Tuesday, 10 July 2018

طلاق بالکتابہ میں بیوی کا حاضر اور غائب ہونا یکساں اور برابر ہے

طلاق بالکتابہ میں بیوی کا حاضر اور غائب ہونا یکساں اور برابر ہے
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
آپ حضرات کے علم میں ہوگا، کہ تحریری طلاق کے سلسلہ میں پہلے تمام کتب فتاوی میں بالتصریح موجود ہے، کہ طلاق بالکتابہ کی شرط بیوی کی "عدم حضوری "ہے، یعنی بیوی سامنے موجود نہ ہو، اگر سامنے موجود ہوگی، تو طلاق بالکتابہ معتبر نہ ہوگی!
یہی فتاوی محمودیہ، فتاوی دارالعلوم دیوبند، رحیمیہ، نظام الفتاوی، وغیرہ میں سب میں موجود ہے،
لیکن پچھلے ماہ دارالعلوم دیوبند سے اسی بابت ایک فتوی دیا گیا ہے، جس میں پچھلے تمام فتاوی سے رجوع ہے، اب دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم کراچی، دارالعلوم زکریا (افریقہ)  جیسے عظیم اداروں کا یہی فتوی ہے، طلاق بالکتابہ میں بیوی کا حاضر اور غائب ہونا یکساں اور برابر ہے،
ـــــ فریدی القاسمی ـــــــ
فتاوی دارالعلوم دیوبند ـــ
بسم اللہ الرحمن الرحیم: طلاق بالکتابۃ کے مسئلہ میں عورت کی موجودگی وعدم موجودگی کے بارے میں گذشتہ شعبان میں دار العلوم دیوبند سے ایک فتوی جاری ہوا ہے، جس میں سابقہ رائے سے رجوع کرلیا گیا ہے، اس کی نقل پیش خدمت ہے۔ رجوع کی وجہ یہ رہی کہ اس سلسلہ میں حضرت مولانا تھانویؒ کی الطرائف والظرائف میں حضرت ،ولانا مفتی محمد عزیز الرحمن صاحب دیوبندیؒ مفتی اول وسابق مفتی اعظم دار العلوم دیوبند نے حضرت تھانویؒ کے کسی سوال کے جواب میں یہی تحریر فرمایا ہے کہ طلاق بالکتابۃ میں وقوع طلاق کے لیے عورت کا سامنے موجود نہ ہونا شرط نہیں ہے اور یہ بھی نقل فرمایا کہ یہی رائے حضرت شیخ الہندؒ اور علامہ انور شاہ کشمیریؒ کی بھی ہے۔ نیز طلاق بالکتابۃ کے مسئلہ پر فقہ کی کتابوں میں عام طور پر دو جگہ بحث کی جاتی ہے؛ ایک کتاب الطلاق میں  اور دوسرے کتاب الخنثی کے بعد مسائل شتی میں اور الدر المنتقی میں مسائل شتی کے تحت جو مسائل وجزئیات ذکر کی گئی ہیں، ان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ طلاق بالکتابہ کے باب میں غائب اور حاضر کا فرق نہیں ہونا چاہیے۔؛ اس لیے اب دار العلوم دہوبند کا فتوی یہی ہے کہ عورت کی موجودگی میں بھی لکھ کر طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجائے گی۔
حررہ مفتی نعمان سیتا پوری
دارالافتاء دیوبند
بتاریخ 8 جولائ 2018
ــــــــ ـــــــــ ـــــــــ ــــــــــ ـــــــــ
فتاوی دارالعلوم کراچی  (جامعہ کی ویب پر)  رجسٹر شدہ شکل میں موجود ہے اور فتاوی دارالعلوم زکریا میں تو تفصیل موجود ہی ہے ـــــــ
آپ اس فتوی کو خوب عام کریں ـــ تاکہ ارباب فقہ وفتاوی اور تشنگان علم تک یہ جدید فتوی (رجوع نامہ) پہنچ جائے، اللہ تعالی آپ کا حامی وناصر ہو،
ــــــــ فریدی القاسمی ـــــــــ

No comments:

Post a Comment