غیر مسلم کی اور بینک کی دعوتِ افطار
سوال:-{1165} رمضان شریف میں اکثر دیکھا جاتا ہے کہ غیر مسلم سیاسی قائدین، تجار، بینک وغیرہ افطار پارٹی کرتے ہیں، جس میں بعض علماء بھی شریک ہوتے ہیں، ظاہر ہے کہ غیر مسلم سیاسی قائدین اور بینک کا پیسہ مشکوک ہے، افطار میں لگائے جانے والے پیسوں کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ حلال ہیں، تو اس طرح کی افطار پارٹیوں میں شریک ہونا کہاں تک درست ہے؟
(احمد جابری، نظام آباد)
جواب:- دعوت غیر مسلم کی بھی قبول کی جاسکتی ہے ،اور خود رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے بھی غیر مسلموں کی دعوت اور ان کا تحفہ قبول کیا ہے، (۱) پھر یہ کہ غیر مسلم جب تک مسلمان نہ ہوجائے احکام شرعیہ کی تفصیلات کا مکلف نہیں، تجارت اورحلال و حرام کے جو احکام ہیں، ایمان لانے کے بعد انسان اس کا مخاطب بنتا ہے ، جب تک ایمان نہ لے آئے یہ احکام اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے، اس لئے غیر مسلموں کی دعوت کے بارے میں ذریعۂ معاش کی تحقیق وتفتیش ضروری نہیں، ہاں کوئی ایسی چیز نہیں کھائی جاسکتی جو بذاتِ خود حرام ہو،
کتاب الفتاوی۔ جلد ۳
.......
کتاب النوازل جلد 16
حرام پیشہ کرنے والے غیر مسلم کے یہاں دعوت کھانا؟
سوال (۵۷۱):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: حرام پیشہ کرنے والے غیرمسلم کے یہاں دعوت کھانا کیسا ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
حرام پیشہ کرنے والے غیرمسلم کے یہاں دعوت کھانے کی اُصولاً گنجائش ہے؛ کیوںکہ غیر مسلم مالی معاملات میں شریعت کا پابند نہیں ہے؛ لیکن بہتر یہ ہے کہ مسلمان بالخصوص علماء ومقتدیٰ حضرات ایسے شخص کی دعوت قبول کرنے سے احتراز کریں۔
قال اللّٰہ تعالیٰ: {لاَ یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکَافِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقَاۃً وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہُ وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ} [اٰل عمران: ۲۸]
لإنا أمرنا بترکہم وما یدینون، قال الشامي: فلا نمنعہم عن شرب الخمر وأکل الخنزیر وبیعہما۔ (الدر المختار مع الشامي ۴؍۳۱۲ زکریا)
روی محمد رحمہ اللّٰہ تعالیٰ في السیر الکبیر أخبارًا متعارضۃً، في بعضہا: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قبل ہدایا المشرک۔ وفي بعضہا: أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یقبل۔ فلا بد من التوفیق۔ واختلفت عبارۃ المشایخ رحمہم اللّٰہ تعالیٰ في وجہ التوفیق … ومن المشایخ من وفق من وجہٍ آخر، فقال: لم یقبل من شخص علم أنہ لو قبل منہ یقلّ صلابتہ وعزتہ في حقہ ویلین لہ بسبب قبول الہدیۃ، وقبل من شخص علم أنہ لا یقلّ صلابتہ وعزتہ في حقہ ولا یلین بسبب قبول الہدیۃ، کذا في المحیط۔ (الفتاویٰ الہندیۃ / الباب الرابع عشر في أہل الذمۃ ۵؍۳۴۷-۳۴۸ زکریا، وکذا في المحیط البرہاني / الفصل السادس عشر في معاملۃ أہل الذمۃ ۶؍۱۰۴ المکتبۃ الغفاریۃ کوئٹہ)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
......
