حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسئلہ سماع موتیٰ قرآن و حدیث سے مستند دلائل
منکرین حضرات کے دلائل اور انکا تجزیہ
منکرین حضرات سورہ فاطر کی آیت ۲۲، اور سورہ نمل آیت ۸۰ کو نقل کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مردے نہیں سن سکتے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی یہ آیات اس بات کو ثابت کر رہی ہیں کہ مردے نہیں سن سکتے، یا پھر یہ کہ یہ اہلحدیث حضرات پھر اپنی ظاہر پرستی کی وجہ سے اس کا اصل مفہوم سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔
وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاء وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاء وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ
(القران ۳۵:۸۰) اور زندہ اور مردے برابر نہیں ہوسکتے (یہ صرف) اللہ (ہے جو) جس کو چاہتا ہے اپنی بات سنا دیتا ہے (یعنی ہدایت دے دیتا ہے) اور آپ انہیں نہیں سناسکتے (یعنی ہدایت نہیں کرسکتے) جو قبروں کے اندر رہنے والے ہیں۔
اس آیتِ مبارکہ میں "سننا" مجازی معنوں میں استعمال ہوا ہے اور اس سے مراد صرف اور صرف "بات کا ماننا" ہے۔
اسی طرح اوپر کی آیت میں "سننے" کا یہ لفظ اپنے اِس "بات یا ہدایت نہ ماننے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ مگر چونکہ اہلحدیث حضرات کا عقیدہ ہے کہ پورا قران اپنے ظاہری معنوں میں نازل ہوا ہے، اسی لیے وہ اس آیت کو بھی ظاہری معنوں میں لیتے ہیں۔
اگر آپ اس آیت سے قبل اور اس آیت کے بعد آنے والی آیات پر ایک نظر ڈالیں گے تو یہ بات آپ پر اور واضح ہو جائے گی کہ اللہ اس "سننے" کے لفظ کو کن معنوں میں استعمال کر رہا ہے۔ اللہ اپنے حبیب ﷺ کو اگلی آیت نمبر ۲۳ میں کہہ رہا ہے کہ:
إِنْ أَنتَ إِلَّا نَذِيرٌ
آپ تو صرف ڈرانے والے کے سوا کچھ نہیں ہیں۔
اور ساتھ میں رسولﷺ کو یہ بھی کہہ رہا ہے کہ یہ آپ ﷺ کا فرض نہیں ہے کہ لوگوں سے حق بات کو منوائیں بھی، کیونکہ یہ صرف اور صرف اللہ ہے جو ہر اُس شخص کو ہدایت دیتا ہے جسے وہ چاہتا ہے۔
دیکھئیے کہ اللہ اسی آیت کے شروع میں کیا کہہ رہا ہے:
إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاء
(یہ) اللہ ہی ہے جو جسے چاہے سنوا دیتا ہے
آیت کے اس حصے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہی ہے جو ان لوگوں کو ہدایت سننے (ماننے) کی توفیق دیتا ہے جس سے وہ خوش ہوتا ہے۔
ذرا تصور کریں، آپ کسی بھی کافر کے پاس جا کر بولنا شروع کر دیں، تو کیا وہ آپ کی آواز نہیں سنے گا؟ اور اگر وہ کافر آپ کی آواز سن سکتا ہے، تو پھر اللہ کے اس فرمان کا کیا مطلب ہوا کہ:
(یہ) اللہ ہی ہے جو جسے چاہے سنوا دیتا ہے
اگر اہلحدیث حضرات کا یہ دعویٰ درست ہے کہ "سننا" یہاں پر اپنے ظاہری معنوں میں استعمال ہوا ہے تو پھر اسکا مطلب تو یہ ہوا کہ معاذ اللہ قران میں تضاد ہے اور معاذ اللہ خدا جھوٹ بول رہا ہے۔ یعنی ایک طرف تو اللہ دعویٰ کر رہا ہے کہ صرف وہی سن سکتا ہے کہ جسے اللہ چاہے، اور دوسری طرف آپ ہیں جو جا کر ہر اُس کافر کو اپنی آواز سنا رہے ہیں کہ جسے آپ چاہیں۔
اس آیت کا مطلب بالکل صاف ہے۔ اللہ کہہ رہا ہے کہ صرف ان لوگوں کے پاس ہدایت سننے (ماننے) یا پھر رد کرنے کا حق ہے جو کہ زندہ ہیں۔ جبکہ وہ لوگ جو مر چکے ہیں، ان کے پاس اب ہدایت سننے (ماننے) یا رد کرنے کا کوئی حق نہیں رہا ہے کیونکہ ان کے لیے اب بہت دیر ہو چکی ہے اور انکا ہدایت کو سننا (ماننا) ان کے لیے کسی فائدے کا نہیں رہا ہے۔ (یعنی موت کے فرشتے کو دیکھ لینے کے بعد اللہ پر ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے)۔
اور اللہ یہی بات اپنے حبیب ﷺ کو بتا رہا ہے کہ ان کفار کی مثال بھی اُن مردہ لوگوں جیسی ہے کیونکہ یہ لوگ اپنے کفر میں اس درجہ آگے بڑھ گئے ہیں کہ جس کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور ان سے یہ حق چھین لیا ہے کہ وہ ہدایت کو قبول کر سکیں۔ (یعنی جس طرح مردوں سے یہ حق چھین لیا گیا ہے، اسی طرح ان سے بھی یہ ہدایت ماننے کا حق چھین لیا گیا ہے)۔
اس لیے اللہ اپنے حبیب ﷺ سے کہہ رہا ہے کہ وہ اس بات پر افسردہ نہ ہوا کریں اگر کوئی کافر ان کی بات اور ہدایت نہ سنے (مانے)۔ اسکی واحد وجہ یہ ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں پر قفل لگا دیا ہے اور یہ حق ہی چھین لیا ہے جیسا کہ مردوں سے یہ حق چھین لیا ہے۔ اور یہ صرف اللہ ہی ہے جو جسے چاہے ہدایت دے اور دلوں پر پڑے قفل کو کھول دے۔ اللہ قران میں فرما رہا ہے:
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاء وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
(القران ۲۸:۵۶) پیغمبر بیشک آپ جسے چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے ہیں بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے اور وہ ان لوگوں سے خوب باخبر ہے جو ہدایت پانے والے ہیں
اور یہی حقیقت اللہ نے اور بہت سے جگہ قران میں واضح فرمائی ہے:
وَمَا أَنتَ بِهَادِي الْعُمْيِ عَن ضَلَالَتِهِمْ إِن تُسْمِعُ إِلَّا مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُونَ
(القران ۳۰:۵۳) اور (اے پیغمبر) آپ اندھوں کو بھی ان کی گمراہی سے ہدایت نہیں کرسکتے ہیں آپ تو صرف ان لوگوں کو سناسکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمان ہیں
یہ آیت بہت اہم ہے۔
۱) دیکھئیے کہ جب اللہ کہہ رہا ہے کہ:
اور (اے پیغمبر) آپ اندھوں کو بھی ان کی گمراہی سے ہدایت نہیں کرسکتے ہیں
اگر ہم اہلحدیث حضرات کی ظاہر پرستی کی روش پر چلیں تو ہمیں یہ اعلان کرنا ہو گا کہ تمام کے تمام اندھے لوگ کبھی حق بات کو نہیں مان سکتے اور وہ ہمیشہ گمراہی میں پڑے رہیں گے۔
۲) اور اسی آیت کے دوسرے حصے میں اللہ نے خود "سننے" (تسمع) کا لفظ واضح طور پر استعمال کر کے اس کے مجازی معنوں کو ظاہر کر دیا ہے:
إِن تُسْمِعُ إِلَّا مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُونَ
آپ تو صرف ان لوگوں کو سناسکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمان ہیں
اگر کوئی اب بھی اس بات کا انکار کرتا ہے کہ قران میں کوئی مجاز نہیں ہے، بلکہ یہ پورا کا پورا ظاہر ہے تو یقیناً ایسا شخص غلطی پر ہے۔
اور اس "سننے" کا مجازی معنی اس اگلی آیت میں اللہ نے اور اتنا واضح کر دیا ہے جب وہ کہہ رہا ہے:
وَمِنْ آيَاتِهِ مَنَامُكُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَابْتِغَاؤُكُم مِّن فَضْلِهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ تم رات اور دن کو آرام کرتے ہو اور پھر فضل خدا کو تلاش کرتے ہو کہ اس میں بھی سننے والی قوم کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں
لفظ "سننے" کا یہ مجازی استعمال دینا کی تقریباً تمام زبانوں میں پایا جاتا ہے۔
مثلاً جب میرا چھوٹا بھائی میری والدہ کی بات نہیں مانتا تو وہ والد صاحب سے ان الفاظ میں شکایت کرتی ہیں:
"اب آپ ہی اسے کہیں کہ یہ کام نہ کرے کیونکہ میری بات تو یہ سنتا نہیں ہے (یعنی میری بات تو یہ مانتا نہیں ہے)۔
اسی طرح دوسری زبانوں میں بھی اسکا یہ مجازی استعمال عام ہے۔ مثلاً:
1.In English: Please you (my father) tell him (my younger brother) to do so and so. He does not Hear/listen to me.
