے سے ہر قیمت پر پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اگر خیال نہ رکھا جائے تو شیطانی وساوس انسان کو صراط مستقیم سے گمراہ کر بیٹھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس گمراہی سے محفوظ رکھیں۔ (ماخذ: دارالافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور: فتوی نمبر:681)

عقل کا استعمال کیا ہے؟؟؟

ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ چند صدیوں سے دنیائے انسانیت سائنس اور ٹکنالوجی کی بے پناہ ترقیوں کے ثمرات سے خوب استفادہ کررہی ہے۔ ان ترقیوں کے درمیان دنیا نے یہ منظر بھی دیکھا کہ دنیا کی بعض قومیں اُبھررہی ہیں اور بعض دوسری قوموں کی سیادت و قیادت اور عظمت و رفعت کا سورج ڈوب رہا ہے۔ زیادہ وقت نہیں گذرا جب دنیا کے اسٹیج پر کچھ تہذیبیں ابھریں اور کچھ کا زوال شروع ہوا۔ تحقیقی نظر رکھنے والے ایک انصاف پسند اور ایک آزاد انسان کے ذہن میں یہ سوالات ابھرتے رہتے ہیں کہ آخر دنیا کا خالق اور مالک کن وجوہات کی بنا پر کسی قوم کو اٹھاتا ہے اور کسی قوم کو پیوندِ خاک کردیتا ہے! ظاہر ہے کہ اس کا کوئی کام مصلحت سے خالی نہیں ہوسکتا۔ اس دست بستہ راز کی عقدہ کشائی اُس وقت ہوتی ہے، جب کوئی صاحب فکر انسان قرآن حکیم کی اکیسویں سورة الانبیاء کی دسویں آیت پر رک کر سوچنے لگتا ہے:

”انسانو! بیشک ہم نے نازل کی ہے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب، جس میں تمہارا تذکرہ موجود ہے، کیا اب بھی تم عقل کا استعمال نہیں کروگے؟“

آیت کا آخری حصہ پڑھ کر ایک صاحب فکر انسان دفعتاً چونک جاتا ہے کہ عقل کے استعمال پر خالق کائنات نے کس قدر زور دیا ہے۔! دنیا کی کسی اور کتاب میں عقل کے استعمال کی ایسی کسی ترغیب کی نظیر نہیں ملتی۔ کبھی کبھی میں خود بھی سوچتا رہ جاتا ہوں کہ آخر کیا بات ہے کہ جس کتاب پر میں ایمان رکھتا ہوں، انسانی عقل کو دعوت دینے والی یہ اور ایسی تمام آیتوں کی تلاوت کرتا ہوں، ان سے اب تک کیسے لاپرواہ رہا۔! کہیں ایسا تو نہیں کہ جس طرح کا برتاؤ میں نے اس کتاب مقدس کے ساتھ اب تک روا رکھا، شاید اُسی کے یہ نتائج ہوں کہ آج تک میں نے عقل کا استعمال کیا، نہ دنیا کو کچھ دینے کے قابل بنا۔ عصر حاضر کے تیز رفتار گھومتے پہیہ میں میری کوئی وقعت نظر نہیں آتی۔! اجتماعی زندگی میں کوئی مجھ سے کسی Policy Making کے سلسلے میں پوچھتا تک نہیں کہ کسی معاملے میں تمہاری تجویز کیا ہے اور تم کس رائے کے حامل ہو۔! کبھی کبھی تو یہ احساس کچوکے لگانے لگتا ہے کہ کہیں مجھے اس زمین کا بوجھ تو تصور نہیں کیا جارہا ہے۔! بڑا کرب ہوتاہے یہ سوچ کر کہ میری حیثیت اس دنیا میں ایک عضوے ناکارہ کی سی ہوکر رہ گئی ہے کہ جسے ساری دنیا مل کر کاٹ دینا چاہتی ہے تاکہ یہ دنیا میرے وجود سے خالی ہوجائے۔

حیرت انگیز مگر خوشگوار سوال ایک اور بھی ابھرکر سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ مجھے مٹائے جانے کے سارے جتن کامیابی سے ہمکنار کیوں نہیں ہورہے ہیں؟ یہ سوال ایسا ہے کہ یہ مجھے غور وفکر یا دوسرے الفاظ میں عقل کے استعمال پر آمادہ کرتا ہے کہ اب تو کم از کم مجھے اپنی عقل کو زحمت دینی ہوگی۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی وجہ ایسی ضرور ہے جس کی بنیاد پر روئے زمین سے ابھی تک ہم نہیں مٹائے جاسکے ہیں اوریہ کہ اب تک ہمارا وجود باقی ہے۔ قدرت کے اصول کبھی تبدیل نہیں ہوتے۔ ولن تجد لسنة اللّٰہ تبدیلا۔