غیرمسلم آپس میں سودی کاروبار اور سودی لین دین بھی کر تے ہیں، بہت سی بیع باطل و فاسد بھی کرتے ہیں، شراب بھی بناتے اور بیچتے ہیں اور اس کی قیمت لیتے ہیں، خنزیر بھی بیچ کر اس کی قیمت لیتے ہیں۔ پھر مسلمانوں کو یہ پیسے مزدوری میں انعام وغیرہ میں دیتے ہیں، اور ان سب پیسوں کا حرام ہونا معلوم ہونے کے باوجود ان پیسوں کا لینا اس وقت تک شرعاً جائز و غیر مکروہ شمار ہوتا ہے جب تک کہ یہ یقین نہیں ہوتا کہ یہ چیز جس کو فروخت کررہا ہے یہ بعینہ وہی چیز ہے جس کو چراکر یا ڈاکہ ڈال کر لایا ہے، جو قیمت دے رہا ہے یہ بعینہ وہی روپیہ ہے جس کو چراکر یا ڈاکہ ڈال کر لایا ہے، غرض ان سب کا لے لینا اور استعمال کرلینا سب درست رہتا ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکم جواز کیوں ہے تو اس کی وجود متعدد ہیں۔ متعدد شرعی ضوابط اس کی بنیاد ہیں۔ مثلاً
الف: تبدیل ملک سے حکما تبدل عین ہو جاتا ہے ۔یا
ب: الخلط استہلاک کا ضابطہ جو مسلم ہے۔ یا
ج: مثلاً یہ کہ کفار ابتدائً صرف ایمان کے اور حدود و عقوبت مشروعہ کے مخاطب ہوتے ہیں باقی معاملات و جزئی احکامات کے مخاطب بعد مین ہوتے ہیں اس لئے ان کے آپس کے معالامت بر قرار اور نافذ رکھے جاتے ہیں، جب تک کہ وہ حرام بعینہ و قبیح خداع، چوری، ڈاکہ وغیرہ کا ارتکاب نہ کریں، حتیٰ کہ زوجین کے ایک ساتھ اسلام لانے میں، ان کے زمانۂ کفر کے نکاح کو بھی جو شرعی ضابطہ کے مطابق اکثر نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات شرعی احکام کے خلاف ہوتا ہے برقرار و باقی رکھا جاتا ہے، ہاں اگر حقیقی بہن یا ماں بیٹی کسی کے نکاح میں ہو تو اس صورت میں تفریب کرا دیتے ہیں اس لئے کہ حرام بعینہ و قبیح بعینہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی حرمت اور قبیح عقل بھی ہے پس یہی حکم و حال یہاں بھی ہوگا کہ محکمہ جس کے اصحاب حل و عقد خالص غیر مسلم ہوں یامشترک ہوتے ہوں مگر اقتدار اعلیٰ غیر مسلم کے ہاتھ میں ہو اور وہ اپنے طور پر سودی کاروبار نفع حاصل کرکے کوئی رقم جمع کرے اور بطور تبرع کسی مسلمان ملازم کو دے تو اس کا لینا جائز رہیگا اور بمد انعام داخل ہوکر طیب و حلال شمار ہوگا، اس کے علاوہ پہلی دونوں وجوہ (تبدل ملک سے حکماً تبدل عین ہوجاتا ہے) اور (الخلط استہلاک کا ضابطہ) بھی صادق آکر حکم حرمت ختم ہوجاتا ہے،
(احمد جابری، نظام آباد)
جواب:- دعوت غیر مسلم کی بھی قبول کی جاسکتی ہے ،اور خود رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے بھی غیر مسلموں کی دعوت اور ان کا تحفہ قبول کیا ہے، (۱) پھر یہ کہ غیر مسلم جب تک مسلمان نہ ہوجائے احکام شرعیہ کی تفصیلات کا مکلف نہیں، تجارت اورحلال و حرام کے جو احکام ہیں، ایمان لانے کے بعد انسان اس کا مخاطب بنتا ہے ، جب تک ایمان نہ لے آئے یہ احکام اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے، اس لئے غیر مسلموں کی دعوت کے بارے میں ذریعۂ معاش کی تحقیق وتفتیش ضروری نہیں، ہاں کوئی ایسی چیز نہیں کھائی جاسکتی جو بذاتِ خود حرام ہو،
کتاب الفتاوی۔ جلد ۳
.......