2.In German: Bitte sag du es mal zu ihm um das und das zu tun. Er HÖRT auf mich nicht.
3.In Pashtu: Tasu aghey ta owaey che zama khabara de wouri
4.In Russian: ... on "Slushet" mene neith...
اور اسی طرح بہت سی اور زبانوں میں سننا اِس بات نہ ماننے کے مجازی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
منکرین کے امام ابن کثیر الدمشقی کی سورہ فاطر کی اس آیت ۳۵:۲۲ کی تفسیر
اہلحدیث کے تمام کے تمام سلف علماء اس بات کے قائل تھے کہ مردے سن سکتے ہیں۔ تفسیر کے میدان میں اہلحدیث حضرات کے سب سے بڑے امام، ابن کثیر الدمشقی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیںَ:
آن لائن لنک:
وَقَوْله تَعَالَى : " إِنَّ اللَّه يُسْمِعُ مَنْ يَشَاء " أَيْ يَهْدِيهِمْ إِلَى سَمَاع الْحُجَّة وَقَبُولهَا وَالِانْقِيَاد لَهَا " وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُور " أَيْ كَمَا لَا يَنْتَفِع الْأَمْوَات بَعْد مَوْتهمْ وَصَيْرُورَتهمْ إِلَى قُبُورهمْ وَهُمْ كُفَّار بِالْهِدَايَةِ وَالدَّعْوَة إِلَيْهَا كَذَلِكَ هَؤُلَاءِ الْمُشْرِكُونَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمْ الشَّقَاوَة لَا حِيلَة لَك فِيهِمْ وَلَا تَسْتَطِيع هِدَايَتهمْ .
ترجمہ:
اور اللہ کا یہ فرمانا (اللہ جسے چاہتا ہے سنوا دیتا ہے) اسکا مطلب ہے کہ وہ یہ ہدایت دیتا ہے کہ لوگ حجت (ہدایت) کو سنیں اور اسے قبول کریں اور اس پر قائم رہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ (اور تم ان کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں) اسکا مطلب ہے کہ جیسے کہ مردے مرنے کے بعد ہدایت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ہیں اور انہیں سچ بتانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ کفر کی حالت میں مرے ہیں اور اسی حالت میں قبر میں چلے گئے ہیں، اسی طرح آپ کی ہدایت اور دعوت ان کفار کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی کیونکہ ان کی شقاوت کی وجہ سے ان کی قسمت میں برباد ہونا لکھا گیا ہے اور آپ ان کو ہدایت نہیں کر سکتے۔
اسی طرح منکرین کے سلف علماء کی دیگر مشہور تفاسیر میں بھی یہی بات لکھی ہوئی ہے کہ یہاں "سننے" سے مراد "ماننا" ہے۔ مثلاً:
تفسیر ابن قرطبی میں اس آیت کی تفسیر اس لنک میں پڑھیں:
تفسیر جلالین میں اس آیت کی تفسیر اس لنک میں پڑھیں:
تفسیر طبری میں اس آیت کی تفسیر اس لنک میں پڑھیں:
سورہ نمل کی آیت ۸۰ کی تفسیر
اہلحدیث حضرات سورہ نمل کی آیت ۸۰ کی غلط تفسیر پیش کر کے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مردے سن نہیں سکتے۔ یہ حضرات صرف یہ ایک آیت پیش کرتے ہیں اور اس سے اگلی آیت کو بالکل گول کر جاتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ خود اس لفظ "سننے" کی وضاحت کر رہا ہے۔
إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاء إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ
.(القران ۲۷:۸۰) آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور بہروں کو اپنی پکار نہیں سنا سکتے اگر وہ منہ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوں
اس آیت میں پھر منکرین حضرات اپنی ظاہر پرستی کا ثبوت دے رہے ہیں اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس آیت میں "سننا" اپنے ظاہری معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ان کے دعویٰ کا پول کھولنے کے لیے یہ کافی ہے کہ ہم اس سے اگلی آیت پیش کر دیں جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود اس لفظ "سننے" کی تشریح کر دی ہے۔
ذیل میں ہم اس آیت کو اور اس سے اگلی آیت کو پیش کر رہے ہیں۔ اور ساتھ میں اس کی مختصر تفسیر بریکٹ میں دے رہے ہیں تاکہ بہتر طور پر سمجھا جا سکے کے اللہ اس آیت میں کیا فرما رہا ہے۔
(القران 27:80) آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے (یعنی انہیں ہدایت مانے پر مجبور نہیں کر سکتے)، اور نہ ہی بہروں کو (یعنی کفار کو) اپنی پکار (یعنی ہدایت) سنا سکتے ہیں (یعنی منوا سکتے ہیں) جبکہ وہ پیٹھ پھیر لیں (یعنی جب کفار آپ کی بات اور اللہ کی نشانیوں پر کان دھرنے کے لیے تیار ہی نہ ہوں۔ مگر اگر یہ کفار (بہرے) اللہ کی نشانیوں پر غور کریں تو اللہ انہیں ہدایت سننے کی توفیق دے دے گا)۔
(القرن ۲۷:۸۱) اور (اے پیغمبر) آپ اندھوں کو بھی ان کی گمراہی سے ہدایت نہیں کرسکتے ہیں آپ تو صرف ان لوگوں کو سنا(تسمع) سکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمان ہیں۔
امام قرطبی اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں:
إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى
الْمَوْتَى " يَعْنِي الْكُفَّار لِتَرْكِهِمْ التَّدَبُّر ; فَهُمْ كَالْمَوْتَى لَا حِسّ لَهُمْ وَلَا عَقْل . وَقِيلَ : هَذَا فِيمَنْ عَلِمَ أَنَّهُ لَا يُؤْمِن .
