Monday 21 May 2018

ایک رات میں دوسری جگہ تراویح کی امامت

ایک رات میں دوسری جگہ تراویح کی امامت؟
سوال: کیا حافظ ایک رات میں دوسری جگہ تراویح کی امامت کرسکتا ہے؟
اسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
ایک رات میں تراویح کی نماز مکمل پڑھنے کے بعد دوسری جگہ تراویح کی امامت کرنا جائز نہیں؛ اس لئے کہ ایک رات میں ایک ہی مرتبہ تراویح کی نماز پڑھنا مسنون ہے۔ اگر ایک مرتبہ تراویح پڑھنے کے بعد دوبارہ پڑھے گا تو وہ نفل ہوگی اور نفل نماز جماعت سے پڑھنا مکروہ ہے، نفل نماز تنہا پڑھنی چاہئے، ہاں البتہ ایک جگہ تراویح کی نماز پڑھنے کے بعد دوسری جگہ پہنچ جائے اس میں ایک آدھ رکعت میں شریک ہوجائے تو کوئی حرج نہیں، مکمل تراویح دوسری جگہ پڑھنا مکروہ ہے۔
إمام یصلي التراویح في مسجدین کل مسجد علی وجہ الکمال لا یجوز؛ لأنہ لا یتکرر، ولو اقتدی بالإمام في التراویح وہو قد صلی مرۃ لا بأس بہ، ویکون ہذا اقتداء التطوع بمن یصلي السنۃ، ولو صلوا التراویح، ثم أرادوا أن یصلوا ثانیا یصلون فرادی۔ (البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، زکریا ۲/ ۱۲۰، کوئٹہ ۲/ ۶۸)
ولا یصلي إمام واحد التراویح في مسجدین في کل مسجد علی الکمال، ولا لہ فعل ولا یحتسب التالي من التراویح، وعلی القوم أن یعیدوا؛ لأن صلاۃ إمامہم نافلۃ، وصلاتہم سنۃ، والسنۃ أقوی فلم یصح الاقتداء؛ لأن السنۃ لا تتکرر في وقت واحد۔ (بدائع الصنائع، کتاب الصلاۃ، فصل في التراویح۔ کراچی قدیم ۱/ ۲۸۹، زکریا ۱/ ۶۴۷)
إمام یصلي التراویح في مسجدین في کل مسجد علی الکمال لا یجوز، کذا في محیط السرخسي، والفتوی علی ذلک، کذا في المضمرات۔ (ہندیۃ، الباب التاسع في النوافل، زکریا قدیم ۱/ ۱۱۶، جدید ۱/ ۱۷۶) 
فقط واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اﷲ عنہ
۲۴؍ رجب ۱۴۲۷ھ
(الف فتویٰ نمبر: ۳۸/ ۹۰۷۰)

No comments:

Post a Comment