حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری لمحات
وفات سے 3 روز قبل جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر تشریف فرما تھے، ارشاد فرمایا کہ
"میری بیویوں کو جمع کرو۔"
تمام ازواج مطہرات جمع ہو گئیں۔
تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:
"کیا تم سب مجھے اجازت دیتی ہو کہ بیماری کے دن میں عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے ہاں گزار لوں؟"
سب نے کہا اے اللہ کے رسول آپ کو اجازت ہے۔
پھر اٹھنا چاہا لیکن اٹھہ نہ پائے تو حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما آگے بڑھے اور نبی علیہ الصلوة والسلام کو سہارے سے اٹھا کر سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے کی طرف لے جانے لگے۔
اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس (بیماری اور کمزوری کے) حال میں پہلی بار دیکھا تو گھبرا کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟
چنانچہ صحابہ مسجد میں جمع ہونا شروع ہو گئے اور مسجد شریف میں ایک رش لگ ہوگیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا پسینہ شدت سے بہہ رہا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی کا اتنا پسینہ بہتے نہیں دیکھا۔
اور فرماتی ہیں:
"میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک کو پکڑتی اور اسی کو چہرہ اقدس پر پھیرتی کیونکہ نبی علیہ الصلوة والسلام کا ہاتھ میرے ہاتھ سے کہیں زیادہ محترم اور پاکیزہ تھا۔"
مزید فرماتی ہیں کہ حبیب خدا علیہ الصلوات والتسلیم
سے بس یہی ورد سنائی دے رہا تھا کہ
"لا إله إلا الله، بیشک موت کی بھی اپنی سختیاں ہیں۔"
اسی اثناء میں مسجد کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں خوف کی وجہ سے لوگوں کا شور بڑھنے لگا۔
نبی علیہ السلام نے دریافت فرمایا:
"یہ کیسی آوازیں ہیں؟
عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! یہ لوگ آپ کی حالت سے خوف زدہ ہیں۔
ارشاد فرمایا کہ مجھے ان پاس لے چلو۔
پھر اٹھنے کا ارادہ فرمایا لیکن اٹھہ نہ سکے تو آپ علیہ الصلوة و السلام پر 7 مشکیزے پانی کے بہائے گئے، تب کہیں جا کر کچھ افاقہ ہوا تو سہارے سے اٹھا کر ممبر پر لایا گیا۔
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا آخری خطبہ تھا اور آپ علیہ السلام کے آخری کلمات تھے۔
فرمایا:
" اے لوگو۔۔۔! شاید تمہیں میری موت کا خوف ہے؟"
سب نے کہا:
"جی ہاں اے اللہ کے رسول"
ارشاد فرمایا:
"اے لوگو۔۔!
تم سے میری ملاقات کی جگہ دنیا نہیں، تم سے میری ملاقات کی جگہ حوض (کوثر) ہے، خدا کی قسم گویا کہ میں یہیں سے اسے (حوض کوثر کو) دیکھ رہا ہوں،
اے لوگو۔۔۔!
مجھے تم پر تنگدستی کا خوف نہیں بلکہ مجھے تم پر دنیا (کی فراوانی) کا خوف ہے، کہ تم اس (کے معاملے) میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جاؤ جیسا کہ تم سے پہلے (پچھلی امتوں) والے لگ گئے، اور یہ (دنیا) تمہیں بھی ہلاک کر دے جیسا کہ انہیں ہلاک کر دیا۔"
پھر مزید ارشاد فرمایا:
"اے لوگو۔۔! نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سےڈرو۔ نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو۔"
(یعنی عہد کرو کہ نماز کی پابندی کرو گے، اور یہی بات بار بار دہراتے رہے۔)
پھر فرمایا:
"اے لوگو۔۔۔! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میں تمہیں عورتوں سے نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔"
مزید فرمایا:
"اے لوگو۔۔۔! ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ دنیا کو چن لے یا اسے چن لے جو اللہ کے پاس ہے، تو اس نے اسے پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے"
اس جملے سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد کوئی نہ سمجھا حالانکہ انکی اپنی ذات مراد تھی۔
جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ وہ تنہا شخص تھے جو اس جملے کو سمجھے اور زارو قطار رونے لگے اور بلند آواز سے گریہ کرتے ہوئے اٹھہ کھڑے ہوئے اور نبی علیہ السلام کی بات قطع کر کے پکارنے لگے۔۔۔۔
"ہمارے باپ دادا آپ پر قربان، ہماری مائیں آپ پر قربان، ہمارے بچے آپ پر قربان، ہمارے مال و دولت آپ پر قربان....."
