Wednesday, 16 May 2018

پورے ہند میں کل روزہ رکھنا ضروری ہے

پورے ہند میں کل روزہ رکھنا ضروری ہے
.........
پورے ہند میں کل روزہ رکھنا ضروری اس کا حوالہ


Kal Roza rakhna Zarooree hai us ka hawla
...........................
سوال و جواب
مسئلہ نمبر 434
اختلافِ مطالع کی حقیقت اور اس کی شرعی حد
سوال: مفتی صاحب اختلاف مطالع کا شرعا اعتبار ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو اس کی کیا حد ہے؟ تحقیقی جواب دیکر مشکور فرمائیں (مستفتی: حافظ دلاور، کوہاٹی)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون اللہ الوہاب:
اسلامی احکامات میں سے بہت سے احکام ایسے ہیں جن کا تعلق چاند کی تاریخ سے متعلق ہے جیسے روزہ، اعتکاف، حج وغیرہ، اس لئے چاند کی تاریخ کا علم رکھنا ایک شرعی ضرورت ہے، لیکن جیسا کہ معلوم ہے کہ اس طویل و عریض دنیا میں چاند کہیں پہلے نظر آجاتا ہے اور کہیں بعد میں، جیسا کہ عموماً سعودی عرب میں چاند ایک دن پہلے نظر آتا ہے اور ہند و پاک وغیرہ میں ایک دن بعد نظر آتا ہے، اسی بات کو عربی اصطلاح میں "اختلاف مطالع" کہا جاتا ہے، اختلاف مطالع یعنی کہیں چاند پہلے نظر آجائے اور کہیں بعد میں جیسا کہ عرب اور ہندوستان میں ہوتا ہے یہ تو ایک تجرباتی اور مسلم بات ہے، اور اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے، البتہ کیا اس اختلاف مطالع کا اثر شرعی احکامات پر بھی ہوگا یا نہیں؟ اس سلسلے میں اہل تحقیق علماء کی تحقیقات مختلف ہیں، مثال کے طور پر اگر حیدرآباد میں چاند انتیس تاریخ کو نظر آگیا حالانکہ دلی میں نظر نہیں آیا تو کیا جس طرح حیدرآباد والوں پر روزہ رکھنا ضروری ہے اسی طرح دلی والوں پر بھی رکھنا ضروری ہوگا یا نہیں؟ یا سعودی عرب میں انتیس کو چاند نظر آگیا اور ہندوستان میں نظر نہیں آیا تو کیا جس طرح سعودی والوں پر روزہ رکھنا فرض ہوگیا اسی طرح انڈیا والوں پر بھی سعودی والوں کے چاند کی وجہ سے روزہ فرض ہوگا یا نہیں؟ اس بارے میں بعض محققین کی رائے ہے کہ جن کے یہاں چاند نظر آیا ہے ان پر تو روزہ فرض ہوگا باقی لوگوں پر نہیں، جبکہ کچھ محققین علماء کی تحقیق یہ ہے کہ جن کے یہاں نظر آیا ہے ان پر اور جن کے یہاں نظر نہیں آیا ہے ان پر بھی روزہ فرض ہوگا۔ لیکن بعض محققین نے دونوں باتوں کے درمیان ایک تیسری بات کہی ہے وہ یہ ہے کہ بلادِ قریبہ میں تو اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں ہوگا یعنی ان میں کسی جگہ دیکھنے سے دیگر قریبی بلاد پر روزہ رکھنا واجب ہوگا، اور بلاد بعیدہ میں اختلاف مطالع کا اعتبار ہوگا یعنی ایک جگہ چاند دیکھنا دوسرے بلاد والوں کے لیے کافی نہیں ہوگا۔ 
البتہ بلاد بعیدہ اور قریبہ کی حد کیا ھوگی؟ تو اس سلسلے میں علماء کرام نے لکھا ہے کہ بلاد بعیدہ وہ ہوگا کہ اگر وہاں کی رؤیت مان لی جائے تو اپنے یہاں کا مہینہ ٢٨ یا اکتیس کا ہوجائے، تو ایسی جگہ کے چاند کا اعتبار نہیں ہوگا جیسا کہ سعودی عرب میں اگر انتیس کا چاند ہوجائے اور وہاں کے مطابق انڈیا والے عمل کریں تو ظاہر ہے کہ انڈیا میں مہینہ ٢٨ کا ہوگا حالانکہ شرعی نقطۂ نظر سے ٢٨ کا مہینہ نہیں ہوسکتا ہے تو سعودی بلاد بعیدہ میں ہوگا۔
لہذا خلاصہ کلام یہ ہے کہ بلادِ قریبہ میں ایک جگہ کا چاند دوسری جگہ کے لیے معتبر ہوگا اسی کو عربی اصطلاح ہے اختلاف مطالع غیر معتبر ہونا کہتے ہیں اور بلاد بعیدہ میں ایک جگہ کا چاند دوسری جگہ کے لیے نہیں مانا جائے گا اسی کو عربی اصطلاح میں اختلاف مطالع کا معتبر ہونا کہیں گے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔
والدليل على ما قلنا:
(١) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَلَّامٍ الْجُمَحِيُّ ، حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ ، يَعْنِي ابْنَ مُسْلِمٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ - وَهُوَ ابْنُ زِيَادٍ - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ، وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُمِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا الْعَدَدَ ". (صحيح مسلم حديث نمبر ١٠٨١)
اعْلَمْ أَنَّ نَفْسَ اخْتِلَافِ الْمَطَالِعِ لَا نِزَاعَ فِيهِ بِمَعْنَى أَنَّهُ قَدْ يَكُونُ بَيْنَ الْبَلْدَتَيْنِ بُعْدٌ بِحَيْثُ يَطْلُعُ الْهِلَالُ لَهُ لَيْلَةَ كَذَا فِي إحْدَى الْبَلْدَتَيْنِ دُونَ الْأُخْرَى وَكَذَا مَطَالِعُ الشَّمْسِ .... ..وَإِنَّمَا الْخِلَافُ فِي اعْتِبَارِ اخْتِلَافِالْمَطَالِعِ بِمَعْنَى أَنَّهُ هَلْ يَجِبُ عَلَى كُلِّ قَوْمٍ اعْتِبَارُ مَطْلِعِهِمْ، وَلَا يَلْزَمُ أَحَدٌ الْعَمَلَ بِمَطْلِعِ غَيْرِهِ أَمْ لَا يُعْتَبَرُ اخْتِلَافُهَا بَلْ يَجِبُ الْعَمَلُ بِالْأَسْبَقِ رُؤْيَةً حَتَّى لَوْ رُئِيَ فِي الْمَشْرِقِ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، وَفِي الْمَغْرِبِ لَيْلَةَ السَّبْتِ وَجَبَ عَلَى أَهْلِ الْمَغْرِبِ الْعَمَلُ بِمَا رَآهُ أَهْلُ الْمَشْرِقِ، فَقِيلَ بِالْأَوَّلِ وَاعْتَمَدَهُ الزَّيْلَعِيُّ وَصَاحِبُ الْفَيْضِ، وَهُوَ الصَّحِيحُ عِنْدَ الشَّافِعِيَّةِ؛ لِأَنَّ كُلَّ قَوْمٍ مُخَاطَبُونَ بِمَا عِنْدَهُمْ كَمَا فِي أَوْقَاتِ الصَّلَاةِ، وَأَيَّدَهُ فِي الدُّرَرِ بِمَا مَرَّ مِنْ عَدَمِ وُجُوبِ الْعِشَاءِ وَالْوِتْرِ عَلَى فَاقِدِ وَقْتِهِمَا وَظَاهِرُ الرِّوَايَةِ الثَّانِي وَهُوَ الْمُعْتَمَدُ عِنْدَنَا وَعِنْدَ الْمَالِكِيَّةِ وَالْحَنَابِلَةِ لِتَعَلُّقِ الْخِطَابِ عَمَلًا بِمُطْلَقِ الرُّؤْيَةِ فِي حَدِيثِ «صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ» بِخِلَافِ أَوْقَاتِ الصَّلَوَاتِ، وَتَمَامُ تَقْرِيرِهِ فِي رِسَالَتِنَا الْمَذْكُورَةِ. (رد المحتار على الدر المختار ٤٦٣/٣ كتاب الصوم مطلب في اختلاف المطالع زكريا)
الأشبه أن يعتبر، لأن كل قوم مخاطبون بما عندهم، و انفصال الهلال عن شعاع الشمس يختلف باختلاف الأقطار كما أن دخول الوقت وخروجه يختلف باختلاف الأقطار (تبيين الحقائق ٣٢١/١ كتاب الصوم)
إذا كان بين البلدتين تفاوتاً لا تختلف المطالع لزم حكم إحدى البلدتين حكم البلدة الأخرى، فأما إذا كان تفاوتاً تختلف المطالع لم يلزم إحدى البلدتين حكم البلدة الأخرى، (المحيط البرهاني في الفقه النعماني ٣٧٩/٢ كتاب الصوم)
هَذَا إذَا كَانَتْ الْمَسَافَةُ بَيْنَ الْبَلَدَيْنِ قَرِيبَةً لَا تَخْتَلِفُ فِيهَا الْمَطَالِعُ، فَأَمَّا إذَا كَانَتْ بَعِيدَةً فَلَايَلْزَمُ أَحَدَ الْبَلَدَيْنِ حُكْمُ الْآخَرِ لِأَنَّ مَطَالِعَ الْبِلَادِ عِنْدَ الْمَسَافَةِ الْفَاحِشَةِ تَخْتَلِفُ فَيُعْتَبَرُ فِي أَهْلِ كُلِّ بَلَدٍ مَطَالِعُ بَلَدِهِمْ دُونَ الْبَلَدِ الْآخَرِ.(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ٨٣/٢ كتاب الصوم)
كتبه العبد محمد زبير الندوي
مركز البحث و الإفتاء مدرسه أشرف العلوم نالا سوپارہ ممبئی انڈیا
مورخہ 29/8/1439
رابطہ 9029189288
دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے
............................
حضرت مفتی محمد نظام الدین صاحب رحمۃ اللّہ کا چاند کے سلسلے میں ایک اہم فتوی
حضرت مفتی محمد نظام الدین صاحب رحمۃ اللّہ کا چاند کے سلسلے میں ایک اہم فتوی