اور آیت (اور آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے) یہاں "الموتی (مردہ لوگوں)" سے مراد کفار ہیں کہ جنہوں نے تدبر کرنا چھوڑ دیا ہے۔ یہ لوگ مردوں کی طرح ہیں جن میں (سوچنے سمجھنے) کی حس باقی نہیں رہیں ہے اور یہ عقل سے عاری ہو چکے ہیں۔ اور یہ (مردہ کا لفظ) ان لوگوں کے لیے استعمال ہوا ہے جن کے بارے میں یہ یقین ہو گیا ہے کہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں (کیونکہ اللہ نے انکے دلوں پر قفل لگا دیا ہے)۔
مگر اب بھی کسی کو شک ہے کہ اس آیت میں اللہ نے بہرے سے مراد کفار لیے ہیں تو ذیل میں سورہ الانعام کی آیت ۲۵ کو ملاحظہ فرمائیں جس میں اللہ خود واضح فرما رہا ہے کہ قوم کے بہرے ہونے سے اسکی مراد کیا ہے:
وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا وَإِن يَرَوْاْ كُلَّ آيَةٍ لاَّ يُؤْمِنُواْ بِهَا حَتَّى إِذَا جَآؤُوكَ يُجَادِلُونَكَ يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ إِنْ هَذَآ إِلاَّ أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ {25}
اور ان میں سے بعض لوگ کان لگا کر آپ کی بات سنتے ہیں لیکن ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دئیے ہیں ...یہ سمجھ نہیں سکتے ہیں اور ان کے کانوں میں بھی بہراپن ہے -یہ اگر تمام نشانیوں کو دیکھ لیں تو بھی ایمان نہ لائیں گے یہاں تک کہ جب آپ کے پاس آئیں گے تو بھی بحث کریں گے اور کفار کہیں گے کہ یہ قرآن تو صرف اگلے لوگوں کی کہانی ہے {سورہ الانعام6:25}
اسی طرح سورہ الانفال کی مندرجہ ذیل چار آیات ملاحظہ فرمائیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ {20}
ایمان والو اللہ و رسول کی اطاعت کرو اور اس سے رو گردانی نہ کرو جب کہ تم سن بھی رہے ہو
وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لاَ يَسْمَعُونَ {21}
اور ان لوگوں جیسے نہ ہوجاؤ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا حالانکہ وہ کچھ نہیں سن رہے ہیں
إِنَّ شَرَّ الدَّوَابَّ عِندَ اللّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لاَ يَعْقِلُونَ {22}
اللہ کے نزدیک بد ترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ہیں
وَلَوْ عَلِمَ اللّهُ فِيهِمْ خَيْرًا لَّأسْمَعَهُمْ وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّواْ وَّهُم مُّعْرِضُونَ {23}
اور اگر خدا ان میں کسی خیر کو دیکھتا تو انہیں ضرور سناتا اور اگر سنا بھی دیتا تو یہ منہ پھرا لیتے اور اعراض سے کام لیتے
ہمیں امید ہے کہ ہمارے پڑھنے والوں کے لیے اب یہ بات واضح ہو چکی ہو گی کہ اللہ نے قران میں سننا کن معنوں میں استعمال کیا ہے اور بہرے اور گونگے سے کیا مراد ہے۔ اور اس سلسلے میں اہلحدیث حضرات کا حضرت عائشہ کے اجتہاد کے پیچھے پناہ لینا کس حد تک قران سے انصاف ہے۔
قتادہ کی رائے کہ بدر کے کافریں نے رسولﷺ کا پیغام سنا تھا کیونکہ اللہ نے انہیں اسکے لیے زندہ کر دیا تھا (اورمنکرین کا نتیجہ نکالنا کہ یہ صرف ایک معجزہ تھا)
منکرین حضرات قتادہ کی رائے پیش کرتے ہیں کہ جس میں قتادہ کا کہنا ہے کہ بدر کے کافرین نے کنویں میں رسولﷺ کا خطاب سنا تھا کیونکہ اللہ نے انہیں زندہ کر دیا تھا۔ اور اس بنیاد پر منکرین حضرات یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ بدر کے کنویں میں کافرین کا یہ سننا صرف ایک معجزہ تھا ورنہ عموماً مردے نہیں سن سکتے۔
آئیے ذرا غور سے دیکھتے ہیں کہ قتادہ کیا کہہ رہے ہیں اور کیا اس سے یہ معجزہ والا نتیجہ نکالا جا سکتا ہے یا نہیں۔
صحیح بخاری، کتابِ المغازی، باب قتل ابی جہل:
آن لائن لنک
حدثني عبد الله بن محمد سمع روح بن عبادة حدثنا سعيد بن أبي عروبة عن قتادة قال ذكر لنا أنس بن مالك عن أبي طلحة
أن نبي الله صلى الله عليه وسلم أمر يوم بدر بأربعة وعشرين رجلا من صناديد قريش فقذفوا في طوي من أطواء بدر خبيث مخبث وكان إذا ظهر على قوم أقام بالعرصة ثلاث ليال فلما كان ببدر اليوم الثالث أمر براحلته فشد عليها رحلها ثم مشى واتبعه أصحابه وقالوا ما نرى ينطلق إلا لبعض حاجته حتى قام على شفة الركي فجعل يناديهم بأسمائهم وأسماء آبائهم يا فلان بن فلان ويا فلان بن فلان أيسركم أنكم أطعتم الله ورسوله فإنا قد وجدنا ما وعدنا ربنا حقا فهل وجدتم ما وعد ربكم حقا قال فقال عمر يا رسول الله ما تكلم من أجساد لا أرواح لها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم والذي نفس محمد بيده ما أنتم بأسمع لما أقول منهم
قال قتادة
أحياهم الله حتى أسمعهم قوله توبيخا وتصغيرا ونقيمة وحسرة وندما
ترجمہ:
قتادہ کہتے ہیں کہ ہم سے انس بن مالک نے بیان کیا کہ انہوں نے کہا کہ ابو طلہ نے کہا کہ جنگ بدر کے دن نبیﷺ نے چوبیس سرداران قریش کی لاشوں کو کنویں میں پھینک دئے جانے کا حکم دیا اور ان کی لاشیں بدر کے کنوؤں میں سے ایک گندے کنویں میں پھینک دی گئیں۔ آپﷺ کا قاعدہ تھا کہ جب آپﷺ کسی قوم پر غالب آ جاتے تھے تو وہاں تین دن قیام فرماتے تھے۔ جب بدر کے مقام پر تیسرا دن آیا تو آپ ﷺ نے حکم دیا اور آپ ﷺ کی اونٹنی پر کجاوہ کسا گیا۔ پھر آپ پیدل روانہ ہوئے اور آپ ﷺ کے اصحاب بھی آپ ﷺ کے ساتھ چلے اور انہوں نے کہا کہ ہمارا خیال یہ تھا کہ آپ ﷺ اپنی کسی ضرورت کے لئے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کنویں کے کنارے کھڑے ہو گئے اور ان مشرکوں کو ان کے اور ان کے باپ داداؤں کے نام سے آواز دینے لگے کہ اے فلاں ابن فلانِ اے فلاں ابن فلاں(صحیح مسلم، کتاب "الجنہ و صفت نعیمھا و اہلھا"، میں ان کے نام یوں آئیں ہیں "یا ابو جہل بن ہشام، یا امیہ بن خلف، یا عتبہ" ) ! کیا تم کو یہ بہتر معلوم نہیں ہوتا کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی ہوتی؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا وہ ہم نے سچا پایا۔ تو کیا تم نے بھی وہ وعدہ سچا پایا جو تمہارے رب نے تم سے کیا تھا؟ ابو طلحہ نے کہا اس وقت جنابِ عمر رسول ﷺ سے کہا: یا رسول اللہ! آپ ان جسموں سے مخاطب ہیں کہ جن میں روح نہیں ہے۔ اس پر رسول ﷺ نے جواب دیا: اے عمر! اس ذات کی قسم کہ جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے کہ تم اتنا بہتر نہیں سن سکتے جتنا کہ یہ سن رہے ہیں۔
(آگے قتادہ (جو کہ ایک تابعی ہیں) اپنا خیال پیش کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ) اللہ نے ان کفار کو واپس زندہ کر دیا تاکہ وہ رسول ﷺ کا کلام سن سکیں اور رسول ﷺ کی بات ان کے لئے ذلت و خواری، حسرت و ندامت کا باعث بنے۔
تبصرہ:
پہلی اور سب سے اہم بات یہ کہ قتادہ نے ہی نہیں کہا کہ یہ ایک معجزہ تھا جیسا کہ آجکل منکرین حضرات عام مسلمانوں کو باور کرانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ قتادہ (ایک تابعی) اس واقعہ کے ڈائریکٹ گواہ نہیں ہیں بلکہ محض یہ ان کا اپنا ذاتی خیال ہے۔ قتادہ نے یہ واقعہ انس (صحابی) سے سنا، جنہوں نے یہ واقعہ ابو طلحہ (ایک اور صحابی) سے سنا تھا۔ تو سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قتادہ کو یہ کیسے پتا چلا کہ اللہ نے ان کفار کی روحوں کو ان کے جسموں میں واپس بھیجا تھا اور انہیں دبارہ زندگی دی تھی؟.
رسول ﷺ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ اللہ نے کفار کو زندہ کرنے کے لیے ان کی ارواح دوبارہ ان کے جسموں میں داخل کیں۔ حضرت عمر جو کہ اُس موقع کے چشم دید گواہ ہیں (اور اسی طرح دیگر صحابہ) ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ اللہ نے ان کفار کو دوبارہ زندہ کیا۔ .