روتے جاتے ہیں اور یہی الفاظ کہتے جاتے ہیں۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم (ناگواری سے) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگے کہ انہوں نے نبی علیہ السلام کی بات کیسے قطع کردی؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دفاع ان الفاظ میں فرمایا:
"اے لوگو۔۔۔! ابوبکر کو چھوڑ دو کہ تم میں سے ایسا کوئی نہیں کہ جس نے ہمارے ساتھ کوئی بھلائی کی ہو اور ہم نے اس کا بدلہ نہ دے دیا ہو، سوائے ابوبکر کے کہ اس کا بدلہ میں نہیں دے سکا۔ اس کا بدلہ میں نے اللہ جل شانہ پر چھوڑ دیا۔ مسجد (نبوی) میں کھلنے والے تمام دروازے بند کر دیے جائیں، سوائے ابوبکر کے دروازے کے کہ جو کبھی بند نہ ہوگا۔"
آخر میں اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کے لیے آخری دعا کے طور پر ارشاد فرمایا:
"اللہ تمہیں ٹھکانہ دے، تمہاری حفاظت کرے، تمہاری مدد کرے، تمہاری تائید کرے۔
اور آخری بات جو ممبر سے اترنے سے پہلے امت کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی وہ یہ کہ:
"اے لوگو۔۔۔! قیامت تک آنے والے میرے ہر ایک امتی کو میرا سلام پہنچا دینا۔"
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ سہارے سے اٹھا کر گھر لے جایا گیا۔
اسی اثناء میں حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ میں مسواک تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کو دیکھنے لگے لیکن شدت مرض کی وجہ سے طلب نہ کر پائے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے سے سمجھ گئیں اور انہوں نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مسواک لے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دہن مبارک میں رکھ دی، لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم اسے استعمال نہ کر پائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسواک لے کر اپنے منہ سے نرم کی اور پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو لوٹا دی تاکہ دہن مبارک اس سے تر رہے۔
فرماتی ہیں:
" آخری چیز جو نبی کریم علیہ الصلوة والسلام کے پیٹ میں گئی وہ میرا لعاب تھا، اور یہ اللہ تبارک و تعالٰی کا مجھ پر فضل ہی تھا کہ اس نے وصال سے قبل میرا اور نبی کریم علیہ السلام کا لعاب دہن یکجا کر دیا۔"
أم المؤمنين حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مزید ارشاد فرماتی ہیں:
"پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی فاطمہ تشریف لائیں اور آتے ہی رو پڑیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھہ نہ سکے، کیونکہ نبی کریم علیہ السلام کا معمول تھا کہ جب بھی فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تشریف لاتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم انکے ماتھے پر بوسہ دیتےتھے۔
حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے فاطمہ! "قریب آجاؤ۔۔۔"
پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے کان میں کوئی بات کہی تو حضرت فاطمہ اور زیادہ رونے لگیں، انہیں اس طرح روتا دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے فاطمہ! "قریب آؤ۔۔۔"
دوبارہ انکے کان میں کوئی بات ارشاد فرمائی تو وہ خوش ہونے لگیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد میں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا سے پوچھا تھا کہ وہ کیا بات تھی جس پر روئیں اور پھر خوشی اظہار کیا تھا؟
سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کہنے لگیں کہ
پہلی بار (جب میں قریب ہوئی) تو فرمایا:
"فاطمہ! میں آج رات (اس دنیاسے) کوچ کرنے والا ہوں۔
جس پر میں رو دی۔۔۔۔"
جب انہوں نے مجھے بےتحاشا روتے دیکھا تو فرمانے لگے:
"فاطمہ! میرے اہلِ خانہ میں سب سے پہلے تم مجھ سے آ ملو گی۔۔۔"
جس پر میں خوش ہوگئی۔۔۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں:
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو گھر سے باھر جانے کا حکم دیکر مجھے فرمایا:
"عائشہ! میرے قریب آجاؤ۔۔۔"
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجۂ مطہرہ کے سینے پر ٹیک لگائی اور ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے فرمانے لگے:
مجھے وہ اعلیٰ و عمدہ رفاقت پسند ہے۔ (میں الله کی، انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی رفاقت کو اختیار کرتا ہوں۔)
صدیقہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:
"میں سمجھ گئی کہ انہوں نے آخرت کو چن لیا ہے۔"
جبرئیل علیہ السلام خدمت اقدس میں حاضر ہو کر گویا ہوئے:
"یارسول الله! ملَکُ الموت دروازے پر کھڑے شرف باریابی چاہتے ہیں۔ آپ سے پہلے انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی۔"
آپ علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا:
"جبریل! اسے آنے دو۔۔۔"
ملَکُ الموت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہوئے، اور کہا:
"السلام علیک یارسول الله! مجھے اللہ نے آپ کی چاہت جاننے کیلئےبھیجا ہے کہ آپ دنیا میں ہی رہنا چاہتے ہیں یا الله سبحانہ وتعالی کے پاس جانا پسند کرتے ہیں؟"
فرمایا:
"مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے، مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے۔"
ملَکُ الموت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے سرہانے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے:
"اے پاکیزہ روح۔۔۔!
