Sunday 20 May 2018

عالم اسلام پر نفاق کے گہرے بادل

عالم اسلام پر نفاق کے گہرے بادل
جناب شیخ پر افسوس ہے میں نے تو سمجھا تھا
حرم کے رہنے والے ایسے نامحرم نہیں ہوتے
انبیاء کرام جب بھی دنیا میں تشریف لائے، ان کو دو طبقوں سے سابقہ پیش آیا، ایک وہ جو کھلے ہوئے کافر تھے، خواہ وہ خدا کا انکار کرتے تھے یا شرک میں مبتلا تھے، اور مخلوقات کے سامنے اپنی پیشانی خم کرتے تھے، دوسرے وہ جنہوں نے کھل کر کفر کا راستہ اختیار نہیں کیا، علی الاعلان انبیاء کی دعوت کی مخالفت نہیں کی، لوگ ظاہری حالات کے اعتبار سے ان کو اہل ایمان میں شامل سمجھتے تھے؛ لیکن نہ صرف یہ کہ وہ مسلمان نہیں تھے؛ بلکہ وہ دین حق کے خلاف سازشیں بھی کرتے رہتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تو یہ گروہ تھا ہی؛ لیکن قرآن مجید کے بیان اور تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے انبیاء کے ساتھ بھی اس طرح کے واقعات پیش آتے رہے ہیں؛ اسی لئے ہمیں قوم بنی اسرائیل کے تذکرہ میں سامری کا کردار ملتا ہے کہ جوں ہی حضرت موسی علیہ السلام کوہ طور پر تشریف لے گئے اور حضرت ہارون علیہ السلام کے حلم وبردباری کی وجہ سے اس نے اپنے سازشی منصوبے کے لئے ماحول کو سازگار پایا، تو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بنی اسرائیل کی ایک بڑی تعداد کو بچھڑے کی پرستش میں مبتلا کر دیا۔
اسی طرح سیدناحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے عہد میں بھی ہمیں نفاق کا کردار صاف نظر آتا ہے کہ آپ کے ایک نام نہاد حواری نے آپ کے بارے میں جاسوسی کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے آپ آسمان پر اٹھا لیے گئے، یہودیوں میں چوں کہ منافقانہ مزاج زیادہ رہا ہے، اور وہ ہمیشہ سے خفیہ سازشیں کرتے آئے ہیں؛ اس لئے حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد بھی عیسائیت کے سلسلے میں منافقین کی دسیسہ کاری کا سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ سینٹ پال نے یہودیت کا لبادہ اتار کر اپنے آپ کو ایک راست گو اور حضرت عیسی علیہ السلام سے بے حد محبت کرنے والے عیسائی کی حیثیت سے پیش کیا، اور پھر اس نے عیسائیوں کے درمیان سب سے بڑے مبلغ، مصلح اور مقدس شخصیت کی حیثیت حاصل کرلی، عقیدۂ توحید کو تثلیث سے بدل دیا، ایک خدا کی جگہ تین کے مجموعے کے خدا ہونے کا تصور پیش کیا، اور عیسائیت کو کچھ اس طرح مسخ کیا کہ آج تک عیسائی اس دام سے باہر نہیں آسکے، آج بھی دنیا اسی مسخ شدہ عیسائیت کو حضرت عیسی علیہ السلام کی لائی ہوئی حقیقی عیسائیت تصور کرتی ہے۔
اسلام میں فتنۂ نفاق کو اتنی اہمیت دی گئی کہ قرآن مجید میں۹؍ سورتوں میں اور تقریباََ ایک سو انیس آیات میں اس فتنہ کا ذکر ملتا ہے، اسی طرح صرف صحاح ستہ میں ۱۸۵؍ مقامات پر نفاق اور منافقین کا تذکرہ کیا گیا ہے، (بخاری میں: ۶۶؍بار ، مسلم میں: ۴۹؍ بار، ابو داؤد میں: ۱۲؍بار، ترمذی میں: ۲۶؍ بار، نسائی اورابن ماجہ میں: ۱۶؍۱۶؍بار) اگر نفاق ایک دائمی اور امت کے لیے نہایت سنگین فتنہ نہیں ہوتا اور عہد نبوی ہی کے لئے خاص ہوتا تو اس قدر تکرار اور تاکید کے ساتھ اس کا ذکر نہیں کیا گیا ہوتا۔
