روزہ کی حالت میں بیوی کا بوسہ لینا
سوال: ]۴۷۷۶[: کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ روزہ کی حالت میں میں نے خواہشات سے مغلوب ہوکر اپنی بیوی کا بوسہ لے لیا تھا، ایک حافظ صاحب سے معلوم کرنے پر بتایا کہ روزہ بھی لازم اورکفارہ بھی، کیا مسئلہ درست ہے؟
المستفتی: محمد ظہیر کمیلا، مرادآباد
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللہٰ التوفیق:
سوال: ]۴۷۷۶[: کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ روزہ کی حالت میں میں نے خواہشات سے مغلوب ہوکر اپنی بیوی کا بوسہ لے لیا تھا، ایک حافظ صاحب سے معلوم کرنے پر بتایا کہ روزہ بھی لازم اورکفارہ بھی، کیا مسئلہ درست ہے؟
المستفتی: محمد ظہیر کمیلا، مرادآباد
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللہٰ التوفیق:
صورت مسئولہ میں اگر صرف بیوی کا بوسہ ہی لیا ہے، تو روزہ فاسد نہیں ہوا، لہذا آپ پر نہ قضاء ہے اور نہ کفارہ ہے اور حافظ صاحب کا بتایا ہوا مسئلہ درست نہیں ہے، البتہ روزہ کی حالت میں جوان مرد کو بیوی سے بوس وکنار ہونا مکروہ تحریمی ہے ۔ (مستفاد:ایضا ح المسائل /۸۸، فتاویٰ دارالعلوم ۶/۴۱۲، احسن الفتاویٰ۴/۴۴۱)
عن أبی ہریرۃ ؓ: أن رجلا سأل النبی ﷺ عن المباشرۃ للصائم ؟ فرخص لہ ، وأتاہ آخر فسألہ فنہاہ، فإذا الذی رخص لہ شیخ، والذی نہاہ شاب۔ (سنن أبی داؤد ، الصوم ، باب کراہیتہ للشاب، النسخۃالہندیۃ ۱/۳۲۴، دارالسلام رقم: ۲۳۸۷، السنن الکبری للبیہقی، الصیام ، باب کراہیۃ القبلۃ لمن حرکت القبلۃ شہوتہ، دارالفکر بیروت۶/۲۵۵، رقم: ۸۱۷۴)
عن عطاء بن یسار أن ابن عباس سئل عن القبلۃ للصائم ؟ فأرخص فیہا للشیخ،وکرہھا للشاب۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی الصیام ، باب کراہیۃ القبلۃ لمن حرکت القبلۃ شہوتہ ، دارالفکر بیروت۶/۲۵۶، رقم:۸۱۷۹)
وکرہ قبلۃ ومس ومعانقۃ ومباشرۃ فاحشۃ إن لم یأمن من المفسد وإن أمن لابأس ۔ (شامی، کتاب الصوم، باب مایفسد الصوم ،ومالا یفسد ہ ، کراچی ۲/۴۱۷،زکریا۳/۳۹۶)
ولا بأس بالقبلۃ إذا أمن علی نفسہ أی الجماع أو الإنزال ویکرہ إذا لم یأمن ۔ (ہدایہ اشرفی دیوبند۱/۲۱۷، حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی ، دارالکتاب دیوبند/۶۸۰، الفتاویٰ التاتارخانیۃ زکریا ۳/۳۹۹، رقم: ۴۶۹۰)
فقط وﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
......