اے محمد بن عبدالله کی روح۔۔۔!
الله کی رضا و خوشنودی کی طرف روانہ ہو۔۔۔!
راضی ہوجانے والے پروردگار کی طرف جو غضبناک نہیں۔۔۔!"
سیدہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا فرماتی ہیں:
پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ہاتھ نیچے آن رہا، اور سر مبارک میرے سینے پر بھاری ہونے لگا، میں سمجھ گئی کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔۔۔ مجھے اور تو کچھ سمجھ نہیں آیا سو میں اپنے حجرے سے نکلی اور مسجد کی طرف کا دروازہ کھول کر کہا۔۔
"رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔! رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔!"
مسجد آہوں اور نالوں سے گونجنے لگی۔
ادھر علی کرم الله وجہہ جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے پھر ہلنے کی طاقت تک نہ رہی۔
ادھر عثمان بن عفان رضی الله تعالی عنہ معصوم بچوں کی طرح ہاتھ ملنے لگے۔
اور سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ تلوار بلند کرکے کہنے لگے:
"خبردار! جو کسی نے کہا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں، میں ایسے شخص کی گردن اڑا دوں گا۔۔۔! میرے آقا تو الله تعالی سے ملاقات کرنے گئے ہیں جیسے موسی علیہ السلام اپنے رب سے ملاقات کوگئے تھے، وہ لوٹ آئیں گے، بہت جلد لوٹ آئیں گے۔۔۔۔! اب جو وفات کی خبر اڑائے گا، میں اسے قتل کرڈالوں گا۔۔۔"
اس موقع پر سب زیادہ ضبط، برداشت اور صبر کرنے والی شخصیت سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله تعالی عنہ کی تھی۔۔۔ آپ حجرۂ نبوی میں داخل ہوئے، رحمت دوعالَم صلی الله علیہ وسلم کے سینۂ مبارک پر سر رکھہ کر رو دیئے۔۔۔
کہہ رہے تھے:
وآآآ خليلاه، وآآآ صفياه، وآآآ حبيباه، وآآآ نبياه
(ہائے میرا پیارا دوست۔۔۔! ہائے میرا مخلص ساتھی۔۔۔!ہائے میرا محبوب۔۔۔! ہائے میرا نبی۔۔۔!)
پھر آنحضرت صلی علیہ وسلم کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا:
"یا رسول الله! آپ پاکیزہ جئے اور پاکیزہ ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔"
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر آئے اور خطبہ دیا:
"جو شخص محمد صلی الله علیہ وسلم کی عبادت کرتا ہے سن رکھے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا اور جو الله کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ الله تعالی شانہ کی ذات ھمیشہ زندگی والی ہے جسے موت نہیں۔"
سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔۔۔
عمر رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں:
پھر میں کوئی تنہائی کی جگہ تلاش کرنے لگا جہاں اکیلا بیٹھ کر روؤں۔۔۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تدفین کر دی گئی۔۔۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"تم نے کیسے گوارا کر لیا کہ نبی علیہ السلام کے چہرہ انور پر مٹی ڈالو۔۔۔؟"
پھر کہنے لگیں:
"يا أبتاه، أجاب ربا دعاه، يا أبتاه، جنة الفردوس مأواه، يا أبتاه، الى جبريل ننعاه."
(ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ اپنے رب کے بلاوے پر چل دیے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ جنت الفردوس میں اپنے ٹھکانے کو پہنچ گئے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ ہم جبریل کو ان کے آنے کی خبر دیتے ہیں۔)
اللھم صل علی محمد کما تحب وترضی
بَابُ: مَا جَاءَ فِي وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بیان میں
حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : آخِرُ نَظْرَةٍ نَظَرْتُهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَشْفُ السِّتَارَةِ يَوْمَ الإِثْنَيْنِ، فَنَظَرْتُ إِلَى وَجْهِهٖ كَاَنَّهٗ وَرَقَةُ مُصْحَفٍ وَالنَّاسُ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ ، فَأَشَارَ إِلَى النَّاسِ أَنِ اثْبُتُوا، وَأَبُو بَكْرٍ يَؤُمُّهُمْ وَأَلْقَى السِّجْفَ ، وَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ آخِرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ.
