Friday, 25 May 2018

قومہ سے سجدے میں جاتے ہوئے گھٹنے پر ہاتھ رکھنا؟

قومہ سے سجدے میں جاتے ہوئے گھٹنے پر ہاتھ رکھنا؟
2108: سجدے میں جاتے ہوئے ہاتھوں کو پہلے زمین پر رکھے یا گھٹنوں کو؟
سوال: میرا سوال نماز میں سجدے سے متعلق ہے، میں نے اس بارے میں دو مختلف اقوال پڑھے ہیں، ان میں سے ایک قول کے مطابق سجدہ کرتے ہوئے ہاتھوں سے پہلے گھٹنوں کو زمین پر رکھنا افضل ہے، لیکن کتاب : "صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم" میں ہے کہ: "افضل یہی ہے کہ انسان سجدہ کرنے کیلئے پہلے ہاتھ رکھے، پھر گھٹنے رکھے" اور صاحب کتاب کا کہنا ہے کہ گھٹنوں کو ہاتھوں پر مقدم کرنا ہی اونٹ کی طرح بیٹھنا ہے، اور وہ اونٹ کی طرح بیٹھنے کو درست نہیں سمجھتے، اس بارے میں صحیح طریقہ کیا ہے؟
الحمد للہ:
اہل علم  کی سجدے کیلئے جانے کے انداز میں  مختلف آراء ہیں،  یعنی: کہ پہلے ہاتھ زمین پر رکھے جائیں یا پہلے گھٹنے  رکھے جائیں، چنانچہ اس بارے میں  ابو حنیفہ ، شافعی، اور احمد  [رحمہم اللہ]کی ایک روایت کے مطابق  نمازی  اپنے  ہاتھ زمین پر رکھنے سے پہلے  گھٹنے زمین پر رکھے، بلکہ  ترمذی  رحمہ اللہ نے اس عمل کو  اکثر اہل علم کی طرف منسوب کیا ہے، چنانچہ امام ترمذی اپنی سنن ترمذی: (2/57) میں کہتے ہیں:
"اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور ان کا خیال ہے کہ  اپنے ہاتھوں سے پہلے گھٹنے زمین پر رکھے، اور جس وقت اٹھے تو  ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اٹھائے، اس موقف کے قائلین  نے وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت کو  دلیل بنایا ہے، آپ کہتے ہیں: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو  دیکھا جب  آپ سجدہ کرتے تھے  اپنے  گھٹنے  ہاتھوں سے پہلے رکھتے، اور جب کھڑے ہوتے تھے  اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے" اس روایت کو ابو داود، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
اور دارقطنی (1/345)اس کے بارے میں کہتے ہیں: 
"یہ حدیث شریک سے صرف یزید بن ہارون   نے ہی بیان کی ہے،  پھر عاصم بن کلیب سے  شریک کے علاوہ کوئی اور بیان نہیں کرتا، جبکہ خود شریک  قوی راوی نہیں ہے."
بیہقی رحمہ اللہ  سنن (2/101)میں کہتے ہیں: 
"اس حدیث کی سند ضعیف ہے."
البانی رحمہ اللہ نے اسے مشکاۃ (898) میں، اور ارواء الغلیل: (2/75) میں ضعیف قرار دیا ہے۔
جبکہ دیگر  اہل علم  جن میں ابن قیم  رحمہ اللہ بھی شامل ہیں وہ اپنی  کتاب : "زاد المعاد" میں  اس حدیث کو صحیح کہتے ہیں۔
اسی طرح جن علمائے کرام نے ہاتھوں  سے پہلے گھٹنے رکھنے  کا موقف اپنایا ہے، ان میں  شیخ الاسلام ابن تیمیہ،  اور انکے شاگرد رشید  ابن قیم ، اور موجودہ علمائے کرام میں سے شیخ عبد العزیز بن باز ، اور شیخ محمد بن صالح عثیمین  رحمہم اللہ جمیعا ہیں۔
جبکہ مالک، اوزاعی، اور محدثین اس بات کے قائل ہیں کہ  ہاتھوں کو قدموں سے پہلے زمین پر رکھنا  شرعی عمل ہے، اس کیلئے انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو دلیل بنایا ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو [سجدہ کیلئے]ایسے مت   [جھکے جیسے]  اونٹ بیٹھتا ہے، بلکہ  اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے  زمین پر رکھے)
