Tuesday, 8 May 2018

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا چالیس سال تک فجر کی نماز عشاء کے وضو سے پڑھنا؟ 1798

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا چالیس سال تک فجر کی نماز عشاء کے وضو سے پڑھنا؟
(1798)
السلام عليكم ورحمة الله
ایک غیر مقلد صاحب نے سوال کیا کہ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم نے  اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پوری رات عبادت کرنے سے منع فرمایا ہے جبکہ امام ابو حنیفہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 40 سال تک لگاتار عشاء کی وضو سے فجر کی نماز ادا کی ہے۔
تو اب مفتی صاحب سے دریافت امر یہ ہے کہ کیا امام صاحب کا یہ طرز عمل منشائے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے خلاف نہیں؟ جواب تحریر فرماکر ممنون و مشکور فرمائیں۔
مسلم شريف کی ایک حدیث میں پوری رات جاگ کر عبادت میں مشغول ہونے سے منع فرمایا گیا ہے۔
1159 (186) وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً يَزْعُمُ، أَنَّ أَبَا الْعَبَّاسِ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ : بَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي أَصُومُ أَسْرُدُ ، وَأُصَلِّي اللَّيْلَ، فَإِمَّا أَرْسَلَ إِلَيَّ، وَإِمَّا لَقِيتُهُ، فَقَالَ: " أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَصُومُ وَلَا تُفْطِرُ، وَتُصَلِّي اللَّيْلَ؟ فَلَا تَفْعَلْ، فَإِنَّ لِعَيْنِكَ حَظًّا، وَلِنَفْسِكَ حَظًّا، وَلِأَهْلِكَ حَظًّا، فَصُمْ، وَأَفْطِرْ، وَصَلِّ، وَنَمْ، وَصُمْ مِنْ كُلِّ عَشَرَةِ أَيَّامٍ يَوْمًا، وَلَكَ أَجْرُ تِسْعَةٍ ". قَالَ : إِنِّي أَجِدُنِي أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَالَ : " فَصُمْ صِيَامَ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ ". قَالَ : وَكَيْفَ كَانَ دَاوُدُ يَصُومُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ ؟ قَالَ : " كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا، وَلَا يَفِرُّ إِذَا لَاقَى ". قَالَ : مَنْ لِي بِهَذِهِ يَا نَبِيَّ اللَّهِ ؟ - قَالَ عَطَاءٌ : فَلَا أَدْرِي كَيْفَ ذَكَرَ صِيَامَ الْأَبَدِ ؟ - فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ، لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ، لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ ".
(محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، عطاء، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ کو (میرے بارے میں) یہ بات پہنچی کہ میں (مسلسل) روزے رکھتا رہتا ہوں اور رات بھر نماز پڑھتا رہتا ہوں تو آپ ﷺ نے میری طرف پیغام بھیجا تو میں نے آپ ﷺ سے ملاقات کی آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا مجھے یہ خبر نہیں دی گئی کہ تو روزے رکھتا رہتا ہے اور افطار نہیں کرتا اور رات بھر نماز پڑھتا رہتا ہے تو تو اس طرح نہ کر کیونکہ تیری آنکھوں کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے اور تو روزہ بھی رکھ اور افطار بھی کر اور نماز بھی پڑھ اور نیند بھی کر اور ہر دس دنوں میں سے ایک دن کا روزہ رکھ اور یہ تیرے لئے نو روزوں کا اجر بن جائے گا حضرت عبداللہ نے عرض کیا کہ میں تو اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں اے اللہ کے رسول، آپ ﷺ نے فرمایا حضرت داؤد علیہ السلام کے روزوں کی طرح روزے رکھ لے انہوں نے عرض کیا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے کس طرح تھے؟ اے اللہ کے نبی ﷺ ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے اور نہیں بھاگتے تھے جب کسی دشمن سے ملاقات ہو جائے حضرت حضرت عبداللہ ؓ [یہ عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ ہیں] عرض کرنے لگے اے اللہ کے نبی یہ میرے لئے کیسے ہو سکتا ہے؟ عطا راوی کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ ہمیشہ کے روزوں کا ذکر کیسے آگیا؟ نبی ﷺ نے فرمایا نہیں (قبول) اس کے روزے جس نے ہمیشہ رکھے نہیں (قبول) اس کے روزے جس نے ہمیشہ روزے رکھے نہیں قبول۔)
عثمان سہارنپوری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق والسداد:
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا عشاء کے وضو سے چالیس سالوں تک فجر کی نماز پڑھنے کی روایت اسد بن عمرو نقل کرتے ہیں:
روي عن أسد بن عمرو قال: صلی أبوحنیفۃ فیما حفظ علیہ صلاۃ الفجر بوضوء العشاء أربعین سنۃ۔ (عقود الجمان ۲۱۱)
أَخْبَرَنَا علي بن المحسن المعدل، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بكر أَحْمَد بن مُحَمَّد بن يَعْقُوب الكاغدي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّد عبد الله بن مُحَمَّد بن يَعْقُوب بن الحارث الحارثي البخاري ببخارى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَد بن الحسين البلخي، قَالَ: حَدَّثَنَا حماد بن قريش، قال: سمعت أسد بن عمرو، يقول: صلى أَبُو حنيفة فيما حفظ عليه صلاة الفجر بوضوء صلاة العشاء أربعين سنة، فكان عامة الليل يقرأ جميع القرآن في ركعة واحدة، وكان يسمع بكاؤه بالليل حتى يرحمه جيرانه، وحفظ عليه أنه ختم القرآن في الموضع الذي توفي فيه سبعة آلاف مرة."