کتاب النوازل جلد 16
حرام پیشہ کرنے والے غیر مسلم کے یہاں دعوت کھانا؟
سوال (۵۷۱):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: حرام پیشہ کرنے والے غیرمسلم کے یہاں دعوت کھانا کیسا ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
حرام پیشہ کرنے والے غیرمسلم کے یہاں دعوت کھانے کی اُصولاً گنجائش ہے؛ کیوںکہ غیر مسلم مالی معاملات میں شریعت کا پابند نہیں ہے؛ لیکن بہتر یہ ہے کہ مسلمان بالخصوص علماء ومقتدیٰ حضرات ایسے شخص کی دعوت قبول کرنے سے احتراز کریں۔
قال اللّٰہ تعالیٰ: {لاَ یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکَافِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقَاۃً وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہُ وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ} [اٰل عمران: ۲۸]
لإنا أمرنا بترکہم وما یدینون، قال الشامي: فلا نمنعہم عن شرب الخمر وأکل الخنزیر وبیعہما۔ (الدر المختار مع الشامي ۴؍۳۱۲ زکریا)
روی محمد رحمہ اللّٰہ تعالیٰ في السیر الکبیر أخبارًا متعارضۃً، في بعضہا: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قبل ہدایا المشرک۔ وفي بعضہا: أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یقبل۔ فلا بد من التوفیق۔ واختلفت عبارۃ المشایخ رحمہم اللّٰہ تعالیٰ في وجہ التوفیق … ومن المشایخ من وفق من وجہٍ آخر، فقال: لم یقبل من شخص علم أنہ لو قبل منہ یقلّ صلابتہ وعزتہ في حقہ ویلین لہ بسبب قبول الہدیۃ، وقبل من شخص علم أنہ لا یقلّ صلابتہ وعزتہ في حقہ ولا یلین بسبب قبول الہدیۃ، کذا في المحیط۔ (الفتاویٰ الہندیۃ / الباب الرابع عشر في أہل الذمۃ ۵؍۳۴۷-۳۴۸ زکریا، وکذا في المحیط البرہاني / الفصل السادس عشر في معاملۃ أہل الذمۃ ۶؍۱۰۴ المکتبۃ الغفاریۃ کوئٹہ)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
......
غیرمسلم آپس میں سودی کاروبار اور سودی لین دین بھی کر تے ہیں، بہت سی بیع باطل و فاسد بھی کرتے ہیں، شراب بھی بناتے اور بیچتے ہیں اور اس کی قیمت لیتے ہیں، خنزیر بھی بیچ کر اس کی قیمت لیتے ہیں۔ پھر مسلمانوں کو یہ پیسے مزدوری میں انعام وغیرہ میں دیتے ہیں، اور ان سب پیسوں کا حرام ہونا معلوم ہونے کے باوجود ان پیسوں کا لینا اس وقت تک شرعاً جائز و غیر مکروہ شمار ہوتا ہے جب تک کہ یہ یقین نہیں ہوتا کہ یہ چیز جس کو فروخت کررہا ہے یہ بعینہ وہی چیز ہے جس کو چراکر یا ڈاکہ ڈال کر لایا ہے، جو قیمت دے رہا ہے یہ بعینہ وہی روپیہ ہے جس کو چراکر یا ڈاکہ ڈال کر لایا ہے، غرض ان سب کا لے لینا اور استعمال کرلینا سب درست رہتا ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکم جواز کیوں ہے تو اس کی وجود متعدد ہیں۔ متعدد شرعی ضوابط اس کی بنیاد ہیں۔ مثلاً
