سعودی عرب؛
یوسفی گر نہیں ممکن تو زلیخائی کر
یوسفی گر نہیں ممکن تو زلیخائی کر
ملک عبد العزیز سعودی عرب کے ایک دیندار حکمراں تھے، شاہ فیصل اسی سعودی خاندان کے بیدار مغز اسلامی حمیت سے لبریز اور مسلمانوں کے خیرخواہ تھے، عالم عرب کی دینی تحریک اخوان المسلمون کے ہمدرد تھے، اور انہوں نے مغربی طاقتوں کو تیل کی سپلائی بند کرنے کا تاریخی قدم اٹھایا تھا۔ اسی خاندان کا اب ایک ولی عہد اسلام کو رسوا کرنے والا اور مغربی طاقتوں اور امریکہ کے چشم وابرو کو دیکھ کر چلنے والا اور اخوان کو دہشت گرد قرار دینے والا بد اطوار شہزادہ ہے جو حرمین شریفین کی سرزمین میں رسوا کن تبدیلیوں کا اور مغربی ثقافت کا اور فسق وفجور کا علم بردار ہے۔ ایک فارسی شاعر غنی نے کہا تھا پیر کنعان (حضرت یعقوب) کی سیہ بختی کا اور غم کا کیا حال بیان کیا جائے کہ جس کے صاحب زادہ نے یوسفی کا نام روشن کرنے کی بجائے زلیخائے وقت کی دلی آرزو اور گناہ کی تمنا پوری کردی اور اس کے دام ہوس کا شکار ہوگیا۔ اور اس نے خاندان کی عزت کو داغدار کردیا۔
غنی روز سیاہِ پیر کنعاں را تماشاکن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کندچشم زلیخارا
سعودی عرب میں اس وقت جو تبدیلیاں آرہی ہیں اس کا آغاز ۶۰۔۷۰ سال پہلے شروع ہوگیا تھا، شروع میں زیادہ تر لوگوں کو اس کا احساس نہیں ہوسکا تھا۔ ۱۹۵۰ میں مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے مکہ مکرمہ سے اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر عبدالعلی صاحب کو خط لکھا تھا. اس میں اپنے شدید رنج وتاثر کا اظہار کیا تھا، اس میں یہ جملہ موجود ہے کہ عالم اسلام کا قبلہ بیشک مکہ مکرمہ ہے لیکن مکہ مکرمہ (سعودی عرب) کا قبلہ امریکہ بن گیا ہے ۔‘‘ انہوں نے حقیقت حال کی ایسی سچی تصویر اپنے موئے قلم سے کھینچی تھی جس سے بہتر تصویر ممکن نہیں تھی۔ انہوں نے خط میں لکھا تھا کہ 'خالص عربی لباس میں کتنے دل ودماغ خالص مغربی بن چکے ہیں.'
اب پچھلے چند برسوں سے یہ تبدلیاں اور برائیاں انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ سعودی عرب میں داخل ہونے لگی ہیں اور ملک کی تہذیب ومعاشرت کوچشم زدن میں بدل دینے اور امریکی ثقافت کے ہم دوش بنادینے کی کوشش ہورہی ہے۔ سینما ہال اور تھیٹر وبائے عام کی طرح پھیلتے جارہے ہیں۔ شاید وہ دن بھی آنے والے
بنے گا سارا جہاں میخوانہ،
ہر کوئی بادہ خوار ہوگا
سعودی عرب کے حکمراں جنہیں اپنے ملک کو امریکہ اور مغرب کی عسکری طاقت اور صنعتی طاقت کا ہمسر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے تھی اور اسلامی تہذیب وتمدن کی حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کرنی چاہئے تھی جنہیں مسجد اقصی کا غم ایسا ہونا چائے تھا جیسا کسی ماں کا غم ہوتا ہے جس کا بچہ موت کی آغوش میں چلا جائے اور اس کے اندر ایسی حمیت ہونی چاہئے کہ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کا وجود برداشت نہ کرسکے جو اسلام کے پیغام کو پوری دنیا میں پھیلانے کا عزم کرے۔ لیکن اب یہ حکمراں قصدا اور عمدا تعیش اور تفریح کا ذوق عوام وخواص سب پر مسلط کر رہے ہیں۔ عریاں رقص اور بے حیائی کے مناظر کو فروغ دیا جارہا ہے اب یہ حال ہوگیا ہے کہ دنیا کے ہر مسلمان کی زبان پر یہ مصرع ہے:
غنی روز سیاہِ پیر کنعاں را تماشاکن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کندچشم زلیخارا
سعودی عرب میں اس وقت جو تبدیلیاں آرہی ہیں اس کا آغاز ۶۰۔۷۰ سال پہلے شروع ہوگیا تھا، شروع میں زیادہ تر لوگوں کو اس کا احساس نہیں ہوسکا تھا۔ ۱۹۵۰ میں مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے مکہ مکرمہ سے اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر عبدالعلی صاحب کو خط لکھا تھا. اس میں اپنے شدید رنج وتاثر کا اظہار کیا تھا، اس میں یہ جملہ موجود ہے کہ عالم اسلام کا قبلہ بیشک مکہ مکرمہ ہے لیکن مکہ مکرمہ (سعودی عرب) کا قبلہ امریکہ بن گیا ہے ۔‘‘ انہوں نے حقیقت حال کی ایسی سچی تصویر اپنے موئے قلم سے کھینچی تھی جس سے بہتر تصویر ممکن نہیں تھی۔ انہوں نے خط میں لکھا تھا کہ 'خالص عربی لباس میں کتنے دل ودماغ خالص مغربی بن چکے ہیں.'