عقل کے استعمال پر غور وفکر کا سلسلہ چلا تو تیرویں سورة الرعد کی ستراویں آیت کا مضمون یاد آیا جسے بطور یاد دہانی یہاں ہم درج کرتے ہیں: ”نازل کیا اللہ نے آسمان کی بلندیوں سے بارش، سو بہہ نکلے ندی نالے اپنی اپنی مقدار میں اور اٹھالایا بہاؤ جھاگ یا کچرا پھولاہوا اور معدنیات سے زیورات اور قیمتی کار آمد اشیاء بنانے کیلئے جب آگ میں تپایا جائے تو اُس میں بھی اسی طرح جھاگ ابھرتا ہے۔ اس طرح بیان کرتا ہے اللہ حق اور باطل کو۔ تو جو جھاگ یا کچرا ہوتا ہے وہ چلاجاتا ہے سوکھ کر اور جو نفع بخش ہوتا ہے انسانوں کے لئے، ٹھہراؤ دیتا ہے، establish کرتا ہے اسے زمین میں، اس طرح بیان کرتا ہے اللہ مثالیں۔“

بڑی آسانی سے سمجھ میں آنے والی یہ بات ہے کہ اللہ دنیا میں ان لوگوں کو ہی دوام اور بقا عطا کرتا ہے جو انسانیت کے لئے نفع بخش ہوں۔ تھوڑی سی ذہنی مشقت کے بعد یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ دنیا کو دینے کے لیے گوکہ میرے پاس بظاہر کچھ نہیں رہ گیا ہے، مگر ایک چیز بہرحال ایسی ہے جو صرف میرے ہی پاس ہے اور دنیا کی قومیں اپنی تمام تر ترقیوں کے علی الرغم اس گرانقدر نعمت سے محروم ہیں اور وہ ہے کتاب اللہ اور وحی الٰہی کی نعمت جو آیاتِ قرآن مجید کی شکل میں آج بھی پوری حفاظت کے ساتھ زندہ و تابندہ، ہماری تحویل میں ہیں۔ شاید ہم صفحہ ہستی سے اسی لیے نہیں مٹ رہے ہیں کہ اتفاقاً ایک امانت ایسی ہے جو ہمارے پاس رہ گئی ہے جسے دنیا کے اُن انسانوں تک ہمیں پہنچانا ہے جو اس سے محروم رہ گئے ہیں۔

پہاڑوں نے جسے ڈھونے سے معذوری جتائی تھی

ابھی تک سرپہ اپنے بوجھ وہ ڈھویا کہاں ہوں میں             

(عزیز بلگامی)

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جو نعمت ہمارے پاس موجود ہے، اُس کے فہم وادراک کے لیے عقل ہی کی ضرورت تھی، جسے شاید ہم نے استعمال نہیں کیا۔ یہی مجرمانہ کوتاہی تھی جو دنیا کی موجودہ بے راہ روی کی ذمہ دار بن گئی۔ اب تو کم از کم ہمیں عقل کے موجودہ تعطل کو توڑنا چاہیے، تاکہ ہم اُس منطقی نتیجے پر پہنچ سکیں جہاں کتاب اللہ ہمیں پہنچانا چاہتی ہے۔ زیر نظر مضمون اسی مقصد کے لیے لکھا گیا ہے کہ ہم اپنی عقل کے استعمال کی اہمیت کو پہچانیں، کہ فی الواقع ہمیں اپنی عقل کو کیسے، کس کے لیے اور کیوں استعمال کرنا ہے۔ خصوصاً آیات قرآنی کے مطالعے کے دوران عقل کا استعمال ناگزیر ہے۔ مذکورہ آیت شریفہ میں رب تعالیٰ نے انسانوں سے فرمایا کہ ہم نے ایسی کتاب نازل کی، جس میں تمہارا تذکرہ موجود ہے۔ پھر انسانوں کو دعوت دی کہ وہ اپنی عقل اور ذہانت کا استعمال کریں۔

