Tuesday, 15 May 2018

’رمضان مبارک‘ کہہ کر مبارکباد دینا

’رمضان مبارک‘ کہہ کر مبارکباد دینا
مسئلہ(۱۸۸): رمَضان المبارک کی آمد پر لوگ ایک دوسرے کو ’’رمضان مبارک، رمضان مبارک‘‘ کہہ کر مبارکبادی دیتے ہیں، اس طرح مبارکبادی دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، کیوں کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اِس ماہ کے آنے پر اپنے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کو خوش خبری دیا کرتے تھے، اُنہیں اِس ماہ میں اعمالِ صالحہ پر اُبھارتے تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں ہمارے بزرگانِ دین بھی ماہِ رمضان المبارک کی آمد پر ایک دوسرے کو خوش خبری دیا کرتے تھے، نیز اِس ماہ کی آمد پر ایک دوسرے کو مبارکبادی دینا، اور اس کی آمد پر خوش ہونا، یہ دونوں باتیں نیک کاموں میں رغبت وشوق پر دلالت کرتی ہیں، اِس لیے بھی اِس میں کوئی مضائقہ نہیں۔(۱)
------------------------------
الحجۃ علی ما قلنا:
(۱) ما في ’’القرآن الکریم‘‘: {قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحوا ہو خیرٌ مما یجمعون}۔ (یونس :۵۸)
ما في ’’صحیح ابن خزیمۃ‘‘: عن سلمان قال: خطبنا رسول اللہ ﷺ في آخر یوم من شعبان فقال: ’’أیہا الناس ! قد أظلّکم شہرٌ عظیمٌ ، شہرٌ مبارکٌ‘‘ ۔۔ الحدیث ۔
(۳/۱۹۱، رقم الحدیث :۱۸۸۷، باب فضائل شہر رمضان إن صحّ الخبر، الدعوات الکبیر للبیہقي :۲/۱۵۱، رقم الحدیث :۵۳۲ ، شعب الإیمان للبیہقي :۵/۲۲۳ ، رقم الحدیث :۳۳۳۶، فضائل شہر رمضان، عمدۃ القاري :۱۶/۲۶۱ ، باب ہل یقال رمضان أو شہر رمضان ، مشکوۃ المصابیح :۱/۴۴۳، کتاب الصوم ، رقم الحدیث :۱۹۶۵)
ما في ’’تفسیر السعدي المعروف بـ تیسر الکریم الرحمن في تفسیر کلام المنان‘‘ : الفرح الممدوح الذي قال اللہ فیہ: {قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحوا} ۔ وہو الفرح بالعلم النافع، والعمل الصالح ۔ (۱/۷۴۲، الباب ۶۹، للشیخ عبد الرحمن بن ناصر السعدي)
.............
سوال: جمعه مبارك اور رمضان مبارك كہنا كيسا ہے؟
حضرات مفتیان اکرام برائے مہربانی جواب مرحمت فرمائیں
جواب: جمعہ کی مبارک باد دینا سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے لہذا اسے سنت مستحب وغیرہ سمجھنا بدعت ہے البتہ اگر کبھی کبھار سنت وغیرہ کی نیت کے بغیر برکت کی دعا کے طور پر کہہ دیا جائے تو جائز ہے لیکن اگر اس کو سنت سمجھنے لینے کا شائبہ ہو تو اسے ترک کر دینا چاہئے واللہ اعلم
باقی رمضان کا با برکت ہونا خود احادیث سی ثابت ھے۔ اس لیے برکت کی دعا دی جاسکتی ھی، لیکن چونکہ آجکل یہ جملہ دعا سے زیادہ رسم پوری کرنی کے لیے استعمال کیا جاتا ھے۔ اس لیے احتیاط کا کھا جاتا ھے۔ 
((عن أبي هريرة قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – ” أتاكم “) أي جاءكم ” رمضان ” أي زمانه أو أيامه ” شهر مبارك ” بدل أو بيان، والتقدير هو شهر مبارك، وظاهره الإخبار أي كثر خيره الحسي والمعنوي، كما هو مشاهد فيه، ويحتمل أن يكون دعاء أي جعله الله مباركا علينا وعليكم، وهو أصل في التهنئة المتعارفة في أول الشهور بالمباركة، ويؤيد الأول قوله – صلى الله عليه وسلم -: ” «اللهم بارك لنا في رجب وشعبان وبلغنا رمضان» “، إذ فيه إيماء إلى أن رمضان من أصله مبارك فلا يحتاج إلى الدعاء، فإنه تحصيل الحاصل، لكن قد يقال: لا مانع من قبول زيادة البركة ”) مرقاۃ المفاتیح

No comments:

Post a Comment