تین روز یا پانچ روز کی تراویح کا حکم
(جس میں آدابِ قرآن کی رعایت ملحوظ نہ رکھی جائے)
====================
(جس میں آدابِ قرآن کی رعایت ملحوظ نہ رکھی جائے)
====================
محترمی ،مکرمی حضرت مفتی صاحب مدظلہ ․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
امید کہ درج ذیل سوال کا جواب مرحمت فرما کرممنو ن فرمائیں گے ۔
سوال:﴿﴾
ہر شخص بخوبی اس با ت سے واقف ہے کہ رمضان المبارک میں بہت سی جگہوں پر نماز تراویح میں قرآن پاک پور ا ہوتا ہے اور مساجد کے علاوہ گھروں میں، کارخانوں میں اور دیگر بہت سی جگہوں پرتین، پانچ، سات اور نو شب میں پورا کردیا جاتا ہے، اور حفاظ کرام جس تیزی سے پورا کرتے ہیں، اس کو سن کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کلام پاک کا کوئی ادب ملحوظ رکھاجاتا ہے، ایسے تیز روحفاظ کرام عوام میں بھی بے حد مقبول ہوتے ہیں، آں جناب سے معلوم یہ کرنا ہے کہ اگر اس طریقہ سے قرآن کریم پڑھنا اور سننا ممنوع ہے، تو عوام مقتدیوں کو کس طریقہ سے منع کیا جائے اور ان کو سمجھانے کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے ؟نیز آں جناب ممانعت کے اسباب پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالیں۔
ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس سلسلہ میں ایک تفصیلی اور جامع فتوی آپ کے دار الافتاء سے ایسا جاری ہو کہ ماہِ مبارک میں قرآن کریم کی بے ادبی کو حتی الامکان روکا جاسکے اور پورے مہینے مساجد کلامِ الٰہی کے انوار سے آباد ومعمور رہیں اور چند شب میں پورا کرنے کا یہ سلسلہ قطعاً بند ہوسکے
۔فقط محمد اظہر انصاری محلہ قاضی سہارن پور (۱۱۹۷/د ۱۴۲۹ئھ)
امید کہ درج ذیل سوال کا جواب مرحمت فرما کرممنو ن فرمائیں گے ۔
سوال:﴿﴾
ہر شخص بخوبی اس با ت سے واقف ہے کہ رمضان المبارک میں بہت سی جگہوں پر نماز تراویح میں قرآن پاک پور ا ہوتا ہے اور مساجد کے علاوہ گھروں میں، کارخانوں میں اور دیگر بہت سی جگہوں پرتین، پانچ، سات اور نو شب میں پورا کردیا جاتا ہے، اور حفاظ کرام جس تیزی سے پورا کرتے ہیں، اس کو سن کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کلام پاک کا کوئی ادب ملحوظ رکھاجاتا ہے، ایسے تیز روحفاظ کرام عوام میں بھی بے حد مقبول ہوتے ہیں، آں جناب سے معلوم یہ کرنا ہے کہ اگر اس طریقہ سے قرآن کریم پڑھنا اور سننا ممنوع ہے، تو عوام مقتدیوں کو کس طریقہ سے منع کیا جائے اور ان کو سمجھانے کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے ؟نیز آں جناب ممانعت کے اسباب پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالیں۔
ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس سلسلہ میں ایک تفصیلی اور جامع فتوی آپ کے دار الافتاء سے ایسا جاری ہو کہ ماہِ مبارک میں قرآن کریم کی بے ادبی کو حتی الامکان روکا جاسکے اور پورے مہینے مساجد کلامِ الٰہی کے انوار سے آباد ومعمور رہیں اور چند شب میں پورا کرنے کا یہ سلسلہ قطعاً بند ہوسکے