یہ کہنا کہ اس کتابِ برحق میں تمہارا تذکرہ موجود ہے، دراصل اشارہ ہے اس حقیقت کی طرف کہ جس دور میں بھی کتاب نازل کی گئی اُس کا موضوع صرف ”انسان“ اور ”اس کی ہدایت“ رہا ہے۔ رب تعالیٰ کی مخاطبت بھی ایک انسان ہی سے رہی ہے اور اسی کے ذکر سے مالکِ کائنات نے اپنی اس کتاب کو معمور فرمایا۔ رب کائنات کا انسانوں سے یہ کہنا کہ میری کتاب میں تمہارا تذکرہ موجود ہے، ایک ایسا بیان ہے کہ انسانوں کو چونک جانا چاہئے۔ اس لئے کہ اپنے تذکرے کی طرف متوجہ ہونا انسانی فطرت کا خاصہ ہے۔ فرض کیجیے کہ کوئی دوڑتے ہوئے آئے اور ہمیں یہ اطلاع دے کہ آج کے اخبار میں آپ کے بارے میں کوئی خبر شائع ہوئی ہے یا پھر خود اخبار کا مدیر یہ اطلاع دے کہ ہمارے اخبار میں آپ کا تذکرہ موجود ہے تو ہم تصور کی آنکھ سے اپنی اُس کیفیت کو دیکھ سکتے ہیں جو اس خبر کے ردّ عمل میں ہم پر طاری ہوسکتی ہے۔ ہم بے چین ہو اُٹھیں گے کہ دیکھیں، آخر ہمارے بارے میں کیا لکھا گیا ہے! اب یہی بات کتابِ ہدایت میں ہو تو نہ جانے کیوں اسی نوعیت کی بے چینی ہم میں پیدا نہیں ہوتی کہ معلوم کریں کہ ہمارے خالق نے اپنی کتاب میں ہمارا کیا تذکرہ فرمایا ہے۔

اگر ایسی بے چینی کسی انسان میں پیدا ہوتی تو وہ دیکھتا کہ اُس کی اپنی زندگی کی حقیقت کیا ہے، کس مقصد حیات کو اُسے اپنانا ہے اور اُس کے اپنے انجام کے بارے میں کیا خبر ہے جو پیشگی طور پر اُسے دی جارہی ہے۔ پھر اس کے معاً بعد یہ سوال کہ جب تمہارا ذکر اس میں موجود ہے تو پھر تم عقل کا استعمال کیوں نہیں کرتے؟ اگر نعمتِ عقل کا تم استعمال کرتے تو تم دیکھتے کہ قرآن شریف کی نورانی روشنی تمہاری شخصیت کے ایک ایک پہلو کو منور کرتی جارہی ہے۔ تم پر یہ عقدہ کھلتا کہ تم اس زمین کے مستقل باشندے نہیں ہو، بلکہ تم کہیں سے آئے ہو اور ایک دن اس مقامِ عارضی سے، جسے تم کرہٴ ارض کہتے ہو، چھوڑ کر نقل مکانی کرنی ہے۔ تمہارا یہ کوچ یکے بعد دیگرے اور فرداً فرداً ہوگا۔ گویا تم میں سے ہر انسان اپنی پیدائش کے ساتھ اپنی واپسی کا ٹکٹ Return Ticket اپنے ساتھ لایا ہے، جس میں اس کی واپسی کی تاریخ، روانگی کا وقت اور مقام درج ہے۔ قطع نظر اس سے کہ وہ نہیں جانتا کہ کب، کہاں اور کس وقت وہ یہاں سے کوچ کرے گا، گویا اُس کے اندراجات پر ایک پٹی چپکی ہوئی ہے، جسے وقت آنے پر اسکریچ کردیا جائے گا۔ اس حقیقت کو کتاب اللہ کی دسویں سورة کی چھپنویں آیت میں رب تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے: ”وہی رب ہے جو زندگی دیتا ہے اور وہی موت بھی دیتا ہے اور اُسی کی طرف تمہیں لوٹ کر جانا ہے۔“

اس آیت میں بھی انسان ہی موضوعِ تذکرہ ہے۔ زمین پر ہر انسان کو یہ آزادیٴ اختیار حاصل ہے کہ اُس کا من چاہے تو وہ قدرت کے قانون کی پابندی کرے اور نہ چاہے تو من چاہی زندگی گذارے، لیکن اُس پر یہ حقیقت واضح رہنی چاہیے کہ بہرحال ایک مقررہ مدت کے بعد اسے لازماً اپنے مالک کی بارگاہ میں جواب دہی کرنی ہے۔ وفاشعاری اُس سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اس آزادیٴ اختیار کا بے جا استعمال نہ ہو۔ قانون اور قاعدے کے تحت زندگی گزرنی چاہیے۔ اس لیے کہ تسلیم و رضا کا تقاضہ یہی ہے کہ جس نے زندگی دی، اُسی کے قانون کا اتباع انسان کا فریضہ بن جائے اور اسی کا یہ استحقاق بھی ہو کہ موت کی راہ سے وہ اپنی مخلوق کو جس لمحہ واپس طلب کرنا چاہے، کرے۔