الف: تبدیل ملک سے حکما تبدل عین ہو جاتا ہے ۔یا
ب: الخلط استہلاک کا ضابطہ جو مسلم ہے۔ یا
ج: مثلاً یہ کہ کفار ابتدائً صرف ایمان کے اور حدود و عقوبت مشروعہ کے مخاطب ہوتے ہیں باقی معاملات و جزئی احکامات کے مخاطب بعد مین ہوتے ہیں اس لئے ان کے آپس کے معالامت بر قرار اور نافذ رکھے جاتے ہیں، جب تک کہ وہ حرام بعینہ و قبیح خداع، چوری، ڈاکہ وغیرہ کا ارتکاب نہ کریں، حتیٰ کہ زوجین کے ایک ساتھ اسلام لانے میں، ان کے زمانۂ کفر کے نکاح کو بھی جو شرعی ضابطہ کے مطابق اکثر نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات شرعی احکام کے خلاف ہوتا ہے برقرار و باقی رکھا جاتا ہے، ہاں اگر حقیقی بہن یا ماں بیٹی کسی کے نکاح میں ہو تو اس صورت میں تفریب کرا دیتے ہیں اس لئے کہ حرام بعینہ و قبیح بعینہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی حرمت اور قبیح عقل بھی ہے پس یہی حکم و حال یہاں بھی ہوگا کہ محکمہ جس کے اصحاب حل و عقد خالص غیر مسلم ہوں یامشترک ہوتے ہوں مگر اقتدار اعلیٰ غیر مسلم کے ہاتھ میں ہو اور وہ اپنے طور پر سودی کاروبار نفع حاصل کرکے کوئی رقم جمع کرے اور بطور تبرع کسی مسلمان ملازم کو دے تو اس کا لینا جائز رہیگا اور بمد انعام داخل ہوکر طیب و حلال شمار ہوگا، اس کے علاوہ پہلی دونوں وجوہ (تبدل ملک سے حکماً تبدل عین ہوجاتا ہے) اور (الخلط استہلاک کا ضابطہ) بھی صادق آکر حکم حرمت ختم ہوجاتا ہے،
منتخبات نظام الفتاوی
.............
سوال # 2668
کیا ہم افطار میں غیر مسلم کو دعوت دے سکتے ہیں یا نہیں ؟ یا ان کے ساتھ افطار کر سکتے ہیں یا نہیں؟ براہ کرم، ہاں یا نہیں دونوں کا جواب باحوالہ دیں تاکہ دوستوں کو جواب دینے میں آسانی ہو۔
Published on: Feb 2, 2008
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 42/ ل= 42/ ل
آپ نے تو خود ہی اس کا جواب دیدیا کیونکہ افطار تو وہی کرے گا جو روزہ سے ہو، البتہ اگر کوئی غیرمسلم بوقت افطار موجود ہو تو اس کو بھی کھانے میں شامل کرسکتے ہیں، اسی طرح اگر کوئی غیرمسلم دعوتِ افطار کرے اور مکمل یقین ہو کہ وہ حلال چیز سے افطار کرائے گا اور اس کی وجہ سے مسجد کی جماعت کے فوت ہوجانے کا خطرہ نہ ہو تو اس کی دعوت افطار میں شرکت کی گنجائش ہے: ولا بأس بالذھاب إلی ضیافة أھل الذمة (عالمگیري: ج۵ ص۳۴۷)
............
سوال: آج کل کی مروجہ افطاری کا کیا حکم ہے ؟ جس میں درج ذیل صورتیں پائی جاتی ہیں .
چندہ فرا ہم کر کے افطاری کی اشیاء کا انتظام کیا جاتا ہے .
افطاری میں غیر مسلموں کو بھی دعوت دی جاتی ہے.
بسا اوقات غیر مسلم خود مسلمانوں کو روزہ افطار کراتے ہیں .