اب پچھلے چند برسوں سے یہ تبدلیاں اور برائیاں انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ سعودی عرب میں داخل ہونے لگی ہیں اور ملک کی تہذیب ومعاشرت کوچشم زدن میں بدل دینے اور امریکی ثقافت کے ہم دوش بنادینے کی کوشش ہورہی ہے۔ سینما ہال اور تھیٹر وبائے عام کی طرح پھیلتے جارہے ہیں۔ شاید وہ دن بھی آنے والے
بنے گا سارا جہاں میخوانہ،
ہر کوئی بادہ خوار ہوگا
سعودی عرب کے حکمراں جنہیں اپنے ملک کو امریکہ اور مغرب کی عسکری طاقت اور صنعتی طاقت کا ہمسر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے تھی اور اسلامی تہذیب وتمدن کی حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کرنی چاہئے تھی جنہیں مسجد اقصی کا غم ایسا ہونا چائے تھا جیسا کسی ماں کا غم ہوتا ہے جس کا بچہ موت کی آغوش میں چلا جائے اور اس کے اندر ایسی حمیت ہونی چاہئے کہ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کا وجود برداشت نہ کرسکے جو اسلام کے پیغام کو پوری دنیا میں پھیلانے کا عزم کرے۔ لیکن اب یہ حکمراں قصدا اور عمدا تعیش اور تفریح کا ذوق عوام وخواص سب پر مسلط کر رہے ہیں۔ عریاں رقص اور بے حیائی کے مناظر کو فروغ دیا جارہا ہے اب یہ حال ہوگیا ہے کہ دنیا کے ہر مسلمان کی زبان پر یہ مصرع ہے:
'چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی'
سعودی عرب دینی اخلاقی خود کشی کی طرف جارہا ہے۔ اخلاق قدریں پامال اور بد اخلاقی کے پودے نہال ہیں، ہر مسلمان کو درد وغم ہے کہ سعودی حکمراں اب مغربی تہذیب اور اباحیت اور اخلاقی پستی کے مخالف ہونے کے بجائے اس کے پرچم بردار بن چکے ہیں۔ اس مغرب زدگی کا جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے، بقول کلیم عاجز
جناب شیخ پر افسوس ہے، ہم نے تو سمجھا تھا
حرم کے رہنے والے ایسے نا محرم نہیں ہوں گے
موجودہ سعودی عرب کا موجودہ منظر نامہ اختصار کے ساتھ یہ ہے:
۱۔ سعودی عرب اپنا تشخص کھوتا جارہا ہے حرم اور مسجد نبوی کے کسٹوڈین اور خادم الحرمین ہونے کی وجہ سے اس کی جو مثالی شخصیت اور قائدانہ حیثیت تھی ختم ہوتی جارہی ہے۔ امر بالمعروف کی بجائے امر بالمنکرات پر زور صرف ہورہا ہے مغربی تمدن اور اقدار کو بے چوں چرا قبول کیا جارہا ہے بلکہ ان کو رواج دیا جارہا ہے۔ بڑے شہر میں سینما ہال اور کاسینو کھولے جارہے ہیں۔ ساحل سمندر پر ایسی تفریح گاہیں بنائی جارہی ہیں جہاں خواتین صرف بکنی پہن کر لباس برہنگی میں جاسکیں گی اور جہاں عام دیدار یار ہوگا ‘‘۔ پردہ جو ایک اسلامی شعار تھا وہ عقل پر سعودی حکمرانوں کے پڑگیا ہے ۔ پوری قوم نغمہ وساز اور عود وبخور میں غرق ہوگئی ہے:
'حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے'
اب جزیرۃ العرب اسلام کی پناہ گاہ نہیں چراہ گاہ بن گیا ہے پتھر تو ہیرا بنتا ہے لیکن یہاں ہیرا پتھر بن رہا ہے۔ اس جرم کے خلاف آواز بلند کرنا ضروری ہے۔ برائیوں کو اور گناہوں کو برداشت کرلینا بھی گناہ کرلینے کی طرح کا جرم ہے اور اس کی سزا بھی بہت سخت ہے، جو لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے اجتناب کرتے ہیں وہ عذاب الہی کے مستحق ہوجاتے ہیں۔
۲۔ جن تنظیموں نے ملک کے اندر اور بیرون ملک نوجوانوں کی تربیت کے لئے عربی زبان میں بہترین اسلامی لٹریچر تیار کیا ان تنظیموں کو اور ان کتابوں کے مصنفین کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔ یوسف القرضاوی جیسی شخصیت جو عالم اسلام کے بڑے عالم دین ہیں اور جن کی خدمات کے اعتراف میں پہلے خود سعودی حکومت فیصل ایوارڈ دے چکی ہے وہ اب معتوب مغضوب ہیں اور ان کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے۔ اخوان المسلمون کی اسلامی حکومت مصر میں محمد مرسی کی صدارت میں قائم ہوئی لیکن اس صالح حافظ قرآن اور متقی انسان کی حکومت اسے گوارا نہ ہوسکی۔ مصر کی اخوانی حکومت کا خاتمہ کرنے کے لئی سعودی عرب نے پانچ ہزار ملین ڈالرکی مدد د کی۔ مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں پورے طور پر ملوث سعودی حکمراں تھے تاکہ مصرپھر سے بدکاری کا اڈہ بن جائے اور وہاں شراب وکباب کی ساری سرمستیاں شروع ہوجائیں، سعودی عرب کی مالی سرپرستی میں ہزاروں اخوانیوں کو مسجد رابعہ میں اور مسجد التح میں اور رابعہ عدویہ کے میدان میں شہید کیا گیا۔ اسلامی حکومت سعوی عرب کے لئے ایک ڈراونا خواب ہے خود سعودی عرب میں اسلامی حکومت نہیں ہے وہان کا سیاسی نظام معاشی اور مالیاتی نظام سب غیر اسلامی ہے اسلامی نظام عدل کا مطالبہ کرنے والے جیلوں میں بند ہیں۔
۳۔ سعودی عرب کے عالم وداعی شیخ محسن العواجی کو جیل میں بند کیا گیا۔ شیخ مخحمد عریفی کو گرفتار کیا گیا، مشہور زمانہ کتاب 'دد لا تحزن' کے مصنف شیخ عائض القرنی، شیخ سلمان بن عودہ شیخ سفر الحوالی شیخ سعد الفقیہ اور شیخ محمد المسعری اور شیخ العواجی کو حق اور ضمیر کی آواز بلند کرنے پر پابندیوں کا اور نظر بندی کا سامنا کرنا پڑا انہوں نے بولنا چاہا تو ان کی زبان بند کردی گئی اب ملت کے باضمیر علماء ہر حلقہ زنجیر میں اپنی زبان رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی آوازکا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے اور دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ پچاسوں علماء ہیں جو خوف سے بہ آواز بلند کچھ کہنے کی ہمت نہیں کرتے ہیں۔ اور وہ گھٹن محسوس کرتے ہیں انہیں بولنے کی آزادی حاصل نہیں ہے۔
۴۔ سعودی عرب کے جرائم کا رکارڈ بہت طویل ہے اس نے دنیائے اسلام کے تمام بد کردار حکرانوں کی سرپرستی کی۔ تیونس کے بد کردار حاکم زین الدین بن علی کوپناہ دی۔ سعودی عرب نے حسنی مبارک کی حمایت میں بھی فتوے جاری کئے تھے لیکن یہ تیر نشانہ پر نہیں لگ سکا اور آخر کار مصر کے اسلام پسند عوام نے حسنی مبارک کا تختہ الٹ دیا۔
