Sunday, 20 May 2018

وتر کی نماز کے احکام

وتر کی نماز کے احکام
وتر کی نماز ایک سلام سے پڑھنے سے متعلق احادیث
سوال ]۳۰۲۱[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: کہ وتر کی نماز تین رکعت ایک سلام سے پڑھنے کے بارے میں روایات درکار ہیں، کم از کم تین روایات ضرور نقل فرما دیں، نوازش ہوگی۔
المستفتی: محمد سلیم قاسمی، مدرسہ حبیبیہ اصالت پورہ، مرادآباد
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: 
وتر میں دو رکعت پر سلام پھیرنے کی روایات بھی کتب ِحدیث میں موجود ہیں اور دو رکعت پر سلام نہ پھیر کر آخر میں تین رکعت پر سلام پھیرنے کی روایات بھی ہیں۔ حضرت امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ نے تین رکعت پر سلام پھیرنے والی روایات کو زیادہ راجح سمجھا اور تین رکعت پر سلام پھیرنے سے متعلق احادیث شریفہ کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے، ان میں سے یہ چند روایات پیش کرتے ہیں، جن میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ رضی اﷲ عنہم کا عمل ثابت ہے۔ ملاحظہ ہو:
(۱) حدثنا أبوبکر بن إسحاق، أنبأ الحسن بن علي بن زیاد، ثنا إبراہیم بن موسیٰ، ثنا عیسی بن یونس، ثنا سعید بن أبي عروبۃ، عن قتادۃ، عن زرارۃ بن أوفی عن سعد بن ہشام، عن عائشۃ -رضي اﷲ عنہا- قالت: کان رسول اﷲ ﷺ لا یسلم في الرکعتین الأولین من الوتر، ہذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین، ولم یخرجاہ، ولہ شواہد۔ (المستدرک للحاکم، کتاب الوتر، قدیم ۱/ ۴۴۶-۴۴۷، مکتبہ نزار مصطفی الباز ۲/ ۴۴۱، رقم: ۱۱۳۹، مصنف ابن أبي شیبۃ، کتاب الصلاۃ، باب من کان یوتر بثلاث، أو أکثر، قدیم ۲/ ۲۹۵، مؤسسۃ علوم القرآن جدید ۴/ ۴۹۴۹، رقم: ۶۹۱۲، سنن النسائي، الصلاۃ، باب کیف الوتر بثلاث، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۱۹۱، دارالسلام، رقم: ۱۶۹۹، السنن الکبری للنسائي، الصلاۃ، کیف الوتر بثلاث؟ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۴۴۰، رقم: ۱۴۰۰، المعجم الصغیر للطبراني ۲/ ۱۸۰، رقم: ۹۹۰، سنن الدارقطني، کتاب الوتر، دارالکتب العلمیۃ، بیروت ۲/ ۲۳، رقم: ۱۶۴۹، مؤطا محمد ۱/ ۱۵۰-۱۵۱)
(۲) أخبرنا یحیی بن موسیٰ قال: أخبرنا عبدالعزیز بن خالد، قال: حدثنا سعید بن أبي عروبۃ عن قتادۃ، عن عزرۃ، عن سعید بن عبدالرحمن بن أبزي، عن أبیہ، عن أبي بن کعب -رضي اﷲ عنہ- قال: کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یقرأ في الوتر بسبح اسم ربک الأعلی، وفي الرکعۃ الثانیۃ بقل یا أیہا الکافرون، وفي الثالثۃ بقل ہو اﷲ أحد، ولا یسلم إلا في آخرہن۔ (نسائي، الصلاۃ، باب کیف الوتر بثلاث؟ النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۱۹۱، دارالسلام، رقم: ۱۷۰۲، السنن الکبری للنسائي، الصلاۃ، کیف الوتر بثلاث، دارالکتب العلمیۃ، بیروت ۱/ ۱۷۲، رقم: ۴۴۶، عمل الیوم واللیلۃ لابن السني، باب ما یقول إذا فرغ منوترہ، مؤسسۃ علوم القرآن ۱/ ۶۴۶، رقم: ۷۰۶)
(۳) حدثنا ابن أبي داؤد، قال: حدثنا یحیی بن سلیمان الجعفي، قال: أخبرنا ابن وہب، قال: أخبرني عمرو بن أبي ہلال عن ابن السباق عن المسور بن مخرمۃ، قال: دفنا أبا بکر لیلا، فقال عمر: إني لم أوتر، فقام وصففنا وراء ہ، فصلی بنا ثلاث رکعات لم یسلم إلا في آخرہن۔ (طحاوي، کتاب الصلاۃ، باب الوتر رکعۃ من آخر اللیل ۱/ ۱۷۳، مطبوعہ مکتبہ رحیمیہ دیوبند، دارالکتب العلمیۃ، بیروت ۱/ ۳۸۲، رقم: ۱۷۰۵)
(۴) حدثنا ابن مرزوق، قال: حدثنا عفان، قال: حدثنا حماد بن سلمۃ، قال: حدثنا ثابت، قال: صلی بي أنس الوتر أنا عن یمینہ، وأم ولدہ خلفہ ثلاث رکعات لم یسلم إلا في آخرہن۔ (طحاوي، کتاب الصلاۃ، باب الوتر رکعۃ من آخر اللیل، مطوبعہ رحیمیہ دیوبند ۱/ ۱۷۳، دارالکتب العلمیۃ، بیروت ۱/ ۳۸۲، رقم: ۱۷۰۵، مصنف ابن أبي شیبۃ، کتاب الصلاۃ، من کان یوتر بثلاث أو أکثر، قدیم ۲/ ۲۹۴، مؤسسۃ علوم القرآن ۴/ ۴۹۳، رقم: ۶۹۱۰)
(۵) حدثنا حفص بن عمرو عن الحسن، قال: أجمع المسلمون علی أن الوتر ثلاث لا یسلم إلا في آخرہن۔ (مصنف ابن ابي شیبۃ، کتاب الصلاۃ، من کان یوتر بثلاث أو أکثر، قدیم ۲/ ۲۹۴، مؤسسۃ علوم القرآن ، جدید ۴/ ۴۹۲، رقم: ۶۹۰۴) فقط واﷲ سبحانہ
وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اﷲ عنہ
۲۷؍ صفر ۱۴۲۶ھ
(الف فتویٰ نمبر: ۳۷/ ۸۷۳۱)
ناقل نورالحسن پرتاپ گڑھی
.......
