کیا زبانی وقف جائز ہے؟
سوال: کیا زبانی وقف جائز ہے؟
جواب: و(الوقف) عندہما ہو حبسہا علی حکم لِملک اللّٰہ تعالیٰ وصرف منفعہا علی من احب ولو غنیا فیلزم فلایجوز لہ ابطالہ ولا یورث عنہ وعلیہ الفتویٰ (درمختار من کتاب الوقف) والملک یزول باربعۃ (الیٰ قولہ) وبقولہ وفقتہا فی حیاتی وبعد وفاتی موبداً ؤلقبل فیہ (فی الوقف) الشہادہ علی الشہادۃ وشہادۃ النساء مع الرجال والشہادۃ یا شہدۃ لاثبات اصلہ وان صو حوابہ الی السماع فی المختار (درمختار) وہکذا فی الشامی وفتح القدیر۔
ان عبارتوں سے معلوم ہوا کہ وقف صحیح و نافذ لازم ہونے کے لئے یا وقف ثابت ہونے کے لئے باقاعدہ مستند تحریر وقف نامہ کی ضروری نہیں ہے۔ بلکہ وقف زبانی بھی صحیح و لازم و نافذ ہوجاتا ہے اور وقف کا ثبوت بھی معتبر تحریری وقف نامہ کے محض واقف کے قول سے بھی ہو جاتا ہے اور لوگوں کے زبانی شہادت سے بھی ہو جاتا ہے۔ نیز جب وقف ایک مرتبہ صحیح و نافذ ہو تو خود واقف بھی اس وقف کو توڑ نہیں سکتا ہے اور نہ اس کو فروخت کر سکتا ہے نہ اس میں کسی قسم کا تصرف مالکانہ کر سکتا ہے چہ جائیکہ اس کی اولاد یا متولی وغیرہ یہ لوگ تو بدرجہ اولیٰ نہیں توڑ سکتے اور نہ اس کو بیچ سکتے ہیں (اورنہ اس میں واقف کے منشاء کے خلاف کوئی تصرف کرسکتے ہیں) پس اگر شخص مذکور نے واقعی وقف کردیا تھا اور اس کے شاہد موجود ہوں۔ یا عام طور سے اس کا وقف ہونا لوگوں میں مشہور ہو تو اگرچہ زبانی ہی وقف کیا ہو جب بھی اب ان کی اولاد میں سے یا اس کے متولیوں میں سے کسی کو بھی اس وقف کے توڑنے کا حق نہیں ہے اور نہ اسی موقوفہ میں سے کچھ فروخت کرڈالنا خلاف منشاء واقف اس میں کوئی تصرف کرنا درست و جائز ہے۔ بلکہ اس کو عین منشاء واقف کے مطابق محفوظ رکھنا اور تصرف کرنا ضروری ہے۔ جولوگ بھی بغیر وجہ شرعی کے منشاء واقف کے خلاف اس کا کل یا جز وفروخت کرڈالیں گے ان کے اوپر شرعاً ضمان اور تاوان واجب الادا ہوگا۔
فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
ان عبارتوں سے معلوم ہوا کہ وقف صحیح و نافذ لازم ہونے کے لئے یا وقف ثابت ہونے کے لئے باقاعدہ مستند تحریر وقف نامہ کی ضروری نہیں ہے۔ بلکہ وقف زبانی بھی صحیح و لازم و نافذ ہوجاتا ہے اور وقف کا ثبوت بھی معتبر تحریری وقف نامہ کے محض واقف کے قول سے بھی ہو جاتا ہے اور لوگوں کے زبانی شہادت سے بھی ہو جاتا ہے۔ نیز جب وقف ایک مرتبہ صحیح و نافذ ہو تو خود واقف بھی اس وقف کو توڑ نہیں سکتا ہے اور نہ اس کو فروخت کر سکتا ہے نہ اس میں کسی قسم کا تصرف مالکانہ کر سکتا ہے چہ جائیکہ اس کی اولاد یا متولی وغیرہ یہ لوگ تو بدرجہ اولیٰ نہیں توڑ سکتے اور نہ اس کو بیچ سکتے ہیں (اورنہ اس میں واقف کے منشاء کے خلاف کوئی تصرف کرسکتے ہیں) پس اگر شخص مذکور نے واقعی وقف کردیا تھا اور اس کے شاہد موجود ہوں۔ یا عام طور سے اس کا وقف ہونا لوگوں میں مشہور ہو تو اگرچہ زبانی ہی وقف کیا ہو جب بھی اب ان کی اولاد میں سے یا اس کے متولیوں میں سے کسی کو بھی اس وقف کے توڑنے کا حق نہیں ہے اور نہ اسی موقوفہ میں سے کچھ فروخت کرڈالنا خلاف منشاء واقف اس میں کوئی تصرف کرنا درست و جائز ہے۔ بلکہ اس کو عین منشاء واقف کے مطابق محفوظ رکھنا اور تصرف کرنا ضروری ہے۔ جولوگ بھی بغیر وجہ شرعی کے منشاء واقف کے خلاف اس کا کل یا جز وفروخت کرڈالیں گے ان کے اوپر شرعاً ضمان اور تاوان واجب الادا ہوگا۔
فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
از نظام الفتاوی
..........