شریعت محمدی چوں کہ قیامت تک کے لئے ہے اور اس کائنات کو اپنے آخری انجام تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے زیر سایہ ہی زندگی کا سفر طے کرنا ہے؛ اس لئے اس امت میں مخلصین کی طرح منافقین بھی زیادہ پیدا ہوں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں تو منافقین تھے ہی؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی منافقین کی سازشوں کا سلسلہ جاری رہا، جس کی ایک واضح مثال عبداللہ بن سبا کی شکل میں ملتی ہے، جس نے اپنی سازشوں کے ذریعہ ایسا عظیم فتنہ کھڑا کیا، جس میں تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی، اور اسی سازش کے تسلسل کے نتیجے میں چوتھے خلیفۂ راشد حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ بھی پیش آیا، صحابہ جو اس قدر شیر وشکر تھے کہ خود قرآن مجید نے ان کی باہمی محبت وروداری کی تصویر …. رحماء بینھم وأشداء علی الکفار (فتح:۲۹) کے الفاظ میں کھینچی ہے، 
۔۔۔ کے درمیان دو دو جنگیں ہوگئیں، اور خلافت راشدہ کے بعد بنو امیہ اور بنو ہاشم بلکہ خود بنو ہاشم میں بنو عباس اور علویین کے درمیان ایسا کارزار برپا ہوا کہ ہزاروں مسلمان شہید ہوگئے، لوگوں نے خود اپنے رشتہ داروں اور قرابت مندوں کو قتل کرکے اپنی تلوار کی پیاس بجھائی، اورجب تک تاتاریوں نے خود ان کو تہہ وبالا نہیں کردیا، وہ آپس میں ایک دوسرے کی خون ریزی میں مبتلا رہے۔
نفاق ایسا فتنہ نہیں ہے، جو ایک زمانہ میں تھا اوراب ختم ہوگیا، قرآن مجید ابدی کتاب ہدایت ہے، اور جیسا کہ مذکور ہوا قرآن مجید نے فتنہ نفاق کو بہت زیادہ موضوع بحث بنایا ہے، اسی طرح حدیثوں میں بکثرت نفاق کا ذکر آیا ہے، یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ فتنہ ہمیشہ باقی رہے گا، یہ ایسا فتنہ نہیں ہے کہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہو؛ بلکہ ہر دور میں یہ فتنہ رہا ہے اور رہے گا، جب مسلمانوں کی قوت ایمانی پختہ رہی تو یہ فتنہ کمزور رہا اور جب مسلمان ضعف ایمانی کا شکار ہوگئے تو یہ فتنہ طاقت ور ہوگیا؛ اسی لئے بعض علماء نے اس فتنہ پر مستقل کتابیں لکھی ہیں، اس سلسلے میں ابو بکر جعفر بن محمد فریابی (متوفی: ۳۰۱) کی ’’کتاب صفۃ النفاق و ذم المنافقین ‘‘ بڑی اہمیت کی حامل ہے، اس پر شیخ ابو عبد الرحمٰن مصری نے شرح و تحقیق کا کام کیا ہے، اور یہ پہلی بار ۱۹۸۸ء میں شائع ہوئی ہے، اس کتاب میں نفاق اور منافقین سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور صحابہ کے آثار کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فتنے کو غیر معمولی اہمیت دی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے بعد مجھے تم لوگوں پر سب سے زیادہ اندیشہ چرب زبان منافقین سے ہے’’إن أخوف ما أخاف علیکم بعدي کل منافق علیم اللسان‘‘ ( المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر: ۵۹۳) یہ بات دیگر صحابہ کے علاوہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے؛ بلکہ ابو عثمان مہدی نقل کرتے ہیں کہ میں نے اپنی اِن انگلیوں کی