حضرت مفتی محمد نظام الدین صاحب رحمۃ اللّہ کا چاند کے سلسلے میں ایک اہم فتوی

پورے ہند میں کل روزہ رکھنا ضروری اس کا حوالہ
Kal Roza rakhna Zarooree hai us ka hawla




..............
​​السؤال: ​​کیا ہندوستان کا مطلع ایک ہے ؟​
حامدًاومصلّیاًومسلّماً :​​
​​أما بعد:​​
​​الجواب وبالله التوفيق​​
جن دو علاقوں کے طلوع شمس، غروب شمس میں مکمل سال آٹھ ڈگری یعنی بتیس (٣٢) منٹ سے زائد کا فرق نہ ہوتا ہو تو مطلع متحد ہوتا ہے اور اگر بتیس (٣٢) منٹ سے زائد کا فرق ہو گرچہ کسی ایک موسم میں ہی کیوں نہ ہو تو مطلع مختلف ہوتا ہے.​
بھارت ایک وسیع و عریض ملک ہے جس کے ایک علاقے میں طلوع شمس ہوتا ہے تو بھارت کے ہی دوسرے علاقے میں ایک گھنٹہ کے بعد سورج طلوع ہوتا ہے جب بھارت کے ہی دو علاقوں میں اتنا تفاوت ہو تو پورے بھارت کا مطلع ایک کیسے ہوسکتا ہے؟ اس لیے کہ دو علاقوں میں بتیس منٹ سے زائد کا فرق ہوا اور بتیس منٹ سے زائد کے فرق کی صورت میں مطلع مختلف ہوتا ہے.​
    ​لہذا اس وضاحت سے یہ معلوم ہوا کہ پورے بھارت کا مطلع ایک نہیں ہے بلکہ الگ الگ ہے، اور بھارت کے کسی ایک علاقہ میں چاند کی رویت سے پورے بھارت میں رویت کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا.​
​​واللہ اعـــلـــم بالصواب​​
​وقال أبومخرمة : إذا كان بين غروبى الشمس بمحلين قدر ثمان درج فأقل فمطلعهما متفق بالنسبة لرؤية لأهله، وإن كان أكثر ولو في بعض الفصول فمختلف أو مشكوك فيه فهو كالمختلف كما نص عليه النووي، فعدن وزيلع وبربرة وميط وماقاربها مطلع... ومكة والمدينة وجدة والطائف وماوالاها مطلع... (بغية المسترشدین :١٣٧،عمدة المفتي والمستفتي :٢١٢/١)​
              
