نماز میں قرات کی کس قسم کی غلطی سے نماز فاسد ہوجاتی ہے
سوال: نماز میں قرات کی کس قسم کی غلطی سے نماز فاسد ہوجاتی ہے؟
نیز قرات غلط کرنے کے بعد فورا درست کرلے تو کیا حکم ہے؟ کیا تراویح اور عام نمازوں میں قرات کی غلطی نماز میں یکساں اثر انداز ہونگی یا تراویح اھون ہے. رہنمائی فرمائیے گا.
الجواب حامداومصلیاً:
قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اگر قرأت میں ایسی غلطی ہو جس سے تغیر فاحش ہوجائے تو نماز فاسد ہوجائے گی ورنہ نہیں، تغیر قرأت کی چند مشہور اقسام مع احکام یہ ہیں:
۱. ایک کلمہ کے ایک حرف کو دوسرے کلمہ کے حرف سے ملا دینا جیسے اِیَّاکَ نَعبُدُ کو اِیَّا، کَنَعبُدُ پڑھا تو صحیح یہ ہے کہ نماز فاسد نہیں ہوگی
۲. ایک حرف کو دوسرے حرف سے بدل دینا اگر معنی نہ بدلیں مثلاً اِنَّ المُسلِمِینَ کو اَنَّ المُسلِمُونَ پڑھا تو نماز فاسد نہ ہوگی اور اگر معنی بدل گئے تو اگر ان میں فرق کرنا آسان ہے اور پھر فرق نہیں کیا جیسے طالحات کی جگہ صالحات پڑھ دیا تو نماز فاسد ہوجائے گی اور اگر فرق کرنا مشکل ہے تو فتویٰ اس پر ہے کہ نماز فاسد نہیں ہوگی مگر صحت کی کوشش کرتا رہے
۳. کسی حرف کا حذف کردینا اگر ایجاز و ترخیم کے طور پر ہو تو نماز فاسد نہ ہوگی اس کے علاوہ ہو تو معنی بدلنے پر نماز فاسد ہوگی ورنہ نہیں
۴. کسی ایک یا زیادہ حرف کی زیادتی، اگر معنی بدل جائیں تو نماز فاسد ہوگی ورنہ نہیں
۵. ایک کلمہ کو چھوڑکر اس کی جگہ دوسرا کلمہ پڑھا اگر وہ کلمہ قرآن مجید میں ہے اور معنی میں تغیر نہیں ہوتا تو بالاتفاق نماز فاسد نہ ہوگی اور اگر معنی میں تغیر ہے تو نماز فاسد ہوگی اور اگر وہ کلمہ قرآن مجید میں نہیں ہے لیکن معنی میں اس کے قریب ہے تو احتیاطاً نماز فاسد ہوگی
۶. ایک کلمہ کو چھوڑ گیا اور اس کے بدلے میں بھی کوئی کلمہ نہیں پڑھا تو اگر معنی نہیں بدلے تو نماز فاسد نہ ہو گی اور اگر معنی بدل گئے تو نماز فاسد ہو جائے گی
۷. کوئی کلمہ زیادہ کرنا اور وہ کسی کلمے کے عوض میں بھی نہ ہو، پس اگر معنی بدل جائیں تو نماز فاسد ہوگی ورنہ نہیں
۸. حرف یا کلمے کی تکرار، پس اگر حرف کی زیادتی ہوگی تو نماز فاسد ہوجائے گی اور اگر کلمے کی زیادتی ہوگی تو معنی بدل جانے پر نماز فاسد ہوجائے گی ورنہ نہیں اگر کلمہ بےساختہ دوبارہ نکل گیا یا مخرج کو صحیح کرنے کے لئے کلمے کو دوبارہ کہا یا کوئی بھی ارادہ نہ کیا تو نماز فاسد نہ ہوگی
۹. کلمہ یا حرف کی تقدیم و تاخیر، اگر معنی نہ بدلے تو نماز فاسد نہ ہوگی اور اگر معنی بدل گئے تو نماز فاسد ہو جائے گی
۱۰. ایک آیت کو دوسری کی جگہ پڑھ دینا اگر آیت پر پورا وقف کرکے دوسری آیت پوری یا تھوڑی سے پڑھی تو نماز فاسد نہ ہوگی اور اگر وقف نہ کیا بلکہ ملا دیا تو معنی بدل جانے کی صورت میں نماز فاسد ہوگی ورنہ نہیں
۱۱. بے موقع وقف و وصل و ابتدا کرنا، عموم بلویٰ کی وجہ سے فتویٰ اسی پر ہے کہ کسی صورت میں نماز فاسد نہ ہوگی
۱۲. اعراب و حرکات میں غلطی کرنا، متقدمین کے نزدیک اگر معنی میں بہت تغیر ہوا تو نماز فاسد ہوجائے گی ورنہ نہیں اس میں احتیاط زیادہ ہے اور ایسی نماز کو لوٹا لینا ہی بہتر ہے اگرچہ متاخرین کے نزدیک کسی صورت میں بھی نماز فاسد نہ ہوگی اور عموم بلویٰ کی وجہ سے اسی پر فتویٰ ہے
۱۳. تشدید کی جگہ تخفیف اور تخفیف کی جگہ تشدید کرنا یا مد کی جگہ قصر اور قصر کی جگہ مد کرنا اس میں بھی اعراب کی طرح عموم بلویٰ کی وجہ سے فتویٰ اس پر ہے کہ نماز فاسد نہیں ہوگی
۱۴. ادغام کو اس کے موقع سے چھوڑ دینا یا جہاں اس کا موقع نہیں ہے وہاں ادغام کرنا اس میں بھی نماز فاسد نہیں ہوگی
۱۵. بے موقع امالہ یا اخفا یا اظہار یا غنہ وغیرہ کرنا ان سب میں بھی نماز فاسد نہیں ہوگی
۱۶. کلمے کو پورا نہ پڑھنا خواہ اس سبب سے کہ سانس ٹوٹ گیا یا باقی کلمہ بھول گیا اور پھر یاد آنے پر پڑھ دیا مثلاً الحمد اللہ میں ال کہہ کر سانس ٹوٹ گیا باقی کلمہ بھول گیا پھر یاد آیا اور حمداللہ کہہ دیا تو فتویٰ اس پر ہے کہ اس سے بچنا مشکل ہے اس لئے نماز فاسد نہ ہو گی، اسی طرح کلمے میں بعض حروف کو پست پڑھا تو نماز فاسد نہ ہو گی
۱۷. تحسین (راگنی) سے پڑھا یعنی نغموں کی رعایت سے حروف کو گھٹا بڑھا کر پڑھا تو اگر معنی بدل جائیں نماز فاسد ہوجائے گی ورنہ نہیں لیکن ایسا پڑھنا مکروہ اور باعث گناہ ہے اور اس کا سننا بھی مکروہ ہے
۱۸. اللہ تعالیٰ کے ناموں میں تانیث داخل کرنا، بعض کے نزدیک اس سے نماز فاسد ہوجائے گی بعض کے نزدیک فاسد نہیں ہوگی.
فائدہ: اگر کسی نے قرأت میں کھلی ہوئی غلطی کی پھر لوٹاکر صحیح پڑھ لیا تو اس کی نماز جائز و درست ہے.
No comments:
Post a Comment