وتر ادا کرنے کا حنفی طریقہ کیا ہے؟ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن․
          وتر کے معنی طاق (Odd Number) کے ہیں۔ احادیث نبویہ کی روشنی میں امت مسلمہ متفق ہے کہ ہمیں نمازِ وتر کی خاص پابندی کرنی چاہیے؛ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفروحضر ہمیشہ نمازِ وتر کا اہتمام فرماتے تھے، نیز نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ِوتر پڑھنے کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے حتی کہ فرمایا کہ اگر کوئی شخص وقت پر وتر نہ پڑھ سکے تو وہ بعد میں اس کی قضا کرے۔۔۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کو وتر کی ادائیگی کاحکم ( امر) متعدد مرتبہ دیا ہے، عربی زبان میں امر کا صیغہ عموماً وجوب کے لئے ہوا کرتا ہے۔ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازِ وتر کا زندگی میں ایک مرتبہ بھی چھوڑنا حتی کہ حج کے موقع پر مزدلفہ میں بھی ثابت نہیں ہے، جیساکہ سعودی عرب کے سابق مفتی عام شیخ عبد العزیز بن باز نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا ہے جو انٹرنیٹ کے اس لنک پر پڑھا جاسکتا ہے:
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=157770
          وتر کو واجب یا سنت موٴکدہ اشد التاکید کادرجہ دینے میں زمانہٴ قدیم سے فقہاء وعلماء کے درمیان اختلاف چلا آرہا ہے۔ فقہاء وعلماء کی ایک جماعت نے سنتِ موٴکدہ اشد التاکید کہا ہے؛ جب کہ فقہاء وعلماء کی دوسری جماعت مثلاً شیخ نعمان بن ثابت یعنی امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ) ۸۰ھ -۱۵۰ھ) نے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں واجب قرار دیا ہے، جس کا درجہ فرض سے یقینا کم ہے۔ جن فقہاء وعلماء نے سنت موٴکدہ اشد التاکید کہا ہے، انھوں نے بھی احادیث شریفہ کی روشنی میں یہی فرمایا ہے کہ نماز وتر کا ہمیشہ اہتمام کرنا چاہیے اور وقت پر ادا نہ کرنے پر اس کی قضا کرنی چاہیے۔ شیخ امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ  (۱۶۴ھ۔ ۲۴۱ھ) نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ: جس نے جان بوجھ کر نمازِ وتر کو چھوڑا، وہ برا شخص ہے اور اس کی شہادت قبول نہیں کرنی چاہیے۔ (۱) علامہ ابن تیمیہ  نے بھی نماز ِوتر چھوڑنے والے کی شہادت قبول نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ غرضے کہ عملی اعتبار سے امتِ مسلمہ متفق ہے کہ نماز ِوتر کی ہمیشہ پابندی کرنی چاہیے اور وقت پر ادا نہ کرنے پر اس کی قضا بھی کرنی چاہیے خواہ اس کو جو بھی عنوان دیا جائے۔
نمازِ وتر کی اہمیت وتاکید نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں:
          (۱) عَنْ اَبِی سَعِید الخُدْرِی قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہ صلى الله عليه وسلم : اَوْتِرُوْا قَبْلَ اَنْ تُصْبِحُوا(۲)
          حضرت ابو سعید خدری  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : صبح ہونے سے قبل نماز وتر پڑھو۔
          (۲) عَنْ عَلِی قالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یَا اَہْلَ الْقُرْآنِ اَوْتِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ(۳)
           حضرت علی  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے مسلمانو! وتر پڑھو؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ بھی وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔
          (۳) عَنْ خارجةَ بنِ حذافہ اَنَّہ قَالَ خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ: اِنَّ اللّٰہَ اَمَدَّکُمْ بِصَلَاةٍ ہِیَ خَیْرٌ لَّکُمْ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ․ الوِتْرُ جَعَلَہُ اللّٰہُ لَکُمْ فِیْمَا بَیْنَ صَلاةِ الْعِشَاءِ اِلَی اَن یَّطْلُعَ الْفَجْرُ(۴)
          حضرت خارجہ بن حذافہ  فرماتے ہیں کہ: ایک مرتبہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک نماز عطا فرمائی ہے، وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے،اور وہ وتر کی نماز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نماز تمہارے لیے نماز عشا کے بعد سے صبح ہونے تک مقرر کی ہے․․․․ محدثین نے تحریر کیا ہے کہ سرخ اونٹوں سے بہتر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ: نمازِ وتر دنیا وما فیہا سے بہتر ہے؛ کیونکہ اُس زمانہ میں سرخ اونٹ سب سے زیادہ قیمتی چیز تھی۔
