ایس اے ساگر
حضرت حکیم لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کیلئے نصیحتیں زبان زد عام ہیں جن میں آپ فرماتے ہیں کہ ...
حضرت حکیم لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کیلئے نصیحتیں زبان زد عام ہیں جن میں آپ فرماتے ہیں کہ ...
بیٹا زیادہ تر عالموں کی محفلوں میں بیٹھا کرو اور دانائوں کی باتوں کو غور سے سنا کرو۔
بیٹا ہمیشہ سچ کو اپنا پیشہ بنا لو، جو شخص جھوٹ بولتا ہے اس کا چہرہ بے رونق ہو جاتا ہے۔
جنازے کی نماز میں شرکت کیا کرو اور دعوتوں اور عیش عشرت کی محفلوں سے ہمیشہ اپنے آپ کو بچا کر رکھو۔
بیٹا کوئی چیز پیٹ بھر کر مت کھاو، کیونکہ اس سے عبادت میں سستی پیدا ہوتی ہے،
بیٹا کسی جاہل کو اپنا دوست مت بناو اور کسی دانا کو اپنا دشمن مت بناو۔
بیٹا اپنے کاموں میں ہمیشہ علمائے کرام سے ضرور مشورہ کر لیا کرو۔
بیٹا باپ کی ڈانٹ ڈپٹ اولاد کیلئے اس طرح ہے جس طرح کھیتوں کیلئے پانی۔
بیٹا قرض لینے سے اپنے آپ کو بچاو، کیونکہ قرض دن کی رسوائی ہے اور رات کا غم۔
بیٹا اگر کوئی شخص تمہارے سامنے کسی کی شکایت کرے کہ فلاں نے میری آنکھ اندھی کر دی ہے تو جب تک تم دوسرے کی بات نہ سن لو اس وقت تک یقین نہ کرنا کیونکہ ممکن ہے کہ اس شخص نے اس کی دونوں آنکھیں پہلے ہی نکال دی ہوں.
لیکن ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو لفظ حکیم کی وجہ سے پوچھ بیٹھتے ہیں کہ کیا حضرتِ لقمان علیہ السلام علاج معالجہ کرنے والے حکیم تھے؟
دراصل حکمت سے مراد اسلام کی سمجھ ہے. قرآن پاک میں وارد سورۃ لقمان، آیت نمبر 12 کی تفسیر کیلئے تفسیر ابن کثیر سے رجوع کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ...
وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ ۚ وَمَنْ يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ
ترجمہ: اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی۔ کہ خدا کا شکر کرو۔ اور جو شخص شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے۔ اور جو ناشکری کرتا ہے تو خدا بھی بےپروا اور سزاوار حمد (وثنا) ہے
تفسیر...حضرت لقمان نبی تھے یا نہیں؟ اس میں سلف کا اختلاف ہے کہ حضرت لقمان نبی تھے یا نہ تھے؟
اکثر حضرات فرماتے ہیں کہ آپ نبی نہ تھے پرہیزگار ولی اللہ اور اللہ کے پیارے بزرگ بندے تھے۔
ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ آپ حبشی غلام تھے اور بڑھئی تھے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے جب سوال ہوا تو آپ نے فرمایا حضرت لقمان (علیہ السلام) پستہ قد اونچی ناک والے موٹے ہونٹ والے نبی تھے۔
سعید بن مسیب رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں آپ مصر کے رہنے والے حبشی تھے۔ آپ کو حکمت عطاہوئی تھی لیکن نبوت نہیں ملی تھی آپ نے ایک مرتبہ ایک سیاہ رنگ غلام حبشی سے فرمایا اپنی رنگت کی وجہ سے اپنے تئیں حقیر نہ سمجھ تین شخص جو تمام لوگوں سے اچھے تھے تینوں سیاہ رنگ تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ جو حضور رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے۔ حضرت مجع جو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے غلام تھے اور حضرت لقمان حکیم علیہ السلام جو حبشہ کے نوبہ تھے۔
حضرت خالد ربعی کا قول ہے کہ حضرت لقمان جو حبشی غلام بڑھی تھے ان سے ایک روز ان کے مالک نے کہا بکری ذبح کرو اور اس کے دو بہترین اور نفیس ٹکڑے گوشت کے میرے پاس لاؤ۔ وہ دل اور زبان لے گئے.