سوال # 61021
آپ نے اپنے ایک فتوی میں کہا ہے کہ روزے کی حالت میں بیوی کو بوسہ کرنے اور گلے لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اگر دونوں ڈسچارج نہیں ہوتے ہیں، لیکن حدیث میں لکھا ہے کہ روزہ کی حالت میں بیوی کی طرف نگاہ بھر کر دیکھنا بھی منع ہے۔
Published on: Sep 15, 2015
جواب # 61021
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1014-1018/N=11/1436-U
بہتر ہوتا کہ آپ اس حدیث کا عربی متن اور حوالہ درج کردیتے، جس میں روزہ کی حالت میں بیوی کو نگاہ بھر کر دیکھنے سے منع کیا گیا ہے؛کیوں کہ ایسی کوئی حدیث اب تک میری نظر سے نہیں گذری، البتہ حضرت شیخ الحدیث نور اللہ مرقدہ نے فضائل رمضان میں مشائخ کے حوالہ سے روزے کے آداب میں ایک ادب یہ نقل فرمایا ہے: نگاہ کی حفاظت کی جائے کہ کسی بے محل جگہ پر نہ پڑے حتی کہ کہتے ہیں کہ بیوی پر بھی شہوت کی نگاہ نہ پڑے (فضائل رمضان ص ۲۷)، پس روزہ کی حالت میں بیوی کو شہوت کے ساتھ نہ دیکھنا از قبیل آداب ہے، ناجائز وحرام نہیں ہے۔ اور روزہ کی حالت میں شہوت کے ساتھ بیوی کا بوسہ لینا یا اسے گلے لگانا بھی ناجائز نہیں، اور اگر انزال نہ ہو تو اس سے روزہ بھی نہیں ٹوٹتا، متعدد احادیث سے اس کا جواز اور انزال نہ ہونے کی صورت میں روزے کا نہ ٹوٹنا ثابت ہے، چناں چہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ کی حالت میں بوسہ وغیرہ لے لیا کرتے تھے، اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ مجھ سے روزہ کی حالت میں اس طرح کا عمل ہوگیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر عرض کیا:
آج مجھ سے ایک بھاری کام ہوگیا، میں نے روزہ کی حالت میں بوسہ لے لیا،
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی روزہ کی حالت میں منھ میں پانی لے کر کلی کردے تو کیا اس سے روزہ پر کوئی فرق پڑے گا؟
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: نہیں،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
پس روزہ جاری رکھو۔ البتہ اگر انزال یا جماع کا اندیشہ ہو تو روزہ کی حالت میں بوسہ لینا یا گلے لگانا مکروہ ہے؛ اسی لئے بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نوجوان کو روزہ کی حالت میں بوسہ لینے سے منع فرمایا اور ایک عمر دراز صحابی نے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اجازت دیدی
قال في ملتقی الأبحر (مع المجمع والدر، کتاب الصوم ۱: ۳۶۱، ۳۶۲ ط دار الکتب العلمیة بیروت): أو قبل أو لمس إن أنزل وٴفطر وإلا لا اھ وفی الدر المنتقی:أو قبل ولو قبلة فاحشة بأن یدغدغ أو یمص شفتیھا أو لمس ولو بحائل توجد معہ الحرارة إن أنزل لو منیاً أفطر فلو مذیا لا یفطر اھ وقال فی الدر (مع الرد، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما یفسدہ ۳: ۳۶۷-۳۷۳ ط مکتبة زکریا دیوبند): أو قبل ولم ینزل ……لم یفطراھ وقال فی البدائع (کتاب الصوم ۲: ۶۳۶، ۶۳۷ ط دار الکتب العلمیة بیروت): ولا بأس للصائم أن یقبل ویباشر إذا أمن علی نفسہ ما سوی ذلک، أما القبلة فلما روي أن عمر رضي اللہ عنہ سأل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن القبلة للصائم؟ فقال:”أرأیت لو تمضمضت بماء ثم مججتہ أکان یضرک؟“ قال: ”فصم إذن“، وفي روایة أخری عن عمر رضي اللہ عنہ أنہ قال:ھششت إلی أھلي، ثم أتیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فقلت: إني عملت الیوم عملاً عظیماً، إني قبلت وأنا صائم، فقال:”أرأیت لو تمضضت بماء أکان یضرک؟“ قلت: لا، قال: ”فصم إذن“، وعن عائشة رضی اللہ عنھا أنھا قالت: ”کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقبل وھو صائم“، وروي:أن شاباً وشیخاً سألا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن القبلة للصائم فنھی الشاب ورخص للشیخ، وقال:”الشیخ أملک لإربہ، وأنا أملککم لإربہ“، وفي روایة:”الشیخ یملک نفسہ“، وأما المباشرة فلما روي عن عائشة رضي اللہ عنھا ”أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یباشر وھو صائم، وکان أملککم لإربہ“ اھ وقال فی الدر (مع الرد ۳:۳۹۶منہ:وکرہ قبلة ومس ومعانقة …إن لم یأمن المفسد وإن أمن لا بأس اھ، وفی الرد: قولہ:”إن لم یأمن المفسد“:أي: الإنزال أو الجماع۔ إمداد، قولہ: ” وإن أمن لا بأس “ظاھرہ أن الأولی عدمھا، لکن قال فی الفتح: وفی الصحیحین أنہ علیہ الصلاة والسلام کان یقبل ویباشر وھو صائم، وروی أبو داود بإسناد جید عن أبي ھریرة أنہ علیہ الصلاة والسلام سألہ رجل عن المباشرة للصائم فرخص لہ وأتاہ آخر فنھاہ فإذا الذي رخص لہ شیخ، والذي نھاہ شاب اھ اھ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
عن أبی ہریرۃ ؓ: أن رجلا سأل النبی ﷺ عن المباشرۃ للصائم ؟ فرخص لہ ، وأتاہ آخر فسألہ فنہاہ، فإذا الذی رخص لہ شیخ، والذی نہاہ شاب۔ (سنن أبی داؤد ، الصوم ، باب کراہیتہ للشاب، النسخۃالہندیۃ ۱/۳۲۴، دارالسلام رقم: ۲۳۸۷، السنن الکبری للبیہقی، الصیام ، باب کراہیۃ القبلۃ لمن حرکت القبلۃ شہوتہ، دارالفکر بیروت۶/۲۵۵، رقم: ۸۱۷۴)
عن عطاء بن یسار أن ابن عباس سئل عن القبلۃ للصائم ؟ فأرخص فیہا للشیخ،وکرہھا للشاب۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی الصیام ، باب کراہیۃ القبلۃ لمن حرکت القبلۃ شہوتہ ، دارالفکر بیروت۶/۲۵۶، رقم:۸۱۷۹)
وکرہ قبلۃ ومس ومعانقۃ ومباشرۃ فاحشۃ إن لم یأمن من المفسد وإن أمن لابأس ۔ (شامی، کتاب الصوم، باب مایفسد الصوم ،ومالا یفسد ہ ، کراچی ۲/۴۱۷،زکریا۳/۳۹۶)
ولا بأس بالقبلۃ إذا أمن علی نفسہ أی الجماع أو الإنزال ویکرہ إذا لم یأمن ۔ (ہدایہ اشرفی دیوبند۱/۲۱۷، حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی ، دارالکتاب دیوبند/۶۸۰، الفتاویٰ التاتارخانیۃ زکریا ۳/۳۹۹، رقم: ۴۶۹۰)
فقط وﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
......
