Tuesday, 15 May 2018

کیا استقبال کے لئے کھڑے ہونا جائز ہے؟

 کیا استقبال کے لئے کھڑے ہونا جائز ہے؟ 
کیا مجلس میں علمائے کرام کی آمد پر استقبال کے لئے کھڑے ہونا جائز ہے؟
ترمذی شریف میں ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کے آنے پر کھڑے ہونے کو ناپسند کرتے تھے تو کیا مجلس میں علمائے کرام کی آمد پر استقبال کے لئے کھڑے ہونا جائز ہے؟
کھڑے ہوکر استقبال کرنا خلاف سنت نہیں ہے، بلکہ یہ عین سنت ہے، لیکن دونوں چیزوں میں توازن ہونا چاہیے، آنے والے سے فرمایا کہ تو اس بات کی توقع اور خواہش نہ کر کہ جب تو مجلس میں آئے تو لوگ تمہارے لئے کھڑے ہوں۔ تمہارے لئے نعرے لگائیں تمہاری تعریفیں شروع کردیں، اور اگر کھڑے ہوکر استقبال نہ کریں تو تمہیں برا لگے تو ناراضگی کا اظہار کرے۔ کیونکہ یہ تکبر اور غرور کی علامت ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کھڑے ہوکر استقبال کرنے کا حکم دیا۔
عن ابی سعيد الخدری قال، لما نزلت بنو قريظة علی حکم سعد هوا بن معاذ بعث رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم وکان قريبا منه فجاء علی حمار فلما دنا قال رسول الله قوموا الی سيدکم
(متفق عليه)
بخاری ومسلم کتاب المغازی
حضرت سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے حکم پر یہود بن قریظہ (قلعہ سے) نیچے اتر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو بلانے کے لئے ان کی طرف ایک آدمی بھیجا اور وہ قریب ہی موجود تھے سو وہ گدھے پر سوار ہوکر آئے نزدیک پہنچے تو رسول اللہ نے لوگوں سے فرمایا اپنے سردار کے لئے (تعظیما) کھڑے ہوجاؤ۔
اس حدیث کی شرح میں امام العسقلانی نے فتح الباری میں بہت اچھی شرح کی ہے جس سے مسئلہ کی وضاحت ہو جاتی ہے۔
ذکر العسقلانی فی فتح الباری 11 / 49 50-51
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ لعیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا اللہ تعالی کی تعظیم کا ایک حصہ ہے اور اسی طرح قرآن مجید کے عالم کی جو اس میں تجاوز نہ کرتا ہو اس بادشاہ کی تعظیم جو انصاف کرتا ہو، ان تینوں کی تعظیم کرنا اللہ تعالی کی تعظیم ہی کا ایک حصہ ہے۔
سنن ابی داؤد کتاب الادب
ابن ابی شيبه
المعجم الاوسط الطبرانی
درج ذیل احادیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ علماء کے استقبال کے لئے کھڑا ہونا جائز ہے۔ اسی طرح، مکرم اور معظم، بوڑھے، اور اہل مناصب لوگوں کے احترام کے لئے کھڑے ہونا سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ البتہ اگر کوئی اس کی خواہش کرتا ہے، اور توقع کرتا ہے تو وہ خود گنہگار ہو گا۔ کھڑے ہونے والے نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس کو ناپسند کیا وہ یہی ہے کہ تکبر وغرور کی وجہ نہ ہو۔
اسی طرح ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ :
یا رسول اللہ: آپ نے مجھے مارا درانحالیکہ میرا پیٹ ننگا تھا، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹا دیا، یہ دیکھ کر تمام مسلمان چیخ وبکا کرنے لگے اور کہنے لگے: ہائے عجب! عکاشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ضرب لگانے والا ہے۔ پس جب حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بطن مبارک کی سفیدی دیکھی گویا وہ مصر کی بنی ہوئی عمدہ پارلین ہے، تو ان سے رہا نہ گیا اور بطن اقدس سے لپٹ گئے اور وہ کہہ رہے تھے: (یا رسول اللہ) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔ کس شخص کا نفس یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ آپ سے قصاص لے، پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: یا تو مارے گا یا معاف کرے گا۔ تو انہوں نے عرض کیا: میں نے معاف کیا یہ امید کرتے ہوئے کہ اللہ تعالی روز قیامت مجھے معاف فرمائے گا، پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص یہ چاہتا ہو کہ وہ جنت میں میرے ساتھی کو دیکھے تو وہ اس شخص کو دیکھ لے، پس لوگ کھڑے ہوئے اور عکاشہ کی آنکھوں کے درمیان بوسے دینے لگے اور کہنے لگے : تمہیں مبارک تمہیں مبارک ہو بے شک تم نے بلند درجات پا لئے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت بھی۔۔۔۔الحدیث