(تاريخ بغداد للخطیب (15 / 484)
سیر آعلام النبلاء للذھبی 399/6)
وروی الخطیب عن حماد بن یوسف قال سمعت اسد بن عمرو یقول صلی ابو حنیفۃ فی ما حفظ علیہ صلاۃ الفجر بوضوء العشاء اربعین سنۃ وکان عامۃ اللیل یقرأ جمیع القران فی رکعۃ واحدۃ حفظہ أنہ ختم القران فی الموضع الذی توفی فیہ سبعین الف مرۃ ۔(مقدمۃ نورالایضاح، ص۴۔ سیرۃ النعمان، ص۵۴) 
اسد بن عمرو راوی کے بارے میں ابن المدینی اور بخاری نے جرح کیا ہے۔ جبکہ ابن معین اور امام احمد بن حنبل جیسے ائمہ حدیث نے اس کی تعدیل وتوثیق کی ہے۔
اسی  طریق اسناد کی وجہ سے ذہبی اور پھر ان کے حوالے سے البانی، فیروز آبادی، علامہ شبلی اور ان کے ہمنواؤں نے اس روایت کو اسد بن عمرو کی یاوہ گوئی قرار دے کر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے لئے اس فضیلت کا انکار کیا ہے۔
البانی لکھتے ہیں:
("أصل صفة الصلاة " (2 / 531 / ط. مكتبة المعارف) – في معرض كلامه أن المداومة على إحياء الليل كلّه خلاف سنّة النبي صلى الله عليه وسلّم وهديه - :
ولا تغتر بما روي عن أبي حنيفة رحمه الله أنه مكث أربعين سنة يصلي الصبح بوضوء العشاء ؛فإنه مما لا أصل [له] عنه؛ بل قال العلامة الفيروزأبادي في "الرد على المعترض" (44 / 1 ):
"هذا من جملة الأكاذيب الواضحة التي لا يليق نسبتها إلى الإمام ، فما في هذا فضيلة تُذكر، وكان الأولى بمثل هذا الإمام أن يأتي بالأفضل، ولا شك أن تجديد الطهارة لكل صلاة أفضل وأتم
وأكمل. هذا إن صح أنه سهر طوال الليل أربعين سنة متوالية ! وهذا أمر بالمحال أشبه، وهو من خرافات بعض المتعصبين الجهال، قالوه في أبي حنيفة وغيره ، وكل ذلك مكذوب". اهـ .
علامہ شبلی نعمانی کو بھی امام عالی مقام کی یہ فضیلت تسلیم نہیں اور سیرت نعمان میں انھوں نے امام کی ایسی تصویر کشی کو مبالغہ آرائی اور خوش اعتقادی پہ محمول کیا ہے۔
لیکن اس تاریخی روایت کا باریک بینی سے جائز لینے سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ جس اسد بن عمرو کے جرح مبہم کی وجہ سے یہ روایت مسترد ہوئی ہے اس راوی کی احمد بن حنبل اور ابن معین جیسے دیگر ائمہ جرح وتعدیل نے  تعدیل وتوثیق بھی کی ہے! لہذا یہ روایت قابل اعتبار ہوگی۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ فن حدیث کے بڑے بڑے ائمہ بھی اس روایت کو نقل فرماتے ہیں۔ مثلا:
امام نووی رحمہ اللہ (تھذیب الأسماء ص704) ،علامہ دمیری رحمہ اللہ (حیات الحیوان 1/122)، ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (تھذیب التھذیب 10/450)، علامہ سیوطی رحمہ اللہ (تبیض الصحیفہ ص15)، قاضی حسین بن محمد دیار مالکی رحمہ اللہ (تاریخ الخمیس 2/366)، عبد الوہاب شعرانی حنبلی رحمہ اللہ (کتاب المیزان 1/61)،ابن حجر مکی رحمہ اللہ (الخیرات الحسان ص36). میں اس واقعہ کو ذکر کرتے ہیں کہ امام اعظم ابوحنیفہ نے چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی۔
ان تاریخی اصولوں اور شہادتوں کی روشنی میں اس واقعہ کا انکار درست نہیں.
