قرآن پڑھنا افضل ہے یا سننا؟
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:
۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:
سوال..................
قرآن شریف کی تلاوت کرنے والے اور سننے والے دونوں کو برابر برابر ثواب ملتا ہے یا دونوں میں کچھ فرق ہے؟
براہ کرم مدلل جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں
شاہد اسلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
قرآن کی تلاوت اور اس کا سننا دونوں مطلوب شرع ہے
دونوں کی اپنی اپنی جگہ فضیلت ہے
تلاوت قرآن فی نفسہ استماع قرآن سے افضل ضرور ہے!
لیکن یہ افضلیت علی الاطلاق نہیں۔
اشخاص، افراد، مزاج اور حالات کے لحاظ سے افضلیت مختلف ہوجائے گی۔ کسی کو پڑھنے میں خشوع وخضوع اور غور وتدبر کا موقع زیادہ ملتا ہے جبکہ کسی کو سننے میں ۔
اسی لئے مسند احمد کی روایت میں ہے کہ قرآن سننے میں دہرا ثواب ہے جبکہ قرآن پڑھنا قیامت میں نور کا سبب ہوگا
اور نور کا ملنا زیادہ اہم ہے
جس سے قرات کا افضل ہونا معلوم ہوتا ہے:
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَيْسَرَةَ عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ اسْتَمَعَ إِلَى آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى كُتِبَ لَهُ حَسَنَةٌ مُضَاعَفَةٌ وَمَنْ تَلَاهَا كَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ (مسند أحمد :8289)
جبکہ سنن دارمی میں ابن عباس کی روایت ہے کہ قرآن سننا بھی نور کا سبب ہوگا."
3367 حَدَّثَنَا رَزِينُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍقَالَ مَنْ اسْتَمَعَ إِلَى آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ كَانَتْ لَهُ نُورًا
سنن الدارمي .
اس سے سننے کی زیادہ فضیلت ثابت ہورہی ہے۔
ترمذی میں ہے:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى قَال سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ كَعْبٍ الْقُرَظِيَّ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا لَا أَقُولُ الم حَرْفٌ وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ وَيُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَرَوَاهُ أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ رَفَعَهُ بَعْضُهُمْ وَوَقَفَهُ بَعْضُهُمْ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ سَمِعْت قُتَيْبَةَ يَقُولُ بَلَغَنِي أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ كَعْبٍ الْقُرَظِيَّ وُلِدَ فِي حَيَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ يُكْنَى أَبَا حَمْزَةَ
(سنن الترمذي : 2910، بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ الْقُرْآنِ مَالَهُ مِنْ الْأَجْرِ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھنا اور سننا دونوں ثابت ہے.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابو موسی اشعری اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے قرآن سننے کی فرمائش کرتے تھے۔
لیکن آپ کا زیادہ تر معمول مباک از خود قرآن پڑھنے کا تھا پڑھنے میں زبان، دل، آنکھ، ہر عضو مشغول ہوتا ہے جبکہ دوسرے سے سننے میں یہ بات نہیں ۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پڑھنا زیادہ فضیلت رکھتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ وتابعین واسلاف کا عمل قرآن پڑھنے کا زیادہ تھا
آپ نے قرآن کی تلاوت کا واضح حکم دیا ہے کہ قرآن پڑھو کہ یہ پڑھنے والے کے لئے قیامت میں سفارشی بنے گا:
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا أَبَانُ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ [ص: 255] عَنْ زَيْدٍ عَنْ أَبِي سَلَّامٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اقْرَءُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي شَفِيعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِصَاحِبِهِ اقْرَءُوا الزَّهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ فَإِنَّهُمَا يَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ أَوْ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ يُحَاجَّانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا اقْرَءُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَكَةٌ وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ وَلَا تَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ .مسند أحمد: 21689
براہ کرم مدلل جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں
شاہد اسلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
قرآن کی تلاوت اور اس کا سننا دونوں مطلوب شرع ہے
دونوں کی اپنی اپنی جگہ فضیلت ہے
تلاوت قرآن فی نفسہ استماع قرآن سے افضل ضرور ہے!
لیکن یہ افضلیت علی الاطلاق نہیں۔
اشخاص، افراد، مزاج اور حالات کے لحاظ سے افضلیت مختلف ہوجائے گی۔ کسی کو پڑھنے میں خشوع وخضوع اور غور وتدبر کا موقع زیادہ ملتا ہے جبکہ کسی کو سننے میں ۔
اسی لئے مسند احمد کی روایت میں ہے کہ قرآن سننے میں دہرا ثواب ہے جبکہ قرآن پڑھنا قیامت میں نور کا سبب ہوگا
اور نور کا ملنا زیادہ اہم ہے
جس سے قرات کا افضل ہونا معلوم ہوتا ہے:
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَيْسَرَةَ عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ اسْتَمَعَ إِلَى آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى كُتِبَ لَهُ حَسَنَةٌ مُضَاعَفَةٌ وَمَنْ تَلَاهَا كَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ (مسند أحمد :8289)
جبکہ سنن دارمی میں ابن عباس کی روایت ہے کہ قرآن سننا بھی نور کا سبب ہوگا."