۔فقط محمد اظہر انصاری محلہ قاضی سہارن پور (۱۱۹۷/د ۱۴۲۹ئھ)
الجواب وباللہ التوفیق:
نمازتراویح میں تین چیزیں خاص طور پر قابلِ لحاظ ہیں:
(الف) قرآن شریف کا جو حصہ پڑھاجائے، وہ تصحیح اور ترتیل کے ساتھ پڑھاجائے، ارشاد خداوندی ہے: وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلاً (مزمل:۴)، یعنی (قرآن کو خوب صاف صاف پڑھو،ایک ایک حرف الگ الگ ہو)، لہٰذا ایسی تیز رفتاری سے پڑھنا جس میں حروف کٹ جائیں اور الفاظ کی ادائیگی، صحیح وصاف نہ ہو درست نہیں ہے،
قال في الفتاویٰ الہندیة: ویکرہ الإسراع في القراء ة وفي أداء الأرکان کذا في السراجیة، وکلما رتل فہوحسن کذا في فتاوی قاضي خاں(۱)۔
(ب)
پورے رمضان میں نماز تراویح کے اندر ایک قرآن کا ختم کرنا سنت ہے، جس میں قرآن پڑھنے اور سننے کے آداب کا پور الحاظ رکھنا ضروری ہے، جس کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ ایک رکعت میں ایک رکوع یا دس آیتیں پڑھی جائیں،
قال في الہندیة: ویکرہ أن یعجل ختم القرآن في لیلة إحدی وعشرین أو قبلہا، وحکی أن المشائخ رحمہم اللّہ تعالٰی جعلوا القرآن علی خمس مائة وأربعین رکوعاً واعلموا ذلک في المصاحف حتی یحصل الختم في لیلة السابع والعشرین، وفي غیرہذا البلدکانت المصاحف معلمة بعشرمن الآیات وجعلوا ذٰلک رکوعاً لیقرأ في کل رکعة من التراویح القدر المسنون، کذا في فتاوی قاضی خان(۲)،
وقال الزیلعي: ومنہ من استحب الختم في لیلة السابع والعشرین رجاء أن ینالوا لیلة القدر، لأن الأخبار تظاہرت علیہا، وقال الحسن عن أبي حنیفة: یقرأ في کل رکعة عشر آیات ونحوہا، وہو الصحیح لأن السنة الختم فیہا مرة وہو یحصل بذلک مع التخفیف(۳)،
قال في العالمگیري:وینبغي للإمام إذا أراد الختم أن یختم في لیلة السابع والعشرین کذا فی المحیط (۴)۔
عبارتِ مذکورہ بالا سے معلوم ہوا کہ مقدار مسنون کا خیال کرتے ہوئے، ایک رکعت میں ایک رکوع یا دس آیتیں پڑھی جائیں، اس مقدار کو مشائخ فقہاء نے مستحب قرار دیا ہے اور یہی امام اعظم ابوحنیفہ سے منقول ہے، تاکہ ستائیسویں شب میں قرآن کا ختم ہوجائے، جس سے لیلة القدر کی فضیلت بھی حاصل ہوسکے گی، اور تخفیف وسہولت کی رعایت کے ساتھ ایک قرآن ختم ہوجائے گا، کیوں کہ امام کو نماز میں تخفیف کی ہدایت فرمائی گئی ہے، قرآن سننے میں اگر لوگ کسل مندی کریں اور آداب استماع (غور سے سننے) کی رعایت ملحوظ نہ رکھیں تو مقدار مذکور میں تخفیف بھی کی جا سکتی ہے؛ کیوں کہ قرأت قرآن اور اس کے استماع کے آداب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، کم از کم ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیتیں سورہ فاتحہ کے ساتھ پڑھ کر نماز تراویح اگر ادا کی جائے تو بھی درست ہے کہ لوگ رغبت سے تراویح کی نمازیں ادا کریں او ر مسجد یں غیر آباد نہ ہوں
