Saturday 19 May 2018

اذان فجر تک سحری کھانے سے متعلق تحقیق

اذان فجر تک سحری کھانے سے متعلق تحقیق
پچھلے سال کی طرح امسال بھی سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک پر بعض لوگ ابوداؤد شریف کی ایک حدیث کی آیت قرآنی اور دیگر احادیث کو مدنظر رکھے بغیرغلط تشریح کرکے یہ بات بہت زور و شور سے پھیلار ہے ہیں کہ اگر کوئی شخص سحری کررہا ہواور کھانے کابرتن اس کے ہاتھ میں ہو اوراسی حالت میں اذان فجر ہوجائے تو وہ اذان فجر کی وجہ سے کھانے سے نہ رک جائے بلکہ اپنی حاجت پوری کرلے،یعنی عوام میں یہ بات مشہورکرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ سحری کے ختم ہونے کا وقت طلوع صبح صادق نہیں ہے بلکہ فجر کی اذان کے وقت بھی کھانے پینے کی کوئی چیز ہاتھ میں ہو تواس ختم کھاسکتے ہیں ،حالانکہ یہ بات قرآن وسنت کی روسےدرست نہیں ہے ،لہذاسحری کا وقت ختم ہونے کے سلسلےمیں قرآن و سنت کے احکامات کا خلاصہ پیش ِخدمت ہیں۔
.
(1)۔۔۔ اللہ تبارک و تعالی نے سورت بقرہ کی آیت نمبر 187میں فرمایا :
كُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ
ترجمہ:’’کھاؤاورپیو یہاں تک کہ صبح کی سفیددھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہوکرتم پر واضح ہوجائے‘‘
اس آیت میں سحری کےختم ہونے کا وقت بتایا گیاہےاوراس کی تفسیر کرتےہوئےمفسرین نے’’الخیط الابیض‘‘ سے مراد صبح کاذب اور ’’الخیط الاسود‘‘ سے مراد صبح صادق بتایا ہے، لہذا معلوم ہواکہ اللہ تبارک وتعالی نے اس آیت میں سحری کےختم ہونے کا وقت صبح صادق کا طلوع ہونا بتایا ہے۔ (دیکھئےعبارات نمبر1)
.
تفسیربغوی اور ثعلبی میں اسی آیت کی تفسیرمیں مزیدواضح کیا کہ فجر کی دو قسمیں ہیں:
1. فجرِکاذب یا صبح کاذب: وہ روشنی جوآسمانِ افق میں بلندی کی طرف (طولاً) نظرآتی ہےاور اس کے طلوع ہونے سے نہ تو رات ختم ہوتی ہے، نہ نماز فجرجائزہےاور نہ ہی روزہ دار پرکھانا پیناحرام ہوتا ہے۔
2. فجرِصادق یا صبح صادق: وہ روشنی جوآسمانِ افق پر(عرضا) نظرآئے، اور ا
کے طلوع ہونے سے رات ختم ہوکر دن شروع ہوجاتا ہے، سحری کا وقت ختم کر روزہ دار پر کھانا پینا حرام ہوجاتا ہے اورنماز فجرکا وقت شروع ہوجاتا ہے۔(دیکھئے عبارات نمبر2)
==============
(2)۔۔۔تفاسیر اور احادیث کی کتابوں میں یہ بات تفصیل سےمذکور ہے کہ آنحضرت محمد ﷺ کے دور میں ایک اذان حضرت بلالؓ دیتے تھے جو تہجد اورسحری کی اطلاع کیلئے ہوتی تھی، اوردوسری اذان حضرت عبداللہ ابن ام مکتومؓ دیتے تھے جو فجرِ(صبح) صادق کے طلوع ہونےکے بعد دیتے تھے، مذکورہ واقعہ اور دیگر احادیث سے یہ بات صراحتا ًمعلوم ہوتی ہے کہ سحری کا اختتامی وقت طلوعِ صبحِ صادق ہے اور اس کے طلوع کے بعد روزہ دار کیلئے کھانے پینے کی اجازت نہیں۔ (دیکھئے عبارات نمبر3)
==============
(4)۔۔۔ صاحبِ تفسیرِمنیرؒ لکھتے ہیں کہ جوشخص صبح صادق طلوع ہونے کے بعد تک سحری کرتا رہا توائمہِ اربعہ کا اتفاق ہے کہ اس شخص پر اس روزہ کی قضاء واجب ہے۔ (دیکھئے عبارت نمبر4)