۵۔ حرمیں شریفین خطرہ میں ہے۔ ملک کے اندر اور باہر امریکی فوجیں موجود ہیں۔ امریکہ کے لئے سب سے بڑی لالچ سعودی عرب کا پٹرول ہے۔ اس وقت آئینہ امروز کے ساتھ اندیشہ فردا رکھنے کی سخت ضرورت ہے۔ اپنے ملک کو اس حالت میں رکھنا کہ کوئی غیر ملکی طاقت اس پر آسانی سے قبضہ کرلے جیسے کوئی گدھ گوشت کا ٹکڑا اچک لے جائے یہ جہالت بھی ہے اور نادانی بھی ہے ۔ ٹھیک ہے بظاہرفورا اس کے ابھی آثار نہیں ہیں لیکن مستقبل کو کون جانتا ہے کیا ماضی میں ایسا نہیں ہوا تھا کہ فرانسیسی استعمار نے مصر پرالجزائراور مراکش اور شام پر قبضہ کیا تھا۔ کیا برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ نہیں کیا تھا اور اس کے بعد وہاں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا سعودی عرب نے تاریخ سے سبق کیوں نہیں سیکھا ہے حرمین شریفین کی حفاظت کا طریقہ یہ تھا کہ سعودی عرب کو امریکہ اور مغربی طاقتوں کے ہم پلہ طاقتور ملک بنایا جاتا۔ اس کے لئے ضرورت تھی کہ ملک کو سائنسی اور صنعتی اعتبار سے ترقی دی جاتی، اسلحہ سازی کی جاتی وہان ہر طرح کے صنعتی کار خانے قائم کئے جاتے ۔صنعتی انقلاب کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک سرمایہ اور دوسرے علمی اور سائنسی قابلیت ۔جہاں تک سرمایہ کا تعلق ہے تو پٹرول کے ملکوں کے پاس جو دولت اورثروت ہے اس سے بہت کم سرمایہ سے انگلینڈ میں صنعتی انقلاب آیاتھا اور جہاں تک تجربہ اور علمی قابلیت کی ضرورت ہے تو سعودی عرب اور خلیجی ملک پورے عالم اسلام سے جوہر قابل کو اکٹھا کرسکتے تھے ۔کم نظری اور بے بصری ہے کہ یہ سب بالکل نہیں کیا گیا اور پوری قوم کو صارفین کی کنزیومرس کی قوم بناکر رکھ دیا گیا ہے اور اقبال کا مصرعہ ان خلیجی ملکوں پر صادق آتا ہے:
سعودی عرب دینی اخلاقی خود کشی کی طرف جارہا ہے۔ اخلاق قدریں پامال اور بد اخلاقی کے پودے نہال ہیں، ہر مسلمان کو درد وغم ہے کہ سعودی حکمراں اب مغربی تہذیب اور اباحیت اور اخلاقی پستی کے مخالف ہونے کے بجائے اس کے پرچم بردار بن چکے ہیں۔ اس مغرب زدگی کا جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے، بقول کلیم عاجز
جناب شیخ پر افسوس ہے، ہم نے تو سمجھا تھا
حرم کے رہنے والے ایسے نا محرم نہیں ہوں گے
موجودہ سعودی عرب کا موجودہ منظر نامہ اختصار کے ساتھ یہ ہے:
۱۔ سعودی عرب اپنا تشخص کھوتا جارہا ہے حرم اور مسجد نبوی کے کسٹوڈین اور خادم الحرمین ہونے کی وجہ سے اس کی جو مثالی شخصیت اور قائدانہ حیثیت تھی ختم ہوتی جارہی ہے۔ امر بالمعروف کی بجائے امر بالمنکرات پر زور صرف ہورہا ہے مغربی تمدن اور اقدار کو بے چوں چرا قبول کیا جارہا ہے بلکہ ان کو رواج دیا جارہا ہے۔ بڑے شہر میں سینما ہال اور کاسینو کھولے جارہے ہیں۔ ساحل سمندر پر ایسی تفریح گاہیں بنائی جارہی ہیں جہاں خواتین صرف بکنی پہن کر لباس برہنگی میں جاسکیں گی اور جہاں عام دیدار یار ہوگا ‘‘۔ پردہ جو ایک اسلامی شعار تھا وہ عقل پر سعودی حکمرانوں کے پڑگیا ہے ۔ پوری قوم نغمہ وساز اور عود وبخور میں غرق ہوگئی ہے:
'حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے'
اب جزیرۃ العرب اسلام کی پناہ گاہ نہیں چراہ گاہ بن گیا ہے پتھر تو ہیرا بنتا ہے لیکن یہاں ہیرا پتھر بن رہا ہے۔ اس جرم کے خلاف آواز بلند کرنا ضروری ہے۔ برائیوں کو اور گناہوں کو برداشت کرلینا بھی گناہ کرلینے کی طرح کا جرم ہے اور اس کی سزا بھی بہت سخت ہے، جو لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے اجتناب کرتے ہیں وہ عذاب الہی کے مستحق ہوجاتے ہیں۔
۲۔ جن تنظیموں نے ملک کے اندر اور بیرون ملک نوجوانوں کی تربیت کے لئے عربی زبان میں بہترین اسلامی لٹریچر تیار کیا ان تنظیموں کو اور ان کتابوں کے مصنفین کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔ یوسف القرضاوی جیسی شخصیت جو عالم اسلام کے بڑے عالم دین ہیں اور جن کی خدمات کے اعتراف میں پہلے خود سعودی حکومت فیصل ایوارڈ دے چکی ہے وہ اب معتوب مغضوب ہیں اور ان کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے۔ اخوان المسلمون کی اسلامی حکومت مصر میں محمد مرسی کی صدارت میں قائم ہوئی لیکن اس صالح حافظ قرآن اور متقی انسان کی حکومت اسے گوارا نہ ہوسکی۔ مصر کی اخوانی حکومت کا خاتمہ کرنے کے لئی سعودی عرب نے پانچ ہزار ملین ڈالرکی مدد د کی۔ مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں پورے طور پر ملوث سعودی حکمراں تھے تاکہ مصرپھر سے بدکاری کا اڈہ بن جائے اور وہاں شراب وکباب کی ساری سرمستیاں شروع ہوجائیں، سعودی عرب کی مالی سرپرستی میں ہزاروں اخوانیوں کو مسجد رابعہ میں اور مسجد التح میں اور رابعہ عدویہ کے میدان میں شہید کیا گیا۔ اسلامی حکومت سعوی عرب کے لئے ایک ڈراونا خواب ہے خود سعودی عرب میں اسلامی حکومت نہیں ہے وہان کا سیاسی نظام معاشی اور مالیاتی نظام سب غیر اسلامی ہے اسلامی نظام عدل کا مطالبہ کرنے والے جیلوں میں بند ہیں۔
۳۔ سعودی عرب کے عالم وداعی شیخ محسن العواجی کو جیل میں بند کیا گیا۔ شیخ مخحمد عریفی کو گرفتار کیا گیا، مشہور زمانہ کتاب 'دد لا تحزن' کے مصنف شیخ عائض القرنی، شیخ سلمان بن عودہ شیخ سفر الحوالی شیخ سعد الفقیہ اور شیخ محمد المسعری اور شیخ العواجی کو حق اور ضمیر کی آواز بلند کرنے پر پابندیوں کا اور نظر بندی کا سامنا کرنا پڑا انہوں نے بولنا چاہا تو ان کی زبان بند کردی گئی اب ملت کے باضمیر علماء ہر حلقہ زنجیر میں اپنی زبان رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی آوازکا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے اور دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ پچاسوں علماء ہیں جو خوف سے بہ آواز بلند کچھ کہنے کی ہمت نہیں کرتے ہیں۔ اور وہ گھٹن محسوس کرتے ہیں انہیں بولنے کی آزادی حاصل نہیں ہے۔