، قال في الدر المختار: والختم مرة سنة أي قرائة الختم في صلاة التراویح سنة، ومرتین فضیلة، وثلاثا أفضل ولا یترک الختم لکسل القوم لکن في الاختیار الأ فضل في زماننا قدرما لا یثقل علیہم، وأقرہ المصنف وغیرہ، وفي المجتبی عن الإمام لو قرأ ثلا ثاً قصاراً أو آیة طویلة في الفرض، فقد أحسن ولم یسئی فما ظنک بالتراویح؟ وفي فضائل رمضان للزاہدی أفتی أبو الفضل الکرمانی الوبری أنہ إذا قرأ في التراویح الفاتحة وآیة أو آیتین لایکرہ ومن لم یکن عالما بأہل زمانہ، فہو جاہل(۱)، قال في البحر:فالحا صل أن المصحح في المذہب أن الختم سنة لکن لا یلزم منہ عدم ترکہ إذا لزم منہ تنفیر القوم وتعطیل کثیرمن المساجد خصوصا في زماننا، فالظاہر اختیار الأخف علی القوم(۲)،
والمتأخرون کانوا یفتون في ز
ماننا بثلاث آیات قصاراً أو آیة طویلة حتی لا یمل القوم ولا یلز م تعطیل المساجد وہذا أحسن کذا في الزّاہدي (۳)۔
پس معلوم ہوا کہ جس طرح قرآن پڑھنے میں جلد بازی کرنا مکروہ ہے، اسی طرح اتنی مقدار پڑھنا کہ لوگوں کو گرانی ہو اور بے رغبتی سے لوگ سنیں مکروہ ہے۔
(ج)
*تراویح کی بیس رکعت رمضان کے پورے ماہ پڑھنا، جس میں ایک قرآن جو اطمینان کے ساتھ صحیح اور درست پڑھا گیا ہو، لوگ پورا سن لیں ، پھر مہینہ کے باقی دنوں میں مختصر سورتوں کے ساتھ تراویح پڑھتے رہیں یا قرآن سننے کے شوق میں ایک کے بجائے دو تین قرآن بھی دل چسپی اور رغبت کے ساتھ سن لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں؛ بلکہ موجبِ فضیلت وثواب ہے.
،قال في الدر: والختم مرة سنة ومرتین فضیلة وثلاثا أفضل
(۱) لیکن قرآن پوراہونے کے بعد باقی دنوں میں نماز تراویح چھوڑدینا مکروہ اور بڑی فضیلت سے محرومی ہے
،قال في الہندیہ: لو حصل الختم لیلة التاسع عشر أوالحادی والعشرین لا تترک التراویح في بقیة الشہر لأنہا سنة کذا في الجوہرة النیرة،الأصح أنّہ یکرہ لہ الترک کذا في السّراج الوہاج
(۲)۔ اس سے معلوم ہوا کہ رمضان کے بعض دنوں میں تراویح میں ایک قرآن ختم کرلینے سے باقی دنوں کی نماز تراویح ساقط نہیں ہوتی؛ بلکہ تراویح کی سنیت بر قرار رہتی ہے اور اس کا ترک کرنا مکروہ اور فضیلت سے محرومی کا باعث ہے۔
*حاصل یہ کہ تراویح میں ختم قرآن کے لیے یہ چند امور ضروری ہیں جن کا خاص لحاظ رکھنا چاہیے؛
(۱) قرآن صاف صاف پڑھاجائے، اتنی جلدی نہ پڑھا جائے کہ حروف سمجھ میں نہ آئیں،
(۲) سننے والوں کا آدابِ استماع کا خیال رکھنا
(۳) اتنی مقدار پڑھی جائے کہ قوم کسل مند نہ ہو،
(۴) سنانے والے کا معاوضہ نہ لینا،
(۵) حفاظ کو ریا ونمود مقصود نہ ہو نا،
(۶) ختم قرآن ایک مرتبہ کرلینے کی بنا، پر باقی ایام کی تراویح کا تارک نہ بننا،
(۷) تراویح غیر مسجد میں پڑھنے کی صورت میں نماز عشاء مسجد کی جماعت کے ساتھ پڑھی جائے۔
ان امور مذکورہ کی رعایت کرتے ہوئے اگر لوگ رغبت وشوق سے سننے کے لیے تیار ہوں تو ۳/۵/۷/۱۰/۱۵/ دن میں بھی ختم قرآن کرنے میں مضائقہ نہیں ہے ۔
لیکن ۳/۵/۷/دن میں ختم قرآن کا جو رواج شہروں میں پایا جارہا ہے، اس میں بالعموم درج ذیل مفاسد کل یا بعض پائے جاتے ہیں:
(۱) ترتیل وتجوید کو جلدی کی وجہ سے ترک کردیا جاتا ہے، بعض جگہ تو اس قدر پڑھنے میں جلدی کی جاتی ہے کہ حروف سمجھ میں نہیں آتے ،نہ زبر کی خبرنہ زیر کی، نہ غلطی کا خیال، نہ تشابہ کا،
(۲) حفاظ کو عوض مالی کی امید ہونا،
(۳) امام کو تخفیف صلاة کا حکم ہے اس کی مخالفت کا پایا جانا،
(۴) جماعت میں شرکت کرنے والوں کاآدابِ استماع کا ضائع کرنا؛ کوئی بیٹھا ہے ، تو کوئی سو رہا ہے، تو کوئی باتیں کر رہاہے، تو کوئی امام کے رکو ع میں جانے کا منتظر ہے، کوئی ” إذا قاموا إلَی الصّلاة قاموا کسالٰی“ کا مصداق بنا ہوا ہے، لوگوں کا شور وشغب کرنا، اور ان کے آمد ورفت کی چہل پہل مستزاد ہے،
(۵) بہت کم لوگ قرآن سے شغف یا اس کے سننے سے دلچسپی کی وجہ سے شرکت کرتے ہیں ،
(۶) اکثر لوگ رمضان کے باقی دنوں کی تراویح سے چھٹی حاصل کرنے کی غرض سے شریک ہوتے ہیں ،
(۷) تراویح کی معیت میں عشاء کی فرض نماز غیر مسجد میں جماعت سے پڑھنے کے رواج کا عام ہونا،
(۸) اس بنا پر مسجد کی جماعت کا کم ہوجانا،
(۹) ریاء ونمائش کے ساتھ ۳/۵/۷/ دن میں ختم قرآن کا انتظام واعلان کیا جانا، دعوت شیرینی کا اہتمام ہونا،
(۱۰)اس کے لیے باقاعدہ چندہ کیا جانا،اس وقت نوجوانوں میں ا س رسمی مروجہ ختم قرآن کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہاہے، جس کی وجہ سے مسجدوں میں نماز تراویح کے لئے لوگوں کی شرکت کم ہونے لگی ، بھیڑ نمازیوں کی ان جگہوں میں اکٹھا ہوتی ہے، جہاں ۳ / ۵ / ۷ /دنوں میں ختم قرآن کا اہتمام کیا جاتا ہے، پھر ان مسجدوں میں بھی اخیر ماہ مبارک تک تراویح میں اقل قلیل افراد رہ جاتے ہیں، اور ختم قرآن کے بعد باقی دنوں میں کم ہی لوگ تنہا یا جماعت سے نماز تراویح ادا کرنے کی فکر کرتے ہیں۔
لہٰذا مذکورہ بالا قباحتو ں کی وجہ سے اس رجحان کو کم کرنے اور لوگوں کو نماز تراویح، نیزختم قرآن کا اصل حکم بتلانے کی ضرورت ہے؛ تاکہ لوگ مروجہ طریقہ کو ختم کرتے ہوئے تراویح کا اہتمام مسجدوں ہی میں کریں اور قرآن سننے سنانے کا عمل پورے ماہ برقرار رکھیں، تاکہ نمازیوں کی تعداد اخیر عشرہ کی تراویح میں بھی اسی قدر نظر آئے، جتنی کہ آغاز ماہ میں نظر آتی ہے۔
===========================
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ الاحقرزین الاسلام قاسمی# الٰہ آبادی نائب مفتی دار العلوم دیوبند ۲۵/۷/۲۹ھ
الجواب صحیح:
حبیب الرحمن عفا عنہ،
محمد ظفیر الدین غفرلہ،
محمود حسن غفرلہ بلند شہری،
فخر الاسلام عفی عنہ، وقار علی غفرلہ،
حواشی
----------------------------------------------------
(۱-۲) الفتاوی الہندیة،فصل في التراویح:۱/۱۱۸۔
(۳) الدر مع الرد، باب الوتر والنوافل:۲/۴۹۷․
(۴) الفتاوی الہندیة، فصل
في التروایح:۱/۱۱۸․
(۵-۶) الدر مع الرد، باب الوتر والنوافل:۲/۴۹۸․
(۷) الفتاوی الہندیة․،فصل في التراویح:۱/۱۱۸۔
(۸) الدر مع الرد، باب الوتر والنوافل:۲/۴۹۷․
(۹) الفتاوی الہندیة،فصل في التراویح:۱/۱۱۸۔
--------------------------------------