یہ حدیث بہت سے صحابہ سے مروی ہے مثلاً عبداللہ ابن عمر، ابو طلحہ، حضرت عائشہ (حضرت عائشہ کی رائے کے متعلق ہم انشاء اللہ آگے بحث کریں گے) وغیرہ۔ مگر ان میں سے ایک نے بھی کفار کو دوبارہ زندہ کرنے کی ذرا سی بھی بات نہیں کی ہے۔
چناچہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر قتادہ کو یہ الہام کیسے ہوا کہ اللہ نے کفار کو دوبارہ زندہ کیا تھا؟ کیا اللہ نے قتادہ پر وحی نازل کی تھی اور جبرئیلؑ نے انہیں آ کر بتایا تھا کہ اللہ نے اُن کفار کو زندہ کیا تھا؟ اگر قتادہ پر ایسی وحی نہیں ہوئی تھی تو یہ صرف اور صرف قتادہ کا اپنا خیال ہے جس کی اسلامی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
قتادہ کا گمان رسول ﷺ اور جنابِ عمر کے واضح الفاظ کے بالکل متضاد ہے
جب رسول ﷺ نے کفار کو مخاطب کیا تو حضرت عمر شک و شبہ میں مبتلا ہو کر الجھن میں پڑ گئے اور اپنے اس شک و شبہ کو مٹانے کے لیے ہی وہ رسولﷺ سے دوبارہ تصدیق کرنے کے لیے یہ سوال کر رہے ہیں کہ:
حضرت عمر نے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ ان جسموں سے مخاطب ہیں جو کہ روحوں سے خالی ہیں۔
جبکہ قتادہ کا گمان یہ ہے کہ اللہ نے ان کی روحوں کو واپس کر کے ان کو دوبارہ زندہ کیا۔
تو ان دونوں میں سے صحیح کون ہے؟
اور رسول ﷺ کے جواب کو دیکھئیے کہ وہ حضرت عمر کے اس شک و شبہ کا کتنا واضح جواب دے رہے ہیں:
رسولﷺ نے جواب دیا: اُس ذات کی قسم کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میری بات کو اتنا بہتر نہیں سن سکتے کہ جتنا کہ یہ مردے سن رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر واقعی یہ روحوں کے پلٹائے جانے کا کیس ہوتا، تو رسولﷺ واجب تھا کہ حضرت عمر کو صاف صاف اس کے متعلق بتاتے۔ یہ رسول ﷺ کا منصبِ رسالت ہے جو کہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ رسول ﷺ دین کے معاملے میں لوگوں کے شکوک وشبہات کا ازالہ کریں۔ مگر یہاں رسول ﷺ کا جواب صاف صاف ظاہر کر رہا ہے کہ قتادہ اپنے اس گمان میں غلط ہیں۔
عبداللہ ابن عمر بمقابلہ حضرت عائشہ
حضرت عمر کے بیٹے (عبداللہ ابن عمر) اس بات کے قائل تھے کہ مردے سن سکتے ہیں۔ (پچھلے باب میں ہم نے صحیح بخاری، باب الجنائز کی حدیث پیش کی تھی جس میں عبداللہ ابن عمر نے کہا تھا کہ مردے سن سکتے ہیں)۔ مگر جب حضرت عائشہ کو عبداللہ ابن عمر کی رائے کا علم ہوا، تو انہوں نے اس سے اختلاف کیا۔ آجکل منکرین حضرات حضرت عائشہ کہ یہی حدیث بطور ثبوت پیش کرتے ہیں۔
ایک منکر صاحب نے عبداللہ ابن عمر کی رائے کو رد کرتے ہوئے جواب میں یہ لکھا۔
اگرچہ کہ حضرت عبداللہ ابن عمر اس بات کے قائل تھے کہ مردے سن سکتے ہیں، مگر حضرت عائشہ نے انکے اجتہاد کا رد کیا۔ جب ابن عمر کے اس قول کا ذکر حضرت عائشہ سے کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ نبیﷺ نے تو صرف یہ کہا تھا کہ اُن لوگون کو اُس وقت پتا چل رہا ہے (یعنی ان پر عذاب ہونے کی وجہ سے) کہ میں جو اُن سے کہا کرتا تھا وہ حق تھا۔ پھر حضرت عائشہ نے اپنی بات کی شہادت میں یہ آیت پڑھی:
انک لا تسمع الموتی ولا تسمع الصم الدعاء اذا ولومدبرین (النمل، آیت ۸۰)
ترجمہ: یعنی تم مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ اُن بہروں کو سنا سکتے ہو جو پیٹھ پھیر کر بھاگ رہے ہوں۔
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی عذاب القبر
اور حضرت عائشہ حضرت ابن عمر سے زیادہ فقیہ تھیں اور اِن سے زیادہ دین کا علم جاننے والی تھیں۔ اور ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ جب رسول ﷺ کی کسی حدیث میں اشکال پیدا ہو جاتا تھا تو ہم اسے حل کرانے کے لیے حضرت عائشہ کے پاس آتے تھے۔
اور اگرچہ کہ ابن عمر بھی فقییہ تھے مگر جب حضرت عمر قاتل کے وار سے زخمی ہو گئے تو لوگوں نے نئے خلیفہ کے تقرر سے متعلق ایک رائے یہ بھی پیش کی کہ حضرت عمر اپنے بیٹے کو ہی خلیفہ بنا دیں، تو حضرت عمر نے جواب دیا: اللہ کے قسم میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ تچھ پر افسوس ہے! کیا میں ایسے شخص کو اپنا جانشین بناؤں جسے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا طریقہ بھی نہیں آتا؟ (صحیح بخاری، کتاب الاحکام)
اس تقابل سے نعوذ باللہ میرا مقصود حضرت ابن عمر کی شان گھٹانا نہیں ہے۔ آپ کی فضیلت اپنے مقام پر ہے لیکن جہاں تک قوتِ اجتہاد کا تعلق ہے، تو حضرت عائشہ کا مقام ان سے بلند تھا۔
تو اب اس معاملے کی حقیقت آپ پر کھل گئی ہو گی کہ رسول ﷺ نے کفارِ مکہ کو یہ الفاظ لعنت و ملامت کرتے ہوئے کہے اور یہی حضرت عائشہ کی بھی رائے تھی۔
ہمارا تبصرہ
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا اس واقعہ کے وقت خود موجود نہیں تھیں۔ اس لیے جب انہوں نے یہ واقعہ بیان کیا تو انہوں نے رسول ﷺ کے الفاظ کو اور ان کے معنوں کو بالکل تبدیل کر دیا۔ اور حضرت عائشہ کی یہ رائے ابن عمر اور اور ان تمام صحابہ کے بیانات کے بالکل متضاد ہے کہ جنہوں نے اس کنویں والی روایت کو نقل کیا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی رائے یہ ہے کہ نہ تو رسول ﷺ نے مردوں کو مخاطب کیا تھا، اور نہ ہی اُن مردوں نے رسول ﷺ کی کوئی بات سنی ہے، بلکہ رسولﷺ نے کنویں کے پاس جا کر اپنے صحابہ کو مخاطب کر کے یہ کہا تھا کہ ان کفار پر اب عذاب ہو رہا ہے اور انہیں پتا چل رہا ہے کہ وہ سب کچھ حق تھا جو کہ میں (نبی ﷺ) انہیں بتایا کرتا تھا۔
شیخ جمال آفندی اپنی کتاب"اہلسنت کا عقیدہ اور سلفی تحریک" میں حضرت عائشہ کے ان الفاظ کا ذکر کر رہے ہیں:
"حضرت عائشہ (اللہ ان سے راضی ہو) سے مروی ہے کہ جب انہوں نے کنویں والا واقعہ سنا تو انہوں نے کہا: یہ کیسے ممکن ہے کہ رسولﷺ مردوں کو مخاطب کریں، کیونکہ اللہ قران میں کہہ رہا ہے: "تم انہیں نہیں سنا سکتے جو کہ قبروں میں ہیں۔"