تعداد سے زیادہ دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بات سنی کہ مجھے اس امت پر سب سے زیادہ خوف صاحب علم اور دانش ور منافق کا ہے ’’إنی أخوف ما أخاف علی ھذہ الأمۃ المنافق العلیم‘‘ ( کنزالعمال، حدیث نمبر: ۲۹۴۰۸) جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ یہ دانش ور منافق کون ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو زبان و بیان سے تو خوب واقف ہوں؛ لیکن معرفت رکھنے والے دل سے اور عمل سے محروم ہوں، عالم اللسان جاھل القلب والعمل (حوالہ سابق)
یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ نفاق صرف ان لوگوں میں ہوگا جو کتاب و سنت سے بے خبر ہوں؛ بلکہ بڑے سے بڑا قاری بھی ان کی صف میں شامل ہو سکتا ہے، وہ بڑی سے بڑی مسجدوں کا اور دینی مراکز کا امام و قائد بھی ہو سکتا ہے، اس کی خوش الحانی اور قرأت قرآن پر قدرت کی وجہ سے یہ دھوکہ نہ کھانا چاہئے کہ بھلا ایسے شخص میں بھی نفاق کی علامت پائی جا سکتی ہے؟ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میری امت میں زیادہ تر منافقین قراء میں سے ہوں گے: أکثر منافقي أمتي قراؤھا (مسند احمد عن عمر وبن العاص، حدیث نمبر: ۶۶۳۷) ’’قرّاء‘‘ میں قاری تو شامل ہیں ہی؛ لیکن قرن اول کی اصطلاح کے مطابق بڑے عالم کوبھی قاری کہا جاتا تھا۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خصوصی رازدار بنایا تھا، اور خصوصی طور پر منافقین کے بارے میں مطلع بھی فرمایا تھا، کہتے ہیں کہ لوگوں میں بہت اچھی قرأت کرنے والوں میں بھی منافق موجود ہوتا ہے، جو نہ واؤ کو چھوڑتا ہے، نہ الف کو، اور زبان کو اس طرح دائیں بائیں گھماتا ہے جیسے گائے اپنی زبان کو خلا میں گھماتی ہے: ’’إن من أقرأ الناس المنافق الذي لا یترک واواََ ولا ألفاََ یلفتہ کما تلفت البقرۃ الخلاء بلسانھا (صفۃ النفاق وذم المنافقین للفریابی، حدیث نمبر ۴۱،مصنف ابن شیبہ، حدیث نمبر:۸۷۳۶) اسی طرح بعض صحابہ کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ منافقین دینداری کا لبادہ اوڑھ کر معاشرہ پر یہاں تک کہ دینی مجامع پر چھا جائیں گے؛ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ آئے گا کہ لوگ اپنی مسجدوں میں جمع ہوں گے اور ان میں ایک بھی صاحب ایمان نہیں ہوگا ’’یأتي علی الناس زمان یجتمعون في مساجدھم لیس فیھم مؤمن ‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر: ۳۰۳۵۵)
کچھ تو منافقین کی اخلاقی علامات ہیں، جن کا حدیث میں ذکر آیا ہے، جیسے: دروغ گوئی، وعدہ خلافی اور امانت میں خیانت ’’إذا حدث کذب، وإذا وعد أخلف وإذا ائتمن خان‘‘ (بخاری، حدیث نمبر: ۶۰۹۵) لیکن نفاق کی جو اصل حقیقت ہے، وہ یہ ہے کہ اس کے قول وفعل میں تضاد ہو، وہ نام تو لیتا ہو اسلام کا؛ لیکن اس کے عمل سے کفر کی تائید ہوتی ہو ’’المنافق یقول بما یعرف و یعمل بما ینکر‘‘ (بیہقی، حدیث نمبر: ۶۴۶۳) اس کی زبان اوردل کے درمیان، خفیہ عمل اور ظاہری عمل کے درمیان اور اندر اور باہر کے درمیان موافقت نہیں ہو ’’من النفاق اختلاف اللسان و القلب و اختلاف السر و العلانیۃ و اختلاف الدخول و