۴۔ سعودی عرب کے جرائم کا رکارڈ بہت طویل ہے اس نے دنیائے اسلام کے تمام بد کردار حکرانوں کی سرپرستی کی۔ تیونس کے بد کردار حاکم زین الدین بن علی کوپناہ دی۔ سعودی عرب نے حسنی مبارک کی حمایت میں بھی فتوے جاری کئے تھے لیکن یہ تیر نشانہ پر نہیں لگ سکا اور آخر کار مصر کے اسلام پسند عوام نے حسنی مبارک کا تختہ الٹ دیا۔
۵۔ حرمیں شریفین خطرہ میں ہے۔ ملک کے اندر اور باہر امریکی فوجیں موجود ہیں۔ امریکہ کے لئے سب سے بڑی لالچ سعودی عرب کا پٹرول ہے۔ اس وقت آئینہ امروز کے ساتھ اندیشہ فردا رکھنے کی سخت ضرورت ہے۔ اپنے ملک کو اس حالت میں رکھنا کہ کوئی غیر ملکی طاقت اس پر آسانی سے قبضہ کرلے جیسے کوئی گدھ گوشت کا ٹکڑا اچک لے جائے یہ جہالت بھی ہے اور نادانی بھی ہے ۔ ٹھیک ہے بظاہرفورا اس کے ابھی آثار نہیں ہیں لیکن مستقبل کو کون جانتا ہے کیا ماضی میں ایسا نہیں ہوا تھا کہ فرانسیسی استعمار نے مصر پرالجزائراور مراکش اور شام پر قبضہ کیا تھا۔ کیا برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ نہیں کیا تھا اور اس کے بعد وہاں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا سعودی عرب نے تاریخ سے سبق کیوں نہیں سیکھا ہے حرمین شریفین کی حفاظت کا طریقہ یہ تھا کہ سعودی عرب کو امریکہ اور مغربی طاقتوں کے ہم پلہ طاقتور ملک بنایا جاتا۔ اس کے لئے ضرورت تھی کہ ملک کو سائنسی اور صنعتی اعتبار سے ترقی دی جاتی، اسلحہ سازی کی جاتی وہان ہر طرح کے صنعتی کار خانے قائم کئے جاتے ۔صنعتی انقلاب کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک سرمایہ اور دوسرے علمی اور سائنسی قابلیت ۔جہاں تک سرمایہ کا تعلق ہے تو پٹرول کے ملکوں کے پاس جو دولت اورثروت ہے اس سے بہت کم سرمایہ سے انگلینڈ میں صنعتی انقلاب آیاتھا اور جہاں تک تجربہ اور علمی قابلیت کی ضرورت ہے تو سعودی عرب اور خلیجی ملک پورے عالم اسلام سے جوہر قابل کو اکٹھا کرسکتے تھے ۔کم نظری اور بے بصری ہے کہ یہ سب بالکل نہیں کیا گیا اور پوری قوم کو صارفین کی کنزیومرس کی قوم بناکر رکھ دیا گیا ہے اور اقبال کا مصرعہ ان خلیجی ملکوں پر صادق آتا ہے:
جس کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
وحی الہی کے حکم کی صاف طور پر خلاف ورزی کی گئی جس میں اسلحہ سازی کا حکم دیا یا ہے اور معیار یہ بنایا گیا ہے تمہارے دشمن اور خدا اور رسول کے دشمن تم سے خوف زدہ ہوجائیں۔ اگر کہا جائے کہ سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں نے آخر درجہ کی نا اہلیت کا ثبوت دیا ہے تو یہ بات ہرگز غلط نہیں ہوگی۔ ساری دولت خرچ کرکے وہ اسلحے باہر سے منگائے جاتے ہیں جن کا استعمال بھی سعودی فوج نہیں جانتی. کیا اسی طرز حکمرانی سے اسرائیل کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور اسلام کی سربلندی کے کام کئے جاسکتے ہیں؟
۶۔۔ ملک میں سعودایزیشن شروع ہوچکا ہے یعنی صرف سعودی شہریت رکھنے والوں کو ملازمت دینے کا حکم جاری ہوچکا ہے غیر سعودیوں کے لئے ملازمت کے دروازے بہت محدود کردئے گئے ہیں اور غیر سعودی خاندان کے ہر فرد پر بچے اور پوڑھے مرد اور عورت سب کوتین سو ریال ماہانہ ٹیکس ادا کرنے کا فرمان جاری ہوگیا ہے۔ آئندہ اس میں سال بسال اضافہ ہوتا رہے گا۔ یعنی دوسرے ملکوں کے ملازمین اپنے گھروں کو بھیجنے کے لئے جو بچت کرتے تھے اس بچت کوان سےٍ چھین لیا گیا ہے. پہلے زمانہ میں اسلامی ملکوں میں غیر مسلموں سے جو جزیہ لیا جاتا تھا وہ بھی اس سے بہت کم ہوا کرتا تھا۔ غیر ملکیوں پر اس نئے قسم کے 'جزیہ' کے قوانین کی وجہ سے سعودی عرب میں کام کرنے والے ہزاروں ہزارغیر سعودی ملازمین اپنے اپنے ملکوں کوافتاں وخیزاں بادیدہ گریاں واپس جارہے ہیں اس شاہی حکم نامہ کی وجہ سے دکانیں بند ہوری ہیں اور بازار بے رونق ہورہے ہیں کیونکہ ان دکانوں پر غیر سعودی ملازمین ہی بیٹھا کرتے تھے۔ ایک صاحب گھر سے دوائیں خریدنے کے لئے مارکٹ پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ بازارمیں میڈیسن کی دونوں دکانیں (صیدلیۃ) بند ہیں انہوں نے ایک پاکستانی سے وجہ پوچھی تو اس نے شاعرانہ انداز میں جواب میں کہا:
'وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے'
سعودی باشندوں کو اس نئی غیر منصفانہ پالیسی کا نقصان یہ اٹھانا پڑا ہے کہ ان کی دکانیں بازار اور مال اور ہوٹل توبند ہوتے ہی جارہے ہیں ان کے گھر بھی جو غیر سعودی باشندے کرایہ پر لیتے تھے ویران ہوگئے ہیں اور ہزاروں گھروں پر تالے لٹکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سعودی عرب کے ایک شہر دمام کے ایک بہت بڑے اسکول میں ۳۶ ہزار غیر ملکی طلبہ پڑھتے تھے ان کی تعداد اب ۱۶ ہزار رہ گئی ہے. یہی حال جدہ کے اسکولوں کا بھی ہے۔ ایک ویرانی سی ویرانی ہے۔ گلشن مملکت سعودی عرب میں خزاں چھا گئی ہے۔
خزاں کے ہاتھوں گلوں پر نہ جانے کیا گذری
چمن سے آج صبا بے قرار گذری ہے
