Saturday, 5 May 2018

کیا عورت کو علم حاصل کرنے کا حق حاصل نہیں؟

سوال: کیا عورت کو علم حاصل کرنے کا حق حاصل نہیں؟
میں فقہ میں ٽخصص کرنا چاھتى ھوں کیا مجھے اسکا حق نہیں؟

جواب:
(۱) قرآن کریم،
(۲) حدیث و سنت اور
(۳) فقہ و شریعت میں جس طرح مردوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کیا اور علوم نبویؐ کو امت تک پہنچانے کی سعادت حاصل کی، اسی طرح خواتین نے بھی یہ خدمات سر انجام دیں۔ چنانچہ قرآن کریم کی تفسیر، حدیث و سنت کی روایات اور فقہی احکام و مسائل کا ایک بڑا ذخیرہ امت کو خواتین کے ذریعہ پہنچا ہے اور آج تک اہل علم اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔
قرآن کریم کی کسی آیت کی جو تشریح کسی صحابیؓ نے کی ہے اس کا بھی وہی مقام ہے اور جو تفسیر کسی صحابیہؓ سے مروی ہے وہ بھی وہی درجہ رکھتی ہے۔ حدیث کی روایت میں جو درجہ مرد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی روایت کا ہے وہی درجہ خاتون صحابیاتؓ کی روایت کا بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ بلکہ گھر کے اندر اور خاندانی نظام کے حوالہ سے صحابیاتؓ بالخصوص امہات المومنین کی روایات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اسی طرح فقہی مسائل اور فتاویٰ میں بھی امہات المومنین سے رجوع کیا جاتا تھا اور ان کے فتویٰ کو تسلیم کیا جاتا تھا۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں خاتون مفتیات کی تعداد بیس سے زیادہ بیان کی ہے، جبکہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو پوری امت کی ’’مفتیہ عظمیٰ‘‘ کا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ پردے کے شرعی احکام کی پابندی بھی ہوتی تھی اور تعلیم و تعلم اور روایت حدیث کا سلسلہ بھی قائم تھا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ جو خود فقہاء صحابہ کرامؓ میں شمار ہوتے ہیں، ان کا ارشاد ہے کہ ہم صحابہ کرامؓ کو کبھی کوئی ایسی مشکل پیش نہیں آئی جس کا حل اور اس کے بارے میں علم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس موجود نہ ملا ہو۔
اس لئے مرد و عورت کے شرعی احکام کے فرق کا دائرہ قائم رکھتے ہوئے علوم دینیہ بالخصوص قرآن و سنت اور فقہ و شریعت میں عورت کا بھی وہی حق ہے جو مرد کا ہے اور محدثین و فقہاء نے کسی جگہ کوئی حد نہیں بیان کی کہ اس سے زیادہ کسی عورت کو علم حاصل کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ یہ بات اپنی طالبات بیٹیوں کو حوصلہ دلانے کے لئے کہہ رہا ہوں تاکہ وہ علوم دینیہ کو اپنا حق سمجھ کر سیکھیں، اپنی ضرورت سمجھ کر حاصل کریں اور اپنا فرض سمجھ کر قرآن و سنت اور فقہ و شریعت میں زیادہ سے زیادہ مہارت پیدا کریں۔ البتہ پردہ اور دیگر شرعی احکام و ضوابط کی پابندی بھی ضروری ہے، اس لئے کہ اس کے بغیر تو دین سیکھنے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔
از: حضرت مولانا ابو عمار زاھد الراشدی لاہور
........
مدرسۃ البنات سے متعلق ضروری ہدایات
(حضرت مولانا مظہر صاحب دامت برکاتہم اور اُن کی اولاد کے لئے)
مرشدنا ومولانا ومقتدانا شیخ العرب والعجم عارف بااللہ حضرتِ اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم مدرسۃ البنات قائم کرنے کے حق میں نہیں تھے اس لئے مدرسۃ البنات کا قیام موقوف کردیا گیا تھا لیکن بہت عرصہ بعد جب حضرتِ والا کو اطلاع ملی کہ بعض حضرات کے اصرار پر مدرسہ قائم کردیا گیا ہے تو مندرجہ ذیل ہدایات تحریر فرمائیں: (جامع)
۱) دارالاقامہ نہ قائم کیا جائے کہ احتیاط میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔
۲) خواتین استانیوں کو مہتمم یا اساتذہ کرام براہِ راست کوئی ہدایت نہ دیں، نہ بات چیت کریں نہ پردہ سے، نہ فون پر۔ مہتمم کو اپنی بیوی یا خالہ یا بیٹی کے ذریعے استانیوں کو کوئی ضروری پیغام، ہدایت یا تنخواہ وغیرہ دینے کا اہتمام ضروری ہے۔ کسی بھی مرد کا استانیوں سے براہ راست ہرگز کوئی بات چیت اور رابطہ نہ ہو اور مہتمم اور اولادِ مہتمم اور مرد استاد کے براہِ راست بات چیت کرنے سے مدرسۃ البنات کے بجائے عشق البنات میں ابتلا کا اندیشہ ہے۔
۳) کوشش کی جاوے کہ پانچ سال سے نو سال تک کی طالبات کے لئے ناظرۂ قرآنِ پاک اور حفظِ قرآنِ پاک اور تعلیم الاسلام کے چار حصے اور بہشتی زیور تک تعلیم پر اکتفا کیا جاوے۔ اگر عالمہ نصاب پڑھانا ہو تو عربی کے مختصر نصاب سے تکمیل کروائیں، مگر پردہ شرعی کا سخت اہتمام ضروری ہے ورنہ لڑکیوں کے لئے بہتر یہی ہے کہ ناظرۂ قرآنِ پاک، بہشتی زیور اور حکایاتِ صحابہ وغیرہ پر اکتفا کیا جاوے اور خواتین معلمات بھی باپردہ ہوں۔
۴) عالمہ نصاب کی لڑکیوں کو شوہر کی خدمات اور آدابِ شوہر کا اہتمام سکھایا جاوے، اور عالم شوہر کی تلاش ان کے لئے ہو، ورنہ اگر ڈاکٹر اور انجینئر یا تاجر ہو تو دیندار ہونے کی شرط ضروری ہے۔
۵) پورے مدرسۃ البنات میں عورتوں کا رابطہ صرف عورتوں سے رہے۔ مہتمم اپنی محرم یعنی بیوی یا والدہ اور بہن وغیرہ سے دریافتِ حالِ تعلیمی یا دریافتِ حالِ انتظامیہ کرے۔ اگر اتنی ہمت نہ ہو تو مدرسۃ البنات مت قائم کرو اور مدرسہ بند کردو۔ دوسروں کے نفع کے لئے خود کو جہنم کی راہ پر مت ڈالو۔ مخلوق کے نفع کے لئے مردوں کا لڑکیوں کو پڑھانا یا پردہ سے بھی بات چیت کرنا فتنہ سے خالی نہیں۔ تجربہ سے معلوم ہوا کہ پردہ سے گفتگو کرنے والے بھی عشق مجازی میں مبتلا ہوگئے، لہٰذا سلامتی کی راہ صرف یہی ہے کہ خواتین سے ہر طرح کی دوری رہے۔
احقر محمد اختر عفا اللہ عنہٗ
اخلاقیات
مندرجہ ذیل ملفوظات کو فیروز میمن صاحب نے کیسٹ سے نقل کیا اور احقر نے مرتب کیا۔ (سید عشرت جمیل میر عفا اللہ عنہٗ)
ناشر: احقر محمد مصطفی جامعی
goo.gl/KLQ5zk

No comments:

Post a Comment