الخروج‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر: ۳۵۶۴۲) اگر کوئی ظالم اوراسلام دشمن شخص کسی موقع پر مسلمانوں کے لئے تقویت اور اسلام کے لئے تائید و نصرت کا ذریعہ بن جائے تو اس سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے؛ اس لئے کہ بعض دفعہ یہ منافقین کی اپنی مصلحت ہوتی ہے، اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر کے مطابق اس کا عمل مسلمانوں کے لئے تقویت کا باعث بن جاتا ہے، جیسا کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: فیؤید اللہ المؤمنین بقوۃ المنافقین (بیہقی، حدیث نمبر: ۱۷۸۷۵)
منافقین کے بارے میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے یہ پیشین گوئی منقول ہے کہ قیامت کے قریب ہر قوم کی قیادت اہل نفاق کے ہاتھ میں آجائے گی ’’لاتقوم الساعۃ حتیٰ یسود کل قوم منافقوھا‘‘ (المعجم الاوسط، حدیث نمبر: ۷۷۱۵) یہ تو امراء اور قائدین کا حال ہوا، دوسری طرف جو درباری علماء اور منصب دار ہوں گے ، وہ بھی ایسے اسلام دشمن قائدین کی ہاں میں ہاں ملائیں گے، ان کی تعریف کریں گے، انہیں یقین دلائیں گے کہ ان کا ہر فیصلہ درست، ہر قدم مبارک اور ہر عمل عدل وانصاف کے مطابق ہے؛ البتہ جب ان کے پاس سے باہر آئیں گے اور کبھی ضمیر ملامت کرے گا، تو وہ ان حکمرانوں کو … جن کے وہ خود لقمہ خوار ہیں … برا بھلا کہیں گے، اور تنقید وتبصرہ کریں گے ’’یمدحونہ و یسبونہ إذا خرجوا من عندہ (عن عبد اللہ ان عمر، مشیخۃ القاضی المارستان المعروف بمشیخۃ الکبری، حدیث نمبر: ۱۰۳)
یوں تو بدقسمتی سے خلافت راشدہ کے بعد ہی اسلام کا نظام طرز حکمرانی عملی طور پر ختم ہوگیا، اس پورے عرصہ میں خال خال ہمیں ایسے خدا ترس اور انصاف ور حکمراں مل جاتے ہیں کہ گویا لق و دق صحراء کی گرم طوفانی ہواؤں کے درمیان کہیں کہیں باد نسیم کا کوئی جھونکا آجائے؛ لیکن خلافت عثمانیہ کے سقوط تک عالم اسلام کی عمومی کیفیت یہ تھی کہ حکمراں بحیثیت مجموعی اسلام کے معاند نہیں ہوتے تھے، بھلے ہی ایک قبیلہ کی دوسرے قبیلہ سے یا ایک حکمراں کی دوسرے حکمراں سے جنگیں ہوتی تھیں، اور بعض دفعہ فاتحین مفتوحین کے ساتھ بڑی سفاکی کا معاملہ بھی کرتے تھے، یہاں تک کہ باپ کی بیٹے کی ،اور بھائی کی جان لے لیتے تھے؛ لیکن یہ قبائلی اور سیاسی عداوت ہوتی تھی، اسلام سے سبھوں کا تعلق ایمان و یقین کا اور محبت کا ہوتا تھا، عمومی طور پر ایسانہیں ہوتا تھا کہ مسلمان حکمراں یہودی اور نصرانی ایجنڈے کو اپنے ملک میں نافذ کریں، اور وہ اسلام ہی کو اپنے لیے سرمایۂ افتخار باور کر تے تھے۔
لیکن خلافت عثمانیہ کے سقوط کا واقعہ اس سے بالکل مختلف اند از میں پیش آیا، اس میں یہود و نصاریٰ نے عربوں اور ترکوں کی اندرونی صفوں میں اپنے پروردہ اور تربیت یافتہ منافقین کو داخل کردیا، اس کام کو انہوں نے اتنے بہتر طریقہ پر انجام دیا کہ ’’لارنس آف عربیہ‘‘ ( جس کا اصل نام ’’تھامس ایڈورڈ لارنس‘‘ تھا اور جو ایک بدترین اسلام دشمن سازشی ذہن کا انگریز تھا) عرب اس کو ایسے نجات دہندہ شخص کی طرح دیکھنے لگے، جیسے کوئی مرید اپنے شیخ کو یا کوئی سعادت مند شاگرد اپنے