کیا اس طور پر طلاق ہوجاتی ہے؟
السلام علیکم
کیا کہتے ہیں مفیان کرام اس مسئلے کے متلق زید نے ایک سال پہلے بہشتی زیور کتاب میں طلاق کے مسئلے پژھے تھے جس میں لکھا کہ اگر شادی سے پہلے کوئی اگر ایسا کہے کہ جس سے بھی میں شادی کروں تو اسکو طلاق، یا جب بھی میں شادی کروں تو طلاق، ایسا کہنے سے طلاق ہوجاتی ہے. اسکو پڑھنے کے ایک سال بعد تک میں بالکل ٹیھک تھا کہ اچانک میرےذہن میں خیال آیا کے شادی سے پہلے اگر کسی نے ایسا کہا ہو تو کیا ہوگا کہ جس سے بھی میں شادی کروں یا جب بھی میں شادی کروں تو اس کو طلاق ہے اور مجھ کو یہ وھم ہوگیا کے جیسے میں نے بھی یہ لفظ بولے ہیں میں بہت زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوچکا تھا اور نا چاہ کر بھی ایسا لگتا کہ میرےمنہ سے طلاق کے لفظ نکل رہے ہیں اگر نماز میں ہوں تو تب بھی ایسا لگتا کہ عبارت کی جگہ منہ سے طلاق کے لفظ ادا ہو رہے ہیں تو میں نے ایک مفتی صاحب سے رابطہ کیا اور انکو ساری بات بتائی تو انھوں نے کہا کہ یہ صرف وھم ہے اور کچھ نہیں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں اب میرا دل چاہتا تھا کہ یا تو میں پاگل ہوجاؤں یا مجھے موت آجائے اور پھر میں نے ایک اور مفتی صاحب سے رابطہ کیا اور انکو بی اپنا مسئلہ بتایا تو انہوں نے کہا کہ آپ پاگل ہو جس چیز کے آپ مالک نہیں اس میں طلاق کیسی اور کہا جاؤ شادی سے پہلے طلاق نہیں ہوتی اب میں اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوچکا تھا نا ہی بھوک لگتی اور نا ہی کچھ کرنے کو جی کرتا اچھا خاصا کاروبار تباہ ہوگیا ہے میرا. پھر میں نے ایک اور مفتی صاحب سے ربطہ کیا اور اپنا مسئلہ بتایا تو انہوں نے کہا کہ آپ قران پہ حلف دے سکتے ہو کہ آپ نے ایسا نہیں کہا میں نے کہا سر اگر مجھے اتنا یقین ہوتا تو پھر پریشانی کس بات کی تھی تو انہوں نے نے کہا کہ اگر آپ حلف نہیں دے سکتے تو آپ نے لفظ ادا کئے ہیں ہر آنے والا لمحہ مجھے مزید پاگل کررہا تھا پھر ایک اور مفتی صاحب سے رابطہ کیا اور اپنا مسئلہ بتایا تو انہوں نے کہا کہ زید نے کیا کہا ہے کہ جب بھی جس سے بی شادی ہوکے شادی کروں اور ایک طلاق کہا کے 2.3. مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا. میں نے کہا کہ زید نے کہا ہے کہ جب بھی کسی سے بی شادی کروں تو 3 طلاق جی میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا تو انہوں نے کہا کہ اب ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے نکاح فضولی اور مجھے طریقہ سمجھادیا اب یہ بات سکون نہیں لینے دے رہی تھی کے اگر ایسا نا کہا ہوا اور نکاح فضولی ہوگیا تو نکاح تو خراب ہوجائے گا اور پھر میں نے پہلی مرتبہ اپنی مرضی سے روتے کانپتے یہ الفاظ کہے کہ جسسے بی میں شادی کروں یا جب بھی کسی سے میں شادی کروں تو 3 طلاق. میں بہت پریشان تھا اب بھی سکون نہیں آرہا تھا کہ جیسے یہ بھی کہا ہے جس سے بھی شادی ہو یا جب بھی شادی ہو میری تو طلاق ہے. ابھی اسی سوچ ہی میں تھا اور مغرب کی نماز کیلیے مسجد جارہا تھا کہ ایسے لگا کہ جیسے میرے منہ سے یہ لفظ نکل رہے ہیں کہ جس سے بھی میری شادی ہو اسے طلاق ہے اور میں اور پریشان ہوگیا اور کہا کہ اب یہ دو جملے ہوگئے ہیں جب بھی کسی سے شادی کروں تو 3 طلاق دوسرا جسسے بھی میری شادی ہو تو طلاق یہاں 1.2.3.نہیں کہا اور ابھی تھورا ہی وقت گزرا تھا کہ ایسا لگا یہ لفظ کہہ رہا ہوں جیسے بھی ہو جب بھی ہو یا کسی سے شادی کروں تو طلاق ہے لیکن آخری جملوں کا یہ نہیں پتہ کے یہ اس حال میں کہے ہیں کہ ایسا کسی سے سوال کررہا ہو یا سوال کرنے کی پریکٹس کررہا تھا کہ ایسے سوال کروں گا لیکن کوئی ارادہ نہیں تھا براہ کرم میری کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی ایسا حل بتائیں کہ میری شادی ممکن ہو. آپ کے جواب کا منتظر ہوں.