سوال # 61021
آپ نے اپنے ایک فتوی میں کہا ہے کہ روزے کی حالت میں بیوی کو بوسہ کرنے اور گلے لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اگر دونوں ڈسچارج نہیں ہوتے ہیں، لیکن حدیث میں لکھا ہے کہ روزہ کی حالت میں بیوی کی طرف نگاہ بھر کر دیکھنا بھی منع ہے۔
Published on: Sep 15, 2015
جواب # 61021
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1014-1018/N=11/1436-U
بہتر ہوتا کہ آپ اس حدیث کا عربی متن اور حوالہ درج کردیتے، جس میں روزہ کی حالت میں بیوی کو نگاہ بھر کر دیکھنے سے منع کیا گیا ہے؛کیوں کہ ایسی کوئی حدیث اب تک میری نظر سے نہیں گذری، البتہ حضرت شیخ الحدیث نور اللہ مرقدہ نے فضائل رمضان میں مشائخ کے حوالہ سے روزے کے آداب میں ایک ادب یہ نقل فرمایا ہے: نگاہ کی حفاظت کی جائے کہ کسی بے محل جگہ پر نہ پڑے حتی کہ کہتے ہیں کہ بیوی پر بھی شہوت کی نگاہ نہ پڑے (فضائل رمضان ص ۲۷)، پس روزہ کی حالت میں بیوی کو شہوت کے ساتھ نہ دیکھنا از قبیل آداب ہے، ناجائز وحرام نہیں ہے۔ اور روزہ کی حالت میں شہوت کے ساتھ بیوی کا بوسہ لینا یا اسے گلے لگانا بھی ناجائز نہیں، اور اگر انزال نہ ہو تو اس سے روزہ بھی نہیں ٹوٹتا، متعدد احادیث سے اس کا جواز اور انزال نہ ہونے کی صورت میں روزے کا نہ ٹوٹنا ثابت ہے، چناں چہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ کی حالت میں بوسہ وغیرہ لے لیا کرتے تھے، اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ مجھ سے روزہ کی حالت میں اس طرح کا عمل ہوگیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر عرض کیا:
آج مجھ سے ایک بھاری کام ہوگیا، میں نے روزہ کی حالت میں بوسہ لے لیا،
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی روزہ کی حالت میں منھ میں پانی لے کر کلی کردے تو کیا اس سے روزہ پر کوئی فرق پڑے گا؟
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: نہیں،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
پس روزہ جاری رکھو۔ البتہ اگر انزال یا جماع کا اندیشہ ہو تو روزہ کی حالت میں بوسہ لینا یا گلے لگانا مکروہ ہے؛ اسی لئے بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نوجوان کو روزہ کی حالت میں بوسہ لینے سے منع فرمایا اور ایک عمر دراز صحابی نے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اجازت دیدی
قال في ملتقی الأبحر (مع المجمع والدر، کتاب الصوم ۱: ۳۶۱، ۳۶۲ ط دار الکتب العلمیة بیروت): أو قبل أو لمس إن أنزل وٴفطر وإلا لا اھ وفی الدر المنتقی:أو قبل ولو قبلة فاحشة بأن یدغدغ أو یمص شفتیھا أو لمس ولو بحائل توجد معہ الحرارة إن أنزل لو منیاً أفطر فلو مذیا لا یفطر اھ وقال فی الدر (مع الرد، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما یفسدہ ۳: ۳۶۷-۳۷۳ ط مکتبة زکریا دیوبند): أو قبل ولم ینزل ……لم یفطراھ وقال فی البدائع (کتاب الصوم ۲: ۶۳۶، ۶۳۷ ط دار الکتب العلمیة بیروت): ولا بأس للصائم أن یقبل ویباشر إذا أمن علی نفسہ ما سوی ذلک، أما القبلة فلما روي أن عمر رضي اللہ عنہ سأل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن القبلة للصائم؟ فقال:”أرأیت لو تمضمضت بماء ثم مججتہ أکان یضرک؟“ قال: ”فصم إذن“، وفي روایة أخری عن عمر رضي اللہ عنہ أنہ قال:ھششت إلی أھلي، ثم أتیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فقلت: إني عملت الیوم عملاً عظیماً، إني قبلت وأنا صائم، فقال:”أرأیت لو تمضضت بماء أکان یضرک؟“ قلت: لا، قال: ”فصم إذن“، وعن عائشة رضی اللہ عنھا أنھا قالت: ”کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقبل وھو صائم“، وروي:أن شاباً وشیخاً سألا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن القبلة للصائم فنھی الشاب ورخص للشیخ، وقال:”الشیخ أملک لإربہ، وأنا أملککم لإربہ“، وفي روایة:”الشیخ یملک نفسہ“، وأما المباشرة فلما روي عن عائشة رضي اللہ عنھا ”أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یباشر وھو صائم، وکان أملککم لإربہ“ اھ وقال فی الدر (مع الرد ۳:۳۹۶منہ:وکرہ قبلة ومس ومعانقة …إن لم یأمن المفسد وإن أمن لا بأس اھ، وفی الرد: قولہ:”إن لم یأمن المفسد“:أي: الإنزال أو الجماع۔ إمداد، قولہ: ” وإن أمن لا بأس “ظاھرہ أن الأولی عدمھا، لکن قال فی الفتح: وفی الصحیحین أنہ علیہ الصلاة والسلام کان یقبل ویباشر وھو صائم، وروی أبو داود بإسناد جید عن أبي ھریرة أنہ علیہ الصلاة والسلام سألہ رجل عن المباشرة للصائم فرخص لہ وأتاہ آخر فنھاہ فإذا الذي رخص لہ شیخ، والذي نھاہ شاب اھ اھ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
...........