۷۔ سعودی عرب امریکہ اور مغربی ملکوں کے جال میں پوری طرح سے پھنس چکا ہے۔ سعودی عرب پہلے ایک بہت خوش حال ملک تھا اب وہ خستہ حال ملک ہو چکا ہے اور پہلے انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ (آئی ام اف) اور ورلڈ بنک کا وہ مقروض نہیں تھا اب وہ ان اداروں سے قرض لینے پر مجبور ہورہا ہے لیکن اس کے باوجود اربوں اور کھربوں ڈالر کے مالیاتی معاہدے وہ دلداری اور دل بدست آوری کے لئے امریکہ اور مغربی ملکوں سے کررہا ہے اور ایسے ہتھیار خرید رہاہے جن کا استعمال سعودی فوج کے بڑے سے بڑے جنرل بھی نہیں جانتے ہیں نہ ان کو اس کی ٹریننگ ملی ہے یہ سارے ہتھیار برائے زینت و آرائش اور برائے نمائش ہیں۔ اس کے مقابلہ میں ترکی ہے جو آئی ام اف اور ورلڈ بینگ کو قرض دینے کی پوزیشن میں آگیا ہے اور جس نے اپنے ہاں تنخواہوں میں تین سوفی صد کا اضافہ کردیا ہے۔ سعودی عرب بجائے اس کے کہ ترکی سے سبق حاصل کرتا اور اس کو دوست بناتا اس نے بغض وحسد کی وجہ سے ترکی کو شیطان اور بدی کا محور قرار دے دیا ہے۔ ایسی ناشائستہ زبان ترکی نے کبھی استعمال نہیں کی۔ اسی سے ترکی اور سعودی تہذیب کا فرق معلوم ہوسکتا ہے۔
آخری بات:
اب آخر ی بات ۔مقطع میں أپڑی ہے سخن گسترانہ بات ۔آج کچھ دردمرے دل میں سوا ہوتا ہے ، دل میں طوفان اٹھ رہا ہواورغیرت اور حمیت کی وجہ سے خون کھول رہا ہو تو خود بخودجوش وجوانی ، شعلہ بیانی اور تحریر میں جولانی اور قلم میں روانی پیدا ہوجاتی ہے ۔یہ ہنر زخم نمائی ہے نہ کہ بے مقصد مضمون نگاری ، یہ زخم کی نمائش نہ کہ الفاظ کی نمائش ۔اگر ہم حرم کی سرزمین میں چراغ نہیں جلا سکتے تو اپنا دل تو جلا سکتے ہیں۔ غم اور غصہ کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کی عزت وناموس خطرہ میں ہے اور اس وقت سعودی عرب میں اسلام کی عزت داغ دار ہورہی ہے۔ سعودی عرب کی، اپنے مقدس مقامات کی وجہ سے، تمام مسلمانوں کے دلوں میں خاص منزلت ہے جب سعودی عرب اپنا قبلہ امریکہ کو بنالے گا اور اس کا تابع فرمان ہوگا تو اس کی تکلیف ہر مسلمان اپنے دل میں محسوس کرے گا۔ اس کا خون کھولے گا۔ چنانچہ آج دنیا کے تمام مسلمان سعودی عرب کے نئے حالات کی وجہ سے بیچین اور مضطرب ہیں ۔یہ اضطراب خود سعودی عرب میں عوام اور خواص میں موجود ہے۔ خود سعودی خاندان غیر مطمئن ہے ۔ علماء مجبور ہیں کہ: 'بات پر واں زبان کٹتی ہے'
'اور چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے'
وہاں کے علماء خوف تعزیر سے چپ رہتے ہیں خود سعودی عرب میں حمیت اور غیرت والوں نے زبان کھولنے کی کوشش کی تو ان کو خاموش کردیاگیا ۔ سعودی عرب میں حالات کو صحیح رخ پر ڈالنے کے لئے قیادت کی تبدیلی یا اصلاح از بس ضروری ہے۔آج مشرق ومغرب کے مسلمان بے چینی سے اس ملک کے افق پر ایک نئے ستارہ کے طلوع ہونے کا انتظار کررہے ہیں: اس ملک میں فوجی بغاوت اس لئےُ ممکن نہیں ہے کہ کہ امریکی فوج جو ملک کے اندر اور باہر قریب کے ملکوں میں موجود ہے وہ اپنی لاڈلی حکومت اور لاڈلے شہزادے اور تخت سلیمانی کی حفاظت کے لئے عفریت من الجن والی طاقت سے پلک جھپکتے پہونچ جائے گی اور ہم خود بھی فوجی بغاوت اور خون ریزی نہیں چاہتے ہیں اور ہمیں اس بات کا بھی اطمنان نہیں ہے کہ جو لوگ انقلاب بردوش بن کر آئیں گے وہ کتنے اسلام کے وفادار ہوں گے لیکن اصلاح بہر حال ضروری ہے اور اس اصلاح کی ذمہ داری دنیا کے علماء کرام کے دوش ناتواں پر ہے ۔ اب علماء بھی اگر خاموش ہوجائیں اورخوف سے یا ویزے کی لالچ میں لب سی لیں تو حق کی بات کون کہے گا ۔اوردد کلمۃ حق عندسلطان جائر ‘‘کا فریضہ کون ادا کرے گا ۔ایسا محسوس ہونے لگاہے کہ سعودی عرب اور علماء کے رمیان کوئی ناجنگ معاہدہ ہوگیا ہے اور کوئی خفیہ سمجھوتہ ہوگیا ہے ۔ سعودی عرب میں کچھ بھی ہو علماء خاموش رہتے ہیں ۔اس وقت ہر مفکر ہر صاحب قلم اور صاحب زبان اور ہر صاحب ایمان پراگر اس کا ضمیر زندہ ہے اصلاح کا فریضہ عائد ہوتا ہے ۔ یہ برائیاں کہیں بھی ہوں وہ برائیاں کہلائیں گی لیکن ان برائیوں کا جزیرۃ العرب میں پایا جانا ناقابل برداشت ہے ۔ اس وقت ہر مسلمان سر بزانو ہے ، سر بگریناں ہے انگشت بدنداں ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے حرم کی سرزمین پر اسلام کی بے حرمتی ہورہی ہے۔ اس لئے اب عالمی پیمانہ پر رائے عامہ کی تشکیل کی ضرورت ہے۔
عالم اسلام کے ملکوں میں اردو عربی اور انگریزی میں اور دوسری زبانوں میں بیانات دینے اور سعودی عرب کی قیادت کو اصلاح کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ 'الدین نصیحۃ' یعنی دین خیرخواہی کا نام ہے تمام مسلمان علماء اور قائدین سلفی اور حنفی، اہل حدیث اور اہل سنت والجماعت، دیوبندی اور بریلوی سب بر سرعام اور برسرمنبر اس بات کا اظہار کریں کہ سعودی عرب میں جوتبدیلیاں لائی جار ہی ہیں وہ ناقابل قبول ہیں اور وہ صاف کہیں کہ حرمین شریفین کی سرزمین پر کسی کی اجارہ داری نہیں وہ کسی کی ذاتی ملکیت اور جائداد نہیں اور قائدین اور علماء اپنے بیانات کی کاپی سعودی سفارت خانہ کو بھی بھیج دیں اور یہ سعودی سفارت خانہ کی ذمہ داری ہے کہ مسلمانوں کی رائے عامہ اور اضطراب کی خبر اپنے یہاں وزارت خارجہ تک پہونچائے ۔ لیکن سفارت خانہ اپنی کارگذاری دکھانے کے لئے صرف وہ چیزیں بھیجتا ہے جس میں سعودی عرب کی تعریف اور ستائش ہوتی ہے۔ ایک عالم دین نے فرمایا کہ: 'ہم اگر تنقید کریں گے تو پھر ہمارے عمرہ کا کیا ہوگا اور ہمیں ویزا کیسے ملے گا.' ایسے کج اندیش اور کج فکر عالم کو کیسے سمجھایا جائے کہ اگر حق گوئی کی یہ قیمت ادا کرنی پڑے کہ آدمی عمرہ سے محروم ہوجائے تو اس حالت میں عمرہ نہ کرنے کا ثواب عمرہ کرنے سے بڑھ جاتا ہے۔