کچھ دنوں بعد ان کے مالک نے کہاکہ بکری ذبح کرو اور دو بدترین گوشت کے ٹکڑے میرے پاس لاؤ.
آپ آج بھی یہی دو چیزیں لے گئے.
مالک نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ بہترین مانگے تو بھی یہی لائے گئے اور بدترین مانگے گئے تو بھی یہی لائے گئے یہ کیا بات ہے؟
آپ نے فرمایا جب یہ اچھے رہے تو ان سے بہترین جسم کا کوئی عضو نہیں اور جب یہ برے بن جائے تو پھر سب سے بد تر بھی یہی ہیں۔
کچھ دنوں بعد ان کے مالک نے کہاکہ بکری ذبح کرو اور دو بدترین گوشت کے ٹکڑے میرے پاس لاؤ.
آپ آج بھی یہی دو چیزیں لے گئے.
مالک نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ بہترین مانگے تو بھی یہی لائے گئے اور بدترین مانگے گئے تو بھی یہی لائے گئے یہ کیا بات ہے؟
آپ نے فرمایا جب یہ اچھے رہے تو ان سے بہترین جسم کا کوئی عضو نہیں اور جب یہ برے بن جائے تو پھر سب سے بد تر بھی یہی ہیں۔
حضرت مجاہد رحمہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ حضرت لقمان بنی نہ تھے نیک بندے تھے۔ سیاہ فام غلام تھے موٹے ہونٹوں والے اور بھرے قدموں والے .
اورایک بزرگ سے بھی یہ مروی ہے کہ بنی اسرائیل میں قاضی تھے۔
ایک اور قول ہے کہ آپ حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں تھے۔ ایک مرتبہ آپ کسی مجلس میں وعظ فرما رہے تھے کہ ایک چرواہے نے آپ کو دیکھ کر کہا کیا تو وہی نہیں ہے جر میرے ساتھ فلاں فلاں جگہ بکریاں چریاکرتا تھا ؟
آپ نے فرمایا، ہاں میں وہی ہوں.
اس نے کہا ،پھر تجھے یہ مرتبہ کیسے حاصل ہوا؟ فرمایا،
1. سچ بولنے
اور
2. بے کار کلام نہ کرنے سے ۔
اور روایت میں بھی وارد ہے کہ آپ نے اپنی بلندی کی وجہ یہ بیان کی کہ اللہ کافضل اور امانت کی ادائیگی اور کلام کی سچائی اور بے نفع کاموں کو چھوڑ دینا۔ الغرض ایسے ہی آثار صاف ہیں کہ آپ نبی نہ تھے۔
آپ نے فرمایا، ہاں میں وہی ہوں.
اس نے کہا ،پھر تجھے یہ مرتبہ کیسے حاصل ہوا؟ فرمایا،
1. سچ بولنے
اور
2. بے کار کلام نہ کرنے سے ۔
اور روایت میں بھی وارد ہے کہ آپ نے اپنی بلندی کی وجہ یہ بیان کی کہ اللہ کافضل اور امانت کی ادائیگی اور کلام کی سچائی اور بے نفع کاموں کو چھوڑ دینا۔ الغرض ایسے ہی آثار صاف ہیں کہ آپ نبی نہ تھے۔
بعض روایتیں اور بھی ہیں جن میں گو صراحت نہیں کہ آپ نبی نہ تھے لیکن ان میں بھی آپ کا غلام ہونا بیان کیا گیا ہے جو ثبوت ہے اس امر کا کہ آپ نبی نہ تھے کیونکہ غلامی نبوت کے منافی ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام عالی نسب اور عالی خاندان کے ہواکرتے تھے۔ اسی لئے جہمور سلف کا قول ہے کہ حضرت لقمان نبی نہ تھے۔
ہاں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نبی تھے لیکن یہ بھی جب کے سند صحیح ثابت ہوجائے لیکن اسکی سند میں جابر بن یزید جعفی ہیں جو ضعیف ہیں۔ واللہ اعلم ۔
کہتے ہیں کہ حضرت لقمان حکیم علیہ السلام سے ایک شخص نے کہا کیا تو بنی حسحاس کا غلام نہیں؟ آپ نے فرمایا،
ہاں ہوں۔
اس نے کہا، تو بکریوں کا چرواہا نہیں؟
آپ نے فرمایا ہاں ہوں۔