آن لائن لنک:
یہاں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا قران کی تفسیر بالرائے کر رہی ہیں اور ان کی مراد قران کی یہ آیت ہے:
إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاء إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ
(القران ۲۷:۸۰) اور (اے رسول) آپ مردوں کو اپنی بات نہیں سنا سکتے (یعنی ان کفار سے اپنی بات نہیں منوا سکتے) اور نہ ہی بہروں کو اپنی بات سنا سکتے ہیں جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے ہوں (یعنی ان کفار کا یہ رویہ یہ ہے کہ جہاں آپ نے ہدایت کی بات شروع کی، وہیں انہوں نے پیٹھ پھیر لی اور ہدایت حاصل نہیں کی)۔
اس آیت کی تفسیر بالرائے کر کے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا اس نتیجے پر پہنچی تھیں کہ مردے نہیں سن سکتے، جبکہ اس حدیث میں مردوں سے مراد کفار ہیں اور سننے سے مراد ہدایت حاصل کرنا ہے (اس آیت پر ہم پہلے ہی سیر حاصل بحث کر چکے ہیں)۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی یہ روایت صحیح مسلم میں یوں نقل ہوئی ہے:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے کہا: رسولﷺ کنویں کے کنارے کھڑے ہوئے کہ جس میں ان مشرکین کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں جو کہ بدر کے دن مارے گئے تھے۔ اور رسولﷺ نے وہ کہا جو انہیں کہنا تھا یعنی: "انہیں پتا چل رہا ہے جو میں نے کہا ہے"۔ مگر اِس (عبد اللہ ابن عمر) نے اس بات کو غلط سمجھا ہے۔ اور رسولﷺ نے تو صرف اتنا کہا تھا: "ان کفار کو اب سمجھ آ رہا ہے ّ(یعنی جب ان پر عذاب ہو رہا ہے) کہ جو کچھ میں انہیں بتایا کرتا تھا وہ حق و سچ تھا۔" پھر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے یہ آیت پڑھی: " اور تم مردوں کو نہیں سنا سکتے۔۔"
حوالہ: صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ
اور صحیح بخاری میں حضرت عائشہ کے یہ الفاظ ہیں:
رسولﷺ نے فرمایا: اب ان کفار کو پتا چل رہا ہے کہ جو کچھ میں انہیں بتایا کرتا تھا وہ سچ تھا۔
حوالہ: صحیح بخاری، کتاب الجنائز
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی یہ رائے پڑھنے کے بعد مندرجہ ذیل دو سوالات اٹھتے ہیں:
۱) آیا کہ رسولﷺ نے ان مردوں کو مخاطب کیا تھا کہ نہیں۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا دعویٰ ہے کہ رسولﷺ نے مردوں سے ہرگز ہرگز خطاب نہیں کیا تھا)۔
۲) اور دوسرا یہ کہ آیا مردوں نے رسولﷺ کا یہ خطاب سنا تھا کہ نہیں (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا کہنا یہ ہے کہ نہ تو خطاب ہوا، اور نہ ہی ان مردوں نے رسولﷺ کا ایک لفظ بھی سنا)۔
اور حقیقت یہ ہے کہ جب رسولﷺ جنگ بدر کے موقع پر مردوں سے یہ خطاب کر رہے تھے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا وہاں پر موجود نہیں تھیں
اور اس بات میں ہرگز کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے دعویٰ کے برعکس یقیناً رسول ﷺ نے مردوں کو مخاطب کیا تھا اور ان مردوں نے رسول ﷺ کا یہ خطاب ایسے بہتر طریقے سے سنا تھا کہ کوئی زندہ انسان ایسے بہتے طریقے سے نہیں سن سکتا۔
حضرت عمر جو کہ اُس وقت موقع پر موجود تھے، وہ بھی رسولﷺ کے اس خطاب کو سن کر الجھن میں پڑ گئے تھے اور کنفیوز ہو گئے تھے اور اس لیے رسولﷺ سے اس خطاب کی پھر سے تصدیق کرنے کے لیے سوال کر رہے ہیں کہ:
"یا رسول اللہ! کیا آپ ان مردہ جسموں سے مخاطب ہیں کہ جو کہ روحوں سے خالی ہیں؟"
اور جواب میں رسولﷺ فرما رہے ہیں:
"اس ذات کی قسم کہ جس کے ہاتھوں میں محمد کی جان ہے، تم میری بات کو اتنا بہتر نہیں سن سکتے ہو جیسا کہ یہ مردے سن رہے ہیں۔"
رسول اللہ ﷺ اور حضرت عمر کے یہ الفاظ اس بات کو بالکل واضح کر رہے ہیں کہ بیشک رسولﷺ نے مردوں سے خطاب کیا اور انہوں نے لفظ بہ لفظ یہ خطاب سنا۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا یہ فرمانا کہ نہ ہی رسولﷺ نے خطاب کیا اور نہ ہی مردوں نے سنا، اس معاملے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی ذاتی رائے ہے۔ اور اس معاملے میں عبداللہ ابن عمر کی رائے درست ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے جو رائے دی وہ ان کی ذاتی رائے ہے۔
حیرت ہے کہ منکرین کے تمام سلف علماء (ابن تیمیہ، ابن کثیر، وغیرہ اس بات کے قائل ہیں کہ مردے سن سکتے ہیں، مگر یہ حضرات اپنے ان سب علماء کے فتوؤں کو اس بات پر رد کر رہے ہیں کہ رسول ﷺ کے علاوہ ہر شخص غلطی کر سکتا ہے اور انہیں شخصیت پرستی میں نہیں پڑنا چاہیے۔ مگر جب حضرت عائشہ کا مسئلہ آ رہا ہے تو یہی حضرات ڈبل سٹینڈرڈز دکھاتے ہیں اور شخصیت پرستی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کا آرگومنٹ صرف اور صرف حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی ذات ہوتا ہے۔ لاحول ولا قوۃ)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا اپنی رائے کے خلاف عمل کرنا
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا ۔ جب حضرت عمر کو ان کے حجرے میں دفنایا گیا تو یہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا ہی تھیں کہ جنہوں نے حضرت عمر کے نا محرم ہونے کی وجہ سے اپنے حجرے میں پردہ لینا شروع کر دیا تھا۔
24480 حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ، قَالَ أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ كُنْتُ أَدْخُلُ بَيْتِي الَّذِي دُفِنَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي فَأَضَعُ ثَوْبِي فَأَقُولُ إِنَّمَا هُوَ زَوْجِي وَأَبِي فَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ مَعَهُمْ فَوَاللَّهِ مَا دَخَلْتُ إِلَّا وَأَنَا مَشْدُودَةٌ عَلَيَّ ثِيَابِي حَيَاءً مِنْ عُمَرَ.