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے جس وقت حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری دیدار نصیب ہوا یہ وہ وقت تھا جب آپ نے پیر کے دن گھر کا پردہ اٹھایا۔میں نے آپ کا چہرہ مبارک دیکھا تو وہ قرآن کریم کے نورانی ورق کی طرح چمک رہا تھا۔ لوگ اس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز ادا کر رہے تھے (آپ کو دیکھ کر لوگ پیچھے ہٹنے لگے ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اپنی جگہ کھڑے رہنے کا اشارہ فرمایا پھر آپ نے پردہ گرا دیا۔ اسی دن کے آخری حصے میں آپ کا وصال مبارک ہو گیا۔
حدیث: حضرت ام المؤمنین (میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سینہ پر سہارا دیا ہوا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب کرنے کے لیے طشت منگوایا، اس میں پیشاب مبارک فرمایا اور اس کے بعد آپ کی وفات ہوگئی۔
حدیث: حضرت ام المؤمنین (میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پانی کا پیالہ رکھا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پیالے میں اپنے ہاتھ مبارک ڈالتے اور چہرہ مبارک پر پھیرتے تھے اور ساتھ یہ دعا بھی فرماتے: اے اللہ! موت کی سختیوں پر میری مدد فرما۔
زبدۃ:
جب کوئی تکلیف آتی ہے تو اکثر لوگ بھٹک جاتے ہیں، تکلیف کا رونا روتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اس مشکل وقت میں اللہ کے نبی نے یہ دعا مانگ کر امت کو تعلیم دی ہےکہ موت کے مشکل اور سخت ترین وقت میں بھی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف رکھنا چاہیے اور کسی کی طرف دھیان نہ دینا چاہیے۔
حدیث: حضرت ام المؤمنین (میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ موت کے وقت حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر جو سختی تھی اس کو دیکھ کر اب مجھے کسی شخص کے مرض الموت میں تکلیف نہ ہونے پر رشک نہیں ہوتا۔
حدیث: حضرت ابن عباس اور حضرت ام المؤمنین(میری امی ) عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد تشریف لائے اور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک کو بوسہ دیا۔
زبدۃ:
یہ بوسہ دینا برکت حاصل کرنے کے لیے تھا یا یہ الوداعی بوسہ تھا کہ آپ اپنے محبوب کو رخصت کر رہے تھے۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ اپنے کسی عزیز کو وفات کے بعد بوسہ دینا جائز بلکہ سنت سے ثابت ہےکیونکہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو وفات کے بعد بوسہ دیا تھا۔
حدیث: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم جس روز ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے تو مدینہ کی ہر چیز روشن ہوگئی اور جس روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوئے تو مدینہ منورہ کی ہر چیز تاریک نظر آنے لگی۔ ہم نے ابھی حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کرنے کے بعد قبر کی مٹی سے ہاتھ بھی نہ جھاڑے تھے کہ ہم نے اپنے دلوں میں تبدیلی محسوس کی۔
زبدۃ:
دلوں میں تبدیلی محسوس کرنے کا مطلب یہ ہےکہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ سے جو فیض حاصل ہورہا تھا وہ ختم ہوگیا اور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی وجہ سےجو روحانی ترقی اور انوار حاصل ہو رہے تھےوہ ختم ہو گئے۔ یہ بات تو ظاہر ہے کہ جو کیفیت حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں تھی وہ کہاں باقی رہ سکتی ہے؟!
