کامیابی وکامرانی کا راستہ
یہاں سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کا مشہور ارشاد جسے محب طبری رحمة اللہ علیہ نے ’’الریاض النضرۃ‘‘ میں نقل کیا ہے، یاد آتا ہے:
’’لن یصلح آخر ھذہ الأمۃ إلاماصلح بہ أولھا‘‘۔
(الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ،الباب الثانی فی مناقب امیر المومنین ابی حفص عمرؓبن الخطاب، ج: ۲، ص:۴۰۲، ط: دارالکتب العلمیۃ بیروت)
’’اس امت کے آخری حصے کی اصلاح بھی بس اسی چیز سے ہوسکتی ہے جس سے اس کے پہلے حصہ کی اصلاح ہوئی۔‘‘ ربع صدی سے یہاں سب کچھ آزمایا جاچکا ہے، آیئے! اس جدید نظر یہ کو بھی آزمالیجئے:
فلک را سقف بشگافیم و طرح نو وراندازیم
نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے فرائضِ منصبی قرآن حکیم نے چار مقامات پر حضرت خاتم الا نبیاء جناب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے چار منصب بیان فرمائے ہیں:
۱:… آیات پڑھ کر سنانا۔
۲:… تز کیہ کرنا، یعنی کفر و شرک، بدعملی وبداخلاقی اور امورِ جاہلیت سے ان کو پاک وصاف کرنا۔
۳:… کتاب اللہ کے احکام کی تعلیم دینا اور اس کے مضامین کی تشریح کرنا۔
۴:… حکمت ودانائی، احکام کے علل وغایات اور شریعت کے اصول ومقاصد کی تعلیم دینا۔
تزکیہ سے مراد عقائد ونظر یات اور اعمال واخلاق کی پاکیزگی ہے، قرآن کریم نے تین مقامات پر تزکیہ کا ’تعلیم‘ سے مقدم ذکر فرمایا، جس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ بقدر ضرورت تزکیہ تعلیم سے پہلے ہونا چاہئے، تعلیم اسی وقت مفید اور بارآور ہوسکتی ہے جبکہ قلوب میں اس کے قبول کرنے کی اہلیت اور جذب کرنے کی صلاحیت موجود ہو، زمین کو پہلے کاشت کے قابل بنایا جائے، پھر تخم ریزی کی جائے، ورنہ وہی کیفیت ہوگی جو عارف شیرازی رحمة اللہ علیہ نے فرمائی:
باراں کہ در لطافت طبعش خلاف نیست در باغ لالہ روید و در شورہ بوم خس یہ تزکیہ
حضرت خاتم الا نبیاء صلى الله عليه وسلم کے فیضانِ صحبت اور مکارم اخلاق سے حاصل ہوتا تھا اور اب بھی بقدرِ استعداد اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں سے ربط وتعلق اور ان کی صحبت اور مجالست سے حاصل ہوسکتا ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ تعلیم کتاب وحکمت سے بھی اصل مقصود تزکیہ ہے، یہ نہ ہو تو ساری تعلیم بیکار ہے، اعمال واخلاق کے بغیر نرے علوم ومعارف کی حق تعالیٰ کے یہاں کوئی قدر نہیں، آدمی ساری دنیا کی کتابیں چاٹ لے، لیکن اگر انسانی اخلاق اور ایمانی اعمال نہیں تو پڑھا لکھا جانور تو ہوسکتا ہے مگر انسان کہلانے کا مستحق نہیں۔ تزکیہ کے بغیر نہ ایمان میں رسوخ کی کیفیت اور یقین واطمینان کی قوت پیدا ہوگی نہ اخلاق درست ہوسکیں گے، نہ اخلاص کی دولت ملے گی، نہ اعمال پر مداومت نصیب ہوگی، نہ اندر کا فرعون (مکار نفس) ہلاک ہوگا، نہ مخلوق سے لڑائی بند ہوگی۔
نفسِ ما ہم کم تر از فرعون نیست
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں:
’’تعلمنا الإیمان ثم تعلمنا القرآن‘‘
(سنن ابن ماجہ، المقدمۃ، باب فی الایمان، ص: ۷، ط: قدیمی)
کہ:
’’ہم نے پہلے ایمان سیکھا، پھر قرآن سیکھا۔‘‘