شرعی حکم سے آگاہ کریں .
الجواب: حامدو مصلیا ومصلیا . جہاں تک افطاری کرانے کا سوال ہے تو معلوم ہے کہ اگر محض جذبہ احتساب سے حسبۃ للہ ہو ، تو مستحسن اور مستحب ہے ، باقی جو صورت آپ نے تحریر فر مائی ہے ، کہ اس کے لئےچندہ ، تداعی ، غیر مسلموں کی شرکت ، نیز اس نتیجے میں ان کے گھروں پر افطاری کی دعوت میں حاضری ، بچند وجوہ اس کا استحسان ہی نہیں ، بلکہ جواز بھی مخدوش ہے .
1.اس لئے کہ اس طرح کی تداعی اور اہتمام خیر القرون میں نہیں ملتا .
2. دوسروں سے چندہ کرنے میں عمو ما اجبار اور اکراہ ہوتا ہے ، اور معلوم ہے کہ مسلمانوں کا مال بلا طیبِ نفس لینا اور کھانا ، کراہت سے خالی نہیں ، خصوصا افطار میں کہ عین عباد ت ہے ،اور زیادہ قبح ہے ، حدیث پاک میں صاف ارشاد ہے لا یحل مال امرء مسلم الا بطیب نفس منہ '' 3. جب افطاری عبادت اور تتمہ صوم ہے ، پھر اس میں کافروں کے اشتراک کے کیا معنیٰ؟ یہی امہال واستدراج رہا تو آئندہ پھر عید کی نماز میں ، وہ برادرانِ وطن دوش بدوش کھڑے کئے جائیں گے ،اور مسلمان 'ہولی ورام لیلا ' میں شریک نظر آئیگا ،اس تقریر پر بالفرض اگر یہ روپیہ مباح بھی ہوتا تو بھی '' کل مباح او مستحب یفضی الی الحرام '' (2) کے قاعدہ سے حرام اور منہی عنہ ہوگا.
4. شرک ، ظلم کا فر د اعلیٰ ہے ،قال اللہ تعالیٰ ان الشرک لظلم عظیم (3) اور رکون الیٰ الظالمین بنص قطعی حرام ہے ، چنانچہ ارشاد باری ہے 'ولا تر کنوآ الیٰ الذیں ظلموا فتمسکم النار ''(4) اور صورت مسئولہ میں 'رکون'' بلا ضرورت ہے اس لئے بھی قباحت سے خالی نہیں ، نیز اس طرح کی بھیڑ بھڑکا میں ، تفاوت سے بھی حدود کی رعایت نہیں ہو پاتی ، تو عوام سے جب کہ اخوان الشیاطین بھی دوش بدوش ہوں ، کہاں ممکن ہے .
عند الافطار ، دعا مستحق بالاجابہ ہے ، اور دعاءِ افطار سنت ، اور بعد کی دعا بھی معمول سلف ہے ،ان سب کا ترک ، نماز میں تاخیر ، عین افطار کے وقت گپ شپ اور ہنسی مذاق ، نیز ان صورتوں میں ٹھٹھا کا ہونا لازم ہے ،اب دین کی ٹھوڑی سی بھی فہم رکھنے والا خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ اگر مذکورہ فی السوال صورت یا صور کی کہاں تک گنجائش نکل سکتی ہے .
ھذ اما عندی وما ادین عند اللہ ولعل عند غیری احسن منہ . واللہ اعلم بالصوب .
کتبہ :بندہ محمد حنیف غفرلہ .الجواب صحیح : عبد اللہ غفرلہ . (فتاوی ریاض العلوم ص443 تا 444)
غیر مسلم کی دعوت افطار قبول کرناhttp://www.onlinefatawa.com/fatawa/view_scn/20002 |
غیر مسلم کو افطار کی دعوت
http://www.onlinefatawa.com/fatawa/view_scn/22421
|
No comments:
Post a Comment