سوال # 67350
(۱) ہم میاں بیوی عام دنوں میں ایک ساتھ نہاتے ہیں اور ملاعبت کرتے ہیں، کیا رمضان میں روزہ کی حالت میں اسی طرح بغیر مباشرت کے نہاسکتے ہیں؟
(۲) ایک مرتبہ سحری کے بعد ہم ایک ساتھ سورہے تھے اور ملاعبت کرنے لگے، اس دوران میں نے ادخال کرلیا مگر مکمل طور پر نہیں، اور جیسے ہی غلطی کا احساس ہوا تو بغیر انزال کے جلدی سے باہر نکال لیا تو کیا مجھے اس کا کفارہ دینا ہوگا؟
Published on: Aug 17, 2016
جواب # 67350
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 893-725/D=11/1437
(۱) اگر اپنے نفس پر قابو اور اطمینان ہے، انزال یا جماع کا اندیشہ نہ ہوتو اس طرح نہانے میں کوئی حرج نہیں، اور اگر نفس پر قابو نہ رہنے کا اندیشہ ہے تو پھر مکروہ تحریمی ہے۔
ولا بأس بالقبلة إذا أمن علی نفسہ أي الجماع أوالإنزال ویکرہ إذا لم یأمن (ہدایة ۱/۲۱۷ اشرفي)․
(۲) روزے کی حالت میں جب شرمگاہ میں ادخال ہوگیا تو غیبوبت حشفہ ہوجانے کی وجہ سے قضاء اور کفارہ دونوں واجب ہوگا، انزال ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔
أو تورات الحشفة في أحد السبیلین أنزال أو لا (الدرالمختار مع الشامی: ۳/۳۸۶ زکریا)․
.............
روزہ کی حالت میں بیوی کا بوسہ لینا
https://youtu.be/TOJcrjlSgd4
...............
Din me Ehtilam hone se Roze ka Kya Hukm hy
https://m.youtube.com/watch?v=vDcU17Zas_s
...................
Miya Biwi ka Ek Bistar Par Roze Ki Halat me Sona Kaisa Hy
میاں بیوی کا ایک بستر پر روزے کی حالت میں سونا کیسا ہے
https://m.youtube.com/watch?v=MVcuSOBBZsE
............
............