مسند احمد بن حنبل(باب زیارت القبور)
جناب عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا بیان کرتی ہیں کہ میں اپنے حجرے میں داخل ہوتی تھی جس میں رسول ﷺ (دفن) ہیں اور میں اپنا کپڑا (سر سے) اتار دیتی تھی اور کہتی یہاں (صرف) میرے شوہر اور باپ (دفن) ہیں۔ مگر جب عمر ابن خطاب کو ان کے ساتھ دفن کیا گیا تو اللہ کی قسم میں عمر ابن خطاب سے شرم کی وجہ سے جب حجرے میں جاتی ہوں تو میرا تمام لباس میرے جسم پر ہوتا ہے۔
اہلحدیث ویب سائیٹ دین خالص ڈاٹ کام پر اہلحدیث عالم مولانا صادق خلیل کی مشکوۃ کی شرح موجود ہے جس میں انہوں ناصر الدین البانی کی عربی مشکوۃ کی شرح سے مدد سے اردو میں احادیث کی تشریح کی ہے۔ مندرجہ بالا حدیث کو صحیح حدیث بیان کرتے ہوئے اسکی شرح میں لکھتے ہیں:
وضاحت: معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح مسلمان کا احترام اس کی زندگی میں کیا جاتا ہے، فوت ہون کے بعد بھی کیا جائے اور قبرستان کے ماحول میں کسی غیر شرعی حرکت کا ارتکاب نہ کیا جائے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا اور قتادہ کی آراء میں تضاد
حضرت عائشہ کا گمان یہ تھا کہ نہ تو رسول ﷺ نے مردوں سے خطاب کیا تھا، اور نہ ہی مردوں نے رسول ﷺ کا ایک بھی لفظ سنا تھا۔
جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے اس گمان کے بالکل برعکس قتادہ یہ گمان کر رہے ہیں کہ نہ صرف رسول ﷺ نے مردوں سے خطاب فرمایا، بلکہ مردوں نے رسول ﷺ کا ایک ایک لفظ بہترین طریقے سے سنا۔ اور یہ سب اس وجہ سے ممکن ہوا کیونکہ اللہ نے کفار کی روحوں کو ان کے جسموں میں پلٹا کر انہیں زندہ کر دیا تھا۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ منکرین حضرات ان دونوں متضاد بیانات کو ایک ہی وقت میں استعمال کر کے اپنے عقائد کا دفاع کرتے ہیں۔ ان کا یہ طرزِ عمل عقل سے کسقدر دور ہے۔ ان منکرین حضرات کو چاہئے کہ وہ پہلے یہ فیصلہ کریں کہ ان دونوں میں سے صحیح کون ہے اور غلط کون۔ اور صرف یہ فیصلہ کرنے کے بعد ان میں سے کسی ایک کا قول اپنے دفاع کے لیے پیش کریں۔
حافظ ابن حجر العسقلانی، کہ جن کی منکرین حضرات بھی بہت عزت کرتے ہیں ، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا اور قتادہ دونوں کے اقوال کا موازنہ کرتے ہوئے بہت ہی دلچسپ بات لکھتےہیں:
قتادہ نے جب یہ کہا کہ کنویں کے مردوں کو اللہ نے زندہ کیا تھا تو یہ انہوں نے اس لیے کہا تھا تاکہ وہ ان لوگوں کی رائے کو رد کرسکیں جو یہ کہتےتھے کہ مردے نہیں سن سکتے، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی رائے تھی جو کہ اس آیت کی بنیاد پر تھی کہ "اور تم مردوں کو نہیں سنا سکتے " (القران 27:80)
ابن حجر العسقلانی، فتح الباری، جلد 7، صفحہ 384
کیا مزید کچھ گنجائش باقی بچتی ہے کہ ہم ان منکرین حضرات کی علمیت پر کچھ تبصرہ کریں؟
اور یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ قران اور رسولﷺ کی سنت سے ایک بھی ایسا ثبوت نہیں ملتا کہ جس سے ظاہر ہو کہ مردے نہیں سن سکتے۔ اور جب منکرین حضرات کو رسولﷺ کی سنت سے ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ملا، تو اب وہ کوشش کر رہے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا اور قتادہ کی (متضاد) آراء کو استعمال کر کے اپنے عقیدے کا دفاع کریں۔ اور انہوں نے ان دو متضاد آراء پر اپنے عقیدے کی پوری عمارت کھڑی کر لی ہے۔
خود سوچیے کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ان دو متضاد آراء کو قبول کر لیا جائے اور قران کی اُن تمام آیات اور رسول ﷺ کی ان تمام احادیث کو رد کر دیا جائے جو کہ اس معاملے میں واضح ہیں کہ مردے سن سکتے ہیں۔
اور یہ منکرین حضرات کو چیلنج ہے کہ وہ رسول ﷺ کی سنت سے صرف ایک واقعہ ہی ایسا بیان کر دیں جس میں رسول ﷺ نے فرمایا ہو کہ مردے نہیں سن سکتے
منکرین حضرات سوائے ان کچھ قرانی آیات کو توڑنے مروڑنے کے رسول ﷺ سے ایک بھی ایسی واضح حدیث نہیں پیش کر سکتے کہ جس میں رسول ﷺ نے مردوں کی سماعت کا انکار کیا ہو۔
منکرین حضرات کا دعویٰ کہ یہ عقیدہ رکھنا کہ رسول ﷺ فاصلے سے بھی ہماری بات سن سکتے ہیں شرک ہے
نوٹ فرمائیے کہ منکرین حضرات کا یہ دعویٰ قران یا سنت سے نہیں ہے، بلکہ یہ صرف اِن کا گمان ہے۔ اِن حضرات کا کہنا ہے کہ اگر یہ یقین رکھا جائے کہ:
۱) رسول ﷺ اپنی وفات کے بعد بھی ہماری بات سکتے ہیں۔
۲) اور یہ کہ رسول ﷺ دور کے فاصلوں سے بھی ہماری پکار سنتے ہیں۔
تو یہ عقیدہ رکھنا شرک ہے اور رسول ﷺ کو ان صفات کا مالک جاننا ہے جو کہ صرف اللہ کے لیے مخصوص ہیں، کیونکہ یہ صرف اللہ کی ذات ہی ہے جس کے قبضے میں قریب اور دور سے سننے اور دیکھنے کی تمام طاقت ہے۔ اور اگر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ رسول ﷺ بھی قریب اور دور کے فاصلے سے ہمیں سن سکتے ہیں تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ رسول ﷺ بھی اللہ کے ساتھ "سمیع" ہیں، اور یہ شرک ہے۔
ہمارا تبصرہ
یہ پھر منکرین حضرات کی ظاہر پرستی کی بیماری ہے جو وہ اس بات کا گمان کر رہے ہیں۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ "سمیع" کی صفت صرف اور صرف اللہ سے ہی مخصوص ہے، مگر ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اللہ یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی اس صفت سے کچھ حصہ عطا کر دے۔ اور اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایسا کر کے نعوذ باللہ خدا اُس مخلوق کو اس صفت میں اپنا شریک بنا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ صفات مطلق، بلا قید اور بلا مشروط ہیں، جبکہ مخلوقات کو ان صفات کا کچھ حصہ صرف اللہ ہی کا عطا کردہ ہے اور یہ بلا قید اور بلا مشروط نہیں ہے اور ہم ان کا موازنہ کر ہی نہیں سکتے ہیں۔
آئیے قران سے اس معاملے میں مزید رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
اللہ قران میں اپنے لیے فرما رہا ھے کہ وہ کریم ہے۔
فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ
(القران ٢٧:٤٠) ۔۔۔ اور میرا رب بے نیاز اور کریم ہے
لیکن اسی قران میں اللہ اپنے رسول (ﷺ) کے لیے بھی فرما رہا ہے:
إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيم
(القران ٦٩:٤٠) بیشک یہ (قران) ایک کریم رسول کا قول ہے۔
جب ہم اللہ کے لیےکریم استعمال کرتے ہیں تو یہ حقیقی معنوں میں ہوتا ہے جبکہ جب ہم نبیِ کریم کہتے ہیں تو یہ مجازی معنوں میں ہوتا ہے۔ اور اگر ہم اس حقیقی اور مجازی معنوں کے فرق کو ملحوظِ خاطر نہ رکہیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ اللہ اپنی صفت میں دوسرے کو شریک کر کے (معاذ اللہ) خود شرک کر رہا ہے۔
اسی طرح قوی بھی اللہ کی صفت اور نام ہے۔ اللہ قران میں اپنے متعلق فرماتا ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز
(القران ٢٢:٧٤) بیشک اللہ بڑا قوی اور غالب اور زبردست ہے۔
مگر اسی قران میں اللہ تعالیٰ یہ بھی فرما رہا ہے کہ رسول (ﷺ) بھی قوت والا ہے
ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ
(القران ٨١:٢٠) وہ صاحبِ قوت ہے اور صاحبِ عرش کی بارگاہ کا مکین ہے۔