أيده: مفتی فیاض احمد برمارے، مفتی فرید احمد ہرنیکر، مفتی عبدالباسط قاضی، مفتی ضمیر نجے، مفتی زبیر پورکر​
..................
اختلافِ مطالع کہاں معتبر نہیں ہے؟
سوال (۱۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اختلافِ مطالع کہاں معتبر نہیں ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:چاند کے مطالع میں حقیقی اختلاف تسلیم کرنے کے بعد اب سوال یہ ہے کہ یہ اختلافِ مطالع شریعت کی نظر میں معتبر ہے یا نہیں؟ تو اس سلسلہ میں تمام فقہی جزئیات کو سامنے رکھ کر جوبات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بلادِ قریبہ میں اختلافِ مطالع معتبر نہیںہے، اور قریب کی حد یہ ہے کہ اس جگہ کی معتبر خبرکو مان لینے سے اپنے یہاں کا مہینہ ۲۹؍دن سے کم یا ۳۰؍دن سے زیادہ لازم نہ آتا ہو۔
إنہ لیس بین تلک البلاد بعد کثیر بحیث تختلف بہ المطالع؛ لکن ظاہر الإطلاق یقتضي لزوم عامۃ البلاد ما ثبت عند بلدۃ أخریٰ، فکل من استفاض عندہم خبر تلک البلدۃ یلزمہم اتباع أہلہا، ویدل علیہ قولہ: فیلزمہم أہل المشرق برؤیۃ أہل المغرب۔ (منحۃ الخالق ۲؍۲۷۰ کوئٹہ)
واعلم أن دلیل من لم یقل باعتبار اختلاف المطالع قولہ علیہ السلام: إنا أمۃ أمیۃ لا نکتب ولا نحسب، متفق علیہ۔ (مشکاۃ المصابیح ۱؍۱۶۶)
فإن اعتبارہ یتوقف علی دقائق الہیئۃ والحساب التي لم نکلف بہا، فاعتبارہ یستلزم التکلیف بہا، وہو منتف بالحدیث فینفي الملزوم۔ (إعلاء السنن ۹؍۱۱۸ دار الکتب العلمیۃ)
وفي القدوري: إذا کان بین البلدتین تفاوت لا یختلف المطالع لزم حکم أہل إحدی البلدتین البلدۃ الأخری۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۳۶۵ زکریا)
ہٰذا اذا کانت المسافۃ بین البلدتین قریبۃ لا تختلف فیہا المطالع۔ (بدائع الصنائع ۲؍۲۲۴ زکریا، فتاویٰ الولوالجیۃ ۱؍۲۳۶، معارفِ مدنیہ ۱۰؍۱۷، احسن الفتاویٰ ۴؍۴۷۴، فتاویٰ رشیدیہ ۴۵۱، امداد المفتیین ۴۸۳) 
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۸؍۱۱؍۱۴۲۰ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ 
.....
اختلافِ مطالع کہاں معتبر ہے؟
سوال (۱۳):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:اختلاف مطالع کہاں معتبر ہے؟
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
بلادِ بعیدہ میں اختلافِ مطالع کا شرعاًاعتبار ہے، اور بعیدہ کی حد یہ ہے کہ وہاں کی رؤیت تسلیم کرنے سے اپنے یہاں کا مہینہ ۲۹؍دن سے کم یا ۳۰؍دن سے زیادہ کا لازم آجاتا ہو، ایسی جگہوں کی خبریں تسلیم نہیں کی جائیںگی، اگرچہ کتنے ہی وثوق کے ساتھ کیوں نہ آئیں، اس لئے کہ شریعت کی نظر میں کوئی مہینہ نہ تو ۲۹؍دن سے کم ہوسکتا ہے اور نہ ۳۰؍دن سے زیادہ ہوسکتا ہے۔
وحجۃ من یعتبر اختلاف المطالع في الصوم والفطر حدیث کریب ہٰذا (أي حدیث الباب) قال الشوکاني: وجہ الاحتجاج بہ أن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما لم یعمل بریۃ أہل الشام، وقال في آخر الحدیث: ہٰکذا أمرنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فدل ذٰلک علی أنہ قد حفظ من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ لا یلزم أہل بلد العمل برؤیۃ أہل بلد آخر … واعلم أن الحجۃ إنما ہي في المرفوع من روایۃ ابن عباس … وہو ما أخرجہ الشیخان وغیرہما بلفظ: لا تصوموا حتی تروا الہلال … فإن غمّی علیکم فأکملوا العدۃ ثلاثین … ولو توجّہ الإشارۃ في کلام ابن عباس إلی عدم لزوم رؤیۃ أہل بلد لأہل بلد آخر لکان عدم اللزوم مقیدًا بدلیل العقل، وہو أن یکون بین القطرین من البعد ما یجوز معہ اختلاف المطالع۔ (فتح الملہم شرح الصحیح لمسلم ۳؍۱۱۳ رشیدیۃ)
الأشبہ أن یعتبر لأن کل قوم مخاطبون بما عندہم، وانفصال الہلال عن شعاع الشمس یختلف باختلاف الأقطار۔ (تبیین الحقائق ۲؍۱۶۵ زکریا)
أن عدم عبرۃ اختلاف المطالع إنما ہو في البلاد المتقاربۃ لا البلاد النائیۃ الخ، أقول: لابد من تسلیم قول الزیلعي، وإلا فیلزم وقوع العید یوم السابع والعشرین، أو الثامن والعشرین، أو یوم الحادي والثلا ثین، أو الثاني والثلاثین۔ (العرف الشذي علی ہامش الترمذي ۱؍۱۴۹، انواررحمت ۵۵۱، جدید فقہی مسائل ۲؍۳۳، امداد الفتاویٰ ۲؍۱۰۸)
 فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۸؍۱۱؍۱۴۲۰ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ 
..............
ہندوستان کے مختلف صوبوں میں اختلافِ مطالع معتبر ہے یا نہیں؟
سوال (۱۴):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: مختلف صوبوں میں رؤیتِ ہلال ہوئی؛ لیکن ہمارے صوبہ میں رویت نہیں ہوئی، تو کیا صوبوں کے درمیان اختلاف مطالع معتبر ہوگا؟ 
(ب) مطلع کی حدود کیا ہیں؟ 
(ج) ہم کس بنیاد پر دیگر صوبوں کی رویت کو مان کر رمضان و عید منا سکتے ہیں؟ 
(د) کیا پورے ہندوستان کا مطلع ایک ہی ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: 
ہندوستان کے کسی بھی صوبہ میں اگر معتبر طریقہ سے چاند کا ثبوت ہوجائے، تو اگر چہ اپنے یہاں چاند نہ دیکھا گیا ہو، پھر بھی اس معتبر خبر پر قاضی یا ہلال کمیٹی چاند کا فیصلہ کرسکتی ہے، ہندوستان کے سبھی صوبوں کا مطلع ایک ہی ہے، مطلع کی تبدیلی کا حکم اسی وقت لگتا ہے جب کہ وہاں کی رویت مان لینے سے اپنے یہاں ۲۸؍ یا ۳۱؍ دن کا مہینہ لازم آجاتا ہو، اگر یہ بات لازم نہ آتی ہو، تو حکما مطلع ایک ہی سمجھا جائے گا، اس کو حضرات فقہاء نے بلادِ قریبہ اور بلادِ بعیدہ سے تعبیر فرمایا ہے، یعنی بلادِ قریبہ میں اختلافِ مطالع معتبر نہیں اور بلادِ بعیدہ میں معتبر ہے۔ (مستفاد: کتاب المسائل ۲؍۱۲۳)
عن ربعي بن حراش عن رجل من أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: اختلف الناس في آخر یوم من رمضان، فقدم أعرابیان فشہدا عند النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باللّٰہ لأہلاّ الہلال أمس عشیّۃ، فأمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الناس أن یفطروا۔ زاد خلف في حدیثہ: وأن یغدوا إلی مصلاہم۔ (سنن أبي داؤد، الصیام / باب شہادۃ رجلین علی رؤیۃ ہلال شوال ۱؍۳۱۹ رقم: ۲۳۳۹)
إنہ لیس بین تلک البلاد بعد کثیر بحیث تختلف بہ المطالع؛ لکن ظاہر الإطلاق یقتضي لزوم عامۃ البلاد ما ثبت عند بلدۃ أخریٰ، فکل من استفاض عندہم خبر تلک البلدۃ یلزمہم اتباع أہلہا، ویدل علیہ قولہ: فیلزمہم أہل المشرق برؤیۃ أہل المغرب۔ (منحۃ الخالق ۲؍۲۷۰ کوئٹہ)
وفي القدوري: إذا کان بین البلدتین تفاوت لا یختلف المطالع لزم حکم أہل إحدی البلدتین البلدۃ الأخری۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۳۶۵ زکریا)
ہذا إذا کانت المسافۃ بین البلدتین قریبۃ لا تختلف فیہا المطالع۔ (بدائع الصنائع ۲؍۲۲۴ زکریا، أحسن الفتاویٰ ۴؍۴۷۴، فتاویٰ رشیدیۃ ۴۰۱)
إن عدم عبرۃ اختلاف المطالع إنما ہو في البلاد المتقاربۃ لا البلاد النائیۃ، أقول: لابد من تسلیم قول الزیلعي وإلا فیلزم وقوع العید یوم السابع والعشرین أو الثامن والعشرین أو یوم الحادي والثلا ثین أو الثاني والثلا ثین۔ (العرف الشذي علی ہامش الترمذي ۱؍۱۴۹، انوار رحمت ۵۵۱، امداد الفتاویٰ ۲؍۱۰۸)
 
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۸؍۸؍۱۴۳۳ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ

...............
رؤیت ہلال کا مسئلہ ہر دور میں مختلف فیہ رہا ہے
رؤیت ہلال کا مسئلہ ہر دور میں مختلف فیہ رہا ہے اور رہے گا، اس اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کرنا سعی لاحاصل ہے۔
فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی علیہ الرحمہ نے چاند کے مسئلہ میں اختلاف کے دس اسباب ذکر فرمائے ہیں۔
چاند کے مسئلہ میں گڑبڑ اور اختلافی صورت ہمیشہ سے رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی،قرون مشہود لہا بالخیر خلافت راشدہ کے دور میں بھی یہ رہا،اس اختلاف کو ختم کرنے کی سعی قدرت کا مقابلہ کرنا ہے،اس لئے کہ:
(1) پہلا سبب اختلاف تو یہ ہے کہ چاند کبھی 29 کو نظر آتا ہے کبھی 30 کو۔
(2) دوسرا سبب یہ ہے کہ جب چاند نظر آتا ہے ہر جگہ کا مطلع صاف نہیں رہتا،کہیں صاف کہیں غبار آلود،اس لئے کہیں نظر آیا کہیں نظر نہیں آیا۔
(3) تیسرا سبب یہ ہے کہ ہر مہینہ کا چاند برابر نہیں ہوتا،کبھی باریک کبھی موٹا۔
(4) چوتھا سبب یہ ہے کہ ہر مہینہ کا چاند ایک جگہ سے نظر نہیں آتا،کبھی مغرب سے مائل بہ جنوب،کبھی عین مغرب میں،کبھی مائل بہ شمال نظر آتا ہے۔
(5) پانچواں سبب یہ ہے کہ دیکھنے والوں کی سب کی نظر ایک نہیں،کسی کی قوی کسی کی ضعیف،کوئی بغیر چشمہ کے دیکھے کسی کو چشمہ سے بھی نظر نہ آوے۔
(6) چھٹا سبب یہ ہے کہ گواہی دینے والے سب یکساں نہیں،کسی کی گواہی مقبول کسی کی مردود۔
(7) ساتواں سبب یہ ہے کہ کوئی شخص ایسا نہیں کہ جس کی بات ماننے کو سب تیار ہوجائیں،جس کا شکوہ آپ کو بھی ہے۔
(8) آٹھواں سبب یہ ہے کہ ہر جگہ رؤیت ہلال کمیٹی موجود نہیں،نہ بنانے کے لئے تیار ہیں،باوجود یہ کہ باربار درخواست کی گئی۔
(9) نواں سبب یہ ہے کہ جہاں رؤیت ہلال کمیٹی موجود ہے وہاں بھی اس کے تمام ارکان مسائل شرع کے ماہر واحکام سنت کے پابند نہیں۔
(10) دسواں سبب یہ ہے کہ ہر ریڈیو اور ٹی وی پر اپنا قبضہ نہیں کہ پابندی عائد کی جاسکے کہ اعلان کیا جائے یا نہ کیا جائے،نہ ہرجگہ عالم کو اس کا مکلف کیا جاسکتا ہے کہ ٹی وی اور ریڈیو پر آکر خود اعلان کرے نہ یہ اس کے قبضہ میں ہے۔
ان اسباب عشرہ کے پیش نظر آپ ہی بتائیں کہ یہ مسئلہ کیسے حل کیا جائے؟
مذکورہ اسباب عشرہ کے ساتھ دو سبب کا اضافہ اورکرلیجیے۔

(11) گیارہواں سبب یہ ہے کہ آلات رصدیہ کی خبر کو یقین کا درجہ دینا کہ جب تک حسابی قواعد سے امکان رؤیت نہ ہو ثبوت ہلال ناممکن ہے۔
(12) بارہواں سبب یہ ہے کہ ہرگروہ کا اپنی بات دوسرے پر تھوپنے کی دھن سوار ہونا، اس میں فقہ کے منصوص مسئلہ کی خلاف ورزی لازم آتی ہو۔
ایسی پیچیدہ صورتحال میں اگر معتبر علماء کرام کا اختلاف ہو جائے تو عوام کے لئے یہ حکم ہے کہ جن کی رائے پر اعتماد ہو اس پر عمل کرلیا جائے۔
لیکن دوسروں  کی رائے کی تغلیط اور ان پر تنقید نہ کرے۔
ہمارے اکابر کا ایسے مسائل میں یہی معمول رہا ہے۔
لہذا ہمیں ان کا اتباع کرنا چاہئے، جس سے دین پر ثابت قدمی میں بڑی تقویت ملتی ہے۔

م۔ق۔مصدق مومن
(خادم  انجمن احیائے سنت بھیونڈی)

............
حیدرآباد رویت ہلال کمیٹی نے چاند کا اعلان کردیا ہے آج تراویح ہوگی.
..........
السلام علیکم
آج بتاریخ ۱۶ مئی رمضان کا چاند نظر آیا ہے آندھرا پردیش کے گالی ویڈ ضلع کڑپہ میں ان شاء اللہ کل یعنی ۱۷ مئی کو ہندوستان میں پہلا روزہ ہوگا
........
تامل ناڈو کا مطلع عرب ممالک کے مطابق ہے عمومًا عرب ممالک میں اور تامل ناڈو کیرلا میں ایک ہی دن چاند ہوتا ہے۔ اس سے ہندوستان میں رمضان شروع نہیں مانا جائیگا ۔ جب تک کہ ان کے علاوہ کہیں سے چاند نظر آنے کی اطلاع نہ ملے
.......
Breaking news
देवबन्द
दारूलउलूम देवबन्द ने किया ऐलान कल का होगा रोजा
कल रमजान का पहला रोजा होगा
लोगो ने दारुल उलूम के ऐलान के बाद एक दुसरे को रमजान की दी मुबारकबाद
रिपोर्ट :- सुफयान अल्वी
9627744586
....
چنئی سمیت ملک کے کئی شہروں سے چاند کی تحقیقی خبر کے بعد جمعیت علماء ہند اور دارالعلوم دیوبند نے 17 مئی کو یکم رمضان کا اعلان کردیا ہے، لہذا تراویح کی تیاری کریں، آپ سب کو رمضان کی دلی مبارکباد پیش کی جاتی ہے!
......
سیدھی بات اہم ترین اعلان۔۔
نئی دہلی ،چنائی، کرناٹک، ساحلی کرناٹک اور دیوبند سمیت کئی علاقوں میں کل پہلا روزہ ہوگا، چنائی میں چاند نظر آنے کی اطلاع ہے، جب کہ بنارس میں روئت ہلال کمیٹی نے چاند نظر نہ آنے کی وجہ سے پرسوں پہلا روزہ ہونے کی بات کہی ہے۔ کرناٹک کے ہلال کمیٹی کی جانب سے کوئی اطلاع نہیں ہے، مگر معتبر ذرائع کے مطابق بنگلورکے اکثر مساجد میں کل سے پہلے روزے کا اعلان ہوگیاہے۔ گدگ اور چترادرگہ میں باقاعدہ اعلان کیا جاچکاہے ، جب کہ بھٹکل میں معزز و محترم قاضی صاحبان کا اعلان ہوچکا ہے،۔ نوٹ: معتبر ذرائع سے یہ اعلان کیا جارہاہے، ایک بار اپنے مقامی مساجد یا امارتِ شریعہ سے ضرور رجوع کریں؟

New Dehli, chinnai, karntaka sahili karnataka aur dewband same kayi ilaqaun me kal pehla roza hoga, chinnai me chand nazar aane ki ittlia hai, jab ke banaras me royate hilal comittee ne chand nazar na aane ki waje se parsun pehla roza hone ki bat kahi hai,., karnataka ke hilal comittee ki janib se koyi ittila nahin hai, magar motabar zaraye ke mutabiq bangalore ke aksar masajid me kal se pehle roze ka aelan hogaya hai, gadag aur chitra durga me baqaida aelan kiya jachuka hai, bhatkal me muazzaz o mohtaram qazi sahabana ka aelana hochuka hai.. note: motabar zaraye se aelan kiya jaraha hai ,eak bar apne muqami masajid ya imarate sharia se zaroor rujoo karein..
posted by Seedhibaat Bangloare /Bhatkal
........
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1724402944283958&id=120477478009854