          (۴) عَنْ اَبِی سَعِیدِ الخُدری قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہ صلى الله عليه وسلم : مَنْ نَامَ عَنْ وِتْرِہِ اَوْ نَسِیَہُ فَلْیُصَلِّہِ اِذَا ذَکَرَہ(۵)
          حضرت ابو سعید خدری  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص وتر سے سوتا رہ جائے یا بھول جائے تو جب یاد آئے (یا وہ جاگے) تو اسی وقت پڑھ لے۔
          (۵) عن بریدة قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم یقول: اَلْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ یُوْتِرْ فَلَیْسَ مِنَّا، اَلْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ یُوْتِرْ فَلَیْسَ مِنَّا، اَلْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ یُوْتِرْ فَلَیْسَ مِنَّا(۶)
          حضرت بریدہ اسلمی فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نمازِ وتر حق ہے، جو وتر ادا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ نمازِ وتر حق ہے، جو وتر ادا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ نمازِ وتر حق ہے، جو وتر ادا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں․․․․․․ بعض روایت میں یہ حدیث ”الوتر واجِبٌ“ کے لفظ سے مروی ہے۔
          جن حضرات نے وتر کو واجب قرار نہیں دیا ہے، حسب معمول انہوں نے اس حدیث کو ضعیف قرار دینے کی کوشش کی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض محدثین نے اِس حدیث کی سند میں آئے ایک راوی (ابو منیب عبد اللہ بن عبد اللہ العتکی) کو ضعیف قرار دیا ہے ؛جب کہ محدثین کی دوسری جماعت مثلاً امام یحییٰ بن معین (۱۵۸ھ ۲۳۳ھ) انھیں ثقہ کہتے ہیں، امام حاکم نے اِس حدیث کو صحیح علی شرط الشیخین قرار دیا ہے۔ امام داوٴد نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد اس پر خاموشی اختیار کی ہے، جو اُن کے نزدیک حدیث کے صحیح یا کم از کم حسن ہونے کے دلیل ہوتی ہے۔(۷)
نمازِ وتر کا وقت:
          نمازِ وتر کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے صبح ہونے تک رہتا ہے، جیساکہ حدیث نمبر (۱ و ۳) میں مذکور ہے۔ بعض علماء نے نماز فجر کی ادائیگی تک نماز وتر کا وقت تحریر کیا ہے؛ مگر جمہور علماء کے نزدیک صبح ہونے کے بعد وتر ادا نہ کیے جائیں؛ بلکہ طلوعِ آفتاب کے بعد نمازِ وتر کی قضا کی جائے؛ کیونکہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ صبح ہونے کے بعد سے طلوع آفتاب تک صرف دو رکعت سنت موٴکدہ اور دو رکعت فرض ادا کی جائیں۔ جیساکہ جلیل القدر تابعی شیخ سعید بن المسیب  کا فتویٰ ہے، جو امام بیہقی نے اپنی کتاب "سنن البیہقی الکبریٰ حدیث ۴۲۳۴ باب من لم یصل بعد الفجر الاّ رکعتی الفجر ثم بَادَرَ بِالفَرْضِ" میں صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ شیخ سعید بن المسیب  نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ صبح ہونے کے بعد دو رکعت سے زیادہ نماز پڑھتا ہے اور اِس نماز میں خوب رکوع وسجدے کرتا ہے تو شیخ سعید بن المسیب  نے اسے اِس کام سے منع کیا۔ اس شخص نے کہا کہ کیا اللہ مجھے نماز پر عذاب دے گا؟ تو شیخ سعید بن المسیب  نے جواب دیا : نہیں، لیکن تمہیں سنت کی خلاف ورزی پر عذاب دے گا۔۔
          شیخ عبد العزیز بن باز کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ جو شخص صبح ہونے تک وتر نہ پڑھ سکے تو وہ طلوعِ آفتاب کے بعد پڑھے۔(۸)
نماز وتر کے لیے افضل وقت:
          رات کے آخری حصہ میں نمازِ تہجد پڑھ کر نماز ِوتر کی ادائیگی افضل ہے، نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقل معمول بھی یہی تھا؛ البتہ وہ حضرات جو رات کے آخری حصہ میں نمازِ تہجد اور نمازِ وتر کا اہتمام نہیں کرسکتے ہیں تو وہ سونے سے قبل ہی وتر ادا کرلیں ۔