عقل سے جب بھی پوچھا جائے گا کہ کس کا قانون زمین پر جاری وساری ہوتو یہی جواب ملے گا کہ جس نے اس دنیا کو پیدا کیا، بس اُسی ہستی کا قانون چلنا چاہیے۔ عقل خود یہ دلیل فراہم کرے گی کہ چونکہ کائنات کی ساری قوتیں اُسی کے نظام اور اُسی کے احکام کی بجا آواری میں مصروف ہیں جو ساری کائنات کے جملہ اسباب و متاع کا مالک ہے۔ جس کے قبضہ قدرت میں سارے انسانوں کی جان ہے۔ جو مالک ہے حیات کا بھی اور موت کا بھی۔ پھر یہی عقل اس ضرورت کا احساس دلائے گی کہ خالق کے قانون کو دیکھا جائے، اسے پڑھا جائے اور سمجھا جائے، اس پر غور و فکر کیا جائے اور اس پر عمل کی راہیں تلاش کی جائیں۔ رہی بات عملی مظاہرہ کے لیے کسی نمونہ کی تو آخری رسول صلى الله علیہ وسلم کا اسوہٴ حسنہ اور مثالی کردار ہمارے سامنے ہے۔ تینتیسویں سورة کی اکیسویں آیت میں رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”بیشک تمہارے لئے زندگی کے ہر پہلو میں اللہ کے رسول صلى الله علیہ وسلم میں ایک مثالی کردار اور اسوہٴ حسنہ موجود ہے۔“ نیز اڑسٹھویں سورة کی چوتھی آیت میں آپ صلى الله علیہ وسلم کے تعلق سے ارشاد فرمایاگیا: ”بلاشبہ آپ صلى الله علیہ وسلم اخلاق کے عظیم معیار پر (متمکن) ہیں۔“

آنحضرت صلى الله علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ، اُن کا کردار وگفتار، ان کی نشست و برخاست، ان کی خاموشی وگفتگو، اُن کی ذات وصفات، اُن کی معاشی وکاروباری زندگی، اُن کی ذاتی و اجتماعی زندگی، غرض کہ اُن کی شخصیت کے ہر پہلو کا معروضی مطالعہ Objective Study کی جائے تو یہ معلوم کرنے میں دیر نہیں لگے گی کہ اخلاق وعمل، کردار و گفتار کے کسی بھی معیار پر آپ صلى الله علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ایک مینارہٴ نور کی طرح ہے۔ ایک ایسی بلند قامت شخصیت کے جسے چشم فلک نے کرہٴ ارض پر کبھی نہیں دیکھا۔ بیک وقت آپ صلى الله علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ایک بہترین مقرر، ایک عظیم فلسفی و قانون ساز، ایک بلند حوصلہ فوجی کمانڈر، ایک بہترین منتظم، ایک مشفق والد، ایک مثالی شوہر، ایک عظیم عوامی رہنما، ایک عظیم سیاسی منتظم وغیرہ کا مجموعہ نظر آتی ہے۔ دل و دماغ کو فتح کرنے والی ایک ایسی شخصیت جو عقل کے دروازوں کو مسلسل وا کرتی چلی جاتی ہے۔ خیالاتِ خام اور فرسودگیوں کی قاطع بن کر اُبھرتی دکھائی دیتی ہے، انسانیت کو توہمات پر مبنی نظریات سے نجات دلاتی نظر آتی ہے۔ جس نے تصویروں اور بتوں کے آگے سر جھکانے کی رسم کو بیخ وبن سے اُکھاڑدے اُس کا لازمی تقاضہ یہی تھا کہ وہ بالآخر دنیا کی اکثریت کے دل و دماغ پر حکومت کرے۔ ایک سدا بہار ایمانی سلطنت کے بانی کی طرح۔ انسانوں کی معلوم تاریخ ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔

کردار کی ان ساری جہتوں میں ایک قدر مشترک یہ نظر آتی ہے کہ یہ ایک پیکرِ رحمت کا کردار ہے، جس کی رحمت انسانوں پر چھائی ہوئی ہے۔ اس مرحلے پر ہمیں جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے کہ اپنے نبی صلى الله علیہ وسلم کی طرح، جن کی اتباع کا ہم دعویٰ کرتے نہیں تھکتے، کیا ہم بھی ساری انسانیت کے لئے رحمت بنے ہوئے ہیں؟ یا دنیا ہمارے وجود کو ایک زحمت سمجھنے لگی ہے؟ اکیسویں سورة کی ایک سو ساتویں آیت میں رب تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ: ”ہم نے آپ کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔“ اسی طرح اخلاق کے اعلیٰ معیار کو قائم کرنے والے رول ماڈل کی پیروی اور اسوہٴ حسنہ کی اتباع کرنے کے لئے۔ اللہ تعالیٰ نے تیسری سورة کی ایک سو بتیسویں آیت میں یہ حکم ارشاد فرمایا کہ: ”اور اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول صلى الله علیہ وسلم کی، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔“ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہمارے پاس رب العالمین کی کتاب اور رسول اکرم صلى الله علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ کی شکل میں منبع ہائے ہدایت موجود ہیں۔ ایک طرف زندگی گزارنے کا ایک پورا پیکیج ہے تو دوسری طرف اس کا Practical Application بھی موجود ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی کے ہر پہلو پر ہدایت کے اس پیکیج کو منطبق کریں گے توبلاشبہ ہماری عقل و شعور کے لیے ہر زمانے میں فکر ونظر کے نئے نئے اسباق ملتے چلے جائیں گے۔