امارت شرعیہ نے رویت ہلال کا فیصلہ پوری تحقیق سے کیا ہے، لوگ غلط فہمی میں نہ پڑیں: ناظم امارت شرعیہ
امارت شرعیہ نے رویت ہلال کا فیصلہ پوری تحقیق سے کیا ہے، لوگ غلط فہمی میں نہ پڑیں: ناظم امارت شرعیہ
 ناظم امارت شرعیہ مولانا انیس الرحمن قاسمی نے اپنے ایک اخباری بیان میں کہا ہے کہ امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ، خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف ، پٹنہ ، دار العلوم دیوبند،ندوۃ العلمائ لکھنؤ، تحقیقات شرعیہ، جمعیۃ علمائ ہند، گجرات چاند کمیٹی احمد آباد،صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی، مرکزی چاند کمیٹی فرنگی محل لکھنؤ،مرکزی روئیت ہلال کمیٹی پوکھرن راجستھان،امارت اہل حدیث صادق پور، پٹنہ، جمعیۃ علمائ کرناٹک،روئیت ہلا ل کمیٹی پنجاب،دار القضائ امارت شرعیہ وجےواڑہ، آندھرا پردیش کے علاوہ رویت ہلال کے درجنوں معتبر اداروں کا فیصلہ یہ ہے کہ آج مورخہ ۱۷ مئی ۲۰۱۸ سے رمضان شروع ہو چکا ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ پورے ہندوستان کا مطلع ایک ہے، دوسرے ممالک کے مطالع کو بحث میں نہیں لایا گیا ہے ، عام طور پر عرب ممالک کے مطلع اور ہندوستان کے مطلع میں ایک دن کا فرق ہو جاتا ہے ، مگر ماہرین فلکیا ت اور علم ہئیت کے ماہرین کے نزدیک ضروری نہیں ہے کہ ہمیشہ ایک دن کا فرق لازمی ہو، بلکہ کبھی کبھی یہ فرق چند گھنٹوں کا بھی ہوتا ہے ، ایسی صورت میں دونوں جگہ تاریخ ایک ہی ہو سکتی ہے اور ایک ہی دن چاند نکل سکتا ہے ۔ اور اس مرتبہ ماہرین فلکیات کے اعتبار سے ایسا ہی ہوا ہے، شریعت میں رمضان المبارک کے چاند کا ثبوت ایک مسلمان شخص کی گواہی پر بھی ہو جا تا ہے، گواہی کے لیے تحریر ضروری نہیں ہے ، نہ گواہ کو قاضی کے پاس جانا لازم ہے ، قاضی کے نمائندے خود گواہ کے پاس جا کر بھی گواہی طلب کر سکتے ہیں اور اس گواہی کی بنیاد پر قاضی کا فیصلہ کرنا شرعی طور پر جائز و درست ہو تا ہے، چنانچہ امار ت شرعیہ  کے نمائندہ جناب مولانا قمر انیس قاسمی صاحب رئیس المبلغین امارت شرعیہ جوابھی چنئی میں ہیں اور مولانا معصوم اقبال قاسمی تامبرم چنئی نے خود بھی چاند دیکھا اور قاضی شریعت امارت شرعیہ کے حکم سے وہاں کے ذمہ دار افراد اور جن لوگوں نے چاند دیکھا تھا ان سے ملاقات کر کے شہادت وصول کی اس کے علاوہ  انہوں نے قاضی شہر گورنمنٹ آف تمل ناڈو چنئی کے فیصلہ کی کاپی بھی دارا لقضائ امارت شرعیہ میں ارسال کی۔ساتھ ہ تمل ناڈو ، آندھرا پردیش، تینلگانہ اور کرناٹک کے مختلف اداروں نے رویت عامہ کی بنیاد پر شہادت وصول کر کے رویت کا اعلان کیا اور ان صوبوں میں رویت کی خبر اس درجہ عام ہو گئی کہ یہ خبر مستفیض کے درجہ میں ہو گئی ، اور خبر مستفیض کی صورت میں با ضابطہ شہادت کی ضرورت پیش نہیں آتی ہے۔ لہٰذا ان شواہد و ثبوت کی بنیاد پر مرکزی دار القضائ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ نے انتہائی تحقیق کے بعد رویت کا فیصلہ کیا ہے ۔امارت شرعیہ کے ساتھ ساتھ مذکورہ بالا اداروںنے بھی اپنے طور پر رویت کی تحقیق ہوجانے کے بعد ہی رویت کا اعلان کیا ہے ۔اس لیے جو لوگ یہ غلط فہمی پھیلا رہے ہیں کہ ہمارے یہاں چاند نہیں ہوا ہے ، اس لیے ہم نہیں مانیں گے یہ صحیح نہیں ہے ، کیوں کہ اگر مطلع ایک ہے تو ایک جگہ بھی چاند دیکھا جائے گا تو دوسری جگہ اس کی بنیاد پر رویت ثابت مانی جائے گی۔چنئی کے مندرجہ ذیل علمائ کرام وذمہ دار حضرات نے اپنی آنکھوں سے چاند دیکھا اور عام رویت ہونے کی تصدیق کی ، دارالقضائ امارت شرعیہ کے نمائندوں نے بھی ان سے بات کر کے اور شہادت لے کر رویت کی تصدیق کی ہے، وہ علماءیہ ہیں ۔
مولانا عبد المجید باقوی مہتمم مدرسہ کاشف الہدیٰ پونہ ملی ، چنئی، مولانا عبد الکریم قاسمی اورمولانا یوسف کاشفی صاحب اساتذہ مدرسہ کاشف الہدیٰ پونہ ملی ، چنئی،مولانا منصور کاشفی امام و خطیب مکہ مسجد پونہ ملی چنئی، قاری الفت صاحب امام و خطیب ایر فورم مسجد تامبرم چنئی، جناب اسلم صاحب مؤذن مرکز والی جامع مسجد پلہ ورم چنئی، جناب الحاج تاج الدین رکن مرکز والی جامع مسجد پلہ ورم چنئی ،الحاج عبد الوہاب صاحب رکن مرکز والی جامع مسجد پلہ ورم چنئی، الحاج آصف صاحب پیری میڈ چنئی، مفتی مجاہد الاسلام قاسمی مہتمم جامعہ قاسمیہ دھوبی پیٹ، چنئی،جناب الحاج سلطان حیات صاحب محلہ پیری میڈ چنئی، جناب مولانا عمر فاروق صاحب جمعیۃ علمائ آندھرا پردیش کڈپہ، آندھرا پردیش، جناب فرحان صاحب بنگلور، ان حضرات کے ساتھ سیکڑوں افراد نے چاند دیکھا ہے۔
ان تمام حضرات کے رابطہ نمبرات دار القضائ امارت شرعیہ میں موجود ہیں ، جن لوگوں کومزید تحقیق کرنی ہو وہ رابطہ کر سکتے ہیں ۔ناظم صاحب نے مزید کہا کہ آج ساری دنیا میں ایک ساتھ رمضان کے روزے شروع ہوئے ہیں، جو امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے ایک مبارک موقع ہے ، اللہ تعالیٰ رمضان کی برکتوں سے ہم سب کو نوازے۔
سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ رمضان وشوال کا پہلے دن کا چاند دیکھ کر عوام میں بحث ہوتی ہے، کوئی کہتا ہے کہ دوسرے دن کا ہے اور کوئی تیسرے دن کا کہتا ہے، اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟
جواب: چاند کے بڑے یا چھوٹے ہونے پر کوئی شرعی اثر مرتب نہیں ہوتا، شرعی اثر مرتب ہونے کا دارومدار چاند کی رؤیت پر ہے یعنی جس دن چاند دیکھا گیا ہے اس کے بعد روزہ اور عید کا حکم ہوگا، چاند چاہے چھوٹا ہے یا بڑا ہے۔ ایک حدیث میں چاندکے چھوٹے بڑے ہونے پر شرعی اثرمرتب کرنے کو واضح منع کیا گیا ہے۔ ابوالبختری کہتے ہیں کہ ہم عمرہ کے لئے نکلے، جب ہم بطن نخلہ پہنچے تو ہم نے چاند دیکھنے کی کوشش کی، جس پر بعض لوگوں نے کہا کہ یہ تین کا ہے اور بعض لوگوں نے کہا کہ یہ دو راتوں کا ہے، ابوالبختری کہتے ہیں کہ پھر ہم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ملاقات کی اور ان کے سامنے یہ ساری تفصیل رکھی تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے پوچھا کہ تم نے کس رات چاند دیکھا تھا؟ جواب میں ہم نے کہا کہ فلاں رات کو، تو انہوں نے فرمایا کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: اللہ تعالی نے اس چاند کی مدت لمبی کردی ہے دیکھنے کے وقت تک، سو وہ اسی رات کا ہے جس رات کو تم نے دیکھا ہے۔ ایک حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرب قیامت کی نشانی میں سے ہے کہ پہلی کا چاند دو تاریخ کے چاند کے برابر نظر آئے گا۔
حوالاجات:
صحيح مسلم للنيسابوري (ج 3 / ص 127): عن أبى البخترى قال خرجنا للعمرة فلما نزلنا ببطن نخلة - قال - تراءينا الهلال فقال بعض القوم :هو ابن ثلاث. وقال بعض القوم: هو ابن ليلتين ،قال :فلقينا ابن عباس فقلنا :إنا رأينا الهلال فقال بعض القوم :هو ابن ثلاث ،وقال بعض القوم: هو ابن ليلتين. فقال :أى ليلة رأيتموه؟ قال :فقلنا: ليلة كذا وكذا. فقال: إن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: « إن الله مده للرؤية فهو لليلة رأيتموه ». معجم الطبراني الصغير (ج 2 / ص 132): عن أنس بن مالك رفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم قال:( من اقتراب الساعة أن يرى الهلال قبلا فيقال :لليلتين) 

مفتیان کرام:
مفتی سیّد عابد شاہ صاحب
مفتی سعید احمد حسن صاحب
......