کیا اللہ یہاں یہ کہہ کر شرک کر رہا ہے کہ رسول بھی قوت والا ہے؟ منکرین حضرات کو دعوتِ فکر ہے کہ وہ اپنے رویئے پر نظرِ ثانی فرمائیں۔
رؤوف اور رحیم
یہ دونوں صفات اللہ کی ہیں۔ اللہ قران میں اپنے لیے فرما رہا ہے:
إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
(القران ۲:۱۴۳) بیشک اللہ تو لوگوں کے لیے بہت رؤوف (شفیق) اور رحیم ہے۔
مگر اسی قران میں اللہ اپنے رسول ﷺ کے لیے فرما رہا ہے:
لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
(القران ۹:۱۲۸) لوگو تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں جنہیں تمہاری تکلیف گراں معلوم ہوتی ہے اور تمہاری بھلائی کے خواہش مند ہیں اور مومنوں پر نہایت روؤف (شفیق) اور رحیم ہیں۔
اور در حقیقت قران میں کئی اور مقامات پر اللہ اپنے نیک بندوں کی اسطرح کی عزت افزائی کر رہا ہے کہ انہیں اپنی صفات والے ناموں کے ساتھ یاد کر رہا ہے۔ مثلاً:
عالم: یہ اللہ کی صفت ہے مگر اسمعیل (علیہ السّلام) کو بھی عالم کے نام سے یاد کیا جا رہا ہے۔
حلیم: یہ اللہ کی صفت ہے مگر ابراہیم (علیہ السّلام) اور اسمعیل (علیہ السّلام) کو بھی حلیم کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
شکور: یہ اللہ کی صفت ہے مگر نوح (علیہ السّلام) کو بھی شکور کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
بر: یہ اللہ کی صفت مگر عیسیٰ (علیہ السّلام) اور یحییٰ (علیہ السّلام) کو بھی بر کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
نتیجہ:
اللہ نے اپنی صفات کو اپنے نیک بندوں کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایسا کرنے سے یہ نیک بندے ان صفات میں اللہ کے شریک بن گئے ہیں۔ بیشک یہ ان صفات کے حقیقی معنوں میں مالک نہیں ہیں بلکہ اللہ سبحانھ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے انہیں اپنی ان صفات کا ایک حصہ عطا کیا ہے۔
منکرین حضرات ان قرانی آیات کو محض اپنے ظن اور قیاس کی بنیاد پر رد نہیں کر سکتے۔
جب ہم اللہ کو کریم کہتے ہیں تو یہ حقیقی معنوں میں ہوتا ہے اور جب ہم رسول ﷺ کو کریم کہتے ہیں تو یہ حقیقی معنوں میں نہیں ہوتا ہے بلکہ ہمیں اس کی تاویل مجازی معنوں میں تاویل کرنی پڑتی ہے۔
اور اگر منکرین حضرات اب بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ قران میں مجازی معنوں والی آیات بھی ہیں، تو یقیناً یہ حضرات تمام مسلمانوں کو مشرک بنا دیں گے، بلکہ ان کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کو بھی مشرک بنا دیں گے۔
اللہ ھدائیت عطاء فرمائے آمین : اہل علم کہیں کوئ غلطی پائیں تو ضرور مطلع فرمائیں تاکہ اصلاح کی جا سکے جزاکم اللہ خیرا
262693: قد يقع إحياء الموتى لغير الأنبياء من الصالحين .
السؤال : قال لي أحدهم بأن الصالحين يستطيعون إحياء الموتى وقال لي بأن شيخ الإسلام ابن تيمية قال بذلك وساق لي الأدلة وسأسوقها لكم فهل هذا صحيح بأنهم قادرين على إحياء الموتى ؟؟ وهذه الأدلة التي ساقها لي علما أني لم أتأكد من المراجع لأنها لا تتوفر عندي قال الشيخ تقي الدين ابن تيمية في النبوات (ص/218) : (بخلاف إحياء الموتى، فانه اشترك فيه كثير من الأنبياء بل ومن الصالحين). وقال في النبوات (ص/298): (وقد يكون إحياء الموتى على يد أتباع الأنبياء كما قد وقع لطائفة من هذه الأمة ومن أتباع عيسى، فإن هؤلاء يقولون نحن إنما أحيى الله الموتى على أيدينا لاتباع محمد أو المسيح، فبإيماننا بهم وتصديقنا لهم أحيى الله الموتى على أيدينا، فكان إحياء الموتى مستلزماً لتصديقه عيسى ومحمداً، لم يكن قط مع تكذيبهما فصار آية لنبوتهم). ............. وقال في النبوات (ص/5): (أما الصالحون الذين يَدْعُوْنَ إلى طريق الأنبياء لا يخرجون عنها، فتلك خوارقهم من معجزات الأنبياء، فإنهم يقولون نحن إنما حصل لنا هذا باتباع الأنبياء، ولو لم نتبعهم لم يحصل لنا هذا، فهؤلاء إذا قُدِّرَ أنه جرى على يد أحدهم ما هو من جنس ما جرى للأنبياء كما صارت النار برداً وسلاماً على أبي مسلمٍ كما صارت على إبراهيم، وكما يكثِّرُ الله الطعام والشراب لكثير من الصالحين، كما جرى في بعض المواطن للنبي صلى الله عليه وسلم، أو إحياء الله ميِّتاً لبعض الصالحين كما أحياه للأنبياء، وهي أيضا من معجزاتهم بمنزلة ما تقدمهم من الإرهاص، ومع هذا فالأولياء دون الأنبياء والمرسلين، فلا تبلغ كرامات أحدٍ قط مثل معجزات المرسلين، كما أنهم لا يبلغون في الفضيلة والثواب إلى درجاتهم، ولكنهم قد يشاركونهم في بعضها، كما قد يشاركونهم في بعض أعمالهم). ....
تم النشر بتاريخ: 2017-05-03
الجواب:
الحمد لله
أولا:
إحياء الموتى وقع معجزة لإبراهيم وموسى وعيسى عليهم الصلاة والسلام، كما وقع ما هو أبلغ منه لمحمد صلى الله عليه وسلم.
وقد يقع كرامة لأحد الصالحين، فيكون ذلك مستلزما صدق نبيه صلى الله عليه وسلم لأن الصالح يقول: أنا متبع لهذا النبي الكريم.
وقد يقع إحياء الموتى لبعض الفجرة والكفرة ابتلاء وامتحانا، كما سيقع للدجال آخر الزمان.
قال الله تعالى عن قصة إبراهيم عليه السلام: ( وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ) البقرة/ 260
وجرى إحياء الموتى كرامة لبعض الأولياء ، كما قال تعالى: ( أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ) البقرة/ 243 .
وقال تعالى: (أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّى يُحْيِي هَذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَانْظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ وَانْظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ) البقرة/ 259 .
قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله :
"معلوم أن المسيح نفسه لم تكن له آيات مثل آيات موسى ، فضلا عن الحواريين ، فإن أعظم آيات المسيح عليه السلام إحياء الموتى ، وهذه الآية قد شاركه فيها غيره من الأنبياء كإلياس وغيره .
وأهل الكتاب عندهم في كتبهم : أن غير المسيح أحيا الله على يديه الموتى، وموسى بن عمران : من جملة آياته العصا ، التي انقلبت فصارت ثعبانا مبينا، حتى بلعت الحبال والعصي التي للسحرة، وكان غير مرة يلقيها فتصير ثعبانا ، ثم يمسكها فتعود عصا.
ومعلوم أن هذه آية لم تكن لغيره ، وهي أعظم من إحياء الموتى ، فإن الإنسان كانت فيه الحياة، فإذا عاش فقد عاد إلى مثل حاله الأول ، والله تعالى يحيي الموتى بإقامتهم من قبورهم ، وقد أحيا غير واحد من الموتى في الدنيا.
وأما انقلاب خشبة تصير حيوانا ، ثم تعود خشبة ، مرة بعد مرة ، وتبتلع الحبال والعصي، فهذا أعجب من حياة الميت.
وأيضا : فالله قد أخبر أنه أحيا من الموتى على يد موسى وغيره من أنبياء بني إسرائيل ، أعظم ممن أحياهم على يد المسيح، قال تعالى: (وإذ قلتم يا موسى لن نؤمن لك حتى نرى الله جهرة فأخذتكم الصاعقة وأنتم تنظرون. ثم بعثناكم من بعد موتكم لعلكم تشكرون) [البقرة: 55 - 56]. وقال تعالى: (فقلنا اضربوه ببعضها كذلك يحيي الله الموتى) [البقرة: 73] انتهى من "الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح" (4/17-19) .
وقال رحمه الله في كتاب "النبوات" (2/ 807): " والآيات التي يبعث الله بها أنبياء، قد يكون مثلها لأنبياء أُخَر؛ مثل إحياء الموتى؛ فقد كان لغير واحد من الأنبياء.