کیا میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجھے آپ سے محبت ہے؟ میری بیوی مجھ سے یہ مطالبہ کرتی رہتی ہے کہ میں روزے کی حالت میں اس سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہوں کہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں، لیکن میں نے اسے کہا کہ روزے کی حالت میں ایسا کہنا جائز نہیں، لیکن وہ کہتی ہے کہ جائز ہے ؟
Published Date: 2008-09-20
الحمد للہ
مرد روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے خوش طبعی کرسکتا ہے، اسی طرح بیوی کے لیے بھی جائز ہے کہ وہ اپنے خاوند سے روزے کی حالت میں خوش طبعی کرلے، لیکن ایک شرط ہے کہ وہ دونوں اپنے آپ پر کنٹرول رکھ سکتے ہوں کہ انزال نہ ہونے پائے ، اوراگر انہیں اپنے آپ پر کنٹرول نہيں کہ شدید قسم کی شھوت ہونے کی بنا پر اس کا انزال ہوجائے ، تومنی کے اخراج سے روزہ فاسد ہوجائے گا ۔
لھذا ایسے شخص کے لیے بیوی سے خوش طبعی کرنا جائز نہيں ،کیونکہ وہ ایسے کرنے سے اپنا روزہ فاسد کرلے گا ، اوراسی طرح مذی کے نکلنے کا خدشہ ہو ۔
دیکھیں الشرح الممتع ( 6 / 390 ) ۔
روزے کی حالت میں انزال ہونے سے محفوظ رہنے والے شخص کے لیے بیوی سے بوس وکنار کرنے کی دلیل یہ ہے کہ :
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے روزہ کی حالت میں بوس وکنار کیا کرتے تھے ، اورانہيں اپنے آپ پرتم سے زيادہ کنٹرول تھا ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1927 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1106 )
اور ایک حدیث میں ہے کہ:
عمرو بن سلمہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا روزہ دار بوسہ لے سکتا ہے؟
تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے:
اس سے پوچھ لو (ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا سے) ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا نے انہیں بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیا کرتے تھے ۔
صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1108 ) ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
بوسہ کے علاوہ معانقہ اوردوسرے ابتدائي کام کے حکم کے بارہ میں ہم یہ کہيں گے کہ اس کا حکم بھی بوسے کاحکم ہی ہے اوراس میں کوئی فرق نہيں ۔ا ھـ دیکھیں الشرح الممتع ( 6 / 434 ) ۔
لھذا اس بنا پر آپ کا صرف اپنی بیوی کو یہ کہنا کہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں ، یا وہ آپ کو یہ کہے کہ میں آپ سے محبت کرتی ہوں ، روزے کو کسی بھی قسم کا کوئي نقصان نہيں دیتا۔
واللہ اعلم .
............
س 2: اگر میں روزے اور وضو کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لوں اور عضو تناسل میں تناؤ آجائے، تو کیا اس سے روزہ اور وضو ٹَوٹ جائیگا، یا صرف وضو ٹوٹے گا، یا دونوں نہیں ٹوٹیں گے، اور روزے کی حالت میں خوشبو استعمال کرنے کا کیا حکم ہے: حرام ہے یا مکروہ؟
ج 2: روزہ دار پر یہ واجب ہے کہ جو چیز اس کے روزے میں یا اس کی بیوی کے روزے میں خلل پیدا کرے اس سے دور رہے؛ کیونکہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی روزه ركهے ہو تو جماع اوربدکاری سے بچے اوربد کلامی نہ کرے ، اگرکوئی اسے گالی دے یا جھگڑا کرے تو اسے کہدے کہ میں روزه ہوں۔
( جلد کا نمبر 9، صفحہ 163)
[بخاری ومسلم] چنانچہ اگر آپ سے منی خارج ہوجائے تو آپ کا روزہ فاسد ہوجائیگا، اور آپ پر یہ واجب ہوگا کہ اس دن کی قضاء کریں اور غسل جنابت کریں۔
اور اگر منی کا خروج نہ ہو، تو بیوی کے ساتھ دل لگی کرنا مذی کے خروج کا سبب ضرور ہے، لہذا جب مذی خارج ہوجائے تو آپ کا وضو ٹوٹ جائیگا؛ اس لئے آپ پر یہ واجب ہوگا کہ اپنے عضو تناسل کو اور دونوں خصیوں کو دھوئیں، اور آپ کا روزہ صحیح ہوگا، اور اگر منی کا خرورج نہ ہو، تو آپ کا روزہ صحیح ہوگا۔ اور بیوی کا حکم بھی وہی ہے جو آپ کا حکم ہے، اور رہی بات روزے میں خوشبو استعمال کرنے کی تو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے، ہاں بخور (دھونی) کا استعمال نہ کریں، دھونی سے پرہیز کرنا چاہئے اور کپڑے یا پگڑی میں دھونی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
..............