اس حدیث کو احمد: (2/381)، ابو داود، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
نووی رحمہ اللہ "المجموع"(3/421) میں کہتے ہیں:
"اس حدیث کو ابو داود اور نسائی نے جید سند کیساتھ روایت کیا ہے"
اس حدیث  کے بارے میں البانی رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"یہ سند صحیح ہے، اس سند کے تمام راوی   ثقات راوی ہیں اور صحیح مسلم کے ہیں ماسوائے محمد بن عبد اللہ بن حسن  کے یہ راوی  "نفس الزکیہ" کے لقب سے مشہور ہے، لیکن  یہ بھی ثقہ ہیں."
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس مسئلے کے بارے میں اپنے فتاوی: (22/449) میں لکھا ہے: 
"ہر دوصورت میں نماز جائز ہے، اس پر علمائے کرام کا اتفاق ہے، چنانچہ  نمازی  اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے رکھے یا گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے رکھے، ہر دو صورت میں تمام علمائے کرام کے نزدیک متفقہ طور پر نماز صحیح ہے،  اختلاف صرف افضل  میں ہے" انتہی
لہذا متلاشیان علم  کو اسی طریقے پر عمل کرنا چاہیے جو اسے اپنی علمی  تحقیق  سے پر اطمینان محسوس ہو، اور عامی آدمی  ایسے شخص کی بات مانے جس پر اُسے اعتماد ہو۔
واللہ اعلم.
............................ سوال (۴۱۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: قومہ سے سجدہ میں جاتے ہوئے ہاتھ کہاں رکھے جائیں؟ گھٹنے پر رکھنا ثابت ہے یا نہیں؟ اگر ثابت نہ ہو تو کہاں رکھیں؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
سجدے میں جانے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سر اور سینہ کو جھکائے بغیر پہلے گھٹنے زمین پر ٹیکے، اس کے بعد سجدہ کرے، اور سجدہ میں جاتے وقت گھٹنے موڑنے سے پہلے سر اور سینہ کو جھکانا اور باقاعدہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھنا خلافِ سنت ہے۔ (مستفاد: احسن الفتاویٰ ۳؍۵۰)
لیکن اگر اولاً گھٹنے زمین پر ٹیکے، اس کے بعد سر جھکاتے وقت ہاتھ ران یا گھٹنے پر رکھے گئے تو یہ خلافِ سنت نہیں ہے؛ کیوںکہ اس صورت میں ترتیب کے خلاف کوئی بات نہیں پائی جارہی ہے۔
ویسجد واضعاً رکبتیہ أولاً لقربہما من الأرض، ثم یدیہ إلا لعذر، ثم وجہہ مقدماً أنفہ لما مر (درمختار مع الشامي ۲؍۲۰۲ زکریا)
ویخر للسجود قائماً مستویاً لا منحنیًا لئلا یزید رکوعاً آخر، یدل علیہ ما في التاتارخانیۃ، لو صلی، فلما تکلم تذکر أنہ ترک رکوعاً فإن کان صلی صلاۃ العلماء الاتقیاء أعاد، وإن صلی صلاۃ العوام فلا؛ لأن العالم التقي ینحط للسجود قائماً مستویاً والعامي ینحط منحنیاً وذٰلک رکوع؛ لأن قلیل الانحناء محسوب من الرکوع، تأمل۔ (شامي ۲؍۲۰۲ زکریا) 
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۳۰؍۵؍۱۴۲۱ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ
کتاب النوازل

No comments:

Post a Comment