استاذ کو دیکھتا ہے، دوسری طرف اتاترک مصطفیٰ کمال پاشا نے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ در حقیقت یہودی تھا اور جس نے ترکی کا رشتہ عالم اسلام اور ملت اسلامیہ سے کاٹ کر ترکی کے وقار کو سخت نقصان پہنچایا اور جو قوم پوری دنیا کے مسلمانوں کی قیادت کرتی تھی، یہاں تک کہ ہندوستان میں بھی جمعہ کے خطبہ میں عثمانی خلفاء کا نام پڑھا جاتا تھا، اس کی سیاسی اور مذہبی قیادت کو ایک چھوٹے سے خطہ میں محدود کر کے رکھ دیا، ترک اسے اپنا نجات دہندہ اور ہیرو سمجھنے لگے ۔
اس کے بعد عالم اسلام پر ایسے لوگوں کے لئے گویا اقتدار کی راہ ہموار ہوگئی، جنہوں نے اپنی اسلام دشمنی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی، او ر وہ کھلے عام اعداء اسلام کے وکیل و ترجمان بن گئے؛ چنانچہ ترکی میں مصطفیٰ کمال کی حکومت قائم ہو گئی، مصر میں جمال عبد الناصر کی، عراق و شام مین بعث پارٹی کی، یہی حال لیبیا اور تیونس میں ہوا، غرض کہ عالم اسلام کے بڑے حصہ خاص کر مشرق وسطیٰ پر ایسے آمروں کو اقتدار پر فائز کیا گیا، جو صرف نام کے مسلمان تھے، یا کسی خاص مذہبی تہوار کے موقع پر مسجد یا عید گاہ آجاتے تھے؛ ورنہ اپنے دل ودماغ کے اعتبار سے پوری طرح یہودیوں، عیسائیوں اور کمیونسٹوں کے ساتھ تھے، اور زبان سے مصلحتاََ موقع بہ موقع اپنی مسلمانیت کا اظہار کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے مین منافقین کے سلسلے میں ایک بنیادی بات یہ تھی کہ ان کی خصوصی محبت اور راز دارانہ تعلق یہودیوں کے ساتھ تھا؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’واذا خلوا إلیٰ شیاطینھم قالوا إنا معکم (بقرہ: ۱۴) اس آیت میں مفسرین نے ’’شیاطین‘‘ سے اول درجہ پر یہود ہی کو مراد لیا ہے: ’’سادتھم و کبراء ہم و رؤساء ہم من أحبار الیہود‘‘ (تفسیر ابن کثیر)
چنانچہ عہد نبوی کی تمام اہم جگہوں میں کہیں نہ کہیں یہودیا ان کے آلۂ کار منافقین کا ہاتھ ضرور نظر آتا ہے، غزوۂ بدر سے پہلے یہودی مکہ مکرمہ جاتے تھے، اور مشرکین مکہ کو حملہ کے لئے ورغلاتے تھے، غزوہ اُحد میں بھی منافقین عین میدان جنگ سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ میدان چھوڑ کر واپس آگئے، یہ وہ لوگ تھے جن کا یہودیوں کے ساتھ اندرونی تعلق تھا، اور اس غزوہ میں صحابہ کی شہادت پر یہودیوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا تھا، غزوہ خندق میں تو یہودیوں کا کردار اس قدر معاندانہ رہا اور انہوں نے کھلے طور پر معاہدہ کی خلاف ورزی کی کہ اگر اللہ تعالیٰ کی نصرت خاص شامل نہیں ہوتی تو پورا مدینہ ویران ہو کر رہ جاتا، پھر ان منافقین نے خود مہاجرین وانصار کو آپس میں لڑانے کی تھوڑی کوشش نہیں کی؛ اس لئے نفاق کو پرکھنے کا پیمانہ نام نہاد مسلمانوں کی اعداء اسلام بالخصوص یہودیوں سے دوستی ہے۔