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ روزے کی حالت میں بیوی سے بوس وکنار کس حد تک جائز ہے ؟ اگر بغیر دخول کے انزال ہوجائے تو اس سے روزے کی صحت پر کیا اثر پڑے گا؟ براہ مہربانی تفصیل سے جواب عنائت فرمائیں۔
سائل: محمد عقیل
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
جس شخص کو اپنے نفس پر مکمل بھروسہ ہو کہ حالت روزہ میں اپنی بیوی سے بوس وکنارکرنے یا گلے سے ملنے کے سبب انزال یاجماع(ہمبستری )میں مُبتلا نہیں ہوگا اس کے لیے روزے کے دوران ایسا کرنا جائز ہے اور جسے اس بات کا خطرہ ہو کہ ایسا کرنے سے جماع میں مبتلا ہو جائے گا اس کے لیے یہ افعال کرنا مکروہ تحریمی ہے اگرجماع میں مبتلا ہونے کایقین ہو توپھر یہ افعال کرنا حرام ہے ۔اور اگر بغیر دخول کے محض بوسہ لینے سے انزال ہو گیا تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس روزے کی قضا ء لازم ہوجائیگی نیز اس گناہ کے سبب توبہ کرنی بھی لازم ہوگی۔
ھدایۃ شرح بدایۃ المبتدی میں ہے ’’ولابأس بالقبلۃ اذا امن علی نفسہ ای الجماع اوالانزال ویکرہ اذا لم یأمن لان عینہ لیس بمفطر وربما یصیر فطرا بعاقبتہ فان امن یعتبر عینہ وابیح لہ ،وان لم یأمن تعتبر عاقبتہ وکرہ لہ ‘‘یعنی ’’روزے دار کو جب اپنے نفس پراعتماد ہو کہ وہ جماع (ہمبستری)یاانزال میں مبتلانہیں ہوگا تو تو بوس وکنار میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگراس کو خود پر اعتماد نہ ہو تو پھر یہ افعال مکروہ ہیں کیونکہ محض بوس وکنار روزے کو توڑنے کے اسباب میں سے نہیں ہیں لیکن بسااوقات اپنے انجام(ہمبستری یا انزال)کی وجہ سے روزہ توڑنے کا سبب ضرور بن جاتے ہیں تو اگر کسی کو ایسے انجام سے امن ہو تو اصل حکم کا اعتبار ہوگا اور اس کے لیے بوس وکنارجائز ہوگا اور اگر امن نہ ہو تو پھر ممکنہ خراب انجام کا اعتبار کرتے ہوئے مکروہ کا حکم لگے گا ‘‘۔[ھدایہ علی ھامش فتح القدیر،ج:۲ ص:۳۳۵،مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ ]۔
اور حالت روزہ میں اِنزال کے بارے میں امام برھان الدین علی بن ابی بکرالمرغینانی فرماتے ہیں:’’وان انزل بقبلۃ أو لمس فعلیہ القضاء دون الکفارۃلوجود معنی الجماع ووجودالمنافی صورۃ او معنی یکفی لایجاب القضاء احتیاطا‘‘یعنی’’اگرروزے دار نے شہوت سے کسی کا بوسہ لیا یا چھُواور اس کو انزال ہو گیاتواُس پر اِس روزے کی قضاء لازم ہے کفارہ نہیں (اور قضاء لازم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ )جماع کا معنیٰ (شہوت کو پورا کرنا )پایا گیا ہے اور(روزے کا) منافی(یعنی جماع) کاپایا جا نا صورۃَ(باقاعدہ ہمبستری کرنے کے طور پر ہو )َہو یا معنیََ(انزال کے ذریعے شہوت کو پورا کرنے کے طورپر ہو ) روزے کی قضاء کو واجب کرنے کے لیے کافی ہے ‘‘۔[المرجع السابق]۔واللہ تعالی اعلم
No comments:
Post a Comment