یہ ایمان کا سیکھنا ہی تزکیہ کہلاتا ہے کہ قلب غیراللہ کے بتوں سے پاک ہو، اعمال ریا وغیرہ سے پاک ہوں اور نفس کمینے اخلاق سے پاک ہو، معاشرہ امور جاہلیت سے پاک ہو، کمائی حرام اور مکروہ ذرائع سے پاک ہو، وغیر ذلک۔ یہی تزکیہ تھا جس کی وجہ سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی بشارتوں سے نوازا اور انہیں آسمانی وحی کی شہادت اور سند ملی۔ سورۂ فتح میں ان کے امتیازی اوصاف ذکر کرتے ہوئے ایک وصف باہمی رحمت وشفقت ذکر کیا گیا ہے:
’’رحماء بینھم‘‘
یہ وصف کامل تزکیہ کے بعد ہی حاصل ہوسکتا ہے اور اسی کو نہ سمجھنے کی خرابی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بدگمانی پیدا ہوتی ہے، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا پہلا وصف یہی بیان فرمایا:
’’أبرُّھم قلبًا‘‘
کہ ان کے دل بہت پاک صاف تھے، دوسرا وصف بیان فرمایا:
’’وأعمقھم علمًا‘‘ ان کا علم بڑا گہرا تھا، تیسرا وصف بیان فرمایا:
’’وأقلھم تکلفًا‘‘
ان کی زندگی تکلفات اور تصنع سے پاک تھی۔
(مشکوۃ،کتاب الایمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الثالث، ج:۱، ص:۳۲، ط: قدیمی)
حضراتِ صوفیاء اور اشاعت ِ دین حضرات صوفیاء کرام (رحمہم اللہ) جن کے ذریعہ دین کی تبلیغ واشاعت سلاطین کی تلوار اور علماء کے قلم سے بھی زیادہ ہوئی ہے، ان کا خاص موضوع یہی ہے کہ نفوس کی تربیت اور اخلاق کا تزکیہ کیا جائے، ان کے یہاں بھی تربیت کا ایک طریقہ یہ ہے کہ پہلے جذب ہو پھر سلوک، اسی کا نام مجذوب سالک رکھتے ہیں۔ بظا ہر یہ طریقہ اقرب الی القرآن ہوگا، البتہ قرآن کریم میں صرف ایک جگہ جہاں آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے بارے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا نقل فرمائی ہے، آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے ان چار مناصب میں سے تزکیہ کو کتاب وحکمت کی تعلیم کے بعد سب سے آخر میں رکھا ہے، اس سے ایک تو اس طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کا اول وآخری مقصد تزکیہ ہے، دوسرے اس طرف اشارہ ہے کہ تزکیہ بقدر ضرورت تو تعلیم سے پہلے ہونا چاہئے، مگر کا مل تزکیہ کی نوبت علم کے بعد ہی آسکتی ہے، یعنی علم کے بعد عمل ہوگا اور علم ہی ذریعہ بنے گا عمل کا، گویا اس آیت میں تربیت کا دوسرا طریقہ بیان فرمایا ہے جو حضرات صوفیاء کے یہاں سالک مجذوب کہلاتا ہے، لوگوں کی استعدادیں مختلف ہوتی ہیں، کسی کو تعلیم کے بعد بھی تزکیہ کی ضرورت رہتی ہے اور کسی کو تزکیہ کے بعد تعلیم کی حاجت ہوتی ہے۔ نہ تزکیہ کے مراتب ختم ہوتے ہیں، نہ تعلیم کی انتہا ہے۔ خلاصہ یہ کہ حضرت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا منصب صرف تعلیم اور سمجھانا ہی نہیں تھا، بلکہ اس کی تعمیل کروانا اور قوم کو ایک باعمل امت بنانا بھی تھا، جب تک آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے دیئے ہوئے نقشہ کے مطابق تعلیم وتر بیت پر محنت نہیں ہوتی اور افراد کی اصلاح کے ذریعہ ایک پاکیزہ اور صالح معاشرہ وجود میں نہیں آتا سیاسی محنت صحیح طریق پر بار آور نہیں ہوگی اور تمام قوتیں شر وفساد کی نذر ہوجائیں گی۔ اسلامی سیاست اور موجودہ سیاست دینی تر بیت کے فقدان ہی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ باوجود یکہ تمام زعماء اور سیاسی لیڈر اسلامی خدمت کا اعلان فرمارہے ہیں اور ملک وملت کی صحیح نمائند گی کا دم بھرتے ہیں، یقینا ان میں سے بعض حضرات مخلص بھی ہوں گے اور وہ اسلام کے نام کو محض اقتدار طلبی کے لئے استعمال نہیں کرتے ہوں گے، لیکن ان اسلامی نمائندوں کی اکثریت اس بات سے بھی واقف نہیں کہ جس اسلام کا ہم نام لیتے ہیں، اسی اسلام نے سیاست کے بھی کچھ آداب تجو یز کئے ہیں اور بے ہنگم سیاست بازی پر کچھ پابندیاں عائد کی ہیں، مثلاً موجودہ سیاست کی بنیاد ہی اس بات پر قائم ہے کہ ایک شخص اقتدار طلبی کے لئے کھڑا ہو، اپنی پارٹی بنائے، اپنا پروگرام قوم کے سامنے رکھے اور قوم سے اپیل کرے کہ اس کو ووٹ دے کر کرسیِ اقتدار پر فائز کیا جائے، اس کے بعد وہ جانے اور قوم کے مسائل۔ اب دیکھئے کہ اسلام اقتدار طلبی کے مزاج ہی کی جڑ کاٹ دیتا ہے، اسلام اقتدار کی خواہش کو پسند نہیں کرتا، بلکہ وہ یہ ذمہ داری معاشرہ پر ڈالتا ہے کہ وہ ایسے افراد کو آگے لائے جو:
’’لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِیْ الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا۔‘‘ (القصص:۸۳)
’’جو نہیں چاہتے زمین میں اونچا ہونا اور نہ فساد۔‘‘
کے معیار پر پورے اتریں۔ آنحضرت صلى اللہ عليه وسلم کسی ایسے شخص کو جو عہدہ کی درخواست لے کر آئے عہدہ نہیں دیتے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ہاتھ جوڑ جوڑکر اور منتیں کر کرکے حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو عہدے دیئے ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو عہدۂ قضاء کی پیش کش کی، انھوں نے انکار کیا، امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
تمہارے باپ نے بھی تو قبول کیا تھا،
عرض کیا: ان میں ہمت ہوگی مجھ میں نہیں،
امیرالمؤمنین نے منت وسماجت کی مگر ان کی معذرت غالب آگئی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
بہت اچھا مگر کسی اور کو نہ بتانا، ورنہ کوئی بھی اس کے لئے آمادہ نہ ہوگا۔ حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ کے ملفوظات میں ہے کہ شاہ عبد العز یز رحمة اللہ علیہ کا جامع مسجد دہلی میں وعظ تھا جس میں ایک انگریز بہادر بھی موجود تھا، تقریر کے بعد اس نے مسلمانوں سے سوال کیا کہ مسلمانوں کے ہاتھ سے سلطنت کیوں جاتی رہی؟
کسی نے کچھ جواب دیا، کسی نے کچھ،
اس نے کہا: میں بتاتا ہوں کہ اصلی وجہ یہ تھی کہ اس منصب کے اہل لوگوں نے اس سے گریز کیا اور نااہل لوگ اوپر آگئے اور یہی نا اہلی زوالِ سلطنت کا باعث بنی۔
مسلمانوں کی نمائند گی ہم جانتے ہیں کہ اس زمانہ قحط الرجال میں جس میں انسانوں کی تو افراط ہے، مگر آدمی بہت کم ہیں، نہ اسلام کا معیاری معاشرہ ہے نہ معیاری نمائندے مل سکتے ہیں، لیکن کم ازکم اتنا تو ہو کہ جو لوگ اسلام کی خدمت اور مسلمانوں کی نمائند گی کا دعویٰ لے کر اٹھیں، ان میں صوم وصلوٰۃ کی پابندی، دینی شعائر کا احترام، اسلام کے ضابطہ حیات پر کامل اذعان اور اسلامی اخلاق و اعمال پائے جائیں، وہ قول کے سچے اور بات کے پکے ہوں، انہیں غریب مسلمانوں کے مسائل کی سمجھ بوجھ اور دینی احکام کا شعور ہو، ملت کے تمام افراد کے یکساں ہمدرد ہوں، وہ اسلام دشمن طاقتوں کے ہاتھ کا کھلونا نہ بنیں۔
No comments:
Post a Comment