اس کو امام طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
فصل فی آدب مجلس شیخ
امام عسقلانی نے فتح الباری میں کہا ہے ابن بطال نے اس حدیث کی شرح میں کہا ہے کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے مسلمانوں کے بڑوں کا احترام کرنے، اور اپنی مجلس میں اہل فضیلت کے احترام کی مشروعیت، اور اسی مجلس میں اپنے علاوہ اپنے اصحاب کے لئے کھڑے ہونے، اور تمام لوگوں کو بڑوں کے لئے احتراما اٹھنے کو لازم پکڑنے کا حکم دیا، اور بعض لوگوں نے اس سے منع کیا اور انہوں نے ابو امامہ کی حدیث سے دلیل پکڑی ہے، جس میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف عصی مبارک پر ٹیک لگائے ہوئے آئے تو ہم سارے کھڑے ہو گئے تو آپ نے فرمایا : ایسے کھڑے نہ ہوا کرو جیسے عجمی لوگوں میں سے بعض بعض کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔
طبری نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہےاور اس کی سند میں اضطراب ہے اس میں ایسا راوی بھی ہے جو غیر معروف ہے، اور (عدم قیام والوں نے) عبداللہ بن بریدہ کی حدیث سے بھی استدلال کیا ہے کہ ان کے والد حضرت معاویہ کے پاس گئے اور انہیں بتلایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس شخص کو یہ پسند ہو کہ لوگ اس کے سامنے بتوں کی طرح کھڑے ہوں تو اس پر دوزح کی آگ واجب ہے، اور امام طبری نے اس حدیث کا جواب یوں دیا، ہے کہ اس حدیث میں اس شخص جو جس کے لئے قیام کیا جاتا ہے اس قیام سے خوش ہونے سے منع کیا گیا نہ کہ اس شخص کو منع کیا گیا ہے جو اس کے لئے احتراما کھڑا ہوتا ہے۔ اور ابن قتیبہ نے اس کا جواب یوں دیا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ منع اس شخص کو کیا گیا ہے جو چاہتا ہے کہ لوگ آ کے اس کے سر پر یوں کھڑے ہوں جیسے عجمیوں کے بادشاہوں کے سر پر کھڑے ہوتے ہیں، اور اس میں ایک شخص کو اپنے بھائی کے لئے اس وقت قیام کرنے سے منع نہیں کیا گیا جب وہ اس کو سلام کرے۔ اور ابن بطال نے جواز قیام کے لئے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس کو امام نسائی نے عائشہ بنت طلحہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے طریق سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہ کو آتے ہوئے دیکھتے تو ان کا استقبال کرتے اور کھڑے ہو کر ان کو بوسہ دیتے پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے جگہ پر بٹھائے۔
اور امام عسقلانی نے ہی ’فتح الباری‘ میں کہا ہے کہ قیام چار طرح کا ہوتا ہے:
1. پہلا ممنوع ہے اور وہ ایسا قیام ہے جو ایسے شخص کے لئے ہو جو چاہتا ہے کہ اس کے لئے قیام کیا جائے اور قیام کرنے والے پر تکبر اور بڑا پن بھی جتلائے۔
2. دوسرا قیام مکروہ ہے اور یہ وہ قیام ہے جو اس شخص کے لئے ہو جو اپنے لئے کھڑے ہونے والوں پر تکبر اور بڑا پن ظاہر نہیں کرتا لیکن اس کو خدشہ ہے کہ اس وجہ سے اس کے نفس میں وہ کچھ داخل ہو جائے گا جس کا اسے در ہے، اور اس لئے بھی کہ ایسا کرنے میں جباہرہ (جابر لوگوں) کے ساتھ مشابہت ہے،
3. تیسرا قیام وہ جائز ہے، اور یہ وہ قیام ہے جو بطور نیکی اور احترام کے ہو، اور اس شخص کے لئے ہو جو اس قیام کے باوجود جباہرہ کے ساتھ مشابہت سے محفوظ رہے،
4. چوتھا قیام مندوب ہے، اور یہ وہ قیام جو سفر سے آنے والے کے لئے اس کے آنے کی خوشی میں اور اسے سلام کرنے کی غرض سے کیا جائے یا اس شخص کے لئے کیا جائے جو کو کوئی نعمت حاصل ہوئی ہو تو اسے حصول نعمت  کی مبارکباد دینے کے لئے قیام کیا جائے یا کسی شخص کو کوئی مصیبت پہنچی ہو تو اس کے ساتھ تعزیت کرنے کے لئے کھڑا ہو جائے۔