==============
(5)۔۔۔ جہاں تک ابوداؤد میں موجودحدیث (إِذَا سَمِعَ أَحَدُكُمُ النِّدَاءَ وَالإِنَاءُ عَلَى يَدِهِ فَلاَ يَضَعْهُ حَتَّى يَقْضِىَ حَاجَتَهُ مِنْهُ،’’جب تم میں سے کوئی (فجرکی) اذان سنے اور(کھانے یا پینے) کابرتن اس کے ہاتھ میں ہو تواسے نہ رکھے، بلکہ اس سے اپنی ضرورت پوری کرلے‘‘) کا تعلق ہے تو یہ صرف ظاہری طور پرمذکورہ بالا آیت ِقرآنی اور احادیث کے خلاف نظر آتی ہے، لیکن حقیقت میں دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ حدیث کی اہم کتاب ’مشکوۃ‘ کی شرح ’مرعاۃ‘ میں اس حدیث کی تشریح میں لکھاہےکہ ’’النداء‘‘ سے مراد حضرت بلال ؓ کی اذان ہے جو کہ صبح صادق سے پہلےصبح کاذب کے وقت دی جاتی تھی(دیکھئے عبارات نمبر3اور5) اور اس بات کی تائید (کہ سحری کااختتامی وقت طلوعِ صبحِ صادق ہےنہ کہ اذانِ فجریااس کے بعد تک) ابوداؤد کی وہ تمام روایات ہیں جو ’’باب وَقْتِ السُّحُورِ‘‘ میں ذکرکی گئی ہیں جن سے صرحتا معلوم ہورہا ہے کہ سحری کے ختم ہونے کا وقت طلوعِ صبح صادق ہے. (دیکھئے عبارات نمبر6)
.
مذکورہ بالا تفصیل سےمعلوم ہواکہ ابوداؤدشریف کےایک حدیث کے ظاہری معنی کو لیکر دیگرآیات، احادیث، مفسرین اور محدثین کی تشریحات سے نظریں چراکرصبح صادق طلوع ہونے کے بعد اذان فجریا اس کے بعد تک تک سحری کا وقت ثابت کرنا یا کھانے کی اجازت دینا درست نہیں ہے۔ لہذامعلوم ہوا کہ:
.
(الف) سحری کا اختتامی وقت ’’طلوعِ صبحِ صادق‘‘ہے نہ 
کہ اذانِ فجر، لہذا اذانِ فجرتک کھانا پینا درست نہیں ہے کیونکہ ہمارے ہاں رمضان میں عموماً صبح صادق طلوع ہونے کے پانچ سے دس منٹ بعد فجر کی اذان دی جاتی ہے، بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ صبح صادق طلوع ہونےسے بھی تقریباً دومنٹ پہلے کھانے پینے سےاحتیاطاً رک جانا چاہئے۔
.
(ب) اگرکسی مسجد میں صبح صادق طلوع ہونے سے پہلےہی فجرکی اذان ہوتی ہو (اگرچہ اذان کا وقت نہ ہونے کی وجہ سےایسا کرنا درست نہیں) توصرف ایسی صورت میں فجر کی اذان کے وقت کھانا ممنوع نہ ہوگا کیونکہ ابھی تک سحری کا اختتامی یعنی صبح صادق کا وقت نہیں ہوا۔
.
(ج) اگرکسی مسجد میں صبح صادق (اپنے شہر کے مستند نقشہ کے مطابق) کے فورا بعد اذان ہوگئی اور کوئی شخص اس وقت تک کھاتا رہا تواگریہ صبح صادق (نقشہ کے مطابق) سے ایک دو منٹ کی حد تک دیر ہے تو اس کا روزہ تو ہوجائے گا کیونکہ نقشہ میں بھی ایک دو منٹ احتیاط کے رکھے جاتے ہیں، لیکن اس کی عادت بنالینا ہرگز درست نہیں ہے بلکہ صبح صادق طلوع ہونےسے بھی تقریباً دو منٹ پہلے کھانے پینے سے احتیاطاً رک جانا چاہئے۔
اوراگرفجر کی اذان صبح صادق (نقشہ کے مطابق) طلوع ہونے کے ایک دو منٹ سے زیادہ تاخیر سے ہواورکوئی شخص اتنی تاخیر تک کھاتا رہا تواس کاروزہ نہ ہوگا اوراسے اس دن کے روزہ کی قضا کرنا ہوگی، کیونکہ حقیقتاً صبح صادق طلوع ہونے کے ایک منٹ بعد بھی کھایا جائے توروزہ نہیں ہوتا، نیز اس کیلئے باقی دن روزہ داروں کی طرح رہنا بھی واجب ہوگا۔
.
