Wednesday, 30 May 2018

سنن مؤکدہ کو بلا عذر بیٹھ کر پڑھنا

سنن مؤکدہ کو بلا عذر بیٹھ کر پڑھنا
سوال: سنن موکدہ کا قیام فرض ہے یا سنت یا مستحب؟
جواب: سنن موکدہ کو کھڑے ہوکر پڑھنا افضل اور مستحب ہے اور بیٹھ کر پڑھنا بھی جائز ہے۔
لما فی مراقی الفلاح (یجوز النفل) انما عبر بہ لیشمل السنن الموکدۃ و غیرھا فتصح اذا صلاھا (قاعدا مع القدرۃ علی القیام) وقد حکی فیہ اجماع العلماء الخ، و قال الطحطاویؒ قولہ (یجوز النفل قاعدا) مطلقا من غیر کراھۃ، کما فی مجمع الانھر (طحطاوی علی مراقی الفلاح باب النوافل ص۲۲۰
البتہ فقہائؒ کی ایک جماعت نے سنت فجر کو مستثنیٰ کیا ہے، یعنی ان کے نزدیک ان کو بلاعذر بیٹھ کر پڑھنا جائز نہیں ہے اور ان کا قیام فرض ہے (و خالفہ الطحطاوی  اور بعض حضرات نے تراویح کا بھی یہی حکم بتایا ہے، اگرچہ تراویح کے بارے میں قاضی خانؒ اور علامہ شامی رحمہ اللہ وغیرہ کا رجحان اس طرف ہے کہ وہ سنن فجر کے میں نہیں، لیکن احتیاطا حتی الامکان انہیں بھی کھڑے ہوکر پڑھنا چاہئے،
لما فی الدر المختار و منھا (ای فرائض الصلاۃ) القیام فی فرض و ملحق بہ کنذر و سنۃ فجر فی الاصح، و قال الشامیؒ ناقلا عن الحلیۃ: و سنۃ الفجر لا تجوز قاعدا من غیر عذر باجماعھم کما ھو روایۃ الحسن عن ابی حنیفۃ کما صرح بہ الخلاصۃ فکذا التراویح و قیل یجوز ....... قال قاضی خان و ھو الصحیح۔ (شامی باب صفۃ الصلاۃ ص۲۹۹ ج۱  (و مثلہ فی شرح المنیۃ الکبیر ص۲۶۷
بہرحال!فجر اور تراویح کے علاوہ دوسری سنن مؤکدہ میں فقہاء حنیفہ کا اتفاق ہے کہ قیام فرض نہیں، مستحب ہے  البتہ چونکہ سلف کا تعامل سنن موکدہ کو کھڑے ہو کر ہی پڑھنے کا رہا ہے اس لئے حتی الوسع اس تعامل کو ترک نہ کرنا چاہئے۔
و فی فتح باب العنایۃ بشرح النقایۃ ۱/۳۳۷ و ۳۳۸ (طبع بیروت): (و یتنفل راکبا .........و قاعدا مع قدرۃ قیامہ) و فیہ تحتہ و السنن الرواتب نوافل ........ وقال تحت قولہ (مع قدرۃ قیامہ) لما روی الجماعۃ الا مسلما عن عمران بن حصینؓ قال سالت رسول اللہ عن صلوٰۃ الرجل قاعدا، فقال من صلی قائما فھو افضل و من صلی قاعدا فلہ نصف اجر القائم و من صلی نائما او مضطجعا فلہ نصف اجر القاعد ......... وھذا فی صلوٰۃ النافلۃ، لان صلوٰۃ الفرض لا یجوز فیہ القعود مع القدرۃ علی القیام بالاجماع، و فی مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر ۱/۲۰۰ (طبع دار الکتب العلمیۃ بیروت) (و صح النفل قاعدا مع القدرۃ علی اقیام) بلا کراھۃ لما روی انہ علیہ السلام کان یصلی رکعتین قاعدا بغیر عذر و فیہ اشارۃ الی انہ لا تجوز المکتوبۃ و الواجبۃ و المنذورۃ و سنۃ الفجر و التراویح بلا عذر و الصحیح ان التراویح تجوز الخ، و فی المبسوط للسرخسیؒ ۲/۱۴۷ (طبع دار المعارفۃ بیروت) ( الفصل السابع فی ادائھا (التراویح) قاعدا من غیر عذر) اختلفوا فیہ، قال بعضھم لا ینوب عن التراویح علی قیاس ما روی الحسن عن ابی حنیفۃ رحمھما اللہ فی رکعتی الفجر انہ لو اداھما قاعدا من غیر عذر لم یجزہ عن السنۃ و علیہ الاعتماد فکذا ھذا لانھا مثلہ و الصحیح انھا تجوز، و الفرق ظاہر فان رکعتی الفجر آکد و اشھر و ھذا الفرق ظاہر یوافق روایۃ ابی سلیمان عن ابی حنیفۃؒ و ابی یوسف و محمد ؒ و مع الفرق فانہ لا یستحب لما فیہ من مخالفۃ السنۃ و السلف
و اللہ سبحانہ اعلم
از فتاوی عثمانی
العبد محمد اسلامپوری

No comments:

Post a Comment