زاد المعادمیں اورسیرت کی کتابوں میں ایک اہم واقعہ مذکور ہے جس سے یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کی سربلندی کے لئے اور حق کا ساتھ دینے کے لئے عمرہ اور طو اف کعبہ جیسی عبادت کو بھی چھوڑا جاسکتا ہے ۔ واقعہ یہ کہ جب حضور ﷺ عمرہ کے ارادہ سے حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو قریش غصہ میں بے قرار اور خفا تھے آﷺ نے حضرت عثمان کو قاصد بناکر قریش کے پاس بھیجا تاکہ وہ اطمنان دلادیں کہ ہم جنگ کے لئے نہیںآئے ہیں بلکہ عمرہ کے ارادہ سے آئے ہیں۔ حضرت عثمان گئے اور ابو سفیان اور فریش کے دوسرے سربرآوردہ حضرات سے گفتگوکی اور رسول اللہﷺ کا پیغام پہونچایا۔اس موقعہ سے فریش کے سرداروں نے کہا کہ آپ اگر عمرہ اور طواف کرنا چاہئیں تو کرلیں ۔ حضرات عثمان نے اس موقعہ اور اجازت سے بالکل فائدہ نہیں اٹھایا اور صاف کہ دیا کہ جب تک حضور ﷺ طواف اور عمرہ نہیں کریں گے ہم بھی نہیں کریں گے ۔جب حضرت عثمان حدیبیہ واپس پہونچے تو مسلمانوں نے کہا کہ تم تو بہت فائدہ میں رہے عمرہ اور طواف کرلیا اور اپنے دل کا ارمان نکال لیا ۔حضرت عثمان نے جواب دیا تم لوگون نے بدگمانی سے کام لیا ہے قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر مجھے ایک سال بھی وہاں ٹھہرنا پڑتا اور رسول اللہﷺمدینہ میں تشریف فرما ہوتے تب بھی میں اس وقت تک طواف نہ کرتا جب تک حضور طواف نہ فرما لیتے، مجھے تو قریش نے طواف کی دعوت بھی دی تھی مگر میں نے صاف انکار کردیا.‘‘اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حرمین شریفین کی بے حرمتی اس طرح ہورہی ہوکہ وہاں حاکم وقت کی ایما پر فسق وفجور کو فروغ دیا جارہا ہو تو محض عمرہ کی خواہش پوری کرنے کے لئے حق گوئی سے اعراض کرنا درست نہیں اور وہ اصحاب قلم اور وہ تمام سالک وصوفی اور تمام شیوخ وامام مجرم ہیں جو امید کرم پر ایسے حاکموں کے لئے شعری اور نثری قصیدے لکھتے ہیں اور اس کے سفارت خانہ میں اپنا دست طلب درازکرتے ہیں۔وہ عمرہ بہت مہنگا بھی ہے اور بے ثواب بھی ہے جو ضمیر کو موت کی نیند سلاکرکرکے کیا جائے۔
کیا بر صغیر کے علماء واقعی بے ضمیر ہوچکے ہیں کہ صرف حج وعمرہ کے لئے اور ایک کف جو کے عوض حق گوئی سے گریزکریں گے ۔ ہندوستان میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے عالی قدر صدر حضرت مولانا محمد رابع حسنی ہیں جو رابطہ عالم اسلامی کے منبر ہیں مولانا بہت لائق احترام ہیں لیکن ان کا ایک خاص مزاج ہے وہ کسی مسئلہ پرکبھی کوئی بیان نہیں دیتے ہیں ان کی ناراضی کے اظہار کے لئے بس یہ کافی ہے کہ انہوں برسوں سے رابطہ ادب اسلامی کے جلسوں میں شرکت بند کرد ہی ہے رابطہ عالم اسلامی کے ممبر مولنا ارشد مدنی بھی ہیں ۔مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے اپنی ناراضی کے اظہار کا کیاطریقہ اختیار کیا ہے ۔وہ تو ہر روزکوئی نہ کوئی بیان کسی نہ کسی مسئلہ پر دیتے رہتے ہیں ۔اس اہم ترین مسئلہ پر وہ کوئی بیان تو دیں۔ کوئی تو حرف ترے کنج لب سے ہو آغاز ‘‘ کیا ان کے نزدیک سرزمین حجاز کو امریکہ کے نقش قدم پر ڈالنے کی پالیسی لائق اعتناء نہیں کیا ان کے نزدیک رابطہ کی ممبر شپ اتنی قیمتی ہے کہ وہ اس اہم ترین مسئلہ پر حق گوئی کی جسارت نہیں کرسکتے ۔وہ تو شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی مرحوم کے صاحب زادہ ہیں جن کی شخصیت کا اصل جوہر ہی دینی غیرت اور حمیت ہے۔
سرزمین حجازکا معاملہ جان ودل سے عزیز تر شئی کا معاملہ ہے ہم تمام قائدین، تمام علماء کرام اورتمام اہل قلم سے اپیل کرتے ہیں کہ اس موضوع پر خاموشی اختیار نہ کریں اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کھل کر کریں اور سفارت خانہ کو وزارت خارجہ کو اور خادم الحرمین کو اپنے احتجاج کی گاپی بھجیں اور اسے ایک ضروری دینی کام سمجھ کر انجام دیں ۔ہم یہان مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی ایک تحریر کا اقتباس نقل کرتے ہیں:
’’آج ملت کی قد آور شخصیتیں، مذہبی تنظیمیں، اور نمائندہ ادارے مصلحت کی دبیز چادر میں اپنا منہ چھپائے ہوئے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمیں اللہ کے دربار میں اس طرح حاضر ہونا پڑے کہ ہماری پیشانی پر رحمت خداوندی کی امید کا نور نہ ہو، بلکہ اپنی بے ضمیری کی وجہ سے اللہ کی رحمت سے ناامیدی کا داغ ہو‘‘۔
پروفیسر محسن عثمانی ندوی
مضمون نگار English and Foreign languages university, Hyderabad کے رٹائرڈ پروفیسر ہیں.
وحی الہی کے حکم کی صاف طور پر خلاف ورزی کی گئی جس میں اسلحہ سازی کا حکم دیا یا ہے اور معیار یہ بنایا گیا ہے تمہارے دشمن اور خدا اور رسول کے دشمن تم سے خوف زدہ ہوجائیں۔ اگر کہا جائے کہ سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں نے آخر درجہ کی نا اہلیت کا ثبوت دیا ہے تو یہ بات ہرگز غلط نہیں ہوگی۔ ساری دولت خرچ کرکے وہ اسلحے باہر سے منگائے جاتے ہیں جن کا استعمال بھی سعودی فوج نہیں جانتی. کیا اسی طرز حکمرانی سے اسرائیل کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور اسلام کی سربلندی کے کام کئے جاسکتے ہیں؟
۶۔۔ ملک میں سعودایزیشن شروع ہوچکا ہے یعنی صرف سعودی شہریت رکھنے والوں کو ملازمت دینے کا حکم جاری ہوچکا ہے غیر سعودیوں کے لئے ملازمت کے دروازے بہت محدود کردئے گئے ہیں اور غیر سعودی خاندان کے ہر فرد پر بچے اور پوڑھے مرد اور عورت سب کوتین سو ریال ماہانہ ٹیکس ادا کرنے کا فرمان جاری ہوگیا ہے۔ آئندہ اس میں سال بسال اضافہ ہوتا رہے گا۔ یعنی دوسرے ملکوں کے ملازمین اپنے گھروں کو بھیجنے کے لئے جو بچت کرتے تھے اس بچت کوان سےٍ چھین لیا گیا ہے. پہلے زمانہ میں اسلامی ملکوں میں غیر مسلموں سے جو جزیہ لیا جاتا تھا وہ بھی اس سے بہت کم ہوا کرتا تھا۔ غیر ملکیوں پر اس نئے قسم کے 'جزیہ' کے قوانین کی وجہ سے سعودی عرب میں کام کرنے والے ہزاروں ہزارغیر سعودی ملازمین اپنے اپنے ملکوں کوافتاں وخیزاں بادیدہ گریاں واپس جارہے ہیں اس شاہی حکم نامہ کی وجہ سے دکانیں بند ہوری ہیں اور بازار بے رونق ہورہے ہیں کیونکہ ان دکانوں پر غیر سعودی ملازمین ہی بیٹھا کرتے تھے۔ ایک صاحب گھر سے دوائیں خریدنے کے لئے مارکٹ پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ بازارمیں میڈیسن کی دونوں دکانیں (صیدلیۃ) بند ہیں انہوں نے ایک پاکستانی سے وجہ پوچھی تو اس نے شاعرانہ انداز میں جواب میں کہا:
'وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے'
سعودی باشندوں کو اس نئی غیر منصفانہ پالیسی کا نقصان یہ اٹھانا پڑا ہے کہ ان کی دکانیں بازار اور مال اور ہوٹل توبند ہوتے ہی جارہے ہیں ان کے گھر بھی جو غیر سعودی باشندے کرایہ پر لیتے تھے ویران ہوگئے ہیں اور ہزاروں گھروں پر تالے لٹکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سعودی عرب کے ایک شہر دمام کے ایک بہت بڑے اسکول میں ۳۶ ہزار غیر ملکی طلبہ پڑھتے تھے ان کی تعداد اب ۱۶ ہزار رہ گئی ہے. یہی حال جدہ کے اسکولوں کا بھی ہے۔ ایک ویرانی سی ویرانی ہے۔ گلشن مملکت سعودی عرب میں خزاں چھا گئی ہے۔
خزاں کے ہاتھوں گلوں پر نہ جانے کیا گذری
چمن سے آج صبا بے قرار گذری ہے
۷۔ سعودی عرب امریکہ اور مغربی ملکوں کے جال میں پوری طرح سے پھنس چکا ہے۔ سعودی عرب پہلے ایک بہت خوش حال ملک تھا اب وہ خستہ حال ملک ہو چکا ہے اور پہلے انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ (آئی ام اف) اور ورلڈ بنک کا وہ مقروض نہیں تھا اب وہ ان اداروں سے قرض لینے پر مجبور ہورہا ہے لیکن اس کے باوجود اربوں اور کھربوں ڈالر کے مالیاتی معاہدے وہ دلداری اور دل بدست آوری کے لئے امریکہ اور مغربی ملکوں سے کررہا ہے اور ایسے ہتھیار خرید رہاہے جن کا استعمال سعودی فوج کے بڑے سے بڑے جنرل بھی نہیں جانتے ہیں نہ ان کو اس کی ٹریننگ ملی ہے یہ سارے ہتھیار برائے زینت و آرائش اور برائے نمائش ہیں۔ اس کے مقابلہ میں ترکی ہے جو آئی ام اف اور ورلڈ بینگ کو قرض دینے کی پوزیشن میں آگیا ہے اور جس نے اپنے ہاں تنخواہوں میں تین سوفی صد کا اضافہ کردیا ہے۔ سعودی عرب بجائے اس کے کہ ترکی سے سبق حاصل کرتا اور اس کو دوست بناتا اس نے بغض وحسد کی وجہ سے ترکی کو شیطان اور بدی کا محور قرار دے دیا ہے۔ ایسی ناشائستہ زبان ترکی نے کبھی استعمال نہیں کی۔ اسی سے ترکی اور سعودی تہذیب کا فرق معلوم ہوسکتا ہے۔
آخری بات:
اب آخر ی بات ۔مقطع میں أپڑی ہے سخن گسترانہ بات ۔آج کچھ دردمرے دل میں سوا ہوتا ہے ، دل میں طوفان اٹھ رہا ہواورغیرت اور حمیت کی وجہ سے خون کھول رہا ہو تو خود بخودجوش وجوانی ، شعلہ بیانی اور تحریر میں جولانی اور قلم میں روانی پیدا ہوجاتی ہے ۔یہ ہنر زخم نمائی ہے نہ کہ بے مقصد مضمون نگاری ، یہ زخم کی نمائش نہ کہ الفاظ کی نمائش ۔اگر ہم حرم کی سرزمین میں چراغ نہیں جلا سکتے تو اپنا دل تو جلا سکتے ہیں۔ غم اور غصہ کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کی عزت وناموس خطرہ میں ہے اور اس وقت سعودی عرب میں اسلام کی عزت داغ دار ہورہی ہے۔ سعودی عرب کی، اپنے مقدس مقامات کی وجہ سے، تمام مسلمانوں کے دلوں میں خاص منزلت ہے جب سعودی عرب اپنا قبلہ امریکہ کو بنالے گا اور اس کا تابع فرمان ہوگا تو اس کی تکلیف ہر مسلمان اپنے دل میں محسوس کرے گا۔ اس کا خون کھولے گا۔ چنانچہ آج دنیا کے تمام مسلمان سعودی عرب کے نئے حالات کی وجہ سے بیچین اور مضطرب ہیں ۔یہ اضطراب خود سعودی عرب میں عوام اور خواص میں موجود ہے۔ خود سعودی خاندان غیر مطمئن ہے ۔ علماء مجبور ہیں کہ: 'بات پر واں زبان کٹتی ہے'
'اور چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے'
وہاں کے علماء خوف تعزیر سے چپ رہتے ہیں خود سعودی عرب میں حمیت اور غیرت والوں نے زبان کھولنے کی کوشش کی تو ان کو خاموش کردیاگیا ۔ سعودی عرب میں حالات کو صحیح رخ پر ڈالنے کے لئے قیادت کی تبدیلی یا اصلاح از بس ضروری ہے۔آج مشرق ومغرب کے مسلمان بے چینی سے اس ملک کے افق پر ایک نئے ستارہ کے طلوع ہونے کا انتظار کررہے ہیں: اس ملک میں فوجی بغاوت اس لئےُ ممکن نہیں ہے کہ کہ امریکی فوج جو ملک کے اندر اور باہر قریب کے ملکوں میں موجود ہے وہ اپنی لاڈلی حکومت اور لاڈلے شہزادے اور تخت سلیمانی کی حفاظت کے لئے عفریت من الجن والی طاقت سے پلک جھپکتے پہونچ جائے گی اور ہم خود بھی فوجی بغاوت اور خون ریزی نہیں چاہتے ہیں اور ہمیں اس بات کا بھی اطمنان نہیں ہے کہ جو لوگ انقلاب بردوش بن کر آئیں گے وہ کتنے اسلام کے وفادار ہوں گے لیکن اصلاح بہر حال ضروری ہے اور اس اصلاح کی ذمہ داری دنیا کے علماء کرام کے دوش ناتواں پر ہے ۔ اب علماء بھی اگر خاموش ہوجائیں اورخوف سے یا ویزے کی لالچ میں لب سی لیں تو حق کی بات کون کہے گا ۔اوردد کلمۃ حق عندسلطان جائر ‘‘کا فریضہ کون ادا کرے گا ۔ایسا محسوس ہونے لگاہے کہ سعودی عرب اور علماء کے رمیان کوئی ناجنگ معاہدہ ہوگیا ہے اور کوئی خفیہ سمجھوتہ ہوگیا ہے ۔ سعودی عرب میں کچھ بھی ہو علماء خاموش رہتے ہیں ۔اس وقت ہر مفکر ہر صاحب قلم اور صاحب زبان اور ہر صاحب ایمان پراگر اس کا ضمیر زندہ ہے اصلاح کا فریضہ عائد ہوتا ہے ۔ یہ برائیاں کہیں بھی ہوں وہ برائیاں کہلائیں گی لیکن ان برائیوں کا جزیرۃ العرب میں پایا جانا ناقابل برداشت ہے ۔ اس وقت ہر مسلمان سر بزانو ہے ، سر بگریناں ہے انگشت بدنداں ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے حرم کی سرزمین پر اسلام کی بے حرمتی ہورہی ہے۔ اس لئے اب عالمی پیمانہ پر رائے عامہ کی تشکیل کی ضرورت ہے۔