(د) سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اپنے شہر کے کسی معتبر دینی ادارے کا سحری و افطاری کا نقشہ لے لیا جائے اور اسی کے مطابق سحری و افطاری کی جائے، کیونکہ موجودہ حالات میں اپنے مشاہدہ سے صبح کاذب وصادق کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے (الایہ کہ کوئی ماہرہو یا دیہات یا جنگل میں رہنے کی وجہ اس کی پہچان رکھتا ہو)
.
نوٹ:معمولی ردوبدل کے بعد اسے دوبارہ شیئر کیا جارہاہے، اگر اس میں مخلصین کو کوئی علمی اعتبار سے سقم محسوس ہو تو بندہ کو آگاہ کریں۔ جزاک اللہ خیرا
=========
(1) التفسير الحديث – (6 / 300)
كناية عن بزوغ الفجر الصادق الذي يفرق بين ظلمة الليل وضوء النهار
أيسر التفاسير لكلام العلي الكبير – (1 / 166)
{الْخَيْطُ الأَبْيَضُ} الفجر الكاذب وهو بياض يلوح في الأفق؛…{الْخَيْطِ الأَسْوَدِ} : سواد يأتي بعد البياض الأول فينسخه تماماً. 

=========
(2) تفسير البغوي – (1 / 208):
واعلم أن الفجر فجران كاذب وصادق، فالكاذب يطلع أولا مستطيلا كذنب السرحان يصعد إلى السماء فبطلوعه لا يخرج الليل ولا يحرم الطعام والشراب على الصائم، ثم يغيب فيطلع بعده الفجر الصادق مستطيرا ينتشر سريعا في الأفق، فبطلوعه يدخل النهار ويحرم الطعام والشراب علىالصائم.
الكشف والبيان – تفسير الثعلبي – (2 / 80):
والفجر إنشقاق عمود الصبح وابتداء ضوءه ، وهو مصدر من قولك فجرّ الماء يفجر فجراً إذا إنبعث وجرى شبهّه شق الضوء بظلمة الفجر ، الماء الحوض إذا شقه وخرج منه وهما فجران ، أحدهما : يسطع في السماء مستطيلاً كذّذ السرحان ولا ينتشر فذلك لا يحل الصلاة ولا يحرم الطعام على الصائم وهو الفجر الكاذب .
والثاني : هو المستطير الذي ينتشر ويأخذ الأفق ضوء الفجر الصادق الذي يحل الصلاة ويحرم الطعام على الصائم وهو المعني بهذه الآية .

=========
(3) صحيح مسلم – عبد الباقي – (2 / 770):
لا يغرنكم من سحوركم أذان بلال ولا بياض الأفق المستطيل هكذا حتى يستطير هكذا وحكاه حماد بيديه قال يعني معترضا
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح – (2 / 573):
680 – (عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (إِنَّ
بِلَالًا يُنَادِي) أَيْ: يَذْكُرُ وَقَالَ ابْنُ الْمَلَكِ: يُؤَذِّنُ (بِلَيْلٍ) أَيْ: فِيهِ يَعْنِي لِلتَّهَجُّدِ أَوْ لِلسُّحُورِ، لِمَا وَرَدَ فِي خَبَرِ: ” إِنَّهُ نُهِيَ عَنِ الْأَذَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ ” وَإِنْ قِيلَ بِضَعْفِهِ ” (فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُنَادِيَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ) اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ قَيْسٍ، وَكَانَ يُنَادِي بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ الصَّادِقِ،
جامع الأحاديث – (17 / 201):
17949- لا يغرنكم من سحوركم أذان بلال ولا هذا البياض وفى لفظ ولا بياض الأفق المستطيل حتى يستطير (الطيالسى ، ومسلم ، والنسائى ، وابن خزيمة ، والدارقطنى عن سمرة بن جندب)
السنن الكبرى للبيهقي – (1 / 380):
قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- :« لا يغرنكم من سحوركم أذان بلال ولا بياض الأفق المستطيل حتى يستطير هكذا ».