کہا گیا تو سیاہ رنگ نہیں؟
آپ نے فرمایا ظاہر ہے میں سیاہ رنگ ہوں، تم یہ بتاؤ کہ تم کیا پوچھنا چاہتے ہو؟
اس نے کہا کہ یہی پھر وہ کیا ہے ؟ کہ تیری مجلس پر رہتی ہے ؟ لوگ تیرے دروازے پر آتے ہیں تری باتیں شوق سے سنتے ہیں ۔
آپ نے فرمایا، سنو بھائی جو باتیں میں تمہیں کہتا ہوں ان پر عمل کرلو تو تم بھی مجھ جیسے ہوجاؤگے۔
آنکھیں حرام چیزوں سے بند کرلو۔
زبان بیہودہ باتوں سے روک لو۔
مال حلال کھایاکرو۔
اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو۔
زبان سے سچ بات بولا کرو۔
وعدے کو پورا کیا کرو۔
مہمان کی عزت کرو۔
پڑوسی کا خیال رکھو۔
بے فائدہ کاموں کو چھوڑ دو۔
انہی عادتوں کی وجہ سے میں نے بزرگی پائی ہے۔
ہاں ہوں۔
اس نے کہا، تو بکریوں کا چرواہا نہیں؟
آپ نے فرمایا ہاں ہوں۔
کہا گیا تو سیاہ رنگ نہیں؟
آپ نے فرمایا ظاہر ہے میں سیاہ رنگ ہوں، تم یہ بتاؤ کہ تم کیا پوچھنا چاہتے ہو؟
اس نے کہا کہ یہی پھر وہ کیا ہے ؟ کہ تیری مجلس پر رہتی ہے ؟ لوگ تیرے دروازے پر آتے ہیں تری باتیں شوق سے سنتے ہیں ۔
آپ نے فرمایا، سنو بھائی جو باتیں میں تمہیں کہتا ہوں ان پر عمل کرلو تو تم بھی مجھ جیسے ہوجاؤگے۔
آنکھیں حرام چیزوں سے بند کرلو۔
زبان بیہودہ باتوں سے روک لو۔
مال حلال کھایاکرو۔
اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو۔
زبان سے سچ بات بولا کرو۔
وعدے کو پورا کیا کرو۔
مہمان کی عزت کرو۔
پڑوسی کا خیال رکھو۔
بے فائدہ کاموں کو چھوڑ دو۔
انہی عادتوں کی وجہ سے میں نے بزرگی پائی ہے۔
ابوداؤد رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں حضرت لقمان حکیم کسی بڑے گھرانے کے امیر اور بہت زیادہ کنبے قبیلے والے نہ تھے۔ ہاں ان میں بہت سی بھلی عادتیں تھیں۔ وہ خوش اخلاق خاموش غوروفکر کرنے والے گہری نظر والے دن کو نہ سونے والے تھے۔ لوگوں کے سامنے تھوکتے نہ تھے نہ پاخانہ پیشاب اور غسل کرتے تھے لغوکاموں سے دور رہتے ہنستے نہ تھے جو کلام کرتے تھے حکمت سے خالی نہ ہوتا تھا جس دن ان کی اولاد فوت ہوئی یہ بالکل نہیں روئے۔ وہ بادشاہوں امیروں کے پاس اس لئے جاتے تھے کہ غوروفکر اور عبرت ونصیحت حاصل کریں۔ اسی وجہ سے انہیں بزرگی ملی۔
حضرت قتادۃ سے ایک عجیب اثر وارد ہے کہ حضرت لقمان کو حکمت ونبوت کے قبول کرنے میں اختیار دیا گیا تو آپ نے حکمت قبول فرمائی، راتوں رات ان پر حکمت برسادی گئی اور رگ وپے میں حکمت بھر دی گئی ۔ صبح کو ان کی سب باتیں اور عادتیں حکیمانہ ہوگئیں۔
آپ سے سوال ہوا کہ آپ نے نبوت کے مقابلے میں حکمت کیسے اختیار کی ؟ تو جواب دیا کہ اگر اللہ مجھے نبی بنادیتا تو وہ اور بات تھی ممکن تھا کہ منصب نبوت کو میں نبھاجاتا۔ لیکن جب مجھے اختیاردیا گیا تو مجھے ڈر لگا کہ کہیں ایسا نہ کہ میں نبوت کا بوجھ نہ سہارسکوں۔ اس لئے میں نے حکمت ہی کو پسند کیا۔ اس روایت کے ایک راوی سیعد بن بشیر ہیں جن میں ضعف ہے واللہ اعلم۔