آج ساری دنیا انگشت بدنداں ہے کہ حدود اربع کے اعتبار سے ایک وسیع و عریض ملک یعنی ارض العرب، جہاں کی شرح خواندگی تقریباً نہیں کے برابر تھی، کیوں کر محض تیئس سال کے عرصے میں سوفیصد ہوجاتی ہے! غور کیا جائے تویہ نبوی طریقہٴ کار ہمارے سامنے آتا ہے کہ پہلے تو آپ صلى الله علیہ وسلم نے ہر انسان کو مساوی درجہ عطا فرمایا، پھر کسب علم کو نہ صرف عوامی حیثیت بخشی بلکہ ساتھ ساتھ اسے ایک دینی فریضہ بھی بنایا پھر اس پر مستزاد یہ کہ ہر انسان کو آپ صلى الله علیہ وسلم نے عقل کے استعمال کی دعوت دی۔ یہی سبب تھا کہ انسانیت کے جوہر چمک اٹھے اس لیے کہ آپ صلى الله علیہ وسلم کی نظر میں یہ کام اس قدر اہم تھا کہ آپ صلى الله علیہ وسلم نے اُسے اپنی ترجیحات میں سب سے اوپر رکھا۔

ہم دیکھتے ہیں کہ ہر انسان اپنی ذات میں اللہ کا ایک منفرد شاہکار ہے۔ اتنا منفرد کہ اس سانچے میں ابھی تک کوئی مخلوقِ خداوندی ڈھلی ہی نہیں اور نہ قیامت تک کسی کے ڈھلنے کا امکان ہے۔ پھر انسانوں میں بھی ان کے چہروں کی بناوٹ الگ، رنگ و روپ الگ، زبان اور اُن کی نسل الگ، اخلاق و آداب Etiquettes اور قدوکاٹھ اور استطاعت وصلاحیت الگ ، حتیٰ کہ انگلیوں کے نشان کے اعتبار سے بھی انسان ایک دوسرے سے الگ خلق کیے گئے ہیں۔ رب کی صناعی کی داد دیجیے کہ جسے جس سانچے میں چاہا ڈھال دیا، مگر کسی دوسرے کی تخلیق کے لیے اُسی سانچے یا پیمانے کی اُسے ضرورت ہی نہ رہی۔ بالکل اسی طرح ہر انسان کے لیے رب تعالیٰ نے مخصوص جوہر بھی متعین فرمائے۔ تاکہ اس کی شخصیت کو نکھرنے اور اس کے کردار کو سنورنے کا موقع ملے۔ اسے مساویانہ عزت و عظمت سے نوازا جائے۔ اس کی عزت نفس اور اس کے احساسِ حریت کو وہ رتبہ دیا جائے جس کا وہ حقدار ہے اور اس کی ذہنی صلاحیتوں کو اس کے اپنے تجربات کی روشنی میں پھلنے پھولنے کا موقع میسر آئے۔

رسول کریم صلى الله علیہ وسلم کے اسورہٴ حسنہ میں ہم یہ بھی پائیں گے کہ آپ صلى الله علیہ وسلم نے اپنے ہر رفیق کو اپنی ذات اقدس سے فیض اٹھانے کے بھرپور مواقع عنایت فرمائے، بلکہ بحران کے حالات میں بھی آپ صلى الله علیہ وسلم نے اس طرزِ عمل کو ترک نہیں کیا۔ مثلاً، جنگِ احزاب کے موقع پر جب حضرت سلمان فارسی رضی الله تعالى عنه نے اپنے تجربہ اور اپنی سوچ کی بنیاد پر جب کوئی مشورہ دینا چاہا تو آپ صلى الله علیہ وسلم نے اُسے بحران کے حالات کے درمیان قبول فرماکر فارس کے ایک غیر مقامی نیک نفس کو وہ شرف بخشا اور وہ عزت افزائی فرمائی کہ تاریخ مساویانہ سلوک کے ایسے گرانقدر واقعات سے اکثر خالی ہی نظر آتی ہے۔ اسی طرح حضرت بلال رضی اللہ عنہ جیسے ہزاروں صحابہ کرام رضوان الله تعالى علیہم اجمعین کو، اُس وقت کے معاشرے میں عزت وعظمت کا کوئی موقع میسر آنا، تاریخ کا ایک نادرِ روزگار واقعہ ہے۔ کیونکہ اُس وقت کے جاہلیت زدہ معاشرے میں ایسے انقلابِ فکر و نظر کا کوئی امکان تک موجود نہیں تھا۔ تاہم حضرتِ بلال رضی الله تعالى عنه کو عظمت و جلالت کا وہ مقام میسر آتا ہے کہ وہ قیامت تک شرفِ صحابیت کے ایک مسلّم مقام پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ اہل ایمان کے نورِ نظر بن جاتے ہیں۔