الجامع لأحكام القرآن – (2 / 318):
روى مسلم عن سمرة بن جندب رضي اللّه عنه قال قال رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم : ” لا يغرنكم من سحوركم أذان بلال ولا بياض الأفق المستطيل هكذا حتى يستطير هكذا”. وحكاه حماد بيديه قال : يعني معترضا
تفسير ابن كثير-ط دار طيبة – (1 / 515):
الإمام أحمد: حدثنا موسى بن داود، حدثنا محمد بن جابر، عن قيس بن طَلْق، عن أبيه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: “ليس الفجرُ المستطيل في الأفق ولكنه المعترض الأحمر” . ورواه أبو داود، والترمذي ولفظهما: “كلوا واشربوا ولا يَهِيدَنَّكُمْ الساطع المصعد، فكلوا واشربوا حتى يعترض لكم الأحمر”.
وقال ابن جرير: حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا شعبة، عن شيخ من بني قشير: سمعت سَمُرة بن جُنْدَب يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “لا يغرنكم نداء بلال وهذا البياض حتى ينفجر الفجر، أو يطلع الفجر”.
ثم رواه من حديث شعبة وغيره، عن سوادة بن حنظلة، عن سمرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “لا يمنعكم من سَحُوركم أذان بلال ولا الفجر المستطيل، ولكن الفجر المستطير في الأفق” .
قال: وحدثني يعقوب بن إبراهيم، حدثنا ابن عُلَية، عن عبد الله بن سَوادة القُشَيري، عن أبيه، عن سمرة بن جندب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “لا يغرنكم أذان بلال ولا هذا البياض، تعمدوا الصبح حين يستطير”
.ورواه مسلم في صحيحه عن زهير بن حرب، عن إسماعيل بن إبراهيم -يعني ابن علية -مثله سواء .
وقال ابن جرير: حدثنا ابن حمَيد، حدثنا ابن المبارك، عن سُلَيمان التيمي، عن أبي عثمان النهدي، عن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “لا يمنعَنّ أحدكم أذان بلال عن سحوره -أو قال نداء بلال -فإن بلالا يؤذن -أو [قال] ينادي -لينبه نائمكم وليَرْجع قائمكم، وليس الفجر أن يقول
=========
(4)التفسير المنير للزحيلي – (2 / 158):
ومن شك في طلوع الفجر، لزمه الكف عن الأكل، فإن أكل مع شكه، فعليه القضاء كالناسي، في مذهب مالك، وقال أبو حنيفة والشافعي: لا شيء عليه حتى يتبين له طلوع الفجر. فإن تبين طلوع الفجر وجب عليه القضاء باتفاق أئمة المذاهب إذ «لا عبرة بالظن البين خطؤه».
=========
(5) مشكاة المصابيح مع شرحه مرعاة المفاتيح – (6 / 931):
المراد بالنداء الأذان الأول أي أذان بلال قبل الفجر لقوله {صلى الله عليه وسلم} إن بلالاً يؤذن بليل فكلوا وأشربوا حتى يؤذن ابن أم مكتوم.
=========
(6) سنن أبى داود-ن – (2 / 275):
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم- « لاَ يَمْنَعَنَّ مِنْ سَحُورِكُمْ أَذَانُ بِلاَلٍ وَلاَ بَيَاضُ الأُفُقِ الَّذِى هَكَذَا حَتَّى يَسْتَطِيرَ ».
سنن أبى داود-ن – (2 / 275):
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « لاَ يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ أَذَانُ بِلاَلٍ مِنْ سَحُورِهِ فَإِنَّهُ يُؤَذِّنُ – أَوْ قَالَ يُنَادِى – لِيَرْجِعَ قَائِمُكُمْ وَيَنْتَبِهَ نَائِمُكُمْ وَلَيْسَ الْفَجْرُ أَنْ يَقُولَ هَكَذَا ». قَالَ مُسَدَّدٌ وَجَمَعَ يَحْيَى كَفَّيْهِ حَتَّى يَقُولَ هَكَذَا وَمَدَّ يَحْيَى بِأُصْبَعَيْهِ السَّبَّابَتَيْنِ.
سنن أبى داود-ن – (2 / 275):
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « كُلُوا وَاشْرَبُوا وَلاَ يَهِيدَنَّكُمُ السَّاطِعُ الْمُصْعِدُ فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَعْتَرِضَ لَكُمُ الأَحْمَرُ ».
=========

واللہ تعالی اعلم بالصواب
تحریر: محمدعاصم عصمہ اللہ تعالی، متخصص فی الافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی
..........................................................