وقد يكون إحياء الموتى على يد اتباع الأنبياء؛ كما قد وقع لطائفة من هذه الأمة، ومن أتباع عيسى؛ فإن هؤلاء يقولون: نحن إنّما أحيى الله الموتى على أيدينا؛ [لاتّباع محمد، أو المسيح، فبإيماننا بهم، وتصديقنا لهم أحيى الله الموتى على أيدينا] ، فكان إحياء الموتى مستلزماً [لصدق] عيسى، و[محمّدٍ] ، لم يكن قطّ مع تكذيبهما، فصار آية لنبوّتهم، وهو أيضاً آية لنبوّة موسى، وغيره من أنبياء بني [إسرائيل] الذين أحيي الله الموتى على أيديهم" انتهى.
وقال رحمه الله: " وأما معجزات عيسى، عليه السلام، فمنها إحياء الموتى، وللنبي صلى الله عليه وسلم من ذلك كثير، وإحياء الجماد أبلغ من إحياء الميت، وقد كلم النبي صلى الله عليه وسلم الذراع المسمومة، وهذا الإحياء أبلغ من إحياء الإنسان الميت من وجوه...
قلت: وفي حلول الحياة والإدراك والعقل في الحجر الذي كان يخاطب النبي صلى الله عليه وسلم بالسلام عليه، كما روي في " صحيح مسلم " ، من المعجز : ما هو أبلغ من إحياء الحيوان في الجملة ; لأنه كان محلا للحياة في وقت، بخلاف هذا حيث لا حياة له بالكلية قبل ذلك، وكذلك تسليم الأحجار والمدر عليه، وكذلك الأشجار والأغصان وشهادتها بالرسالة، وحنين الجذع إليه، صلوات الله وسلامه عليه.
قال شيخنا، رحمه الله تعالى: وقد جمع ابن أبي الدنيا كتابا فيمن عاش بعد الموت، وذكر منها كثيرا..." .
وقد ذكر الحافظ ابن كثير رحمه الله تعالى ، بعد ذلك ، كثيراً من القصص عن إحياء الموتى في أمة محمد صلى الله عليه وسلم ، وفي ثبوت كثير منها نظر .
ينظر : البداية والنهاية (9/ 391- 394).
ثانيا:
المعيار في الصلاح والولاية: الاستقامة، لا الكرامة، فقد يكون الأمر الخارق استدراجا، لا كرامة.
قال الشاطبي رحمه الله : " ليس كل ما يظهر على يدي الإنسان من الخوارق بكرامة ، بل منها ما يكون كذلك ، ومنها ما لا يكون كذلك .
وبيان ذلك بالمثال : أن أرباب التصريف بالهمم ، والتقربات بالصناعة الفلكية ، والأحكام النجومية ، قد تصدر عنهم أفاعيل خارقة ، وهي كلها ظلمات بعضها فوق بعض ، ليس لها في الصحة مدخل ...
وإن كان بغير دعاء ، كتسليط الهمم على الأشياء حتى تنفعل ، فذلك غير ثابت النقل ، ولا تجد له أصلا ، بل أصل ذلك : حال حِكْمي ، وتدبير فلسفي لا شرعي ؛ هذا وإن كان الانفعال الخارق حاصلا به ، فليس بدليل على الصحة ، كما أنه قد يتعدى ظاهرا بالقتل والجرح ، بل قد يوصل بالسحر والعين إلى أمثال ذلك ، ولا يكون شاهدا على صحته ؛ بل هو باطل صرف ، وتعد محض ، وهذا الموضع مزلة قدم للعوام ، ولكثير من الخواص" انتهى باختصار من " الموافقات " (2/444-446).
وقال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله:
" تجد كثيرا من هؤلاء عمدتهم في اعتقاد كونه وليا لله : أنه قد صدر عنه مكاشفة في بعض الأمور، أو بعض التصرفات الخارقة للعادة ، مثل أن يشير إلى شخص فيموت ؛ أو يطير في الهواء إلى مكة ، أو غيرها ، أو يمشي على الماء أحيانا ؛ أو يملأ إبريقا من الهواء ؛ أو ينفق بعض الأوقات من الغيب ، أو أن يختفي أحيانا عن أعين الناس ؛ أو أن بعض الناس استغاث به وهو غائب أو ميت فرآه ، قد جاءه فقضى حاجته ؛ أو يخبر الناس بما سرق لهم ؛ أو بحال غائب لهم ، أو مريض ، أو نحو ذلك من الأمور .
وليس في شيء من هذه الأمور ما يدل على أن صاحبها ولي لله . بل قد اتفق أولياء الله على أن الرجل لو طار في الهواء ، أو مشى على الماء ، لم يُغتر به ، حتى يُنظر متابعته لرسول الله صلى الله عليه وسلم ، وموافقته لأمره ونهيه .
وكرامات أولياء الله تعالى : أعظم من هذه الأمور .
وهذه الأمور الخارقة للعادة - وإن كان قد يكون صاحبها وليا لله - فقد يكون عدوا لله ؛ فإن هذه الخوارق تكون لكثير من الكفار والمشركين ، وأهل الكتاب والمنافقين ، وتكون لأهل البدع ، وتكون من الشياطين .
فلا يجوز أن يظن أن كل من كان له شيء من هذه الأمور أنه ولي لله ؛ بل يعتبر أولياء الله بصفاتهم وأفعالهم وأحوالهم التي دل عليها الكتاب والسنة ، ويعرفون بنور الإيمان والقرآن ، وبحقائق الإيمان الباطنة ، وشرائع الإسلام الظاهرة" انتهى باختصار من " مجموع الفتاوى " (11/213) .
وقال الشيخ عبد الرحمن بن سعدي رحمه الله:
" وأما الكرامة فهي ما يجري الله على أيدي أوليائه المؤمنين من خوارق العادات ، كالعلم ، والقدرة ، وغير ذلك ، كالظُّلَّة التي وقعت على أسيد بن الحضير حين قراءته القرآن ، وكإضاءة النور لعباد بن بشر وأسيد بن حضير حين انصرفا من عند النبي صلى الله عليه وسلم ، فلما افترقا ، أضاء لكل واحد منهما طرف سوطه .
وشرط كونها كرامة : أن يكون من جرت على يده هذه الكرامة مستقيمًا على الإيمان ، ومتابعة الشريعة ، فإن كان خلاف ذلك ؛ فالجاري على يده من الخوارق : يكون من الأحوال الشيطانية .
ثم ليعلم أن عدم حصول الكرامة لبعض المسلمين ، لا يدل على نقص إيمانهم ؛ لأن الكرامة إنما تقع لأسباب :
منها : تقوية إيمان العبد وتثبيته ؛ ولهذا لم ير كثير من الصحابة شيئا من الكرامات لقوة إيمانهم وكمال يقينهم .
ومنها : إقامة الحجة على العدو ، كما حصل لخالد لما أكل السم ، وكان قد حاصر حصنا ، فامتنعوا عليه حتى يأكله ، فأكله ، وفتح الحصن .
ومثل ذلك ما جرى لأبي إدريس الخولاني لما ألقاه الأسود العنسي في النار ، فأنجاه الله من ذلك ؛ لحاجته إلى تلك الكرامة .
وكقصة أم أيمن لما خرجت مهاجرة واشتد بها العطش سمعت حساً من فوقها ، فرفعت رأسها، فإذا هي بدلو من ماء ، فشربت منها ثم رفعت .
وقد تكون الكرامة ابتلاء ، فيسعد بها قوم ويشقى بها آخرون ، وقد يسعد بها صاحبها إن شكر ، وقد يهلك إن أعجب ولم يستقم " انتهى من " التنبيهات اللطيفة فيما احتوت عليه الواسطية من المباحث المنيفة " (ص/107) .
والحاصل : أن إحياء الموتى قد يقع لغير الأنبياء، من أتباعهم، كما يقع لبعض الكفرة المردة كالدجال، وأن معيار الصلاح والولاية هو لزوم الاستقامة على الكتاب والسنة.
https://islamqa.info/ar/262693
No comments:
Post a Comment