          (۶) حضرت جابر  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کو خوف ہے کہ وہ آخری رات میں اٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتاہے تو وہ رات کے شروع حصہ میں ہی وتر ادا کرلے؛ البتہ جس کو رغبت ہے کہ وہ رات کے آخری حصہ میں نماز وتر ادا کرے تواُسے ایسا ہی کرنا چاہیے؛ کیونکہ رات کے آخری حصہ میں ادا کی گئی نماز کے وقت فرشتے حاضر رہتے ہیں اور یہی افضل ہے۔(۹)
          (۷) حضرت ابوہریرہ  سے روایت ہے کہ میرے خلیل نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تین باتوں کی وصیت کی ہے․․․․․جن میں سے ایک ․․․․․سونے سے قبل وتر کی ادائیگی ہے۔ میں انھیں مرتے دم تک نہیں چھوڑوں گا۔(۱۰)
وتر چھوٹ جائے تو قضا کریں:
          نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں تمام فقہاء وعلماء نمازِ وتر کی قضا کی مشروعیت پر تو متفق ہیں( جیساکہ سعودی عرب کے بڑے علماء کی کونسل "اللَّجنةُ الدائمةُ لِلْبُحُوثِ العِلْمِیَّة والافتاء" نے فتویٰ نمبر ۱۱۲۷۱میں تحریر کیا ہے)، لیکن قضا کے وقت میں ان کی آراء مختلف ہیں، اگرچہ تقریباً تمام ہی فقہاء وعلماء طلوعِ آفتاب سے زوالِ آفتاب تک کے وقت کو نماز وتر کی قضا کا بہترین وقت قرار دیتے ہیں۔
          (۸) حضرت ابو سعید خدری  کی حدیث (نمبر۴) گزرچکی ہے۔ سنن بیہقی میں یہ حدیث قدرے وضاحت کے ساتھ وارد ہوئی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص وتر پڑھے بغیر سوگیا، وہ صبح کو پڑھے اور جو بھول گیا وہ یاد آنے پر پڑھے۔(۱۱)
          (۹) امام مالک  فرماتے ہیں کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ، حضرت عبادہ بن صامت  وغیرہ صحابہٴ کرام نے فجر کے بعد وتر پڑھے (یعنی بروقت نہ پڑھ سکے تو بعد میں بطور قضا پڑھے)(۱۲)
          وضاحت: جوحضرات رات کے آخری حصہ میں نمازِ وترکا اہتمام کرتے ہیں تو کبھی کبھی بشری تقاضے کی وجہ سے وہ نمازِ وتر وقت پر ادا نہیں کرپاتے ہیں۔
          (۱۰) حضرت عمر فاروق  سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ … کو فرماتے ہوئے سنا: جس شخص کا رات کا کوئی معمول سونے کی وجہ سے رہ جائے اور وہ فجر کے بعد ظہر سے قبل ادا کرلے تو اس کے لیے ایسا ہی ہے، جیساکہ اس نے اس کو معمول کے مطابق ادا کیا۔(۱۳)
وتر کی تعداد رکعت:
          نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد طریقوں سے یہ وتر ادا کیے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ طریقے آج تک امت مسلمہ میں زندہ رکھے ہیں، مندرجہ ذیل دو طریقے امت مسلمہ میں زیادہ رائج ہیں:
          (۱) وترکی ۳ رکعت اس طرح ادا کی جائیں کہ ۲ رکعت پر سلام پھیر دیا جائے اور پھر ایک رکعت ادا کی جائے، یعنی ۳ رکعت دو تشہد اور ۲ سلام کے ساتھ۔
           نوٹ: کچھ حضرات نے سہولت پر عمل کرنے کاکچھ زیادہ ہی مزاج بنالیا ہے؛ چنانچہ وہ صرف ایک ہی رکعت وتر ادا کرلیتے ہیں، صرف ایک رکعت وتر ادا کرنے سے بچنا چاہیے؛کیونکہ فقہاء وعلماء کی ایک جماعت کی رائے میں ایسا کرنا صحیح نہیں ہے۔
          (۲) ایک سلام اور دو قاعدوں کے ساتھ نمازِ مغرب کی طرح وتر کی تین رکعت ادا کی جائیں۔
          اِن مذکورہ دونوں شکلوں میں وتر کی ادائیگی صحیح ہے؛البتہ فقہاء وعلماء کرام نے اپنے اپنے نقطئہ نظر سے وتر کی کسی ایک شکل کو راجح قرار دیا ہے، مثلاً سعودی عرب کے علماء نے پہلی صورت کو راجح قرار دیا ہے ؛ جب کہ دیگر فقہاء وعلماء مثلاً شیخ نعمان بن ثابت یعنی امام ابوحنیفہ ( ۸۰ھ -۱۵۰ھ) نے دوسری شکل کو مندرجہ ذیل احادیث شریفہ کی روشنی میں راجح قرار دیا ہے:
وتر کی تین رکعت:
          (۱۱) حضرت عائشہ نے فرمایاکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں ۱۱/ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ۴/ رکعت پڑھتے تھے، ان کے حسن اور لمبائی کے بارے میں کچھ نہ پوچھو۔ پھر آپ ۴/ رکعت پڑھتے تھے، ان کے حسن اور لمبائی کے بارے میں کچھ نہ پوچھو۔ پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔(۱۴) یہ حدیث، حدیث کی ہر مشہور کتاب میں موجود ہے ،اس حدیث میں تین رکعت وتر کا ذکر ہے۔