حدیث : حضرت سالم بن عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض الموت کے دوران آپ پر بے ہوشی طاری ہوگئی۔ پھر جب کچھ افاقہ ہوا تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا نماز کا وقت ہوگیا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال کو کہو کہ اذان کہےاور ابوبکر کو کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائے۔ اس کے بعد حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر بے ہوشی طاری ہوگئی۔ پھر کچھ افاقہ ہوا تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے؟ تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ بلال کو کہو اذان دے اور ابوبکر کو کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائے۔ حضرت ام المؤمنین (میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ میرے والد ابوبکر بڑے نرم دل ہیں، وہ جب اس مصلے پر کھڑے ہوں گے تو روپڑیں گے اور نماز نہ پڑھا سکیں گے، لہٰذا آپ کسی دوسرے آدمی کو نماز پڑھا نے کا حکم دے دیں۔ اس کے بعد آپ پر پھر بے ہوشی طاری ہو گئی۔ جب کچھ افاقہ ہوا تو فرمایا: بلال کو کہو کہ اذان دیں اور ابوبکر کو کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایاکہ تم تو حضرت یوسف علیہ السلام کی عورتوں کی طرح ہو۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ پھر آپ نے جب کچھ ہلکا پن محسوس کیا تو فرمایا: دیکھو مجھے سہارا دے کر کوئی مسجد تک لے جانے والا ہے؟چنانچہ حضرت بریرہ باندی اور ایک دوسرا شخص آیا اور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے کندھوں کا سہارا لیا اور مسجد تک تشریف لے گئے۔ پھر جب حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کو آتے دیکھا تو پیچھے ہٹنے کا ارادہ فرمایا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر ثابت قدم رہو یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نےنماز مکمل فرمائی اور اسی روز حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ جس شخص نے یہ کہا کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ہے میں اپنی تلوار سے اس کا سر قلم کر دوں گا۔ راوی کہتے ہیں کہ اس زمانے میں لوگ اُمّی تھے، اس سے پہلے ان میں کوئی نبی نہیں آیا تھا، لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بات پر سب خاموش ہوگئے۔ پھر بعض لوگوں نے کہا کہ اے سالم! جاؤ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لے آؤ۔ حضرت سالم فرماتے ہیں کہ میں روتا ہوا دہشت کے عالم میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا۔ اس وقت آپ مسجد میں تھے۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر پوچھا: کیا حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا ہے؟ میں نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے یہ کہا کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا ہے میں اپنی تلوار سے اس کی گردن اڑا دوں گا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ چلو۔ چنانچہ میں بھی ان کے ہمراہ چل دیا۔ جب آپ تشریف لائے تو لوگ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر جمع تھے۔ آپ نے فرمایا: لوگو مجھے راستہ دو۔ چنانچہ لوگوں نے آپ کو راستہ دے دیا۔ آپ آئے اور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر گہری نظر ڈال کر آپ کی پیشانی مبارک کو بوسہ دیا، آپ کو چھوا اور یہ آیت پڑھی:
إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ ․
[سورۃ الزمر: 30]
آپ بھی وفات پانے والے ہیں اور یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں۔
پھر لوگوں نے پوچھا کہ کیا حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں۔ لوگ سمجھ گئے اور ان کو یقین ہوگیا۔ پھر لوگوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی! کیا ہم حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ بھی پڑھیں گے؟ تو انہوں نے جواب دیا: ہاں۔ لوگوں نے پوچھا: جنازہ کس طرح پڑھیں؟ آپ نے جواب دیا: ایک جماعت حجرہ کے اندر جائے، وہ تکبیر کہے اور دعا کرے اور حضرت پاک صلی للہ علیہ وسلم پر درود پڑھ کر باہر آجائے، پھر دوسری جماعت حجرہ مبارک میں داخل ہو تکبیر کہے، درود پڑھے اور دعا کرکے باہر آجائے، اسی طرح سب لوگ نماز جنازہ پڑھیں۔ پھر لوگوں نے پوچھا: اے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی! کیا حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن بھی کیا جائے گا؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں۔ لوگوں نے پوچھا: کس جگہ دفن کیا جائے گا؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ آپ کو اسی جگہ دفن کیا جائے گا جس جگہ آپ فوت ہوئے، اس لیے کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک اللہ تعالیٰ نے اسی جگہ پر قبض فرمائی ہے جو جگہ اللہ کو پسند ہے۔ صحابہ کو ہرہر بات پر یقین ہوگیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تمام امور میں ٹھیک راہنمائی فرمائی ہے۔
پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ داروں کو حکم دیا کہ و ہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین کریں۔ مہاجرین آپس میں خلیفہ کے بارے میں مشورہ کر رہے تھے تو انہوں نے (مہاجرین نے) کہا کہ اپنے انصاری بھائیوں کے پاس چلیں اور انہیں بھی اس معاملہ میں اپنے ساتھ شریک کریں۔ چنانچہ جب مشورہ ہوا تو انصار نے کہا کہ ایک امیر ہم میں سے ہونا چاہیےاور ایک امیر تم میں سے ہوناچاہیے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا: وہ کون شخص ہے کہ جس میں یہ تین فضیلتیں جمع ہیں:
(۱): جس کو قرآن نے ”ثانی اثنین“ کہا یعنی وہ غار میں حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا تنہائی کا ساتھی ہے۔
(۲): جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی اور رفیق فرمایا ہے۔
(۳): جس کو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غم نہ کرو،اللہ ہمارے ساتھ ہے یعنی اس کو اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہے۔
اے لوگو بتاؤ! وہ دونوں کون تھے جن دونوں کے بارے میں یہ آیتیں اتریں؟ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہاتھ بڑھایا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی، پھر دوسرے تمام لوگوں نے بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اپنی رضا مندی اور رغبت کے ساتھ بیعت کرلی۔
زبدۃ:
اس حدیث میں اہم بات یہ ہے کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم تو حضرت یوسف علیہ السلام والی عورتوں کی طرح ہو۔ بات دراصل یہ ہے کہ حضرت ام المؤمنین (میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا تھا کہ میرے والد نرم دل ہیں اور وہ نماز نہ پڑھاسکیں گے، اس لیے کسی اور کو مصلے پر کھڑا فرمادیں۔ اس میں انہوں نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو بھی اپنا ہمنوا بنالیا تھا اور انہوں نے ان کی سفارش کردی تھی تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم یوسف (علیہ السلام) والی عورتوں کی طرح ہویعنی جس طرح زلیخا بے جا بات پر ضد کررہی تھی، تم بھی بے جا بات پر ضد کرتی ہو، تمہیں چاہیے تھا کہ میری بات فوراً مان لیتیں۔
اور بعض نے فرمایا کہ یوسف والی عورتوں سے مراد وہ عورتیں ہیں جنہوں نے زلیخا کو طعنہ دیا تھا کہ تو ایک غلام لڑکے پر عاشق ہو گئی ہے تو زلیخا نے ان کی دعوت کی اور یوسف علیہ السلام کو ان کے سامنے آنے کا حکم دیا۔ ان عورتوں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر اپنے ہاتھ کاٹ لیے۔ تو زلیخا کا مقصد ان عورتوں کی دعوت کرنانہ تھا بلکہ مقصد یوسف علیہ السلام کو دکھانا تھا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بھی یوسف علیہ السلام والی عورتوں کی طرح ہو کہ تم ظاہراً روکتی ہو کہ ابوبکر نرم دل ہیں اور ان کی جگہ پر کسی اور کو مصلے پر کھڑا کردوں مگر تمہارا مقصد کچھ اور ہے۔ چنانچہ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ام المؤمنین(میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں کہ میں بار بار اصرار کر رہی تھی کہ میرے باپ کو مصلے پر کھڑا نہ کریں کیونکہ وہ نرم دل آدمی ہیں، رونے لگ جائیں گے اور نماز نہ پڑھا سکیں گے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں خیال کرتی تھی کہ لوگ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد اس شخص کو کبھی پسند نہ کریں گے جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی جگہ پر کھڑا ہو۔ لوگ ایسے شخص کو منحوس سمجھیں گے۔
اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اگرچہ ظاہر میں توحضرت ام المؤمنین (میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا کی موافقت کر رہی تھیں مگر شاید دل میں یہ ہو کہ میرے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت ادا کرنے کی سعادت مل جائے اور اپنے والد کی عظمت و بزرگی کا زیادہ خیال ہو تو اس طرح ان کو حضرت یوسف علیہ السلام والی عورتوں کے ساتھ تشبیہ دی۔
زبدۃ:
(1): حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے بہت بڑاسانحہ تھا۔انہیں سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ وہ زبان سے کچھ بول ہی نہ سکتے تھے۔ ایسے موقع پر جس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو سنبھالا یہ ان کا کمال اور ان کی ہی خصوصیت ہے، اور کیوں نہ ہوتی؟ آخر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح جانشین، ہم راز اور ساتھی تھے۔
(2): یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ السلام کی موت کا انکار کیوں کیا؟ اس کی بہترین توجیہ جو راقم کے ذہن میں آتی ہے جس میں حضرت عمر کی جلالت شان بھی ہے اور اہل السنت والجماعت کے عقیدہ کی وضاحت بھی وہ یہ ہے کہ صحابہ کرام نے آپ علیہ السلام کے جسد مبارک اور آنکھوں کو دیکھا تو فرمایا کہ وفات ہوگئی۔ حضرت عمر کی نگاہ حضور کے قلب اطہر پر تھی جس میں حیات کے اثرات تھے اس لیے فرمایا کہ آپ زندہ ہیں۔ ورنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جس عمر کے بارے پیغمبر نے فرمایا :
ان اللہ جعل الحق علیٰ لسان عمر وقلبہ
) ترمذی ج2ص 209باب مناقب عمر(