اگر عبادت کی یہ کثرت بدعت یا خلاف حدیث ہو تو یہ الزام صرف امام ابوحنیفہ ہی پہ کیوں؟
امام عالی مقام کے علاوہ کئی اکابرین سے بھی اسی قسم کے کئی واقعات صادر ہوئے ہیں جو کہ مختلف کتابوں میں موجود ہیں۔
شیخ عبدالقادر جیلانی حنبلیؒ کا کہنا ہے کہ چالیس تابعین کے متعلق منقول ہے کہ انھوں نے چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی اور اس کی سند صحیح ہے۔ (غنیۃ الطالبین، صفحہ 496 بتحقیق مبشر لاہوری غیر مقلد)
کیا اب کسی کی ہمت ہوگی کہ ان چالیس تابعین کی طرف بھی ابو حنیفہ ہی کی طرح لعن طعن کی توپ کا دہانہ کھول سکے ؟؟؟؟
تکثیر عبادت سے متعلق فاضل لکھنوی علامہ عبد الحی صاحب نے "إقامة الحجة" نامی رسالے میں بڑی فاضلانہ اور نفیس بحث فرمائی ہے۔
اللہ تعالی اپنے مخصوص بندوں کو خاص ذوق وشوق عبادت سے نوازتے ہیں۔ ان کے اوقات میں بیحد برکتیں ہوتی ہیں۔
قلیل ترین وقت میں کثیر عبادتوں کی انجام دہی ان کے لئے آسان وممکن ہوجاتی ہے۔ جو عام لوگوں کے فہم رسا سے بالاتر ہے۔
علامہ نووی لکھتے ہیں کہ بعض علماء 24 گھنٹے میں آٹھ ختم قرآن فرمالیتے تھے۔
وہ لکھتے ہیں:
ختم بعضهم في اليوم والليلة ثماني ختمات. أربعا في الليل. وأربعا في النهار. الأذكار للنووي.كتاب تلاوة القرآن .ص 138 .
شیخ عبد الوہاب شعرانی رحمہ اللہ فتوحات مکیہ جو دس ضخیم جلدوں پہ مشتمل ہے۔دن میں دو مرتبہ مکمل اس کا مطالعہ کرلیتے تھے۔
وحكى عبد الوهاب الشعراني في  اليواقيت والجواهر عن نفسه أنه طالع الفتوحات وهى عشر مجلدات ضخمة  كل يوم مرتين.