آپ سے سوال ہوا کہ آپ نے نبوت کے مقابلے میں حکمت کیسے اختیار کی ؟ تو جواب دیا کہ اگر اللہ مجھے نبی بنادیتا تو وہ اور بات تھی ممکن تھا کہ منصب نبوت کو میں نبھاجاتا۔ لیکن جب مجھے اختیاردیا گیا تو مجھے ڈر لگا کہ کہیں ایسا نہ کہ میں نبوت کا بوجھ نہ سہارسکوں۔ اس لئے میں نے حکمت ہی کو پسند کیا۔ اس روایت کے ایک راوی سیعد بن بشیر ہیں جن میں ضعف ہے واللہ اعلم۔
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مراد حکمت سے اسلام کی سمجھ ہے ۔ حضرت لقمان نہ نبی تھے نہ ان پر وحی آئی تھی پس سمجھ علم اور عبرت مراد ہے۔ ہم نے انہیں اپنا شکر بجالانے کا حکم فرمایا تھا کہ میں نے تجھے جو علم ووعقل دی ہے اور دوسروں پر جو بزرگی عطا فرمائی ہے۔ اس پر تو میری شکر گزاری کر۔ شکر گذار کچھ مجھ پر احسان نہیں کرتا وہ اپناہی بھلاکرتا ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے ومن عمل صالحا فلانفسھم یمھدون نیکی والے اپنے لئے بھی بھلا توشہ تیار کرتے ہیں۔ یہاں فرمان ہے کہ اگر کوئی ناشکری کرے تو اللہ کو اسکی ناشکری ضرر نہیں پہنچاسکتی وہ اپنے بندوں سے بے پرواہ ہے سب اس کے محتاج ہیں وہ سب سے بے نیاز ہے ساری زمین والے بھی اگر کافر ہوجائیں تو اس کا کچھ نہیں بگاڑسکتے وہ سب سے غنی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ہم اس کے سواکسی اور کی عبادت نہیں کرتے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
لقمان علیہ السلام کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے۔ آپ حضرت ایوب علیہ السلام کے بھانجے یا خالہ زاد بھائی تھے۔ تقریباً ایک ہزار برس عمر پائی تھی۔ آپ نے حضرت داؤد علیہ السلام کا زمانہ نبوت پایا تھا۔ ان سے ملاقات بھی کی تھی اور علم بھی حاصل کیا تھا۔ آپ حضرت داؤد علیہ السلام کی بعثت تک فتویٰ دیا کرتے تھے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ بنی اسرائیل کے قاضی تھے اور مصر کے رہنے والے تھے۔ آپ کے پیشہ کے متعلق مختلف آراء ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ آپ ترکھان تھے یا چرواہے، درزی، دربان یا مالی تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ غلام تھے اور آپ کے آقا بدلتے رہتے تھے۔ لہذا جس آقا نے جس کام پرلگادیا ہو گا اس پر لگ گئے ہوں گے۔
حضرت لقمانعلیہ السلام نے ایک باغ میں نوکری کر لی۔ مالک باغ میں آیا اور ان سے ککڑیاں منگائیں اور اس کو تراش کر ایک ٹکڑا ان کو دیا۔ یہ بے تکلف کھاتے رہے۔ اس نے یہ دیکھ کر کہ یہ بڑے مزے سے کھارہے ہیں سمجھا کہ ککڑی نہایت لذیز ہے۔ ایک قاش اپنے منہ میں رکھ لی تو وہ کڑوی زہر تھی۔ فوراً تھوک دیا اور بہت منہ بنایا۔پھر کہا: اے لقمان! تم تو اس ککڑی کو بڑے مزے سے کھا رہے ہو، یہ تو کڑوی زہر ہے۔
کہا: جی ہاں کڑوی تو ہے۔
اس پر مالک نے کہا پھر تم نے کیوں نہیں کہا کہ یہ کڑوی ہے۔
آپ نے فرمایا میں کیسے کہتا۔ مجھے یہ خیال ہوا کہ جس ہاتھ سے ہزاروں دفعہ مٹھائی کھائی ہے اگر اس ہاتھ سے ایک دفعہ کڑوی چیز ملی تو اس کو کیا منہ پر لاؤں۔
حضرت لقمان علیہ السلام کی تعلیمات
حضرت لقمان علیہ السلام کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ :
’’اے بیٹا! جب کسی صحبت میں جاؤ تو لوگوں کو سلام کر کے بیٹھ جاؤ۔ اگر وہ لوگ خدا کے ذکر میں مشغول ہوں توٹھہر جاؤ۔ اور اگر کسی اور کے ذکر میں مصروف ہوں تو ان کی صحبت چھوڑ دو۔ اور دامن جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہو۔
اے بیٹا! برے لوگوں سے پناہ مانگتے رہو۔ اور جو اچھے ہیں ان سے بھی ڈرتے رہو۔ دنیا میں نہ پھنسو اور اپنے دل کو اس میں نہ لگاؤ۔
کیونکہ تم دنیا کے لئے نہیں پیدا کئے گئے۔
اے بیٹا! جو کوئی دوسروں پر رحم کرتا ہے، خود اس پر بھی رحم کیا جاتا ہے۔ جو خاموش رہتا ہے، امن میں رہتا ہے۔ جو اچھی بات کہتا ہے، اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ جو شخص جھوٹ بولتا ہے، گنہگار ہے۔ جو زبان اپنے قابو میں نہیں رکھتا، ندامت اٹھاتا ہے۔ اے بیٹا!
برگزیدہ علماء کی صحبت میں گھٹنوں کے بل جاؤ اور ان کی خدمت میں خاموش بیٹھ کر کان لگاؤ۔ اس لئے کہ علماء کے نور سے دل اس طرح زندہ ہو جاتا ہے جس طرح مردہ زمین آسمان کے مینہ سے ہو جاتی ہے۔‘‘
قرآن کریم میں ارشاد ہے
’’اور اے رسول وہ وقت یاد کیجئے کہ جب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اللہ کا شریک کسی کو مت بناؤ کیونکہ شرک بڑا سخت گناہ ہے۔
اور اے رسول اس وقت کے آنے سے پہلے جو خدا کی طرف سے ٹل نہیں سکتا۔ اپنا منہ صحیح دین پر قائم رکھنا۔ اس روز سب لوگ الگ الگ ہو جائیں گے۔ اور ہم آپ سے پہلے لقمان کو حکمت دے چکے ہیں اور ہم نے اس سے کہا کہ اللہ کا شکر ادا کرو۔ اور جو کوئی شکر ادا کرے گا اپنے ہی بھلے کے لئے کرے گا۔ اور جو کوئی ناشکری کرے تو اللہ تعالیٰ بے پرواہ ہے، خوبیوں والا ہے اور ہم نے آدمی کو ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔‘‘
حضرت لقمان علیہ السلام کی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم نبوت سے سرفراز کیا تھا۔ حضرت لقمان علیہ السلام ایک ہزار برس پورے کر کے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ حضرت لقمان علیہ السلام کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جڑی بوٹیوں میں خاصیت کا علم عطا کیا تھا۔ اور جڑی بوٹیاں انہیں اپنی اپنی خاصیت سے آگاہ کرتی تھیں۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے علم طب کی تدوین کی۔ دواؤں کی خاصیت اور ان کے استعمال کے طریقے بتائے۔ حضرت لقمان علیہ السلام کے قصے سے اس بات کا علم حاصل ہوتا ہے کہ شکر کا مطلب استعمال ہے۔ اگر حضرت لقمان علیہ السلام حکمت و دانائی کو استعمال نہ کرتے اور لوگوں تک علم منتقل نہ کرتے اور صرف زبان سے یا اللہ تیرا شکر یا اللہ تیرا شکر کرتے رہتے تو شکر کا تقاضا پورا نہ ہوتا۔
مثال: اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین لباس عطا فرمائیں اور آپ اسے الماری میں سجا کر رکھ دیں۔ زیب تن نہ کریں تو شکر کا مفہوم پورا نہیں ہوگا۔ لباس کو پہنیں، آرام پائیں، خوش ہوں اور اللہ کا شکر ادا کریں۔ یہی شکر ہے۔
حوالۂ کتاب : محمد رسول اللہ ﷺ (سوئم)
ایک انگریز نے قرآن کے مطالعہ کے بعد کہا تھا کہ