کہ اللہ تعالیٰ نے عمر کے دل و زبان پرحق جاری کردیا، عمر سوچتا بھی ٹھیک ہے عمر بولتا بھی ٹھیک ہے ،وہ عمر اس موقعے پر غلط بات کہے!۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس نظریہ پر مدلل بحث دیکھنے کے لیے قاسم العلوم والخیرات بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "آب حیات" کامطالعہ کریں۔
(3): عام مسلمانوں کی نماز جنازہ کا طریقہ تو معروف ہی ہے مگر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ کا طریقہ بالکل مختلف ہےجس کی تفصیل کتب حدیث میں موجود ہے۔ یہ طریقہ خود حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی ازواج مطہرات کے سامنے ایک روز بیان فرمایا تھا جیسا کہ مستد ر ک حاکم اور مسند بزار میں ہے کہ ایک موقع پر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے گھر والوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! موت تو ہر ذی روح کے لیے بر حق ہے، جب آپ کی ذات مبارک پر یہ وقت آئے تو آپ کا جنازہ کون پڑھے گا؟ تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم مجھے غسل دے کر تین سفید کپڑوں میں کفن پہنادو تو مجھے چارپائی پر رکھ دینا اور تھوڑی دیر کے لیے کمرے سے باہر نکل جانا، سب سے پہلے میرا جنازہ مقرب فرشتے اپنے لاؤلشکر کے ساتھ پڑھیں گے یعنی جبرائیل، پھر میکائیل، پھر اسرافیل، پھر ملک الموت اپنی اپنی جماعت کے ساتھ نماز جنازہ پڑھیں گے، پھر تم گرو ہ درگروہ کمرے میں داخل ہونا اور مجھ پر درود وسلام پڑھنا۔
(مستدرک الحاکم: ج3 ص608 رقم الحدیث4455)
چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ہدایت کے مطابق ایسے ہی ہوا۔ دس دس کے گروہ کمرے میں داخل ہوتے، آپ پر درود وسلام پڑھتے، پھر اسی طریقہ سے عورتوں نے، پھر بچوں نے پڑھا۔
حدیث:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم موت کی سختی محسوس فرمارہے تھےتو آپ کی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہائے میرے ابا جی کی تکلیف! تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج کے بعد تیرے والد پر کوئی تکلیف نہیں رہے گی، آج تیرے باپ پر وہ بھاری چیز اتری ہے (یعنی موت) جو کہ قیامت کے دن تک کسی بھی فرد کو نہیں چھوڑے گی۔
حدیث: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کے دو بچے ذخیرہ آخرت بن گئے (یعنی بچپن میں ہی فوت ہو گئے) تو اللہ تعالیٰ ان کی بدولت ایسے شخص کو ضرور جنت میں داخل فرمائیں گے۔ ام المؤمنین(میری امی ) عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: حضرت! جس کا ایک ہی بچہ ذخیرہ آخرت بناہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا ایک بچہ ہی ذریعہ آخرت بنا ہو تووہ بھی بخش دیا جائے گا۔ حضرت ام المؤمنین(میری امی)عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا: جس کا ایک بچہ بھی ذریعہ آخرت نہ بنا (یعنی ایک بچہ بھی نابالغی میں فوت نہ ہوا) تو اس کا کیا حکم ہے؟ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے لیے میں ذخیرہ آخرت ہوں، اس لیے کہ میری وفات کا رنج اور صدمہ تو سب سے زیادہ ہوگا۔
زبدۃ:
ایک روایت میں ہے کہ جب کسی شخص کو کوئی مصیبت پہنچے تو میری جدائی کی مصیبت سے تسلی حاصل کرے یعنی یہ سوچے کہ جب حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کو برداشت کرلیا تو باقی مصائب کی اس کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہے؟
زبدۃ:
حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض کی ابتداء سر کے درد سے ہوئی۔ اس روز حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام المؤمنین(میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر تشریف فرماتھے۔ اس کے بعد حضرت ام المؤمنین(میری امی) میمونہ رضی اللہ عنہاکی باری کے دن مرض میں شدت پیدا ہوگئی۔ اس حالت میں بھی حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم باری تقسیم فرماتے رہے مگر جب مرض میں زیادہ شدت پیدا ہوگئی تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارہ پر تمام بیویوں نے حضرت ام المؤمنین(میری امی ) عائشہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر بیماری کے ایام گزارنے کا اختیار دے دیا تھا، اس لیے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ یا چودہ ایام مرض کے گزارنے کے بعد پیر کو چاشت کے وقت ربیع الاول کےمہینے میں حضرت ام المؤمنین (میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں وصال فرمایا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
The last words of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him)
Suddenly, there was a person, he said salaam.
'May I come in?' he asked.
But Fatimah did not allow him enter the room.
'I'm sorry, my father is ill,' said Fatimah, turned her body back and closed the door.
She went back to her father who had opened his eyes and asked Fatimah,
'Who was he, my daughter?'
'I don't know, my father. It was the first time for me to see him,'
Fatimah said gently.
Then, Rasulullah looked at his daughter with trembled look, as if he wanted to reminisce about every part of her daughter's face.