دیوبندی مکتبہ فکر کیخلاف رضاخانیوں کا زہر

چاند پر لکھی جانے والی اب تک کی سب سے بہترین تحریر
ماہِ رمضان کے ہلال کی رویت کے مسئلہ پر اس سال پھر بڑی افرتفری ہوئی۔ ملک کے اکثر حصوں میں چاند نظر نہیں آیا۔ لیکن تمل ناڈو ، آندھرا پردیش اور کرناٹک کے بعض علاقوں میں رویت کی مصدقہ اطلاعات موصول ہوئیں۔ ان اطلاعات کی بنیاد پر جنوبی ہند کی ریاستوں میں تو ماہِ رمضان کی شروعات میں کوئی الجھن پیدا نہیں ہوئی لیکن مہاراشٹر اور اس کے اوپر شمال کے علاقوں میں یہ مسئلہ سخت نزاعی بن گیا۔بعض لوگوں نے جنوبی ہند کی رویت کو قبول کرتے ہوئے ماہ رمضان کے آغازکا اعلان کردیا اور بعض لوگوں نے   اسے تسلیم نہیں کیا۔ چنانچہ جمعرات ۱۷/مئی کو بعض جگہ یکم رمضان رہی تو بعض جگہ تیس شعبان۔ بعض شہروں میں تو ایک ہی شہر کی الگ الگ مسجدوں میں بھی اختلاف رہا۔ کئی جگہوں پر آدھی رات کے بعد اعلان ہوا اور تراویح کی نماز ادا کی گئی۔
تیز رفتار مواصلات کے اس دور میں, اس اختلاف اور کنفیوژن سے کئی لوگوں نے سخت الجھن محسوس کی۔ چنانچہ سوشل میڈیا پر طنز و تشنیع اور تند و تیزتبصروں کا طوفان بپا ہوگیا۔ لوگوں نے علماء کو فلکیات پڑھنے کا درس دیا تو معترضین کو جواب میں شریعت پڑھنے کا مشورہ ملا۔ فلکیاتی حساب کی بنیاد پر اسلامی کیلنڈر کی تعیین کے مسئلہ نے پھر زور پکڑا۔ بہت سے نوجوانوں کے لئے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ جو علماء، نمازوں اور سحر و افطار کے اوقات کی تعیین کے لئے  فلکیاتی حساب کی مدد لیتے ہیں  اور سال بھر کے بلکہ مستقل ہر زمانہ کے اوقات کا تعین کردیتے ہیں، انہیں ہلال کی تاریخ کی تعیین میںعلم فلکیات کی مدد لینے میں کیا دشواری ہے؟ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو ادھوری معلومات کی بنیاد پر رویت ہلال کی سائنسی پیشنگوئی کو بھی ویسے ہی قطعی باور کراتے ہیں جیسے طلوع آفتاب کے وقت کی۔
ہمار ا خیال یہ ہے کہ بہت سے تعلیم یافتہ دوستوں کی یہ الجھن مسئلہ کو پوری طرح نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔
سورج کے طلوع او ر غروب اور اس دوران، اس کے دیگر مختلف مرحلوں سے گذرنے کا عمل ایک فلکیاتی عمل ہے۔ سورج ، اپنے بڑے سائز اور نہایت روشن وجود کے ساتھ، دن کے تمام اوقات میں مکمل طور پر ہماری نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے۔ اسے دیکھنے میں کسی کو بھی کوئی دشواری  پیش نہیں آتی۔ نہایت معمولی بینائی رکھنے والا بھی اسے دیکھ سکتا ہے اور یہ بھی تعین کرسکتا ہے کہ وہ اس وقت، زمین کی گردش کی نسبت سے، کس مرحلہ میں ہے۔ چنانچہ اردو زبان میں بالکل ناقابل تردید حقائق  کے لئے  روز روشن یا سورج کی طرح واضح ہونے کا محاورہ استعمال کیا جاتاہے۔ سورج کی اس حرکت اور اس کے اوقات کو فلکیاتی حساب کے ذریعہ متعین کیا جاسکتا ہے۔ مغرب کی نماز کا وقت اگر نصوص میں غروب آفتاب کے بعد بتایا گیا ہے تو آسانی سے حساب لگایا جاسکتا ہے کہ کسی مقام پر غروب آفتاب کا وقت کیا ہے؟ فلکیات کے مسلمہ اصول ان اوقات کی قطعی اور ناقابل تردید  تعیین کردیتے ہیں۔اس لئے علما ءمیں بھی اس مسئلہ پر کوئی اختلاف نہیں ہے اور دنیا بھر کے علماء جدید علوم سے فائدہ اٹھا کر بنائے گئےاوقات کے چارٹ منظور کرتے ہیں اور خود بھی انہی پر منحصر رہتے ہیں۔
چاند کا مسئلہ ایسا نہیں ہے۔طلوع و غروب کا تعلق  سورج کی حرکت سے ہے جس کا وقت متعین کیا جاسکتا ہے لیکن قمری مہینوں کی شروعات کا تعلق چاند کی حرکت سے نہیں بلکہ اس کی رویت سے ہے۔چاند ہر وقت موجود رہتا ہے۔ اور جن فلکیاتی اعمال کو ’ نئے چاند کی پیدائش‘ یا   ’ چاند کا طلوع ‘ وغیرہ کہا جاتا ہے وہ بے شک متعین فلکیاتی اعمال ہیں  لیکن ان کا کوئی تعلق نصوص میں ، اسلامی مہینہ کی شروعات سے نہیں ہے۔ نصوص کے مطابق، ماہ کی شروعات رویت ہلال یعنی چاند دیکھنے سے ہونی چاہیے۔(لا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْا الْهِلالَ وَلا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ)رویت  ہلال کا تعلق صرف فلکیات سے نہیں بلکہ بصریات سے بھی ہے۔ اس لئے کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے رویت ہلال کی سائنس کو تھوڑا گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
چاند ہماری زمین کے اطراف ایک بیضوی مدار میں گردش کرتا ہے اور اس دوران زمین بھی سورج کے اطراف اپنے مدار میں گردش کرتی ہے۔ چاند کو اپنا دور مکمل کرنے کے لئے ۲۹ دن بارہ گھنٹے ۴۴ منٹ اور ۲ سیکنڈ ( یعنی ساڑھے انتیس دن سے کچھ زیادہ)درکار ہوتے ہیں۔ یہ حساب سورج کے حساب ہی کی طرح واضح اور متعین ہے اس لئے بعض دیگر مذاہب کے ماننے والوں اور قوموں نے جو قمری کیلنڈر بنائے ہیں اس میں وہ ۲۹ اور ۳۰دن کے مہینے یکے بعد دیگرے رکھتے ہیں اور تین سال میں مزید ایک دن کا اضافہ کرکے چاند کی گردش کے حسب حال اپنا قمری کیلنڈر مکمل کرتے ہیں۔ اہل اسلام کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے لئے  صرف یہ کافی نہیں ہے کہ ان کا سال چاند کی گردش کے مطابق ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہر ماہ چاند کی رویت کی بنیاد پر ہو۔
زمین کے اطراف چاند کی گردش کی رفتار یکساں نہیں ہوتی۔ چونکہ مدار بیضوی ہے اس لئے بعض اوقات وہ زمین سے زیادہ قریب ہوتا ہے اور کشش ثقل کی وجہ سے اس کی رفتار تیز ہوجاتی ہے اور جب وہ زمین سے دور ہوجاتا ہے تو رفتار کم ہوجاتی ہے۔
ان سب وجوہ سے،جب بات چاند دیکھنے یا رویت کی ہوتی ہے تو مسئلہ بہت پیچیدہ ہوجاتا ہے اور اتنا سادہ نہیں رہ جاتا جتنا سورج کی گردش کا مسئلہ ہے۔ چاند زمین کے اطراف جب اپنا ساڑھے اننتیس دن کا سفر مکمل کررہا ہوتا ہے تو اس دوران مختلف مرحلوں میں ،  زمین پر سے اس کا نظارہ مختلف عوامل پر منحصر ہوتا ہے۔
چاند پر سورج کی روشنی پڑکر منعکس ہوتی ہے اور ہماری آنکھوں سے آملتی ہے تو ہمیں چاند روشن نظر آتا ہے۔ اس طرح چاند کا نظارہ سورج، چاند اور دیکھنے والے کے درمیان بننے والے زاویہ پر منحصر ہوتا ہے او ر اسی بنیاد پر چاند چھوٹا ، بڑا اور کبھی ناقابل دید بھی ہوجاتا ہے۔