السلام علیکم
جتنا بھی آپ طلاق کے متعلق سوچ لیں یا پھراپنے آپ سے اندر ہی اندر کہتے رہیں یا عزم کرلیں طلاق اس وقت تک واقع نہیں ہوگی جب تک آپ الفاظ کی شکل میں زبان سے ادا نہیں کرتے ۔
اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( بلاشبہ اللہ تعالی نے میری امت سے اس کے وسوسے ، اوران کے دل کی بات جب تک کہ وہ اس پر عمل نہ کرلیں یا زبان سے بات نہ کرلیں معاف کردی ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 6664 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 127 ) ۔
اہل علم کے ہاں عمل بھی اسی پر ہے کہ جب انسان اپنے دل میں ہی طلاق کی بات کرے اوراسے زبان پر نہ لاۓ تو وہ کچھ بھی نہيں ۔
بلکہ بعض اہل علم کے ہاں تووسوسےمیں مبتلاشخص کی طلاق واقع ہی نہیں ہوتی چاہے وہ زبان سے بھی طلاق کے الفاظ بول دے ، لیکن اس سے اس کا طلاق دینے کا ارادہ نہ ہو ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
( وسوسے میں مبتلا شخص کی طلاق واقع نہیں ہوتی اگرچہ وہ زبان سے طلاق کے الفاظ ادا کردے اوراس سے طلاق مقصد نہ ہو ، اس لیے کہ یہ الفاظ وسوسے والے شخص بغیر ارادہ اورقصد کے ادا ہوۓ ہیں ، بلکہ وہ اس پر مبہم ہے جوکہ قلت منع اورقوت دافع کی وجہ سے ادا ہوۓ ہيں ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
" ابہام میں طلاق نہيں "
لھذا اس سے اس وقت تک طلاق واقع نہیں ہوگی جب تک کہ وہ اطمنان اورحقیقی ارادہ سے طلاق نہ دے ، تویہ چيز جس پروہ بغیر قصد اوراختیار کے بغیر مجبورکیا گيا ہے یقینا اس سے طلاق واقع نہيں ہوتی ) انتہی ۔ دیکھیں فتاوی اسلامیۃ ( 3 / 277 ) ۔
ہم آپ کووصیت کرتے ہیں کہ آپ وسوسے کی طرف متوجہ ہی نہ ہوں اوراس سے اعراض کرتے ہوۓ جس چيز کی دعوت وسوسہ دے اس کی مخالفت کریں ، اس لیے کہ وسوسہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے تا کہ وہ مومنوں کوپریشانی میں مبتلا اورغمگین کرے ۔
وسوسے کا سب سے بہتر اور اچھا علاج اللہ تعالی کا کثرت سے ذکر اورشیطان مردود سے پناہ اورمعاصی و گناہوں سے دور رہنا ہےجس کی وجہ سے شیطان اولاد آدم پر مسلط ہوتا ہے ۔
اللہ جل شانہ کا فرمان کچھ اس طرح ہے :
{ یقینا ( شیطان ) کے لیے ان لوگوں پرکوئی طاقت اورزور نہيں چلتا جو ایمان لائيں اوراپنے رب پر توکل کریں } النحل ( 99 ) ۔
بہتر ہے کہ ہم یہاں پر ابن حجر ھیتمی رحمہ اللہ تعالی نے جووسوسے کا علاج بیان کیا ہے وہ نقل کرتے جائيں :
ابن حجر رحمہ اللہ تعالی ( اللہ ان سے نفع دے ) سے جب وسوسے کی بیماری کا علاج دریافت کیا گیا تو ان کا جواب تھا :
اس کی بہت ہی فائدہ منداورنفع بخش دوا موجود ہے ، وہ یہ کہ اس سے مکمل طور پراعراض ہی کافی ہے ۔
اگر نفس میں کسی قسم کا تردد ہو توجب اس کی طرف دھیان ہی نہیں دیا جاۓ گا اوراس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوا جاۓ تو وہ تردد اوروسوسہ کبھی بھی نہیں ٹھر سکتا بلکہ کچھ مدت کے بعد ہی وہ غائب ہوجائیگا ، جیسا کہ اس کا تجربہ بھی بہت سے اچھے لوگوں نے کیا ہے ۔