ردُّ شبهة
هل يجوز أكل أو شرب ما في اليد من طعام أو شراب بعد بدء الأذان الثاني في رمضان ؟؟!
الجواب:
1- اتفق الفقهاء من المذاهب الأربعة (الحنفية والمالكية والشافعية والحنابلة)* على أنَّ من طلع عليه الفجر وفي فمه طعام أن يلفظه ويتم صومه، فإن ابتلعه بعد علمه بالفجر بطل صومه حتى ولو كانت لقمة ولزمه القضاء؛ وذلك لأنه ابتلع طعاماً باختياره مع إمكانية لفظه. بل ذهب الحنفية والمالكية إلى وجوب القضاء والكفارة عليه لتعمده الأكل أو الشرب بعد دخول وقت الفجر.
قال الإمام النووي في المجموع: "وهذا لا خلاف فيه"
وقال ابن القيم: "وذهب الجمهور إلى امتناع السحور بطلوع الفجر, وهو قول الأئمة الأربعة,  وعامة فقهاء الأمصار , وروي معناه عن عمر وابن عباس"  وهو قول عامة فقهاء الأمصار.
واستدلوا:
أ: بصريح قول الله تعالى: {وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ}، أي ويباح لكم الأكل والشرب والمباشرة عامة الليل، حتى يظهر بياض النهار من سواد الليل، ويتبين بطلوع الفجر الصادق، ثم أمر بالإمساك عن الأكل، والشرب، والجماع في النهار بقوله: {ثم أتموا الصيام إلى الليل} فدل أن ركن الصوم لا يتحقق من غير ذلك الإمساك.
ب: وبقول النبي صلى الله عليه وسلم -فيما رواه البخاري ومسلم وغيرهما-: (إِنَّ بِلاَلًا يُنَادِي بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُنَادِيَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ) ومن المعلوم أن ابْن أُمِّ مَكْتُومٍ-رضي الله عنه-كان ينادي بالصلاة عند طلوع الفجر..
2: وشذَّ الألباني ووافقه ابن عثيمين من المعاصرين في جواز أن يتابع المتسحر طعامه وشرابه الذي بيده حتى يكمل نهمته منه ولو سمع نداء الفجر . محتجين بحديث أنَّ النبي صلى الله عليه وسلم قال: ((إذا سمع أحدكم النداء والإناء على يده، فلا يضعه حتى يقضي حاجته منه)) ( رواه ابو داود وأحمد)
والحديث لا يصلح للاحتجاج به لأمرين؛ مخالفته لمفهوم ظاهر النص القرآني؛ ولكون الحديث مختلف في تصحيحه وتضعيفه، والقاعدة الأصولية تقول: " ما تطرق إليه الاحتمال بطل به الاستدلال"
وقد ضعف الحديث الإمام الحافظ أبو حاتم الرازي195) هـ(  كما نقل ابنه، وقال ابن القطان رحمه الله: "وهو حديث مشكوك في رفعه"
وعلى فرض صحته فقد حمله العلماء على وجوه: الأذان المشكوك في دلالته على طلوع الفجر، وفي قول آخر حُمل على الأذان الأول الذي يؤذن بليل وليس للفجر، أما الأذان الثاني (أذان طلوع الفجر حقيقة) فلا يحل الأكل بعده.
قال العلامة المحدث صدر الدين المُنَاوِي 803 هـ  بعد ذكره للحديث: "ولا بد من حمل الحديث على أنه لم يتحقق طلوع الفجر ولا غلب على ظنه"
لذا فيجب على من تناول شيئاً من المفطرات بعد بدء الأذان أن يمسك عن الطعام في هذا اليوم, ويقضيه بعد رمضان؛ لأن بداية الأذان تدل على دخول الفجر، وإن تعمد ذلك فهو آثم يلزمه مع الإمساك والقضاء "القضاء مع الكفارة عند الحنفية والمالكية، والقضاء دون الكفارة عند الشافعي وأحمد" والتوبة النصوح بالندم والعزم على عدم تكرار ذلك، والإكثار من الاستغفار.
وعلى المسلم أن يحتاط لدينه وعباداته فيتَّبع أقوال جماهير علماء الأمة، ويبتعد عن الأقوال الشاذة والمخالفة.
وكتبه محمد مهدي نذير قشلان رجاء دعوة صالحة

No comments:

Post a Comment