Burn all the libraries, for their khowledge is in the Quran
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اقدس، صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم کی سیرت اورافکار، تابعین اور تبع تابعین رحم اللہ عنہم کے افکار اور اولیا اکرام، صوفیااکرام اور مفکرین اسلام رحم اللہ عنہم کی حکمت و دانائی کے ذخائر مسلمانوں کی میراث ہیں۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
لقمان علیہ السلام کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے۔ آپ حضرت ایوب علیہ السلام کے بھانجے یا خالہ زاد بھائی تھے۔ تقریباً ایک ہزار برس عمر پائی تھی۔ آپ نے حضرت داؤد علیہ السلام کا زمانہ نبوت پایا تھا۔ ان سے ملاقات بھی کی تھی اور علم بھی حاصل کیا تھا۔ آپ حضرت داؤد علیہ السلام کی بعثت تک فتویٰ دیا کرتے تھے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ بنی اسرائیل کے قاضی تھے اور مصر کے رہنے والے تھے۔ آپ کے پیشہ کے متعلق مختلف آراء ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ آپ ترکھان تھے یا چرواہے، درزی، دربان یا مالی تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ غلام تھے اور آپ کے آقا بدلتے رہتے تھے۔ لہذا جس آقا نے جس کام پرلگادیا ہو گا اس پر لگ گئے ہوں گے۔
حضرت لقمانعلیہ السلام نے ایک باغ میں نوکری کر لی۔ مالک باغ میں آیا اور ان سے ککڑیاں منگائیں اور اس کو تراش کر ایک ٹکڑا ان کو دیا۔ یہ بے تکلف کھاتے رہے۔ اس نے یہ دیکھ کر کہ یہ بڑے مزے سے کھارہے ہیں سمجھا کہ ککڑی نہایت لذیز ہے۔ ایک قاش اپنے منہ میں رکھ لی تو وہ کڑوی زہر تھی۔ فوراً تھوک دیا اور بہت منہ بنایا۔پھر کہا: اے لقمان! تم تو اس ککڑی کو بڑے مزے سے کھا رہے ہو، یہ تو کڑوی زہر ہے۔
کہا: جی ہاں کڑوی تو ہے۔
اس پر مالک نے کہا پھر تم نے کیوں نہیں کہا کہ یہ کڑوی ہے۔
آپ نے فرمایا میں کیسے کہتا۔ مجھے یہ خیال ہوا کہ جس ہاتھ سے ہزاروں دفعہ مٹھائی کھائی ہے اگر اس ہاتھ سے ایک دفعہ کڑوی چیز ملی تو اس کو کیا منہ پر لاؤں۔
حضرت لقمان علیہ السلام کی تعلیمات
حضرت لقمان علیہ السلام کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ :
’’اے بیٹا! جب کسی صحبت میں جاؤ تو لوگوں کو سلام کر کے بیٹھ جاؤ۔ اگر وہ لوگ خدا کے ذکر میں مشغول ہوں توٹھہر جاؤ۔ اور اگر کسی اور کے ذکر میں مصروف ہوں تو ان کی صحبت چھوڑ دو۔ اور دامن جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہو۔
اے بیٹا! برے لوگوں سے پناہ مانگتے رہو۔ اور جو اچھے ہیں ان سے بھی ڈرتے رہو۔ دنیا میں نہ پھنسو اور اپنے دل کو اس میں نہ لگاؤ۔
کیونکہ تم دنیا کے لئے نہیں پیدا کئے گئے۔
اے بیٹا! جو کوئی دوسروں پر رحم کرتا ہے، خود اس پر بھی رحم کیا جاتا ہے۔ جو خاموش رہتا ہے، امن میں رہتا ہے۔ جو اچھی بات کہتا ہے، اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ جو شخص جھوٹ بولتا ہے، گنہگار ہے۔ جو زبان اپنے قابو میں نہیں رکھتا، ندامت اٹھاتا ہے۔ اے بیٹا!
