کمیشن پر چندہ کے احکام
کمیشن پر چندہ کرنا جائز نہیں، سفرا چندہ دہندگان کے وکیل ہوتے ہیں، لہٰذا اگر انھوں نے چندہ کی پوری رقم مدرسہ میں پہنچادی تو چندہ دہندگان کی زکاة ادا ہوگئی، باقی حق الخدمت بطور کمیشن لینے کا معاملہ کرنا مہتمم اور سفیر دونوں کے لیے غلط اور موجب گناہ ہے، ہاں اگر چندہ وصول کرنے والا پوری رقم مدرسہ میں نہیں پہنچاتا بلکہ درمیان میں ہی اپنے کمیشن کی رقم رکھ لیتا ہے تو پھر چندہ دہندہ کی زکاة ادا نہ ہوگی اور سفیر کا ایسا کرنا خیانت ہے۔
........
فتوی(د): 517=373-4/1431
کمیشن پر چندہ کرنا اجارہٴ فاسدہ ہے، پس جائز نہیں۔ اور پچاس فیصد میں ایک خرابی اور بھی ہے کہ متعارف اجرت سے زاید ہونے کی وجہ سے مدرسہ کے حق میں یہ غبن فاحش ہے، جس کا اختیار مہتمم مدرسہ کو نہیں ہے۔
.........
کمیشن پر چندہ کرنا جائز نہیں، سفرا چندہ دہندگان کے وکیل ہوتے ہیں، لہٰذا اگر انھوں نے چندہ کی پوری رقم مدرسہ میں پہنچادی تو چندہ دہندگان کی زکاة ادا ہوگئی، باقی حق الخدمت بطور کمیشن لینے کا معاملہ کرنا مہتمم اور سفیر دونوں کے لیے غلط اور موجب گناہ ہے، ہاں اگر چندہ وصول کرنے والا پوری رقم مدرسہ میں نہیں پہنچاتا بلکہ درمیان میں ہی اپنے کمیشن کی رقم رکھ لیتا ہے تو پھر چندہ دہندہ کی زکاة ادا نہ ہوگی اور سفیر کا ایسا کرنا خیانت ہے۔
......
الجواب: حنفیہ کے اصول پر یہ اجارہ فاسدہ ہے (۱) اوردوسرے مذاہب کی تحقیق نہیں۔ فقط
۱۲؍ ذیقعدہ ۱۳۲۵ ھ(امداد جلد سوم ص۷۱ وحوادث اولیٰ ص ۹۲)
------------------------------
(۱) دو خرابیوں کی وجہ سے (۱) اجرت کے مجہول یعنی متعین نہ ہونے کی وجہ سے (۲) اس لئے کہ اجرت عمل اجیر سے حاصل ہوتی ہے۔
ولا یصح حتی تکون المنافع معلومۃ والأجرۃ معلومۃ۔ (ہدایۃ، کتاب الإجارات، مکتبہ أشرفیہ دیوبند ۳/ ۲۹۳)
وشرطہا: کون الأجرۃ، والمنفعۃ معلومتین؛ لأن جہالتہما تفضي إلی المنازعۃ۔ (الدرالمختار مع الشامي، کتاب الإجارۃ، مکتبہ زکریا دیوبند ۹/ ۷، کراچی ۶/ ۵)
البحرالرائق، کتاب الإجارۃ، مکتبہ زکریا دیوبند ۷/ ۵۰۷، کوئٹہ ۷/ ۲۹۷۔
مجمع الأنہر، کتاب الإجارۃ، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۳/ ۵۱۲۔
ہندیۃ، کتاب الإجارۃ، قدیم زکریا ۴/ ۴۱۱، جدید زکریا ۴/ ۴۴۱۔
وفسد استئجار حائک ینسج لہ غزلا بنصفہ أو ثلثہ، أو حمارا لیحمل علیہ طعاما بقفیز منہ أو ثورا لیطحن لہ برا بقفیز من دقیقہ أما فساد الأولیٰ والثانیۃ فلأنہ جعل الأجر ببعض ما یخرج من عملہ، فصار في معنی قفیز الطحان، وقد نہی عنہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، والمعني فیہ أن المستأجر عاجز عن تسلیم الأجر؛ لأنہ بعض ما یخرج من عمل الأجیر، والقدرۃ علی التسلیم شرط لصحۃ العقد، وہو لا یقدر بنفسہ، وإنما یقدر بغیرہ فلا یعد قادرا ففسد۔ (ملتقی الأبحر مع مجمع الأنہر، الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۳/ ۵۳۹)
دفع رجل بقرۃ علی أن یعلفہا وما یکون من اللبن والسمن بینہما أنصافا، فالإجارۃ فاسدۃ۔ (ہندیۃ، الإجارۃ، الباب الخامس عشر: الفصل الثالث، قدیم زکریا ۴/ ۴۴۵، جدید زکریا ۴/ ۴۸۱)
خانیۃ علی الہندیۃ قدیم زکریا ۲/ ۳۳۰، جدید زکریا ۲/ ۲۱۰۔
بزازیۃ علی الہندیۃ، قدیم زکریا ۵/ ۳۷، جدید زکریا ۲/ ۲۱-۲۲۔
شبیر احمد قاسمی عفا اﷲ عنہ
.......