لفظ عقل جسے 'عام فہم' Common Sense یا انسانی ذہانت بھی کہہ سکتے ہیں، خود قرآن شریف کا لفظ ہے۔ یہ لفظ جو کتاب اللہ میں تقریباً اُنتالیس مرتبہ استعمال ہوا ہے اور رب العالمین نے تواتر کے ساتھ تمام انسانیت کو اپنی کتاب میں عقل کے استعمال کی دعوت بھی دی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ رب تعالیٰ کو اپنے وہ بندے مطلق پسند نہیں جو عقل کے استعمال سے گریز کرتے ہیں۔ اسی لئے رب تعالیٰ نے پچیسویں سورة کی چوالیسویں آیت میں نہایت سختی کے ساتھ فرمایا: ”کیا تم سمجھتے ہو کہ ان کی اکثریت، سماعت کا یا عقل کا استعمال کرتی ہے؟ نہیں، بلکہ یہ تو محض جانور ہیں، یا ان سے بھی زیادہ بدتر۔“

کلام اللہ میں بار بار جو الفاظ آتے ہیں لعلکم تعقلون، افلا تعقلون، لقوم یعقلون، فہم لا یعقلون، اکثرہم لا یعقلون، ان الفاظ پر مشتمل آیتیں انسانی عقل کو بھی اور انسانی ذہانت Intellect کو بھی دعوت دیتی ہیں، تاکہ ہم میں سوچ کا عمل جاری و ساری ہوجائے۔ کامن سنس کے استعمال کی ہماری عادت بنے۔ اس طرح ہم انسانی عقل کی قدر و قیمت کے ساتھ اس کے استعمال کا سلیقہ بھی سیکھ لیں۔ انسانی سوچ کا یہ عمل دراصل اس کی ساری ترقیات کا ضامن ہے۔ دنیوی ترقی کا دارومدار بھی اسی پر ہے اور اپنی ہمیشہ کی زندگی کی ترقی کے رازہائے دست بستہ بھی اسی فکر و عمل کے ذریعے کھلنے شروع ہوں گے۔ شرط یہ ہے کہ عقل کو کتاب اللہ اوراسوة الرسول صلى الله علیہ وسلم کی روشنی میں استعمال کیا جائے، چاہے معاملاتِ دنیا ہوں کہ معاملاتِ دینی۔

کتاب اللہ میں ہے کہ بار بار کی یاددہانی کے بعد بھی جو انسانی ذہن، سوچنے، سمجھنے اور تجربہ و تجزیہ کرنے اور اپنی ذہانت اور عقل عام کو استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں تو ان کے حق میں رب تعالیٰ کی بڑی سخت وعیدیں ہمیں قرآن مجید میں ملتی ہیں مثلاً آٹھویں سورة کی بائیسویں آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”بیشک اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق وہ لوگ ہیں، جو گونگے ہیں، بہرے ہیں، جو عقل کا استعمال نہیں کرتے۔“ ایسے ہی سخت الفاظ مگر دوسرے انداز میں سورہٴ یونس کی سونمبر کی آیت کے آخر میں فرمائے کہ: ”اور اللہ گندگی میں پڑے رہنے دیتا ہے ان لوگوں کو جو عقل کا استعمال نہیں کرتے۔“