مجموعة رسائل اللكنوي .إقامة الحجة على أن الإكثار في التعبد ليس ببدعة 189/2)
آخر اس تکثیر عبادت پہ کسی ظاہر پرست کی زبان کیوں نہیں کھلتی؟
جس حدیث میں کثرعبادت سے ممانعت وارد ہے اس کا مفہوم علماء محققین کے نزدیک  یہ ہے کہ تکثیر عبادت نتیجة بسا اوقات تقلیل عبادت کا مستوجب بنتی ہے اس لئے منع کیا گیا ہے۔ ورنہ تکثیر عبادت تو فی نفسہ مطلوب چیز ہے۔ اگر کسی کی تکثیر عبادت سے ہمت کم  ہوتی ہو نہ طبعیت ملول ہوتی ہو۔ انبساط وبشاشت بدستور باقی ہو اعضاء کمزور نہ پڑتے ہوں تو ایسوں کے لئے یہ ممانعت نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مزاج، عادات واطوار  کے مطابق سامنے آتے تھے۔ کسی کے لئے سب سے بڑا جہاد ماں کی خدمت میں مشغول رہنا قرار دیا ہے۔ جبکہ ہر ایک کے لئے ہر وقت علی العموم یہ اصول نہیں۔ اسی طرح رات میں تکثیر عبادت کی مذکورہ ممانعت ممکن ہے شخصی مزاج کی رعایت ولحاظ میں سامنے آئی ہو۔
اس ضمن میں محقق تھانوی کی  یہ بات آنکھوں کے راستے دل میں اتارلینے کی قابل ہے۔ فرماتے ہیں:
ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ جی ہاں تکثیر عبادت سے جو حدیث میں ممانعت ہے اس کے متعلق محققین نے لکھا ہے کہ تکثیر عبادت سے ممانعت فی الحقیقت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تقلیل عبادت سے ممانعت ہے اس لئے کہ عبادت کی تکثیر مفرط بوجہ ملال و کلال مفضی ہوجاتی ہے اس کی تقلیل کی طرف ورنہ تکثیر عبادت فی نفسہ مطلوب ہےـ ممانعت کی چیز نہیں اور ہر چیز میں یہی حالت ہے کہ کثرت کرنا کسی چیز کا سبب ہوجاتی ہےـ اس کی قلت کاـ بعض طلباء ہر وقت کتاب میں مشغول رہتے ہیں مگر بعد چند روز کے جتنا کام کرنا ضروری تھا اس سے بھی محروم ہوجاتے ہیں اس لئے یہ چاہئے کہ جتنا شوق ہو اس سے بھی کام کچھ کم کرےـ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی ایک مثال بیان فرمائی ہوئی یاد ہےـ فرمایا کرتے تھے جیسے لڑکے چکئی کو پھینکتے ہیں تو پھر واپس لوٹانے کے لئے کچھ ڈورا لپٹا چھوڑدیتے ہیں ـ اسی طرح اگر بھوک رکھ کر کھایا جائے تو دوسرے وقت خوب اشتہا ہوتی ہے ـ انہی باتوں کی وجہ سے میں کہا کرتا ہوں کہ ہر چیز میں شیخ کامل کی ضرورت ہے ـ اب شربت بنتے ہیں ـ خمیرے بنتے ہیں ـ آگ کا انداز کہ چاشنی نہ بگڑ جائے جیسے اس کو دوا ساز سمجھ سکتا ہے ـ اسی طرح باطن کی چاشنی کو ماہر فن شیخ کامل محقق ہی سمجھ سکتا ہے اسی کو مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
قال را بگذار مرد حال شو
پیش مردے کاملے پامال شو

(ملفوظ نمبر 22)
الحاصل امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے چالیس سال تک فجر کی نماز عشاء کے وضو سے پڑھنے والی روایت تاریخی اصولوں پہ ثابت ہے۔ متعدد ائمہ حدیث نے اسے نقل کیا ہے۔شب بیداری کا یہ مجاہدانہ عمل تنہاء ان ہی کا نہیں۔ ان کے علاوہ مزید چالیس جلیل القدر تابعین  کا بھی  عمل تھا۔ لیکن ستم ظریفی یا مسلکی تنگ نائیوں کی حد ہے کہ بعض لوگوں کی زبان طعن صرف امام الائمہ اور سراج الامہ ہی پہ دراز ہوتی ہے۔ جو سراسر ناانصافی ہے۔ پھر چالیس سال کی یہ تعداد بیان کثرت پہ محمول ہے۔ حقیقت پہ نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی، بیگوسرائے
٢١شعبان ١٤٣٩ہجری

.........
امام نووی شافعی ؒنے تہذیب الاسماء صفحہ 704 پہ،علامہ دمیریؒ نے حیات الحیوان جلد 1 صفحہ 122 پہ،حافظ ابن حجر عسقلانی شافعیؒ نے تہذیب التہذیب جلد 10 صفحہ450 پہ،علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے تبیض الصحیفہ صفحہ 15 پہ،قاضی حسین بن محمد دیار مالکیؒ نے تاریخ الخمیس جلد 2 صفحہ 366 پہ،عبد الوہاب شعرانی حنبلیؒ نے کتاب المیزان جلد 1 صفحہ 61 پہ،ابن حجر مکی شافعیؒ نے الخیرات الحسان صفحہ 36 پہ امام صاحبؒ کا یہ واقعہ بیان کیا ہےکہ امام ابو حنیفہؒ نے چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی۔
شیخ عبدالقادر جیلانی حنبلیؒ کا کہنا ہے کہ چالیس تابعین سے کے متعلق منقول ہے کہ انہوں نے چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی اور اسکی سند صحیح ہے۔ (غنیۃ الطالبین، صفحہ 496 بتحقیق مبشر لاہوری غیر مقلد)

No comments:

Post a Comment