نمازتراویح میں تین چیزیں خاص طور پر قابلِ لحاظ ہیں:
(الف) قرآن شریف کا جو حصہ پڑھاجائے، وہ تصحیح اور ترتیل کے ساتھ پڑھاجائے، ارشاد خداوندی ہے: وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلاً (مزمل:۴)، یعنی (قرآن کو خوب صاف صاف پڑھو،ایک ایک حرف الگ الگ ہو)، لہٰذا ایسی تیز رفتاری سے پڑھنا جس میں حروف کٹ جائیں اور الفاظ کی ادائیگی، صحیح وصاف نہ ہو درست نہیں ہے،
قال في الفتاویٰ الہندیة: ویکرہ الإسراع في القراء ة وفي أداء الأرکان کذا في السراجیة، وکلما رتل فہوحسن کذا في فتاوی قاضي خاں(۱)۔
(ب)
پورے رمضان میں نماز تراویح کے اندر ایک قرآن کا ختم کرنا سنت ہے، جس میں قرآن پڑھنے اور سننے کے آداب کا پور الحاظ رکھنا ضروری ہے، جس کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ ایک رکعت میں ایک رکوع یا دس آیتیں پڑھی جائیں،
قال في الہندیة: ویکرہ أن یعجل ختم القرآن في لیلة إحدی وعشرین أو قبلہا، وحکی أن المشائخ رحمہم اللّہ تعالٰی جعلوا القرآن علی خمس مائة وأربعین رکوعاً واعلموا ذلک في المصاحف حتی یحصل الختم في لیلة السابع والعشرین، وفي غیرہذا البلدکانت المصاحف معلمة بعشرمن الآیات وجعلوا ذٰلک رکوعاً لیقرأ في کل رکعة من التراویح القدر المسنون، کذا في فتاوی قاضی خان(۲)،
وقال الزیلعي: ومنہ من استحب الختم في لیلة السابع والعشرین رجاء أن ینالوا لیلة القدر، لأن الأخبار تظاہرت علیہا، وقال الحسن عن أبي حنیفة: یقرأ في کل رکعة عشر آیات ونحوہا، وہو الصحیح لأن السنة الختم فیہا مرة وہو یحصل بذلک مع التخفیف(۳)،
قال في العالمگیري:وینبغي للإمام إذا أراد الختم أن یختم في لیلة السابع والعشرین کذا فی المحیط (۴)۔
عبارتِ مذکورہ بالا سے معلوم ہوا کہ مقدار مسنون کا خیال کرتے ہوئے، ایک رکعت میں ایک رکوع یا دس آیتیں پڑھی جائیں، اس مقدار کو مشائخ فقہاء نے مستحب قرار دیا ہے اور یہی امام اعظم ابوحنیفہ سے منقول ہے، تاکہ ستائیسویں شب میں قرآن کا ختم ہوجائے، جس سے لیلة القدر کی فضیلت بھی حاصل ہوسکے گی، اور تخفیف وسہولت کی رعایت کے ساتھ ایک قرآن ختم ہوجائے گا، کیوں کہ امام کو نماز میں تخفیف کی ہدایت فرمائی گئی ہے، قرآن سننے میں اگر لوگ کسل مندی کریں اور آداب استماع (غور سے سننے) کی رعایت ملحوظ نہ رکھیں تو مقدار مذکور میں تخفیف بھی کی جا سکتی ہے؛ کیوں کہ قرأت قرآن اور اس کے استماع کے آداب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، کم از کم ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیتیں سورہ فاتحہ کے ساتھ پڑھ کر نماز تراویح اگر ادا کی جائے تو بھی درست ہے کہ لوگ رغبت سے تراویح کی نمازیں ادا کریں او ر مسجد یں غیر آباد نہ ہوں