مہینہ کے بالکل آخر میں چاند، زمین اور سورج کے درمیان اس طرح آجاتا ہے کہ یہ تینوں بالکل ایک خط مستقیم میں ہوجاتے ہیں۔ اس وقت چاند پر پڑے والی سورج کی شعاعیں منعکس ہوکرزمین پر نہیں آپاتیں، اس لئے چاند بالکل نہیں دکھائی دیتا۔ اسے فلکیات کی اصطلاح میں نیا چاند new Moon کہتے ہیں۔اس عمل کو چاند کی پیدائش Moon Birthیا اقتران Conjunctionبھی کہا جاتا ہے۔فلکیاتی حساب کے ذریعہ اس کی تاریخ اور وقت آسانی سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔
اگر مہینہ کے آغاز کے لئے طلوع و غروب آفتاب کی طرح کوئی فلکیاتی عمل مثلاً نیا چاند بنیاد بنایا جائے تو آسانی سے کیلکولیٹ کرکے کیلنڈر بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن شارع نے فلکیاتی عمل کو نہیں بلکہ رویت کو بنیاد قرار دیا ہے۔ چاند کی گردش کے مرحلے کیلکولیٹ کرنا تو نہایت آسان ہے لیکن یہ اپنی گردش کے کس مرحلہ میں کس مقام سے قابل رویت ہوگا، خصوصاً پہلی تاریخ کے ہلال کے سلسلہ میں ،اس کا تعین بہت پیچیدہ ہے۔

نئے چاند کے مرحلہ کے بعد دھیرے دھیرے چاند نظر آنا شروع ہوتا ہے۔ پہلی بار بہت باریک حصہ نظر آتا ہے جسے ہلال کہتے ہیں ۔ اگلی تاریخوں میں یہ دھیرے دھیرے بڑھنے لگتا ہے۔پہلی بار، یعنی پہلی تاریخ کا ہلال کسی مقام سے کب نطر آئے گا، اس کا انحصار بہت سی باتوں پر ہوتا ہے۔
۱۔ چاند دکھائی دینے کے لئے ضروری ہے کہ وہ سورج غروب ہونے کے  بعد غروب ہو۔ اس لئے کہ چاند ، سورج کی موجودگی میں دکھائی نہیں دے سکتا۔بعض ماہرین کے نزدیک یہ بھی ضروری ہے غروب آفتاب کے بعد کچھ وقت کے بعد وہ غروب ہو۔
۲۔ چا ند دکھائی دینے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جس مقام سے چاند دیکھا جارہا ہے وہاں سے سورج کے ساتھ اس کا زاویہ کم سے کم بارہ ڈگری کا ہو۔اسے فلکیات کی اصطلاح میں زاویہ  استطالہ Angle of Elongationكہا جاتا ہےبارہ ڈگری سے کم زاویہ استطالہ  پر ہماری آنکھیں اسے دیکھ نہیں پاتیں۔
۳۔ یہ بھی ضروری ہے کہ چاندغروب آفتاب کے بعد  افق پر کم سے کم بارہ ڈگری کی بلندی (ارتفاع یا Altitude)پر ہو۔اس سے کم بلندی پر وہ ہماری نظر کے دائرہ میں نہیں آپاتا۔
ان میں سے بعض  کے سلسلہ میں ماہرین فلکیات میں اختلاف بھی ہے۔
ان سب باتوں کا لحاظ کرکے کسی مقام سے چاند کی رویت کا وقت محسوب کرنا بہت مشکل کام ہے۔ آج کل کمپیوٹرز کی مدد سے یہ پیچیدہ حسابات بھی ممکن ہوگئے ہیں۔ زمین کے نقشے  پر وہ  تمام علاقے جہاں سے کسی مخصوص تاریخ کو پہلی بار ہلال دکھ سکتا ہے،ایک مخصوص شکل بناتے ہیں جسے جیومیٹری میں پیرابولا  (قطع مخروط)کہا جاتا ہے۔ اس سے مطالع کی قدیم بحث بھی غیر متعلق ہوجاتی ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ حید رآباد اور نظام آباد کسی وقت الگ الگ پیرا بولا میں ہو ں اوراس وقت حیدرآباد اور افریقہ کا کوئی  دوردراز علاقہ ایک ہی پیرا بولا میں ہو۔یہ پیرا بولہ ہر ماہ بدلتے رہتے ہیں۔لیکن بہر حال ان کا اندازہ  کمپیوٹرز کی مدد سے ہزاروں حسابات کرکے لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اور بھی عوامل ہیں جن پر رویت منحصر ہوتی ہے۔ ان میں خاص طور پردرج ذیل عوامل قابل ذکر ہیں۔
۱۔ جس مقام سے چاند دیکھا جارہا ہے، زمین پر اس کی جغرافیائی نوعیت۔ زمین کی اونچ نیچ بھی چاند ، سورج اور دیکھنے والے کے درمیان زاویہ کو متاثر کرسکتی ہے۔
۲۔ زمین پر ماحولیاتی صورت حال۔ فضا میں موجود آلودگی، آبی بخارات، کیمیائی اجزا ، گرد و غباروغیرہ  نہایت باریک ہلال کی رویت میں رکاوٹ بھی بن سکتے ہیں اور شعاعوں کے انعکاس وغیرہ کو متاثر کرکے بھی رویت پر اثر انداز ہوسکتے ہیں اور یہ عین ممکن ہے کہ مطلع ابر آلود نہ ہو تب بھی چاند دکھائی نہ دے۔
۳۔ دیکھنے والے کی بصارت اور اس کا تجربہ۔ تجربہ کارلوگ نہایت باریک ہلال آسانی سے دیکھ لیتے ہیں اور دیگر لوگ نہیں دیکھ پاتے۔
اس لئے کہا جاتا ہے کہ سائنسی طریقوں سے حقیقی رویت کی درست پیشن گوئی ناممکن ہے۔سائنسی طریقوں سے چاند کی حرکات کادرست اندازہ تو لگایا جاسکتا ہے ، لیکن ان حرکات کے دوران کس مرحلہ میں وہ قابل رویت ہوگا ، اس کا حساب خصوصاً پہلی تاریخ کے نہایت باریک چاند کے سلسلہ میں لگاناممکن نہیں ہے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے لوگوں نے طرح طرح کی کوششیں کی ہیں ۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شریعت کا اصل مقصود چاند کی حرکت کی بنیاد پر ماہ و سال کا حساب ہے۔ چونہل آں حضرت ﷺ کے دور میں یہ چیز چاند دیکھ کر ہی ممکن تھی اس لئے رویت کا حکم دیا گیا ۔ اصل مقصود رویت نہیں ہے۔ چنانچہ اس خیال کی بنیاد پر بعض لوگوں نے عالمی قمری کیلنڈر کے لئے اور بعض لوگوں نے پہلے سے تاریخوں کے تعین کے لئے مختلف فارمولے تجویز کئے ہیں۔کسی نے کہا کہ نئے چاند کی پیدا ئش  یعنی اقتران کے بعد والا دن خود بخود نئے مہینہ کی پہلی تاریخ مان لی جائے ۔کسی نے مکہ مکرمہ کو بنیاد بنایا کہ نئے چاند کے بعد مکہ میں جب بھی غروب آفتاب ہوگا، وہ چاند رات ہوگی، یعنی اس کے بعد نکلنے والا دن مہینہ کی پہلی تاریخ ہوگا۔بعض لوگوں نے گرین ویچ کی عالمی ٹائم لائن کو بنیاد بنایا ہے کہ نئے چاند کے بعد گرین وچ پر جب بھی رات کے بارہ بجیں اس کے بعد ، دنیا کے کسی بھی خطہ میں جو رات آئے گی وہ وہاں چاند رات ہوگی۔ وغیرہ۔ ان سب  تجاویز میں یہ بات شامل ہے کہ رویت ہلال کی بجائے چاند کی گردش اور اس کے محل وقوع سے متعلق کوئی بات طئے کرلی جائے اور اسے نئے ماہ کی شروعات کی بنیاد قرار دیا جائے۔
ظاہر ہے کہ یہ سب تجاویز رویت کے اصل پیمانہ سے مختلف ہیں۔اور اسی وقت قابل قبول ہوسکتی ہیں جب یہ مانا جائے کہ اسلامی شریعت میں ماہ و سال کا صرف قمری ، یعنی چاند کی حرکت کو بنیاد بناکر ہونا کافی ہے ، ہر ماہ کا آغاز رویت کی بنیاد پر ہونا ضروری نہیں ہے۔ جو علماء، احادیث کے الفاظ کی بنیاد پر رویت کو ضروری سمجھتے ہیں وہ ان تجاویز کو قبول نہیں کرسکتے ۔ اور جو علماء ضروری نہیں سمجھتے اور  یہ سمجھتے ہیں کہ حدیث کی اصل اسپرٹ چاند دیکھنے کی نہیں بلکہ چاند کی حرکت کو بنیاد بنانے کی ہے اورحالات کے لحاظ سےاجتہاد کی گنجائش پاتے ہیں وہ ان کی تائیدکرتے ہیں۔