          (۱۲) حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں سورہٴ فاتحہ اور ”سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأعْلیٰ“، دوسری رکعت میں ”قُل یَا أیُّہَا الکَافِرُون“ اور تیسری رکعت میں ”قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أحَد“ پڑھتے تھے ۔(۱۵)
          (۱۳) حضرت عبداللہ بن عباس  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مبارکہ یہ تھی کہ وہ رات میں تہجد کی ۸/ رکعت پڑھتے، پھر تین وتر پڑھتے اور فجر کی نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے۔(۱۶)
          ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نمازِ وتر تین رکعت ہے،نیز تین رکعت وتر کے جواز پر تمام علماء امت کا اجماع ہے، امام ترمذی  فرماتے ہیں کہ جمہور صحابہٴ کرام کو بھی تین وتر پسند تھے۔ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر صحابہٴ کرام اور بعد میں آنے والے جمہور اہل علم کا پسندیدہ عمل بھی یہی ہے کہ وتر کی پہلی رکعت میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأعْلیٰ، دوسری رکعت میں سورہٴ الکافرون اور تیسری رکعت میں سورہٴ اخلاص پڑھی جائے ۔(۱۷) ایک رکعت وتر پڑھنے میں علماء امت کا اختلاف ہے، بعض کے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے، لہٰذا قوتِ دلائل کے ساتھ ساتھ احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وتر میں تین رکعت ہی پڑھی جائیں۔
ایک سلام ودوتشہد کے ساتھ تین رکعت وتر:
          (۱۴) حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی دو رکعت پر سلام نہیں پھیرتے تھے۔(۱۸)

          (۱۵) حضرت ابی بن کعب  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں ”سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأعْلیٰ“، دوسری رکعت میں "قُل یَا أیُّہا الکافرون" اور تیسری رکعت میں "قل ہُوَ اللّٰہُ أحَد" پڑھتے تھے اور تیسری رکعت کے اختتام پر سلام پھیرتے تھے۔(۱۹)
          (۱۶) حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کے بعد گھر میں تشریف لاتے تھے، پھر دو رکعت پڑھتے تھے، پھرمزید دو رکعت پہلی دو نوں رکعتوں سے لمبی پڑھتے تھے، پھر تین رکعت وتر پڑھتے تھے اور درمیان میں (سلام کے ذریعہ) فصل نہیں کرتے تھے (یعنی یہ تینوں رکعت ایک ہی سلام سے پڑھتے تھے(۲۰)
          (۱۷) حضرت عبد اللہ بن عمر  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مغرب کی نماز، دن کی وتر ہے ، پس رات میں بھی وتر پڑھو۔(۲۱)
          (۱۸) حضرت عبد اللہ بن مسعود  فرماتے ہیں کہ رات کے وتر میں دن کے وتر یعنی نمازِ مغرب کی طرح تین رکعت ہیں۔(۲۲)
          (۱۹) حضرت حسن بصری  فرماتے ہیں کہ صحابی رسول  صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابی بن کعب  تین رکعت وتر پڑھتے تھے اور مغرب کی نماز کی طرح تیسری رکعت میں سلام پھیرتے تھے ۔(۲۳)
          (۲۰) حضرت حسن بصری  فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ وتر کی تین رکعت ہیں اور آخر میں ہی سلام پھیرا جائے۔(۲۴)
          (۲۱) صحابی رسول  صلی اللہ علیہ وسلم حضرت انس نے تین رکعت وتر پڑھی اور صرف آخری رکعت میں سلام پھیرا۔(۲۵)
          ﴿وضاحت﴾: ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ وتر کی تین رکعتیں ایک سلام سے ہیں، رہا دوسری رکعت کے بعد قاعدہ کرنے کا ثبوت تو ایک صحیح حدیث بھی ایسی نہیں ملتی، جس میں یہ ذکر ہو کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر ایک سلام سے پڑھتے تھے اور دوسری رکعت کے بعد قاعدہ کرنے سے منع کرتے تھے۔ اس کے برعکس متعدد ایسی احادیث ملتی ہیں جن میں آپ  صلی اللہ  علیہ وسلم نے دن رات کی ہر نماز میں ہر دوسری رکعت پر قاعدہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ وتر کا اس عموم سے مستثنیٰ ہونا کسی ایک حدیث میں نہیں ملتا، اگر ایسا ہوتا تو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بیان فرماتے اور صحابہٴ کرام اہتمام سے امت تک پہنچاتے۔
