بصوم غد نویت جیسے الفاظ سے نیت روزہ ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبان سے نماز کی نیت کے الفاظ کہنا نہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور نہ ائمہ متقدمین سے، اس لئے اصل نیت دِل ہی کی ہے، مگر لوگوں پر وساوس و خیالات اور افکار کا غلبہ رہتا ہے جس کی وجہ سے نیت کے وقت دِل متوجہ نہیں ہوتا، دِل کو متوجہ کرنے کے لئے متأخرین نے فتویٰ دیا ہے کہ نیت کے الفاظ زبان سے بھی ادا کرلینا بہتر ہے، تاکہ زبان کے ساتھ کہنے سے دِل بھی متوجہ ہوجائے۔
نماز کی نیت کے بارے میں فقہاء نے بالتفصیل تحریر فرمایا ہے کہ
نماز کی نیت کے بارے میں فقہاء نے بالتفصیل تحریر فرمایا ہے کہ
النیۃ إرادۃ الدخول فی الصلوٰۃ والشرط أن یعلم قبلہ أی صلوٰۃ یصلی، وأدناہا ما لو سئل لامکنہ أن یجیب علی البدیہیۃ وإن لم یقدر علیہ، إلا بتأمل لم تجز صلوٰتہ ، ولا عبرۃ الذکر باللسان فإن فعلہ لتجتمع عزیمۃ قلبہ فہو حسن ، کذا فی الکافی ، ومن عجز عن إحضار القلب یکفیہ اللسان کذا فی الزاہدی ۔ ( الھندیہ۱/۶۵)
و فی ’’الدر المختار‘‘ : النیۃ ہی الإرادۃ لا مطلق العلم والمعتبر فیہا عمل القلب اللازم للإرادۃ فلا عبرۃ باللسان إن خالف القلب لأنہ کلام لا نیۃ ، وہو أی عمل القلب أن یعلم عند الإرادۃ بداہۃ بلا تأمل أی صلوٰۃ یصلی ۔ (۲/۸۳ ، کتاب الصلوٰۃ ، بحث النیۃ)
یعنی نیت تو در اصل دل کے ارادہ ہی کو کہا جاتا ہے خواہ جس زبان میں چاہے ارادہ کرلے نیت کا تحقق ہوجائے گا ۔
مشہور فقیہ اور ممتاز صاحب قلم مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب "بصوم غد نویت" سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں
و فی ’’الدر المختار‘‘ : النیۃ ہی الإرادۃ لا مطلق العلم والمعتبر فیہا عمل القلب اللازم للإرادۃ فلا عبرۃ باللسان إن خالف القلب لأنہ کلام لا نیۃ ، وہو أی عمل القلب أن یعلم عند الإرادۃ بداہۃ بلا تأمل أی صلوٰۃ یصلی ۔ (۲/۸۳ ، کتاب الصلوٰۃ ، بحث النیۃ)
یعنی نیت تو در اصل دل کے ارادہ ہی کو کہا جاتا ہے خواہ جس زبان میں چاہے ارادہ کرلے نیت کا تحقق ہوجائے گا ۔
مشہور فقیہ اور ممتاز صاحب قلم مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب "بصوم غد نویت" سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں
نیت دل کے ارادہ کا نام ہے نہ کہ زبان سے کہے ہوئے الفاظ کا، زبان سے مزید اطمینان اور ذہن کے استحضار کے لئے نیت کے الفاظ کہے جاتے ہیں، مثلا: روزہ رکھنے کے ارادہ سے سحری کھانا خود نیت ہے ،نیت کے الفاظ قرآن یا حدیث میں منقول نہیں ہیں، رہ گئی یہ بات کہ ’’غدًا‘‘ کے معنی کل کے ہیں، جب کہ قمری تاریخ غروب آفتاب سے بدلتی ہے ،اور اس اعتبار سے صبح میں رکھاجانے والا روزہ ’’آج‘‘ ہی کا روزہ ہے ،نیز بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ صبح کے بعد نیت کی، تو عربی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے ’’یوم‘‘ (آج) کی بجائے ’’غدًا‘‘ (کل) کا لفظ لوگ استعمال کرتے ہیں، تو اس سے نیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ عرف میں صبح کے طلوع ہونے سے آج اور کل کی تعبیر بدلتی ہے ، اس لئے رات میں یہ کہنا کہ میں کل کے روزہ کی نیت کرتاہوں ، اسی صبح کے بارے میں نیت ہے ،نیز نیت تو آج ہی روزہ رکھنے کی ہو، لیکن ناواقفیت کی وجہ سے لفظ ’’غدًا‘‘ (کل) کا استعمال کرلے تو اس سےبھی روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ اعتبار دل کے ارادہ کا ہے، اگر زبان سے الفاظ غلط بول دئے جائیں پھر بھی نیت ہی کا اعتبار ہوتاہے ،جیسے کوئی شخص ظہر کے ارادہ سے نماز پڑھ رہا ہے ، لیکن غلطی سے زبان سے عصر کی نماز کی نیت کا اظہار کرلے تو یہ ظہر ہی کی نیت سمجھی جائے گی، نہ کہ عصر کی کتاب الفتاوی 266/3 عوام الناس کے اذہان کو وقلوب کو مستجمع کرنے کے لئے فقہاء متاخرین نے روزہ کی نیت بصوم غد نویت جیسے الفاظ سے کہنے کو مستحسن گردانا ہے
لمافی الشامیۃ (۳۸۰/۲): (قولہ والسنۃ)أی سنۃ المشایخ لاالنبی ﷺلعدم ورودالنطق بھا عنہ (وقولہ أن یتلفظ بھا)فیقول نویت أصوم غداأوھذاالیوم ان نوی نھاراﷲ عزوجل من فرض رمضان سراج۔
حضرات فقہاء کتاب وسنت کے واقف کار اور نکتہ سنج ہوتے ہیں
بغیر مستحکم بنیادوں کے تمام ہی فقہاء متاخرین کا کسی چیز کو مستحسن قرار دینا غیر متصور ہے
لہذا بصوم غد نویت یا اس جیسے الفاظ کے ساتھ نیت روزہ ۔۔۔جبکہ کوئی اسے کتاب وسنت کے الفاظ نہ سمجھے۔۔۔۔کرلینے کو ناجائز یا بدعت کہنا تفریط بلکہ کوتاہ نظری ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
بغیر مستحکم بنیادوں کے تمام ہی فقہاء متاخرین کا کسی چیز کو مستحسن قرار دینا غیر متصور ہے
لہذا بصوم غد نویت یا اس جیسے الفاظ کے ساتھ نیت روزہ ۔۔۔جبکہ کوئی اسے کتاب وسنت کے الفاظ نہ سمجھے۔۔۔۔کرلینے کو ناجائز یا بدعت کہنا تفریط بلکہ کوتاہ نظری ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
No comments:
Post a Comment