دیگرمخلوقات سے انسانوں کا امتیاز محض عقل کے استعمال کی بدولت ہے، اوراس وجہ سے ہے کہ انسان کو اس کے خالق نے ذہانت کا مالک بنایا ہے۔ کتاب اللہ میں بکثرت مقامات پر اس پر بڑا زوردیا گیا ہے۔ ظاہر ہے انسان کے اوصاف یا اس کی کمیوں، اس کی نفسیات و کوائف سے اس کے پیدا کرنے والے سے زیادہ بہتر طور پر کون واقف ہوسکتا ہے! وہ نہ صرف انسان کی کمزوریوں کو جانتا ہے؛ بلکہ اس کے بہکنے اوراپنی راہ کھوٹی کرنے کے اسباب و علل اور Situation اور مواقع سے بھی وہ خوب واقف ہے۔ انسان کی ہوس ولالچ، تمنا وطمع، حرص و آرزو کو بھی اس کا رب خوب جانتا ہے۔ انسان کے من موجی چنچل دل کو بھی وہ خوب جانتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ پیش بندیاں کیا ہیں جن سے طمع و حرص کے دروازے بند کیے جاسکتے ہیں اوراس کی شخصیت میں نکھار اوراس کے کردار میں مضبوطی آسکتی ہے۔ اس کی حیات میں سدھار اوراس کی زندگی سے آشنا ہوسکتی ہے۔ یہ اور ایسی ساری چیزوں کا احاطہ ہمارے مالک نے اپنی کتاب میں بڑے احسن طریقے سے کررکھا ہے۔

رب تعالیٰ نے الکتاب سے استفادہ کے لئے جن دو شرطوں کو مقدم کیا ہے، اُن میں سے ایک تو یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی سب سے بڑی نعمت یعنی اُسے بخشی گئی عقل یا ذہانت یا عقل عام کو استعمال میں لائے اور دوسرے یہ کہ رسول اکرم صلى الله علیہ وسلم کے پیش کردہ نظام اور اُن کے اخلاق و کردار کی پیروی اور ان کے اُسوہٴ حسنہ کی اتباع کرے۔ کتابِ ہدایت کا کمال یہ ہے کہ ایک ایک انسان کی فرداً فرداً تربیت کرتی ہے، تاکہ ایسے افراد پر مشتمل ایک ایسا گروہ تیار ہوجائے جو اپنی ذمہ داری کے احساس سے مزین ہو، اپنے فرائض سے اُسے واقفیت ہوجائے۔ اس میں دوسروں کے حقوق ادا کرنے کا سلیقہ آئے۔ اس لئے کہ کلام اللہ میں انسان کو بتادیا گیا ہے کہ کیا کیا کرنا ہے اور کیا کیا نہیں کرنا ہے۔ تسلسل کے ساتھ ذاتی تلاوت میں، نمازوں میں، خطبات میں، تراویح میں، عیدین میں، غرض کہ ہر لحظہ اور ہر مقام پر اس کے کانوں سے یہ یاد دہانی گذرتی ہی رہے۔ تاکہ ہر فرد اپنی ذات کی حد تک اپنی گمراہیوں کودفع بھی کرتا رہے اور اپنے سدھار کے سامان بھی وہ خود ہی کرتا رہے۔ اس لئے کہ انسان اپنا محتسب آپ ہے۔ وہ خود کو اچھی طرح پہچانتا ہے۔ سورہ القیامہ میں چودہ اور پندرہ نمبر کی آیت میں فرمایاگیا: ”انسان کو اپنے آپ پر پوری بصیرت حاصل ہے۔ یہ بات دیگر ہے کہ وہ عذر، تاویلات اور بہانے پیش کرتا رہتا ہے۔“

کوئی بیرونی قوت یا قانون کا کوئی شکنجہ انسان کو سدھارنے میں کبھی مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوا۔ ایک ہی طریقہ ایسا ہے جس کے سبب اس میں کامیابی کا فیصد بڑھ سکتا ہے اور وہ ہے، انسان کا خود اپنی جانب سے اپنی ذات کا احتساب! اگر وہ خود چاہے تو اس کی اصلاح ممکن ہے۔ یہی ہے جسے کتاب اللہ میں ”تقویٰ“ کا نام دیاگیا ہے۔ اس کا عملی نمونہ بھی کتاب اللہ نے پیش کیا ہے۔ روزہ جیسی عبادت کو فرض کرتے ہوئے سورة البقرة میں فرمایا: ”روزے کے عمل سے تم میں تقویٰ کا سلیقہ آئے گا۔“ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو انسان خود ہی اپنے نفس اور اپنی خواہشات پر خود ہی پابندی لگاکر ہی پورا کرسکتا ہے۔ ایک انسان کو روزہ پورا کروانے پر دنیا کی کوئی طاقت، کوئی قانون اور کوئی پولیس قادر نہیں ہوسکتی۔