، قال في الدر المختار: والختم مرة سنة أي قرائة الختم في صلاة التراویح سنة، ومرتین فضیلة، وثلاثا أفضل ولا یترک الختم لکسل القوم لکن في الاختیار الأ فضل في زماننا قدرما لا یثقل علیہم، وأقرہ المصنف وغیرہ، وفي المجتبی عن الإمام لو قرأ ثلا ثاً قصاراً أو آیة طویلة في الفرض، فقد أحسن ولم یسئی فما ظنک بالتراویح؟ وفي فضائل رمضان للزاہدی أفتی أبو الفضل الکرمانی الوبری أنہ إذا قرأ في التراویح الفاتحة وآیة أو آیتین لایکرہ ومن لم یکن عالما بأہل زمانہ، فہو جاہل(۱)، قال في البحر:فالحا صل أن المصحح في المذہب أن الختم سنة لکن لا یلزم منہ عدم ترکہ إذا لزم منہ تنفیر القوم وتعطیل کثیرمن المساجد خصوصا في زماننا، فالظاہر اختیار الأخف علی القوم(۲)،
والمتأخرون کانوا یفتون في ز
ماننا بثلاث آیات قصاراً أو آیة طویلة حتی لا یمل القوم ولا یلز م تعطیل المساجد وہذا أحسن کذا في الزّاہدي (۳)۔
پس معلوم ہوا کہ جس طرح قرآن پڑھنے میں جلد بازی کرنا مکروہ ہے، اسی طرح اتنی مقدار پڑھنا کہ لوگوں کو گرانی ہو اور بے رغبتی سے لوگ سنیں مکروہ ہے۔
(ج)
*تراویح کی بیس رکعت رمضان کے پورے ماہ پڑھنا، جس میں ایک قرآن جو اطمینان کے ساتھ صحیح اور درست پڑھا گیا ہو، لوگ پورا سن لیں ، پھر مہینہ کے باقی دنوں میں مختصر سورتوں کے ساتھ تراویح پڑھتے رہیں یا قرآن سننے کے شوق میں ایک کے بجائے دو تین قرآن بھی دل چسپی اور رغبت کے ساتھ سن لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں؛ بلکہ موجبِ فضیلت وثواب ہے.
،قال في الدر: والختم مرة سنة ومرتین فضیلة وثلاثا أفضل
(۱) لیکن قرآن پوراہونے کے بعد باقی دنوں میں نماز تراویح چھوڑدینا مکروہ اور بڑی فضیلت سے محرومی ہے
،قال في الہندیہ: لو حصل الختم لیلة التاسع عشر أوالحادی والعشرین لا تترک التراویح في بقیة الشہر لأنہا سنة کذا في الجوہرة النیرة،الأصح أنّہ یکرہ لہ الترک کذا في السّراج الوہاج
(۲)۔ اس سے معلوم ہوا کہ رمضان کے بعض دنوں میں تراویح میں ایک قرآن ختم کرلینے سے باقی دنوں کی نماز تراویح ساقط نہیں ہوتی؛ بلکہ تراویح کی سنیت بر قرار رہتی ہے اور اس کا ترک کرنا مکروہ اور فضیلت سے محرومی کا باعث ہے۔
*حاصل یہ کہ تراویح میں ختم قرآن کے لیے یہ چند امور ضروری ہیں جن کا خاص لحاظ رکھنا چاہیے؛
(۱) قرآن صاف صاف پڑھاجائے، اتنی جلدی نہ پڑھا جائے کہ حروف سمجھ میں نہ آئیں،
(۲) سننے والوں کا آدابِ استماع کا خیال رکھنا
(۳) اتنی مقدار پڑھی جائے کہ قوم کسل مند نہ ہو،
(۴) سنانے والے کا معاوضہ نہ لینا،
(۵) حفاظ کو ریا ونمود مقصود نہ ہو نا،
(۶) ختم قرآن ایک مرتبہ کرلینے کی بنا، پر باقی ایام کی تراویح کا تارک نہ بننا،
(۷) تراویح غیر مسجد میں پڑھنے کی صورت میں نماز عشاء مسجد کی جماعت کے ساتھ پڑھی جائے۔
ان امور مذکورہ کی رعایت کرتے ہوئے اگر لوگ رغبت وشوق سے سننے کے لیے تیار ہوں تو ۳/۵/۷/۱۰/۱۵/ دن میں بھی ختم قرآن کرنے میں مضائقہ نہیں ہے ۔
لیکن ۳/۵/۷/دن میں ختم قرآن کا جو رواج شہروں میں پایا جارہا ہے، اس میں بالعموم درج ذیل مفاسد کل یا بعض پائے جاتے ہیں:
(۱) ترتیل وتجوید کو جلدی کی وجہ سے ترک کردیا جاتا ہے، بعض جگہ تو اس قدر پڑھنے میں جلدی کی جاتی ہے کہ حروف سمجھ میں نہیں آتے ،نہ زبر کی خبرنہ زیر کی، نہ غلطی کا خیال، نہ تشابہ کا،