..........
آج کل کافی افراد اساتذہ یا بزرگوں یا پھر بڑے عہدوں پر فائز حکمراں افراد کے احترام میں کھڑے ہوکر استقبال کرتے ہیں، حدیث مبارکہ کی حقیقت سے انکار تو ممکن نہیں لیکن شاید ہم کم فہم لوگ اس کی تشریح صحیح نہ کرسکے ہیں۔ لہٰذا مہربانی فرماکر اس بات کی مکمل وضاحت فرمائیں کہ آیا کسی بھی شخص (چاہے وہ والدین ہوں یا ملک کا صدر ہی کیوں نہ ہو) کے لئے (اس حدیث کی روشنی میں) کھڑا ہونا جائز نہیں؟ یا پھر اس حدیث شریف کا مفہوم کچھ اور ہے؟
یہاں دو چیزیں الگ الگ ہیں، ایک یہ کہ کسی کا یہ خواہش رکھنا کہ لوگ اس کے آنے پر کھڑے ہوا کریں، یہ متکبرین کا شیوہ ہے، اور حدیث میں اس کی شدید مذمت آئی ہے، چنانچہ ارشاد ہے: 'جس شخص کو اس بات سے مسرّت ہو کہ لوگ اس کے لئے سیدھے کھڑے ہوا کریں، اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائے۔'
(مشکوٰة ص:۳، ۴ بروایت ترمذی و ابوداوٴد)
          بعض متکبر افسران اپنے ماتحتوں کے لئے قانون بنادیتے ہیں کہ وہ ان کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوا کریں، اور اگر کوئی ایسا نہ کرے تو اس کی شکایت ہوتی ہے، اس پر عتاب ہوتا ہے اور اس کی ترقی روک لی جاتی ہے، ایسے افسران بلاشبہ اس ارشادِ نبوی کا مصداق ہیں کہ: 'انہیں چاہئے کہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائیں۔'
          اور ایک یہ کہ کسی دوست، محبوب، بزرگ اور اپنے سے بڑے کے اکرام و محبت کے لئے لوگوں کا ازخود کھڑا ہونا، یہ جائز بلکہ مستحب ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آمد پر کھڑے ہوجاتے تھے، ان کا ہاتھ پکڑ کر چومتے تھے اور ان کو اپنی جگہ بٹھاتے تھے، اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر کھڑی ہوجاتیں، آپ کا دست مبارک پکڑ کر چومتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جگہ بٹھاتیں۔ (مشکوٰة ص:۴۰۲) یہ قیام، قیامِ محبت تھا۔ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضراتِ انصار رضی اللہ عنہم سے فرمایا تھا:
'قوموا الٰی سیّدکم! متفق علیہ۔' (مشکوٰة ص:۳، ۴)
یعنی 'اپنے سردار کی طرف کھڑے ہوجاو' یہ قیام اِکرام کے لئے تھا۔
ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ہمارے ساتھ بیٹھے ہم سے گفتگو فرماتے تھے، پھر جب آپ کھڑے ہوجاتے تو ہم بھی کھڑے ہوجاتے اور اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازواجِ مطہرات میں سے کسی کے دولت کدے میں داخل نہ ہوجاتے۔  (مشکوٰة ص:۴۰۳)
یہ قیام تعظیم و اِجلال کے لئے تھا، اس لئے مریدین کا مشائخ کے لئے، تلامذہ کا اساتذہ کے لئے اور ماتحتوں کا حکامِ بالا کے لئے کھڑا ہونا، اگر اس سے مقصود تعظیم و اِجلال یا محبت و اِکرام ہو تو مستحب ہے، مگر جس کے لئے لوگ کھڑے ہوتے ہوں اس کے دِل میں یہ خواہش نہیں ہونی چاہئے کہ لوگ کھڑے ہوں۔

No comments:

Post a Comment