عالم اسلام کے ملکوں میں اردو عربی اور انگریزی میں اور دوسری زبانوں میں بیانات دینے اور سعودی عرب کی قیادت کو اصلاح کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ 'الدین نصیحۃ' یعنی دین خیرخواہی کا نام ہے تمام مسلمان علماء اور قائدین سلفی اور حنفی، اہل حدیث اور اہل سنت والجماعت، دیوبندی اور بریلوی سب بر سرعام اور برسرمنبر اس بات کا اظہار کریں کہ سعودی عرب میں جوتبدیلیاں لائی جار ہی ہیں وہ ناقابل قبول ہیں اور وہ صاف کہیں کہ حرمین شریفین کی سرزمین پر کسی کی اجارہ داری نہیں وہ کسی کی ذاتی ملکیت اور جائداد نہیں اور قائدین اور علماء اپنے بیانات کی کاپی سعودی سفارت خانہ کو بھی بھیج دیں اور یہ سعودی سفارت خانہ کی ذمہ داری ہے کہ مسلمانوں کی رائے عامہ اور اضطراب کی خبر اپنے یہاں وزارت خارجہ تک پہونچائے ۔ لیکن سفارت خانہ اپنی کارگذاری دکھانے کے لئے صرف وہ چیزیں بھیجتا ہے جس میں سعودی عرب کی تعریف اور ستائش ہوتی ہے۔ ایک عالم دین نے فرمایا کہ: 'ہم اگر تنقید کریں گے تو پھر ہمارے عمرہ کا کیا ہوگا اور ہمیں ویزا کیسے ملے گا.' ایسے کج اندیش اور کج فکر عالم کو کیسے سمجھایا جائے کہ اگر حق گوئی کی یہ قیمت ادا کرنی پڑے کہ آدمی عمرہ سے محروم ہوجائے تو اس حالت میں عمرہ نہ کرنے کا ثواب عمرہ کرنے سے بڑھ جاتا ہے۔
زاد المعادمیں اورسیرت کی کتابوں میں ایک اہم واقعہ مذکور ہے جس سے یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کی سربلندی کے لئے اور حق کا ساتھ دینے کے لئے عمرہ اور طو اف کعبہ جیسی عبادت کو بھی چھوڑا جاسکتا ہے ۔ واقعہ یہ کہ جب حضور ﷺ عمرہ کے ارادہ سے حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو قریش غصہ میں بے قرار اور خفا تھے آﷺ نے حضرت عثمان کو قاصد بناکر قریش کے پاس بھیجا تاکہ وہ اطمنان دلادیں کہ ہم جنگ کے لئے نہیںآئے ہیں بلکہ عمرہ کے ارادہ سے آئے ہیں۔ حضرت عثمان گئے اور ابو سفیان اور فریش کے دوسرے سربرآوردہ حضرات سے گفتگوکی اور رسول اللہﷺ کا پیغام پہونچایا۔اس موقعہ سے فریش کے سرداروں نے کہا کہ آپ اگر عمرہ اور طواف کرنا چاہئیں تو کرلیں ۔ حضرات عثمان نے اس موقعہ اور اجازت سے بالکل فائدہ نہیں اٹھایا اور صاف کہ دیا کہ جب تک حضور ﷺ طواف اور عمرہ نہیں کریں گے ہم بھی نہیں کریں گے ۔جب حضرت عثمان حدیبیہ واپس پہونچے تو مسلمانوں نے کہا کہ تم تو بہت فائدہ میں رہے عمرہ اور طواف کرلیا اور اپنے دل کا ارمان نکال لیا ۔حضرت عثمان نے جواب دیا تم لوگون نے بدگمانی سے کام لیا ہے قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر مجھے ایک سال بھی وہاں ٹھہرنا پڑتا اور رسول اللہﷺمدینہ میں تشریف فرما ہوتے تب بھی میں اس وقت تک طواف نہ کرتا جب تک حضور طواف نہ فرما لیتے، مجھے تو قریش نے طواف کی دعوت بھی دی تھی مگر میں نے صاف انکار کردیا.‘‘اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حرمین شریفین کی بے حرمتی اس طرح ہورہی ہوکہ وہاں حاکم وقت کی ایما پر فسق وفجور کو فروغ دیا جارہا ہو تو محض عمرہ کی خواہش پوری کرنے کے لئے حق گوئی سے اعراض کرنا درست نہیں اور وہ اصحاب قلم اور وہ تمام سالک وصوفی اور تمام شیوخ وامام مجرم ہیں جو امید کرم پر ایسے حاکموں کے لئے شعری اور نثری قصیدے لکھتے ہیں اور اس کے سفارت خانہ میں اپنا دست طلب درازکرتے ہیں۔وہ عمرہ بہت مہنگا بھی ہے اور بے ثواب بھی ہے جو ضمیر کو موت کی نیند سلاکرکرکے کیا جائے۔
کیا بر صغیر کے علماء واقعی بے ضمیر ہوچکے ہیں کہ صرف حج وعمرہ کے لئے اور ایک کف جو کے عوض حق گوئی سے گریزکریں گے ۔ ہندوستان میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے عالی قدر صدر حضرت مولانا محمد رابع حسنی ہیں جو رابطہ عالم اسلامی کے منبر ہیں مولانا بہت لائق احترام ہیں لیکن ان کا ایک خاص مزاج ہے وہ کسی مسئلہ پرکبھی کوئی بیان نہیں دیتے ہیں ان کی ناراضی کے اظہار کے لئے بس یہ کافی ہے کہ انہوں برسوں سے رابطہ ادب اسلامی کے جلسوں میں شرکت بند کرد ہی ہے رابطہ عالم اسلامی کے ممبر مولنا ارشد مدنی بھی ہیں ۔مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے اپنی ناراضی کے اظہار کا کیاطریقہ اختیار کیا ہے ۔وہ تو ہر روزکوئی نہ کوئی بیان کسی نہ کسی مسئلہ پر دیتے رہتے ہیں ۔اس اہم ترین مسئلہ پر وہ کوئی بیان تو دیں۔ کوئی تو حرف ترے کنج لب سے ہو آغاز ‘‘ کیا ان کے نزدیک سرزمین حجاز کو امریکہ کے نقش قدم پر ڈالنے کی پالیسی لائق اعتناء نہیں کیا ان کے نزدیک رابطہ کی ممبر شپ اتنی قیمتی ہے کہ وہ اس اہم ترین مسئلہ پر حق گوئی کی جسارت نہیں کرسکتے ۔وہ تو شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی مرحوم کے صاحب زادہ ہیں جن کی شخصیت کا اصل جوہر ہی دینی غیرت اور حمیت ہے۔
سرزمین حجازکا معاملہ جان ودل سے عزیز تر شئی کا معاملہ ہے ہم تمام قائدین، تمام علماء کرام اورتمام اہل قلم سے اپیل کرتے ہیں کہ اس موضوع پر خاموشی اختیار نہ کریں اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کھل کر کریں اور سفارت خانہ کو وزارت خارجہ کو اور خادم الحرمین کو اپنے احتجاج کی گاپی بھجیں اور اسے ایک ضروری دینی کام سمجھ کر انجام دیں ۔ہم یہان مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی ایک تحریر کا اقتباس نقل کرتے ہیں:
’’آج ملت کی قد آور شخصیتیں، مذہبی تنظیمیں، اور نمائندہ ادارے مصلحت کی دبیز چادر میں اپنا منہ چھپائے ہوئے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمیں اللہ کے دربار میں اس طرح حاضر ہونا پڑے کہ ہماری پیشانی پر رحمت خداوندی کی امید کا نور نہ ہو، بلکہ اپنی بے ضمیری کی وجہ سے اللہ کی رحمت سے ناامیدی کا داغ ہو‘‘۔
پروفیسر محسن عثمانی ندوی
مضمون نگار English and Foreign languages university, Hyderabad کے رٹائرڈ پروفیسر ہیں.
No comments:
Post a Comment