تقویٰ، احتساب اور اپنی ذات کے تجزیہ کا عمل، ایک عمل مسلسل ہے۔ احتساب کے مراحل کا آغاز اگر زندگی میں جاری نہیں ہوا ہے تو انہیں جاری کرنا ہوگا۔ از خود اپنی ذات پر پیش بندیاں و پابندیاں لگانی ہوں گی۔ اس طرح بصیرت اور عقل جیسی قدرتی نعمتوں کے استعمال کی ترغیب و تاکید کتاب اللہ میں ہمیں بار بار ملتی ہے اور ان کے صحیح استعمال کے سلسلے میں کی جانے والی لاپرواہی پر رب تعالیٰ کی ناراضی بھی ہمارے سامنے ہے۔ اپنی شخصیت کے نکھار کے لئے، اپنی ذات کی تعمیر کے لئے ایک نسخہ، ذہانت کی شکل میں سارے انسانوں کو دیاگیا ہے۔ ہر شخص اپنی عقل کی صلاحیت کا، عقل عام کا اور ذہانت کا بھرپور استعمال کرے۔ عقل کے استعمال کے ساتھ اللہ کی کتاب اور نبی کریم صلى الله علیہ وسلم کا اسوہٴ حسنہ اور کردار سامنے ہوتو نہ صرف ہماری یہ دنیا کردار کے حسن وجمال سے آراستہ ہوجائے گی بلکہ دنیا کے ساتھ ساتھ، ہماری آخرت بھی سنور جائے گی۔ (از: عزیز بلگامی) 

عقل میں اضافہ کیسے کریں؟؟؟

حضرت امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ چارچیزیں جسم میں توانائی پیدا کرتی ہیں، حلال گوشت کھانا، خوشبو سونگھنا، غسل کرنا اور سوتی کپڑا پہننا-

٭ چارچیزیں بصارت تیز کرتی ہیں، خانۂ کعبہ کے سامنے بیٹھنا، سوتے وقت سُرمہ لگانا، سبزہ زار دیکھنا اور صاف ستھری جگہ پربیٹھنا- 

٭چارچیزیں عقل میں اضافے کا سبب ہیں، فضول گوئی سے پرہیز، دانت صاف رکھنا، صالحین کی مجلس میں بیٹھنا اور علمائے کرام کی صحبت اختیارکرنا-

٭چار چیزیں رزق کشادہ کرتی ہیں، تہجد کی نماز، کثرت سے استغفار، صدقہ دینا اور ذکرِالہٰی میں مشغول رہنا-

سوال: ہمیں پتہ ہے کہ دماغ پوری باڈی کو کنٹرول کرتا ہے ۔ میرا سوال یہ ہے کہ دماغ کو خود کون کنٹرول کرتا ہے ؟

جواب: آپ اس کو اس طرح سے سمجھیں کے دماغ کوئی بادشاہ یا مطلق العنان نہیں ہے، جو کہ اپنا حکم کی چلائے گا، بلکہ دماغ جسم کے دو حصوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ دماغ جسم کے ایک حصے سے انفارمیشن لے گا، اس انفارمیشن کو پروسس کرے گا، اور پھر جسم کے کسی دوسرے حصے کو سگنل بھیجے گا  کہ اس انفارمیشن کے مطابق کوئی خاص کام انجام دے۔ سو دماغ اپنی مرضی سے کوئی حکم نہیں دیتا، بلکہ جسم کے حصوں کو اندر اور باہر سے ملنے والی انفارمیشن کے مطابق جسم کے مختلف اعضاء کے درمیان رابطہ بناتا ہے۔ فرض کریں کہ آپ ایک گرم جگہ پر ہیں، تو اپ کے جسم سے ہی دماغ کو درجہ حرارت بڑھنے کا سگنل جائے گا، اور دماغ "سویٹ گلینڈز" کو سگنل دے گا جو کہ پسینہ خارج کریں گے، سو دماغ کو جسم کے ایک عضو سے جیسا سگنل آیا اسی کے مطابق دماغ نے دوسرے حصے کو کام کرنے کا سگنل دیا۔ آپ کا بلڈ شوگر لیول نیچے جائے گا، یا آپ کا معدہ خالی ہوگا تب ہی آپ کے دماغ کو سگنل جائے گا اور تب ہی دماغ بھوک کی کیفیت پیدا کرے گا اور جب آپ کھانا کھالیں گے تو یہ کیفیت ختم ہوجائے گی۔ آپ کی آنکھیں کوئی خطرہ دیکھیں گی، آپکے کان کوئی خطرے والی آواز سنیں گے، تب پی آپ کا دماغ آپ کے دل کی دھڑکن کو بڑھنے کا سگنل دے گا۔ سو اس طرح دماغ حکم چلانے سے زیادہ جسم میں رابطہ کروانے کا کام کرتا ہے۔اسی طرح آپکے ہارمنونز بھی دماغ کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں، عصبی نظام/ نروس سسٹم اور ہارمونل نظام مل کر جسم میں رابطہ پیدا کرتے ہیں اور مختلف عوامل کرواتے ہیں، اور ساتھ ہی ایک دوسرے پر بھی اثر کرتے ہیں۔۔۔

S_A_Sagar#

https://saagartimes.blogspot.com/2022/05/blog-post.html