لیکن اگر اس کی طرف متوجہ ہوکراوردھیان دے کر اس کے تقاضے پر عمل کیا جاۓ گا تو وہ اورزيادہ ہوتا چلا جاۓ گا حتی کہ اسے مجنونوں اورپاگلوں تک پہنچا دے گا بلکہ اس سے بھی قبیح شکل میں لے جاۓگا ، جیسا کہ ہم نے بہت سے لوگوں کا مشاہدہ کیا ہے جواس بیماری میں مبتلا ہوۓ اوراس کی اوراس کے شیطان کی طرف متوجہ ہوۓ
جس کے بارہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ کرتے ہوۓ کچھ اس طرح فرمایا :
( پانی کے وسوسہ ولھان سے بچو ) یعنی جوکچھ اس میں مبالغہ اورلھو ہے اس کی وجہ سے بچو جیسا کہ اس کے متعلق شرح مشکاۃ الانوار میں بیان کیا گیا ہے ، اورصحیح بخاری اورصحیح مسلم میں اس کی تائيد بھی آئي ہے جومیں نے ذکر کی ہے کہ جوبھی وسوسہ میں مبتلا ہواسے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرنی چاہیۓ اوروہ اس وسوسہ سے رک جاۓ ۔
توآپ اس علاج پر ذرا غور وفکر اورتامل کریں جسے ایسے شخص نے تجویز کیا ہے جواپنی امت کے لیے خود بولتا ہی نہيں ۔
آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ جواس سے محروم ہوا وہ ہر قسم کی بھلائی اورخير سے محروم ہوگيا ، اس لیے کہ وسوسہ بالاتفاق شیطان کی طرف سے ہے وہ ایسا لنعتی ہے جس کی مراد کی کوئي انتہاء ہی نہیں بلکہ وہ تومومن کوضلالت و گمراہی اورپریشانی ، زندگی کی بربادی ، اورنفس کواندیھرے میں ڈال دیتا ہے اوروہاں تک لےجاتا ہے کہ اسے اسلام سے ہی خارج کردے اوراسے اس کا شعور اور علم تک نہیں ہوتا ۔
فرمان باری تعالی ہے :
{ یقینا شیطان تمہارا دشمن ہے توتم اسے دشمن ہی بنا کررکھو } فاطر (6)
ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ : ( جووسوسہ میں مبتلا ہواسے یہ کہنا چاہيۓ : میں اللہ تعالی اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا )
اس میں کوئي شک نہیں کہ جوبھی اپنے ذھن میں انبیاء کے طریقے اورسنت رکھے اورخاص کر ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اورشریعت جسے وہ آسان و سہل اورواضع اوربالکل صاف شفاف جس میں کسی قسم کا کوئي حرج نہیں وہ آسانی پاۓ گا ۔
فرمان باری تعالی ہے :
{ اوراس نے تم پر دین میں کوئی حرج نہیں بنایا } الحج ( 78 ) ۔
جوبھی اس پر غوروفکر اورتامل کرتا اورحقیقی ایمان لاۓ اس سے وسوسہ کی بیماری اورشیطان کی طرف دھیان دینے کی بیماری جاتی رہتی ہے ، ابن سنی کی کتاب میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ :
جوبھی اس وسوسے میں مبتلا ہو اسے تین باریہ کہنا چاہیۓ : ہم اللہ تعالی ، اوراس کے رسولوں پر ایمان لاۓ ، اس سے اس کا وسوسہ جاتا رہے گا ۔
عز بن عبدالسلام وغیرہ نے بھی اسی طرح ذکرکیا ہے جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے ، ان کا کہنا ہے :
وسوسہ کا علاج یہ ہے کہ : یہ اعتقاد رکھے کہ یہ ایک شیطانی سوچ ہے ، اورابلیس ہی ہے جس نے یہ سب کچھ اس کے ذہن میں ڈالا اوراس سے لڑ رہا ہے ، تواس سے اسے مجاھد کا ثواب حاصل ہوگا ، اس لیے کہ وہ اللہ تعالی کے دشمن سے لڑ رہا ہے ۔
اورجب وہ اسے محسوس کرے گا تواس سے بھاگ جاۓ گا، اور یہ اسی سے ہےجس سے نوع انسانی شروع سے مبتلا رہی اوراللہ تعالی نے اسے اس پر بطور آزمائش مسلط کردیا تا کہ اللہ تعالی حق کوثابت اورباطل کوختم کرے اوراگرچہ کافر اس کو برا ہی جانتیں رہیں ۔
(الاسلام سوال وجواب سے مستفاد)
No comments:
Post a Comment