Wednesday, 23 May 2018

بے مقصد سوال کرنے والوں کو مناسب جواب

بے مقصد سوال کرنے والوں کو مناسب جواب
ایک وکیل نے رمضان کے دنوں میں عطا اللہ شاہ بخاری رحمة اللہ علیہ سے مذاق کرتے پوچھا کہ: حضرت، علماء تعبیر و تاولیل میں بڑے ماہر ہوتے ہیں کوئی ایسا نسخہ بتائیں کہ انسان کھاتا پیتا رہے اور روزہ بھی نہ ٹوٹے؟
حضرت شاہ جی کو اس کا یہ مذاق برا تو لگا لیکن شاہ جی نے سوچا کہ اس بابو کا دماغ بھی ٹھکانے لگانا ضروری ہے۔
شاہ جی نے اپنے مخصوص انداز میں حاضرانہ جواب دیتے ہوئے فرمایا یہ تو بہت آسان ہے۔
ایک شخص کو مقرر کردو جو تمہیں صبح سے شام تک جوتے مارتا رہے اور تم جوتے کھاتے رہو اور اس کے نتیجے میں آپ کو جو غصہ آئے اس غصے کو پیتے جاؤ۔
اس طرح جوتے کھاتے رہو اور غصہ پیتے رہو۔ کھانا پینا بھی ہوجائیگا اور روزہ بھی نہیں ٹوٹے گا!


عالم دین کو خود علم کی وقعت اور عزت کرنا چاہئے علم کو سونے، چاندی اور ہیرے جواہرات سے بھی بہتر سمجھنا چاہئے جس طرح ایک دنیا دار آدمی کبھی کتے اور خنزیر کی گردن میں ہیرے جواہرات کے زیور نہیں ڈالتا ہے؛ اسی طرح علماء دین کو بھی چاہئے کہ ناقدروں کو علم نہ سکھائیں، مسئلہ بتادینا یہ دوسری بات ہے؛ لیکن علم سکھانا اور علمی نکات بتانا یہ دوسری چیز ہے، مسئلہ تو جوبھی دریافت کرنے آئے اس کو اس کے فہم کے اعتبار سے بتادینا بہتر ہے؛ لیکن جہاں تک علم دین سکھانے کا تعلق ہے؛ تو وہ صرف قدردانوں تک ہی محدود رکھنا چاہئے۔ اسی طرح کسی شخص کی صلاحیت سے بڑھ کر، اس کو علم سکھانا بھی علم پر ظلم کرنا ہے؛ جو شخص معمولی باتیں نہ سمجھتا ہو اس کے سامنے تصوف کی باریکیاں بیان کرنا؛ یہ علم کے ساتھ مذاق کرنا ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واضِعُ الْعِلْمِ عِنْدَ غیر اَہْلِہ کمُقَلِّدِ الحَنَازِیْرِ الجوہَر والّلوْلُو والذہَب“(۲۴) نااہلوں کو علم سکھانے سے اس لئے منع فرمایا کہ وہ علمی باریکیوں کو سمجھ نہیں سکیں گے، اور بغیر سمجھے عمل شروع کرنے کے نتیجے میں شیطان کے دام میں پھنس کر گمراہ ہوجائیں گے۔ لہٰذا علماء دین کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ علم دین سکھاتے وقت طلباء و عوام کی صلاحیتوں کا خاص خیال رکھ کر ان کو مستفید کریں۔

No comments:

Post a Comment