اس طرح یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ رویت ہلال کا مسئلہ سورج کی گردش کے مسئلہ سے مختلف ہے۔ فلکیاتی بنیادوں پر اسے طئے کرنے کا مسئلہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور نصوص کی موجودگی میں اس طرح کا اجتہاد آسان نہیں ہے۔ اس میں اختلا ف بالکل فطری ہے۔ بعض علماء کا حقیقی رویت پر اصرار فلکیات سے ناواقفیت کی وجہ سے نہیں بلکہ واقفیت کے بعد ، اسے ناکافی سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ اس موضوع پر متعدد عالمی کانفرنسیں ہوچکی ہیں جن میں وقت کے نامور ترین ماہرین فلکیات اور عالمی سطح کے معتبر ترین علماء جمع ہوکر گھنٹوں مباحث کرچکے ہیں۔ لیکن کوئی ایسی سبیل نہیں نکل سکی جس پر سب متفق ہوسکیں۔ یہ کوشش یقینا جاری رہنا چاہیے اور کوئی سبیل نکلتی ہے تو یقیناً اس سے بڑا فائدہ اور سہولت ہوگی۔ سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوگا کہ اسلامی کیلنڈر کو رواج دینا آسان ہوگا۔ ایک غیر یقینی کیلنڈر جس میں تاریخیں ، ایک رات پہلے تک غیر یقینی رہتی ہوں ، وہ  آج کے تمدنی حالات و مسائل کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ اس لئے جب تک یہ صورت حال رہے گی عملاً مسلمان بھی  اپنی دیگر ضرورتوں کے لئے مغربی کیلنڈر استعمال کرنے پر مجبور رہیں گے۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ درست، لیکن اس راستہ میں جو رکاوٹیں درپیش ہیں ، ان کا بھی اندازہ ہونا چاہیے۔ کسی کے پاس ان کا کوئی حل ہو تو اسے ضرور اس بحث میں حصہ لینا چاہیے لیکن اسے غیر ضروری لعن طعن اور علماء بمقابلہ سائنسدان کا مسئلہ بنانے کی کوشش مذموم ہی کہی جاسکتی ہے۔ اس سے زیادہ حیرت ان لوگوں پر ہوتی ہے جو اسے اتحاد و اتفاق کا مسئلہ بنادیتے ہیں. (محی الدین غازی صاحب نے اس موضوع پر بہت خوب لکھا ہے۔ ان کی تحریر بھی میں شیر کررہا ہوں) ملک کے سب لوگ ایک ساتھ روزہ رکھیں یا عید منائیں ، یا ایک ساتھ نماز پڑھیں یا ملک کی تمام مسجدوں سے ایک ہی وقت میں اذانیں بلند ہوں، یہ سب اتحاد کے لئے ضروری نہیں ہے۔ البتہ کنفیوژن اور افراتفری کی صورت حال یقینا پسندیدہ نہیں ہے۔تیزرفتار اطلاعات کے اس دور میں جب کہ آناً فانا ًدنیا  جہاں کی اطلاعات مل جاتی ہیں، ایک عام آدمی کو فوراً معلوم ہوجاتا ہے کہ کہاں چاند نظر آگیا اور کہاں نہیں۔ایسے میں محض رویت ہلال کمیٹیوں کے تذبذب کی وجہ سے ملک کے کروڑوں لوگوں کا کنفیوژن کی حالت میں رہنا نہایت افسوسناک بات ہے۔ اگر رویت کے ذریعہ ہی تاریخ طئے کرنا ہے تو وہ اتنا ہی آسان ہونا چاہیے جتنا اللہ کے رسول کے زمانہ میں تھا۔ ہر مسلمان کو معلوم ہو کہ اس کے شہر میں کہاں کی رویت معتبر ہے اور کہاں کی نہیں۔اس سلسلہ میں واضح گائیڈ لائن طئے ہوجائیں۔ وہاٹس اپ کے اس دور میں مغرب کی نماز کے بعد آدھے گھنٹے کے اندر ہر شخص کو معلوم ہوجائے گا کہ آج چاند رات ہے یا نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فقہ اکیڈمی جیسے ادارے اس سلسلہ میں واضح گائیڈلائن تیار کریں۔ اور یہ طئے کریں کہ کہاں کی رویت کہاں کے لئے قابل اعتبار ہے اور تمام مسلمان ان گائیڈ لائنز کی پابندی کریں۔ اس سے قبل بین الاقوامی  فقہ اکیڈمی اور مجلس تحقیقات اسلامیہ ندوۃ العلما ءوغیرہ اداروں نے ہندوپاک کو ایک مطلع قراردیا تھا۔ مطلع کی سائنسی بحثوں سے قطع نطر اگر یہی رائے شریعت کے مزاج سے قریب تر ہے تو اس کو سختی سے نافذکرنا چاہیے اور ملک میں کسی بھی جگہ رویت ثابت ہوجائے تو پورے ملک میں اسے قبول کرلینا چاہیے۔ ورنہ ریاستوں کی بنیاد پر یا شمال جنوب کی بنیاد پر یا کسی بھی بنیاد پر ملک میں ایک سے زیادہ زون بھی بنائے جاسکتے ہیں اور ایک زون کی رویت کو اس زون کے لئے قابل عمل قرارد یا جاسکتا ہے۔بہر حال جو بھی گائیڈ لائن واضح طور پر متعین ہو اور اس کی پابندی ہو تو ایسے کنفیوژن سے بچا جاسکتا ہے۔
سید سعادت اللہ حسینی


ممبئی کے رضاخانی شرعی کمیٹی والوں نے کرناٹک پہنچ کر رویت کی تحقیق اور 29 کے چاند کا شرعی ثبوت حاصل کیا:

No comments:

Post a Comment