برگزیدہ علماء کی صحبت میں گھٹنوں کے بل جاؤ اور ان کی خدمت میں خاموش بیٹھ کر کان لگاؤ۔ اس لئے کہ علماء کے نور سے دل اس طرح زندہ ہو جاتا ہے جس طرح مردہ زمین آسمان کے مینہ سے ہو جاتی ہے۔‘‘
قرآن کریم میں ارشاد ہے
’’اور اے رسول وہ وقت یاد کیجئے کہ جب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اللہ کا شریک کسی کو مت بناؤ کیونکہ شرک بڑا سخت گناہ ہے۔
اور اے رسول اس وقت کے آنے سے پہلے جو خدا کی طرف سے ٹل نہیں سکتا۔ اپنا منہ صحیح دین پر قائم رکھنا۔ اس روز سب لوگ الگ الگ ہو جائیں گے۔ اور ہم آپ سے پہلے لقمان کو حکمت دے چکے ہیں اور ہم نے اس سے کہا کہ اللہ کا شکر ادا کرو۔ اور جو کوئی شکر ادا کرے گا اپنے ہی بھلے کے لئے کرے گا۔ اور جو کوئی ناشکری کرے تو اللہ تعالیٰ بے پرواہ ہے، خوبیوں والا ہے اور ہم نے آدمی کو ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔‘‘
حضرت لقمان علیہ السلام کی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم نبوت سے سرفراز کیا تھا۔ حضرت لقمان علیہ السلام ایک ہزار برس پورے کر کے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ حضرت لقمان علیہ السلام کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جڑی بوٹیوں میں خاصیت کا علم عطا کیا تھا۔ اور جڑی بوٹیاں انہیں اپنی اپنی خاصیت سے آگاہ کرتی تھیں۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے علم طب کی تدوین کی۔ دواؤں کی خاصیت اور ان کے استعمال کے طریقے بتائے۔ حضرت لقمان علیہ السلام کے قصے سے اس بات کا علم حاصل ہوتا ہے کہ شکر کا مطلب استعمال ہے۔ اگر حضرت لقمان علیہ السلام حکمت و دانائی کو استعمال نہ کرتے اور لوگوں تک علم منتقل نہ کرتے اور صرف زبان سے یا اللہ تیرا شکر یا اللہ تیرا شکر کرتے رہتے تو شکر کا تقاضا پورا نہ ہوتا۔
مثال: اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین لباس عطا فرمائیں اور آپ اسے الماری میں سجا کر رکھ دیں۔ زیب تن نہ کریں تو شکر کا مفہوم پورا نہیں ہوگا۔ لباس کو پہنیں، آرام پائیں، خوش ہوں اور اللہ کا شکر ادا کریں۔ یہی شکر ہے۔
حوالۂ کتاب : محمد رسول اللہ ﷺ (سوئم)
ایک انگریز نے قرآن کے مطالعہ کے بعد کہا تھا کہ
Burn all the libraries, for their khowledge is in the Quran
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اقدس، صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم کی سیرت اورافکار، تابعین اور تبع تابعین رحم اللہ عنہم کے افکار اور اولیا اکرام، صوفیااکرام اور مفکرین اسلام رحم اللہ عنہم کی حکمت و دانائی کے ذخائر مسلمانوں کی میراث ہیں۔
nice worked ,
ReplyDeletethat is very important knowledge for us