3367 حَدَّثَنَا رَزِينُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍقَالَ مَنْ اسْتَمَعَ إِلَى آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ كَانَتْ لَهُ نُورًا
سنن الدارمي .
اس سے سننے کی زیادہ فضیلت ثابت ہورہی ہے۔
ترمذی میں ہے:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى قَال سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ كَعْبٍ الْقُرَظِيَّ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا لَا أَقُولُ الم حَرْفٌ وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ وَيُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَرَوَاهُ أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ رَفَعَهُ بَعْضُهُمْ وَوَقَفَهُ بَعْضُهُمْ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ سَمِعْت قُتَيْبَةَ يَقُولُ بَلَغَنِي أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ كَعْبٍ الْقُرَظِيَّ وُلِدَ فِي حَيَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ يُكْنَى أَبَا حَمْزَةَ
(سنن الترمذي : 2910، بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ الْقُرْآنِ مَالَهُ مِنْ الْأَجْرِ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھنا اور سننا دونوں ثابت ہے.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابو موسی اشعری اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے قرآن سننے کی فرمائش کرتے تھے۔
لیکن آپ کا زیادہ تر معمول مباک از خود قرآن پڑھنے کا تھا پڑھنے میں زبان، دل، آنکھ، ہر عضو مشغول ہوتا ہے جبکہ دوسرے سے سننے میں یہ بات نہیں ۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پڑھنا زیادہ فضیلت رکھتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ وتابعین واسلاف کا عمل قرآن پڑھنے کا زیادہ تھا
آپ نے قرآن کی تلاوت کا واضح حکم دیا ہے کہ قرآن پڑھو کہ یہ پڑھنے والے کے لئے قیامت میں سفارشی بنے گا:
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا أَبَانُ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ [ص: 255] عَنْ زَيْدٍ عَنْ أَبِي سَلَّامٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اقْرَءُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي شَفِيعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِصَاحِبِهِ اقْرَءُوا الزَّهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ فَإِنَّهُمَا يَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ أَوْ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ يُحَاجَّانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا اقْرَءُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَكَةٌ وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ وَلَا تَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ .مسند أحمد: 21689
قرآن پڑھنے کو سودمند تجارت قرار دیا گیا ہے:
:(إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَّن تَبُورَ) [فاطر: 29]
:(إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَّن تَبُورَ) [فاطر: 29]
حضرت عثمان بن عفان، تمیم داری اور اور حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہم ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھتے لیتے تھے:
وأما الذين ختموا القرآن في ركعة: فلا يُحصون ؛ لكثرتهم، فمنهم: عثمان بن عفان، وتميم الداري ، وسعيد بن جبير .
"الأذكار" (ص 102)
وأما الذين ختموا القرآن في ركعة: فلا يُحصون ؛ لكثرتهم، فمنهم: عثمان بن عفان، وتميم الداري ، وسعيد بن جبير .
"الأذكار" (ص 102)
ابراہیم نخعی کا بیان ہے کہ حضرت اسود ہر دو راتوں میں پورا قرآن پڑھ لیتے تھے۔حضرت قتادہ ایک ہفتہ میں ختم کرتے تھے۔رمضان کے مہینہ میں تین دنوں میں جبکہ آخر عشرہ رمضان کی ہر رات میں قرآن ختم کرتے تھے ۔امام شافعی کے بارے میں ربیع بن سلیمان کا کہنا ہے کہ وہ رمضان میں 60 ساتھ قرآن ختم کرتے تھے. امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں اسد بن عمرو کا کہنا ہے کہ وہ سات ہزار مرتبہ قرآن ختم فرمائے ہیں اور کبھی ایک رکعت میں ہی پورا قرآن پڑھ لیتے تھے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین واسلاف رحمہم اللہ کے ان تاریخی واقعات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ قرآن کی تلاوت کتنی اہم ہے!
لیکن شریعت میں تلاوت واستماع میں سے کسی ایک کی دوسرے پہ افضلیت کی تصریح نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
7 رمضان 1439 ہجری
(رقم الفتوی 1810)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین واسلاف رحمہم اللہ کے ان تاریخی واقعات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ قرآن کی تلاوت کتنی اہم ہے!
لیکن شریعت میں تلاوت واستماع میں سے کسی ایک کی دوسرے پہ افضلیت کی تصریح نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
7 رمضان 1439 ہجری
(رقم الفتوی 1810)
No comments:
Post a Comment