'Know one thing! He is who erases the temporary pleasure; he is who separates the companionship in the world. He is the death angel,' said Rasulullah .
Fatimah bore the bomb of her cry. The death angel came toward him,
But
Rasulullah asked why Jibril did not come along with him.
Then, Jibril was called. Jibril was ready in the sky to welcome the
soul of Habibullah and the leader of the earth.
'O Jibril, explain me about my rights in front of ALLAH?' Rasulullah asked with a weakest voice.
'The doors of sky have opened, the angels are waiting for your soul.'
'All jannats open widely waiting for you,' Jibril said.
But, in fact, all this did not make Rasulullah relieved, his eyes were still full of worry.
'You are not happy to hear this news?' asked Jibril.
'Tell me about the destiny of my people in future?'
'Don't worry, O Rasul ALLAH. I heard ALLAH tell me: 'I make jannat
haram for every one, except the people of Muhammad who are inside it,' Jibril said.
It became closer and closer, the time for Malaekat Izrail to do his work.
Slowly, Rasulullah's soul was pulled. It was seemed that the body of
Rasulullah was full of sweat; the nerves of his neck became tight.
'Jibril, how painful this sakaratul maut is!'
Rasulullah uttered a groan slowly. Fatimah closed her eyes, Ali sat
beside her bowed deeply and Jibril turned his face back.
'Am I repugnant to you that you turn your face back o Jibril?'
Rasulullah asked the Deliverer of Wahy.
'Who is the one who could see the Habibullah in his condition of
sakaratul maut,' Jibril said.
Not for a while, Rasulullah uttered a groan because of unbearable
pain.
'O ALLAH, how great is this sakaratul maut. Give me all these pains,
don't give it to my people.'
The body of Rasulullah became cold, his feet and chest did not move
anymore..
His lips vibrated as if he wanted to say something, Ali took his ear
close to Rasulullah.
'Uushiikum bis shalati, wa maa malakat aimanuku - take care of the
saalat and take care the weak people among you.'
Outside the room, there were cries shouted each other, sahabah held
each other. Fatimah closed her face with her hands and, again, Ali
took his ear close to Rasulullah's mouth which became bluish.
'Ummatii, ummatii, ummatii?' - 'My people, my people, my
people.'
And the life of the noble man ended.
Could we love each other like him? Allahumma sholli 'ala Muhammad wa
baarikwa salim 'alaihi. How deep is Rasulullah's love to us.
.................
The last words of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) – before he bade farewell to this world – were: “O Allaah, (with) the higher companions”. This is the title that al-Bukhaari gave to a chapter in Kitaab al-Maghaazi in his Saheeh: “The last words of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him)”, where he quoted the hadeeth of ‘Aa’ishah (may Allaah be pleased with her) who said: When the Prophet was healthy, he used to say, “No soul of a Prophet is taken until he has been shown his place in Paradise and then he is given the choice.” When death approached him while his head was on my thigh, he became unconscious and then recovered consciousness. He then looked at the ceiling of the house and said, “O Allaah! (with) the highest companions." I said (to myself), “He is not going to choose (to stay with) us.” Then I understood what he meant when he said that to us when he was healthy. The last words he spoke were, "O Allaah! (with) the highest companions.”
Narrated by al-Bukhaari, 4463; Muslim, 2444.
There is a report narrated by Ahmad (1691) from the hadeeth of Abu ‘Ubaydah, who said that the last words that the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) spoke were, “Expel the Jews of the Hijaaz and Najraan from the Arabian Peninsula, and know that the most evil of people are those who took the graves of their Prophets as places of worship.” This was classed as saheeh by al-Albaani in al-Saheehah, no. 1132. And Abu Dawood (5156)and Ibn Maajah (2698) narrated that ‘Ali (may Allaah be pleased with him) said: The last words that the Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him) spoke were, “The prayer, the prayer! And fear Allaah with regard to those whom your right hands possess.” This was classed as saheeh by al-Albaani in Saheeh Abi Dawood. And there are other similar ahaadeeth. What is meant by these reports is that these are some of the last things that the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said, or they were the last pieces of advice that the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) gave to his family and companions, and those who would be in authority after he was gone. These ahaadeeth are among the last things he said, but the hadeeth of ‘Aa’ishah is the last of all.
See Fayd al-Qadeer by al-Manaawi, 5/250 – 251.
Note: al-Suhayli said: the reason why these – “O Allaah, (with) the higher companions” – were the last words of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) is because they refer both to Tawheed and to dhikr in the heart. It offers comfort to those who are unable to speak (when dying), because some people may not be able to speak out loud for some reason, but that does not matter if their hearts are steadfast in remembering Allaah.
Quoted by al-Haafiz in al-Fath, 8/138.
No comments:
Post a Comment