          بعض حضرات نے دار قطنی اور بیہقی میں وارد حضرت ابوہریرہ کی حدیث کے صرف ایک حصہ (وَلاَ تَشَبَّہُوا بِصَلاَةِ الْمَغْرِب) کو ذکر کرکے تحریر کردیا کہ نبی اکرم  صلی اللہ  علیہ وسلم نے ایک سلام اور دو تشہد کے ذریعہ نماز ِ وتر پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
          حدیث کے صرف ایک حصہ کو ذکر کرکے کوئی فیصلہ کرنا ایسا ہی ہوگا، جیسے کہ کوئی کہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور دلیل کے طور پر پیش کرے (وَلاَ تَقْرَبُوا الصَّلاة۔۔۔ )۔
          دار قطنی اور بیہقی میں وارد اس حدیث کے مکمل الفاظ اس طرح ہیں (لَا تُوتِرُوْا بِثَلاثٍ، اَوْتِرُوا بِخَمْسٍ اَوْ سَبْع وَلا تَشَبَّہُوا بِصَلاةِ الْمَغْرِب) ۔ اگر اس حدیث کا تعلق صرف وتر سے ہے تو اس کے معنی ہوں گے کہ مغرب کی طرح تین وتر نہ پڑھو؛ بلکہ پانچ یا سات پڑھو، جس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ یقینا اس کا دوسرا مفہوم ہے۔ ممکن ہے کہ اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہو، یعنی جب تم نماز تہجد اور اس کے بعد وتر پڑھنا چاہو تو کم از کم ۵یا ۷رکعت پڑھو۔
          اور اگر یہ تسلیم کربھی لیا جائے کہ نبی اکرم … نے نمازِ وتر میں مغرب سے مشابہت سے منع فرمایا ہے، تو کس بنیاد پر ہم یہ کہیں گے کہ اِس سے مراد یہ ہے کہ دوسری رکعت میں قاعدہ نہ کیا جائے۔ کل قیامت تک بھی کوئی شخص نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے دار قطنی اور بیہقی میں وارد اِس حدیث کا یہ مفہوم ثابت نہیں کرسکتاہے۔ اس کے یہ مطلب بھی تو ہوسکتے ہیں:
          (۱) نماز وتر کو مغرب کی طرح نہ پڑھو یعنی وتر کی تیسری رکعت میں بھی سورہٴ فاتحہ کے بعد کوئی سورت ملاوٴ؛ تاکہ مغرب اور وتر میں فرق ہوجائے۔
          (۲) نماز وتر کو مغرب کی طرح نہ پڑھو یعنی وتر میں دعائے قنوت بھی پڑھو؛ تاکہ مغرب اور وتر میں فرق ہوجائے۔
          غرضے کہ اِس حدیث کی بنیاد پر یہ کہنا کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کی تین رکعت ایک سلام سے پڑھنے پر وتر کی دوسری رکعت میں قاعدہ کرنے سے منع فرمایا ہے، صحیح نہیں ہے؛کیونکہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں حدیث کا یہ مفہوم مذکور نہیں ہے۔ ہاں کسی عالم یا فقیہ کی اپنی رائے ہوسکتی ہے جو غلطی کا احتمال رکھتی ہے، جس پر عمل کرنا ہمارے لیے ضروری نہیں ہے۔ فقہاء وعلماء کی دوسری جماعت مثلاً امام ابوحنیفہ کی رائے یہ ہے کہ اِس حدیث سے یہ مفہوم لینا صحیح نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے مختلف فیہ مسائل میں وسعت سے کام لینا چاہیے، امام ابوحنیفہ  کی رائے کو قرآن وسنت کے خلاف قرار دینے کی ناکام کوشش نہیں کرنی چاہیے!
          اس موقع کو غنیمت سمجھ کر یہ بات واضح کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ اِن دنوں بعض حضرات امام ابوحنیفہ  ( جنہیں تقریباً سات صحابہٴ کرام کے دیدار کا شرف حاصل ہے) کی قرآن وسنت کی روشنی میں بعض آراء ( اگر وہ اُن کے علماء کی رائے سے مختلف ہوتی ہے) کو قرآن وسنت کے خلاف بتاتے ہیں اور ایسا تاثر پیش کرتے ہیں کہ جو انہوں نے ۱۴۰۰ سال کے بعد قرآن وسنت کو سمجھا ہے، وہی صحیح ہے، صحابہٴ کرام اور بڑے بڑے تابعین کی صحبت سے مستفید ہونے والے حضرت امام ابوحنیفہ  نے قرآن وسنت کے خلاف فیصلہ فرمایا ہے اور اُن کی رائے پر اس طرح لعن وطعن شروع کردیتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہ  نے یہ رائے گیتا، رامائن اور بائیبل سے اخذ کی ہے، نعوذ باللہ․․․․․ اگر کسی مسئلہ میں امام ابوحنیفہ  کی رائے کی دلیل ترمذی جیسی مستندکتاب میں وارد نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا عمل پر مشتمل ہوتی ہے، تو بخاری ومسلم کی حدیث کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔۔ ایک سلام اور دو تشہد سے وتر کی تین رکعت کو غلط قرار دینے کے لیے صحیحین ہی نہیں؛ بلکہ صحاح ستہ سے بھی باہر نکل کر دار قطنی اور بیہقی کی اُس روایت کو بنیاد بنایا جارہا ہے، جس کے متعدد مفہوم ہوسکتے ہیں۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
دعائے قنوت کا وقت:
          دعائے قنوت خواہ رکوع سے قبل یا رکوع کے بعد پڑھی جائے، دونوں شکلوں میں نماز ادا ہوجائے گی؛ البتہ افضل وقت کے متعلق فقہاء وعلماء کے درمیان اختلاف ہے۔ صحابیِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبد اللہ بن مسعود  کی رائے یہ ہے کہ دعائے قنوت پورے سال رکوع سے قبل پڑھی جائے۔(۲۶) شیخ امام ابوحنیفہ ، شیخ امام سفیان ثوری  ، شیخ امام اسحاق  اور شیخ امام ابن مبارک  جیسے جلیل القدر فقہاء نے متعدد احادیث کی بناء پر اسی قول کو اختیار کیا ہے۔ اس کی دلیل میں اختصار کی وجہ سے صرف دو حدیثیں ذکر کررہا ہوں:
          (۲۲) حضرت عاصم  کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک  سے قنوت کے متعلق سوال کیا ؟ حضرت انس  نے فرمایا : قنوت ثابت ہے۔ میں نے عرض کیا : رکوع سے قبل یا بعد؟ حضرت انس  نے فرمایا : رکوع سے قبل۔ میں نے کہا کہ فلاں نے مجھے آپ کی بابت بتایا ہے کہ آپ نے رکوع کے بعد پڑھی ہے؟ حضرت انس  نے فرمایا : اس نے جھوٹ کہا ہے۔ رکوع کے بعد تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک ماہ دعاء قنوت پڑھی ہے۔(۲۷)
          بخاری شریف کی سب سے زیادہ مشہور شرح لکھنے والے علامہ ابن حجر  فرماتے ہیں کہ حضرت انس  کی تمام روایات کو پیش نظر رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب دعا قنوت کسی خاص وجہ سے (دعا وغیرہ کے لیے) پڑھی جائے تو بالاتفاق وہ رکوع کے بعد ہے اور جو قنوت عام حالات میں پڑھی جائے تو حضرت انس  سے صحیح طور پر یہی ثابت ہے کہ وہ رکوع سے پہلے ہے۔(۲۸)
          (۲۳) حضرت ابی بن کعب  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں رکوع سے پہلے قنوت پڑھتے تھے۔(۲۹)
دعائے قنوت سے قبل رفعِ یدین:
          (۲۴) حضرت اسود حضرت عبد اللہ بن مسعود  سے روایت کرتے ہیں کہ وہ وتر کی آخری رکعت میں ”قل ہو اللہ احد“ پڑھتے، پھر دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اور اس کے بعد رکوع سے پہلے دعاء قنوت پڑھتے تھے۔(۳۰)
دعائے قنوت:
          جودعائے قنوت عموماً ہم پڑھتے ہیں (اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَغْفِرُکُ وَنُوٴمِنُ بِکَ ۔۔ ۔۔۔۔)، وہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ تفصیلات کے لیے دیکھیں:(۳۱)
خلاصہٴ کلام:
          فرض نمازوں کے ساتھ ہمیں نماز وتر کا خاص اہتمام کرنا چاہیے جیساکہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں ذکر کیا گیا ہے۔ نیز سنن ونوافل کا بھی اہتمام کرنا چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہوجائے، جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ بندہ نوافل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے قریب ہوتا جاتا ہے۔ نیز اگر خدانخواستہ قیامت کے دن فرض نمازوں میں کچھ کمی نکلے تو سنن ونوافل سے اس کی تکمیل کردی جائے، جیساکہ احادیث میں ذکر آتا ہے۔
          اللہ تعالیٰ ہم سب کو نمازوں کا اہتمام کرنے والا بنائے اور ہماری نمازوں میں خشوع وخضوع پیدا فرمائے؛ تاکہ ہماری نمازیں دنیا میں ہمیں برائیوں سے روکنے کا ذریعہ بنیں اور قیامت کے دن جہنم کی آگ سے بچانے کا ذریعہ بنیں۔
.....................................
حواشی:

(۱) فتاویٰ علامہ ابن تیمیہ ۲۳/۱۲۷، ۲۵۳۔ (۲) مسلم حدیث نمبر ۷۵۴، ۱۲۵۳، ترمذی․ حدیث نمبر ۴۳۰۔ (۳) ابی داوٴد، باب استحباب الوتر ۱۴۱۶، نسائی، باب الامر بالوتر ۱۶۷۵، ابن ماجہ، باب ماجاء فی الوتر ۱۱۶۹، ترمذی، باب ما جاء ان الوتر لیس بحتم ۴۵۳۔ (۴) ترمذی۔ باب ماجاء فی الوتر۴۵۲،ابن ماجہ۔ باب ماجاء فی الوتر ۱۱۶۸، ابی داوٴد۔ باب استحباب الوتر ۱۴۱۸۔ (۵) ابی داوٴد۔ باب فی الدعاء بعد الوتر۱۴۳۱، ترمذی۔ باب ما جاء فی الرجل ینام عن الوتر او ینساہ ۴۶۵، ابن ماجہ۔ باب ماجاء فی من نام عن الوتر ۱۱۸۸۔ (۶) سنن ابی داوٴد باب فی من لم یوتر ۱۴۱۹۔ (۷) درس ترمذی، مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم) ۔ (۸) (مجموع فتاویٰ ابن باز ۱۱/۳۰۰)جو انٹرنیٹ کے اس لنک پر پڑھا جاسکتا ہے: http://islamqa.info/ar/ref/65692۔ (۹) بخاری ومسلم۔ (۱۰) بخاری ومسلم وترمذی ونسائی وابوداوٴد ومسند احمد۔ (۱۱) سنن کبری للبیہقی ۔ ابواب الوتر۔ (۱۲) موٴطا مالک۔ الوتر بعد الفجر۔ (۱۳) بخاری، مسلم ۷۴۷، ترمذی۔ باب ما ذکر فیمن فاتہ حزبہ من اللیل فقضاہ بالنہار، نسائی۔ باب متی یقضی من نام عن حزبہ من اللیل، ابن ماجہ۔ باب ما جاء فیمن نام عن حزبہ من اللیل۔ (۱۴) بخاری ومسلم وترمذی وابوداوٴد و ابن ماجہ ونسائی۔ (۱۵) ترمذی ․․․ باب ما یقرء فی الوتر․․․ وقال الحاکم  صحیحٌ علی شرط الشیخین․ (۱۶) نسائی باب الوتر۔ (۱۷) ترمذی ۔ (۱۸)نسائی باب کیف الوتر بثلاث ۱۶۹۸۔ (۱۹) نسائی باب ذکر اختلاف الفاظ الناقلین لخبر أبی بن کعب فی الوتر ۱۷۰۱، أبوداوٴد باب ما یقرا فی الوتر ۱۴۲۳، ابن ماجہ باب ما جاء فی ما یقرا فی الوتر ۱۱۷۱۔ (۲۰) مسند احمد ۶/۱۵۶ ، مسند النساء، حدیث السیدہ عائشہ  ۲۵۷۳۸، نیزملاحظہ ہو زاد المعاد ۱/۳۳۰ فصل فی سیاق صلاتہ … باللیل ووترہ۔ (۲۱)مسند احمد ۲/۳۰، موٴطا مالک ، باب الامر بالوتر صحیح الجامع الصغیر للالبانی ۲ /۷۱۲ حدیث نمبر ۳۸۳۴۔ (۲۲) المعجم الکبیر للطبرانی ۹/۲۸۲ حدیث نمبر ۹۴۱۹ ورجالہ رجال الصحیح، مجمع الزوائد ۲/۵۰۳ باب عدد الوتر حدیث نمبر ۳۴۵۵۔ (۲۳) مصنف عبد الرزاق ۳/۲۶ باب کیف التسلیم فی الوتر حدیث نمبر ۴۶۵۹۔ (۲۴) مصنف ابن ابی شیبہ ۲ /۹۰ باب من کان یوتر بثلاث او اکثر حدیث نمبر ۶۸۳۴۔ (۲۵) مصنف ابن ابی شیبہ ۲ /۹۱ باب من کان یوتر بثلاث او اکثر حدیث نمبر ۶۸۴۰۔ (۲۶) ترمذی۔ (۲۷) بخاری۔ باب القنوت قبل الرکوع او بعدہ) ۔ (۲۸) فتح الباری صفحہ ۴۹۱ باب القنوت قبل الرکوع اور بعدہ۔ (۲۹) ابن ماجہ ۔ باب ما جاء فی القنوت قبل الرکوع وبعدہ حدیث نمبر ۱۱۸۲۔ (۳۰) جزء رفع الیدین للامام البخاری  ص ۲۸۔ (۳۱) مصنف ابن ابی شیبہ ۲/۹۵ باب فی قنوت الوتر حدیث نمبر ۶۸۹۳، سنن کبری للبیہقی ۲ /۲۱۱۔
.....
رمضان المبارک میں وتر باجماعت کیوں؟
ویؤتر بجماعۃ استحبابًا في رمضان فقط علیہ إجماع المسلمین لأنہ نفل من وجہ والجماعۃ في النفل في غیر التراویح مکروہ فالاحتیاط ترکہا في الوتر خارج رمضان، وعن شمس الأئمۃ أن ہذا فیما کان علی سبیل التداعي أما لو اقتدیٰ واحد بواحد أو إثنان بواحد لا یکرہ وإذا اقتدیٰ ثلاثۃ بواحد اختلف فیہ، وإن اقتدیٰ أربعۃ بواحد کرہ اتفاقاً۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الصلاۃ، قبیل فصل في بیان النوافل، مکتبہ دارالکتاب دیوبند ص: ۳۸۶)
 ولو صلوا الوتر بجماعۃ في غیر رمضان فہو صحیح مکروہ کالتطوع في غیر رمضان بجماعۃ، وقیدہ في الکافي بأن یکون علی سبیل التداعي، أما لو اقتدیٰ واحد بواحد أو اثنان بواحد لا یکرہ، وإذا اقتدیٰ ثلاثۃ بواحد اختلفوا فیہ، وإن اقتدیٰ أربعۃ بواحدٍ کرہ۔ (البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، قبیل باب إدراک الفریضۃ، مکتبہ زکریا دیوبند ۲/۱۲۳، کوئٹہ ۲/۷۰)
ولا یصلي الوتر ولا التطوع بجماعۃ خارج رمضان أي یکرہ ذلک لو علی سبیل التداعي بأن یقتدی أربعۃ بواحد کما في الدرر (در مختار) وفي الشامیۃ: أما اقتداء واحد بواحد أو اثنین بواحد فلا یکرہ وثلاثۃ بواحد فیہ خلاف، بحر عن الکافي۔ (الدر المختار مع الشامي، کتاب الصلاۃ، قبیل باب إدراک الفریضۃ، مکتبہ زکریا دیوبند ۲/۵۰۰، کراچي ۲/۴۸)
ماخوذ:-امدادالفتاوی جدید
رمضان میں وتر جو باجماعت ادا کئے جاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اثر سے ثابت ہے اور مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے اور دوسرے مہینوں میں انفرادی اس لئے ادا کیے جاتے ہیں کہ ان مہینوں میں کوئی اثر وارد نہیں ہے۔ وتر جو باجماعت ادا کیے جاتے ہیں یہ مستحب ہے۔
لمافی البحر الرائق(۶۹/۲): (قولہ ویوتر بجماعۃ فی رمضان فقط) أی علی وجہ الاستحباب وعلیہ اجماع المسلمین کمافی الھدایۃ واختلفوا فی الافضل ففی الخانیۃ الصحیح ان اداء الوتر بجماعۃ فی رمضان أفضل لان عمرؓ کان یؤمھم فی الوتر الخ۔
وفی الشامیۃ(۴۸،۴۹/۲):أن جماعۃ الوتر تبع لجماعۃ التراویح وان کان الوتر نفسہ أصلا فی ذاتہ لان سنۃ الجماعۃ فی الوتر انما عرفت بالأثر تابعۃ للتراویح……
(صـ۴۹) فالوتر کالتراویح فکما أن الجماعۃ فیھا سنۃ فکذلک الوتر بحر وفی شرح المنیۃ والصحیح أن الجماعۃ فیھا أفضل الا ان سنیتھا لیست کسنیۃ جماعۃ التراویح الخ۔
نجم الفتاوی
http://www.najeebqasmi.com/articles/32-namaz/142-namaz-witr







No comments:

Post a Comment