سوال # 69061
امجد اور اسکے بھائیوں نے دوکٹھے زمین مسجد کیلئے محلہ رضا نگرمیں زبانی وقف کی تھی، کچھ عرصہ گذرجانے کے بعد اس محلے سے دو کیلو میٹر دور پر ایک نیا محلہ وجود میں آیا، دونوں محلے میں ایک ایک مسجد ہے ، امجد اور اسکے بھائیوں کے ذریعہ دی گئی زمین خالی پڑی ہے اب مشورہ یہ ہورہا ہے کہ ایک کٹھہ زمین رضا نگر میں مسجد تعمیر کیلئے چھوڑ دی جائے اور ایک کٹھہ زمین فروخت کر کے نیا محلہ راجہ باغیچہ میں مسجد کیلئے زمین کی خریداری کر کے مسجد تعمیر کروائی جائے۔ یہ فیصلہ بحالت مجبوری لی گئی ہے چونکہ دونوں محلے میں بریلویوں کی اکثریت ہے مسجد بھی انکے قبضے میں ہے۔
Published on: Aug 25, 2016
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 961-784/D=11/1437
زبانی وقف کرنے سے بھی وقف ہو جاتا ہے پس محلہ رضانگر میں جو زمین مسجد کے لیے وقف کی ہے وہ وقف دائم اور قائم رہنا ضروری ہے کسی دوسری مسجد کی خاطر موقوفہ زمین کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے دوسری مسجد کے لیے نیا بندوبست کیا جائے کیونکہ ایک مسجد پر موقوفہ زمین دوسری مسجد کے لیے استعمال نہیں ہوسکتی۔
............
سوال # 150966
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ایک بھائی محترم نے اپنی جائیداد میں سے ایک ایکڑ رقبہ ہماری جامع مسجد فاروقیہ کو وقف کرکے مسجد کے نام انتقال کروادیا۔ چند سال مذکورہ وقف شدہ رقبہ کی آمدن مسجد انتظامیہ کو دیتے رہے، پھر آمدنی دینا بند کردیا ۔مسجد کے متولی نے ان سے چند سال بعد مطالبہ کیا کہ آپ مسجد کے رقبہ کی آمدنی مسجد کے فنڈ میں دیا کریں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے علماء سے مسئلہ معلوم کیا ہے کہ جامع مسجد فاروقیہ خود کفیل ہے (حالانکہ مسجد کی آمدنی کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں ہے)، اس لیے ہم رقبہ کی آمدنی دوسری مسجد کو دیتے ہیں، مذکورہ تفصیل کے بعد اب سوال یہ ہے کہ:
1) آیا ان کا یہ فعل شرعی اعتبار سے جائزہے یا نہیں؟
۲) ایک مسجد کے نام وقف شدہ جائیداد کی آمدنی کا استعمال کسی دوسری مسجد میں کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟
طالب جواب صوفی محمد شریف متولی جامع مسجد فاروقیہ ,مولوی حسن علی الحسینی خطیب جامع مسجد فاروقیہ کلورکوٹ ضلع بھکر ,پنجاب پاکستان
Published on: May 4, 2017
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 720-570/D=8/1438
زمین جس مقصد کے لیے وقف کی جائے یعنی زبانی یا تحریری طور پر وقف کے ا لفاظ کہہ دیے یا لکھ دیے جائیں تو وہ وقف تام ہوجاتا ہے اور اگر متولی کو قبضہ اور دخل بھی دیدیا جائے تب تو بالکل مکمل ہوجاتا ہے ایسی وقف شدہ زمین کو واپس نہیں لیا جاسکتا بلکہ جس مقصد کے لیے وقف ہے اسی کے مصارف میں استعمال کیا جانا ضروری ہے، صورت مسئولہ میں مسجد فاروقیہ کو جو جائیداد وقف کی گئی ہے وقف نامہ کی تحریر مقامی علماء کو دکھلاکر مسئلہ سمجھ لیں۔
(۲) نہیں کیا جاسکتا الا یہ کہ ضرورت سے بہت زائد ہو اور ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو اسی جنس کے وقف میں خرچ کرسکتے ہیں یعنی مسجد کی زائد از ضرورت آمدنی دوسری مسجد میں جو کہ ضرورت مند ہو۔
No comments:
Post a Comment