فتوی(د): 517=373-4/1431
کمیشن پر چندہ کرنا اجارہٴ فاسدہ ہے، پس جائز نہیں۔ اور پچاس فیصد میں ایک خرابی اور بھی ہے کہ متعارف اجرت سے زاید ہونے کی وجہ سے مدرسہ کے حق میں یہ غبن فاحش ہے، جس کا اختیار مہتمم مدرسہ کو نہیں ہے۔
.........
کمیشن پر چندہ کرنا جائز نہیں، سفرا چندہ دہندگان کے وکیل ہوتے ہیں، لہٰذا اگر انھوں نے چندہ کی پوری رقم مدرسہ میں پہنچادی تو چندہ دہندگان کی زکاة ادا ہوگئی، باقی حق الخدمت بطور کمیشن لینے کا معاملہ کرنا مہتمم اور سفیر دونوں کے لیے غلط اور موجب گناہ ہے، ہاں اگر چندہ وصول کرنے والا پوری رقم مدرسہ میں نہیں پہنچاتا بلکہ درمیان میں ہی اپنے کمیشن کی رقم رکھ لیتا ہے تو پھر چندہ دہندہ کی زکاة ادا نہ ہوگی اور سفیر کا ایسا کرنا خیانت ہے۔
......
الجواب: حنفیہ کے اصول پر یہ اجارہ فاسدہ ہے (۱) اوردوسرے مذاہب کی تحقیق نہیں۔ فقط
۱۲؍ ذیقعدہ ۱۳۲۵ ھ(امداد جلد سوم ص۷۱ وحوادث اولیٰ ص ۹۲)
------------------------------
(۱) دو خرابیوں کی وجہ سے (۱) اجرت کے مجہول یعنی متعین نہ ہونے کی وجہ سے (۲) اس لئے کہ اجرت عمل اجیر سے حاصل ہوتی ہے۔
ولا یصح حتی تکون المنافع معلومۃ والأجرۃ معلومۃ۔ (ہدایۃ، کتاب الإجارات، مکتبہ أشرفیہ دیوبند ۳/ ۲۹۳)
وشرطہا: کون الأجرۃ، والمنفعۃ معلومتین؛ لأن جہالتہما تفضي إلی المنازعۃ۔ (الدرالمختار مع الشامي، کتاب الإجارۃ، مکتبہ زکریا دیوبند ۹/ ۷، کراچی ۶/ ۵)
البحرالرائق، کتاب الإجارۃ، مکتبہ زکریا دیوبند ۷/ ۵۰۷، کوئٹہ ۷/ ۲۹۷۔
مجمع الأنہر، کتاب الإجارۃ، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۳/ ۵۱۲۔
ہندیۃ، کتاب الإجارۃ، قدیم زکریا ۴/ ۴۱۱، جدید زکریا ۴/ ۴۴۱۔
وفسد استئجار حائک ینسج لہ غزلا بنصفہ أو ثلثہ، أو حمارا لیحمل علیہ طعاما بقفیز منہ أو ثورا لیطحن لہ برا بقفیز من دقیقہ أما فساد الأولیٰ والثانیۃ فلأنہ جعل الأجر ببعض ما یخرج من عملہ، فصار في معنی قفیز الطحان، وقد نہی عنہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، والمعني فیہ أن المستأجر عاجز عن تسلیم الأجر؛ لأنہ بعض ما یخرج من عمل الأجیر، والقدرۃ علی التسلیم شرط لصحۃ العقد، وہو لا یقدر بنفسہ، وإنما یقدر بغیرہ فلا یعد قادرا ففسد۔ (ملتقی الأبحر مع مجمع الأنہر، الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۳/ ۵۳۹)
دفع رجل بقرۃ علی أن یعلفہا وما یکون من اللبن والسمن بینہما أنصافا، فالإجارۃ فاسدۃ۔ (ہندیۃ، الإجارۃ، الباب الخامس عشر: الفصل الثالث، قدیم زکریا ۴/ ۴۴۵، جدید زکریا ۴/ ۴۸۱)
خانیۃ علی الہندیۃ قدیم زکریا ۲/ ۳۳۰، جدید زکریا ۲/ ۲۱۰۔
بزازیۃ علی الہندیۃ، قدیم زکریا ۵/ ۳۷، جدید زکریا ۲/ ۲۱-۲۲۔
شبیر احمد قاسمی عفا اﷲ عنہ
.......
No comments:
Post a Comment