(۲) حفاظ کو عوض مالی کی امید ہونا،
(۳) امام کو تخفیف صلاة کا حکم ہے اس کی مخالفت کا پایا جانا،
(۴) جماعت میں شرکت کرنے والوں کاآدابِ استماع کا ضائع کرنا؛ کوئی بیٹھا ہے ، تو کوئی سو رہا ہے، تو کوئی باتیں کر رہاہے، تو کوئی امام کے رکو ع میں جانے کا منتظر ہے، کوئی ” إذا قاموا إلَی الصّلاة قاموا کسالٰی“ کا مصداق بنا ہوا ہے، لوگوں کا شور وشغب کرنا، اور ان کے آمد ورفت کی چہل پہل مستزاد ہے،
(۵) بہت کم لوگ قرآن سے شغف یا اس کے سننے سے دلچسپی کی وجہ سے شرکت کرتے ہیں ،
(۶) اکثر لوگ رمضان کے باقی دنوں کی تراویح سے چھٹی حاصل کرنے کی غرض سے شریک ہوتے ہیں ،
(۷) تراویح کی معیت میں عشاء کی فرض نماز غیر مسجد میں جماعت سے پڑھنے کے رواج کا عام ہونا،
(۸) اس بنا پر مسجد کی جماعت کا کم ہوجانا،
(۹) ریاء ونمائش کے ساتھ ۳/۵/۷/ دن میں ختم قرآن کا انتظام واعلان کیا جانا، دعوت شیرینی کا اہتمام ہونا،
(۱۰)اس کے لیے باقاعدہ چندہ کیا جانا،اس وقت نوجوانوں میں ا س رسمی مروجہ ختم قرآن کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہاہے، جس کی وجہ سے مسجدوں میں نماز تراویح کے لئے لوگوں کی شرکت کم ہونے لگی ، بھیڑ نمازیوں کی ان جگہوں میں اکٹھا ہوتی ہے، جہاں ۳ / ۵ / ۷ /دنوں میں ختم قرآن کا اہتمام کیا جاتا ہے، پھر ان مسجدوں میں بھی اخیر ماہ مبارک تک تراویح میں اقل قلیل افراد رہ جاتے ہیں، اور ختم قرآن کے بعد باقی دنوں میں کم ہی لوگ تنہا یا جماعت سے نماز تراویح ادا کرنے کی فکر کرتے ہیں۔
لہٰذا مذکورہ بالا قباحتو ں کی وجہ سے اس رجحان کو کم کرنے اور لوگوں کو نماز تراویح، نیزختم قرآن کا اصل حکم بتلانے کی ضرورت ہے؛ تاکہ لوگ مروجہ طریقہ کو ختم کرتے ہوئے تراویح کا اہتمام مسجدوں ہی میں کریں اور قرآن سننے سنانے کا عمل پورے ماہ برقرار رکھیں، تاکہ نمازیوں کی تعداد اخیر عشرہ کی تراویح میں بھی اسی قدر نظر آئے، جتنی کہ آغاز ماہ میں نظر آتی ہے۔
===========================
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ الاحقرزین الاسلام قاسمی# الٰہ آبادی نائب مفتی دار العلوم دیوبند ۲۵/۷/۲۹ھ
الجواب صحیح:
حبیب الرحمن عفا عنہ،
محمد ظفیر الدین غفرلہ،
محمود حسن غفرلہ بلند شہری،
فخر الاسلام عفی عنہ، وقار علی غفرلہ،
حواشی
----------------------------------------------------
(۱-۲) الفتاوی الہندیة،فصل في التراویح:۱/۱۱۸۔
(۳) الدر مع الرد، باب الوتر والنوافل:۲/۴۹۷․
(۴) الفتاوی الہندیة، فصل
في التروایح:۱/۱۱۸․
(۵-۶) الدر مع الرد، باب الوتر والنوافل:۲/۴۹۸․
(۷) الفتاوی الہندیة․،فصل في التراویح:۱/۱۱۸۔
(۸) الدر مع الرد، باب الوتر والنوافل:۲/۴۹۷․
(۹) الفتاوی الہندیة،فصل في التراویح:۱/۱۱۸۔
--------------------------------------
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
No comments:
Post a Comment