پورے عالم عرب میں اگر کوئی ایسی حکومت تھی، جس سے مسلمانوں کی تسکین ہوتی تھی، تو وہ تھی مملکت سعودی عرب، اگرچہ اس کا قیام بھی انگریزوں ہی کے تعاون سے ہوا تھا؛ کیوں کہ جب خلافت عثمانیہ کے خلاف مکہ مکرمہ کے والی شریف مکہ حسین بن علی نے بغاوت کا جھنڈا بلند کیا تو اس سے برطانیہ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس بغاوت کے انعام کے طور پر اس کو نجد و حجاز کے پورے خطہ کا حکمراں بنادے گا؛ لیکن جب ترک فوجیں شکست سے دو چار ہوئیں اور اس غدار لیڈر نے فتح حاصل کی تو انگریزوں نے دریائے اردن کے کنارے ایک پٹی پر اسے بادشاہ بنادیا، ’’جو مملکت ہاشمیہ اردن‘‘ کے نام سے موسوم ہے؛ لیکن ترکوں کی شکست کا مقصد پورا ہونے کے بعد حکومت برطانیہ کی نظر میں شریف مکہ کی کوئی افادیت نہیں رہی؛ اس لئے جب ملک عبد العزیز نے حجاز پر حملہ کیا تو برطانیہ نے شریف مکہ کی مدد نہیں کی، اور موجودہ پوری سعودی مملکت آل سعود کے زیر اقتدار آگئی، اس حکومت کے قائم ہونے میں چوں کہ شیخ محمد بن عبد الوہابؒ کا بھی ایک رول رہا ہے، اس کی وجہ سے ایک اچھا پہلو یہ پیدا ہوا کہ اگرچہ حکومت نے بعض چیزوں میں غلو اور افراط سے کام لیا؛ لیکن یہ بات طے کر دی کہ یہاں بننے والے تمام قوانین کتاب و سنت پر مبنی ہوں گے؛ اگرچہ سیاسی اور معاشی نظام کو کبھی بھی حکومت نے قانون شریعت کے سانچہ میں ڈھانے کی کوشش نہیں کی؛ پھر بھی زندگی کے دوسرے شعبوں میں یہاں تک کہ حدود و قصاص میں بھی قانون شریعت کو نافذ کیا گیا، یہ دوسرے مسلم ملکوں کے مقابلہ ایک غنیمت صورت حال تھی۔
سعودی حکومت نے حجاج اور معتمرین کی بھی دل کھول کر خدمت کی، اور ان کی راحت رسانی میں کوئی کوتاہی نہیں ہونے دی، اسی کا اثر ہے کہ برصغیر بلکہ پورے عالم کے اہل ایمان اس حکومت سے محبت کرتے رہے ہیں، حرمین شریفین کی تولیت کا اعزاز، حجاج و زائرین کی خدمت، دوسرے مسلم ملکوں کی بہ نسبت شریعت اسلامی کے زیادہ حصہ کا نفاذ اور پٹرول کی قدرتی دولت کے حاصل ہونے کے بعد روزگار کے مواقع، ان سب چیزوں نے مل جل کر اس حکومت کو مسلمانوں کے درمیان کافی قبولیت عطا کی ہے ؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شاہ فیصل شہید نے مغربی طاقتوں کے بالمقابل جس جرأت اور ایمانی حمیت کا ثبوت دیا، ان کے بعد ان کے جانشینوں میں کوئی بھی اس جرأت ایمانی کا وارث نہیں ہو سکا، پھر بھی شاہ خالد مرحوم ایک نیک صفت باشاہ تھے، شاہ فہد مرحوم کو مغرب کی طرف مائل حکمراں سمجھا جاتا تھا؛ لیکن بعد کو اندازہ ہوا کہ انہوں نے حکمت کے ساتھ مغرب کے دباؤ کو تھام رکھا تھا، ان کے بعد شاہ عبداللہ مرحوم آئے جو بہت کم تعلیم یافتہ حکمراں تھے، اور لوگوں میں تأثر تھا کہ یہ زیادہ دینی رجحان کی حامل شخصیت ہیں؛ مگر افسوس کہ جب تخت اقتدار پر متمکن ہوئے تو لوگوں کی ساری توقعات خاکستر ہوگئیں، اور ان کے گرد ایسے لوگوں کا ہالہ بن گیا، جو پوری طرح مغرب کے پرستار تھے، اور جن کے عہد حکومت میں وہ کچھ ہوا جو مغرب نواز سمجھے جانے والے حکمراں شاہ فہد کے دور میں بھی نہیں ہوا۔
شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد موجودہ بادشاہ ملک سلمان نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی؛ اگرچہ ان کی دماغی صحت کے بارے میں مغرب کے ایک حلقہ کی طرف سے سوالات کھڑے کئے جا رہے تھے؛ لیکن عمومی طور پر یہ رائے تھی کہ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں، انہوں نے حکومت میں آتے ہی نہایت تیز رفتاری سے بہت سے فرمان جاری کئے، جن میں بعض بہتر بھی تھے، اور لوگوں کی امید بڑھی کہ اب گزشتہ کوتاہیوں کی تلافی ہوگی ؛ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، بنو امیہ کے دور میں ہر نئے حکمراں کے آنے پر لوگ خوشی مناتے اور پچھلے حکمراں سے نجات پانے کا احساس رکھتے؛ لیکن جب نیا حکمراں آتا تو کہتے کہ اس سے بہتر تو پہلا ہی شخص تھا، وہی صورت حال اس وقت قریب قریب سبھی مسلم ملکوں کی ہوگئی ہے۔
بجا طور پر تمام مسلمان اس وقت سب سے زیادہ تشویش اپنے مقامات مقدسہ کے بارے میں محسوس کرتے ہیں، سعودی عرب مین کم سے کم ظاہری طور پر جو دینی رکھ رکھاؤ تھا، اب وہ بھی بہت تیز رفتاری سے ختم ہو رہا ہے، مخلوط تعلیم کی اجازت کا باب تو سابقہ حکومت کے دور میں کھل گیا تھا، اب مردوں اور عورتوں کے مخلوط تفریحی اجتماعات کی اجازت بھی دے دی گئی ہے، مملکت کی راجدھانی میں بڑے دھوم دھام سے اسلامی اور سعودی روایات کے برخلاف سنیما ہال کا افتتاح کیا گیا ہے، اور حکومت کی طرف سے اعلان ہو چکا ہے کہ پوری مملکت میں سنیما ہال کھولے جائیں گے، محمد بن سلمان نے خود بیان دیا ہے کہ وہابیت کو کسی مذہبی جذبے کے تحت قبول نہیں کیا گیا تھا، امریکہ کے اشارہ پر قبول کیا گیا تھا، اور وہابیت نے سعودی عرب کو بہت نقصان پہنچایا ہے، مملکت کے گزشتہ بادشاہوں نے بڑی غلطیاں کی ہیں، اور سعودی عرب کی تاریخ ایسی تاریخ نہیں ہے جس پر فخر کیا جاسکے؛ بلکہ میرے لئے شرمندگی کا عث ہے، انہوں نے نیویارک ٹائمز کے صحافی تھامسن فریڈسن کو انٹر
ویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ اصل اسلام کی ترویج چاہتے ہیں، اور کہا کہ نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے زمانے میں موسیقی کی محفلیں ہوتی تھیں، مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط کا بھی معمول تھا اور جزیرة العرب میں یہودو نصاریٰ کا احترام تھا، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ولی عہد کس قسم کے اسلام کی ترویج چاہتے ہیں؟
مملکت میں متعدد تفریحی شہر ریاض کے مضافات اور شامی سرحد کے قریب بنائے جارہے ہیں، جو ہر طرح کی اخلاقی پابندیوں سے آزاد ہوں گے، ایک خبر یہ بھی آچکی ہے کہ فرانس کے دورے میں ۶۲ اپریل ۸۱۰۲ء کو انہوں نے پوپ فرانسس کے ساتھ ایک ایسے معاہدہ پر دستخط کیا ہے، جس کے تحت پورے سعودی عرب میں چرچ کھولنے کی بات طے پائی ہے، یہاں تک کہ اس معاہدہ میں حرمین شریفین کا بھی استثناء نہیں ہے، سعودیہ کی طرف سے تو غالباً اب تک اس کی تردید نہیں کی گئی ہے، مگر ویٹکن سیٹی کی طرف سے (۷ اپریل ۸۱۰۲ئ) کو ایک وضاحت آئی ہے کہ سعودی ولی عہد سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے، خدا کرے یہ وضاحت سچائی پر مبنی ہو، غرض کہ مصر اور بیشتر عرب ممالک تو پہلے ہی سے مغرب کی آغوش شفقت میں بیٹھ چکے ہیں، سعودی عرب نے بھی پہلے ہی سے اپنا پورا دفاعی نظام امریکہ کے حوالہ کر رکھا ہے، اور پٹرول کے کنویں پر کویت، عراق جنگ کے موقع پر ہی امریکہ نے اپنا پنجہ گاڑدیا تھا، اب فکری اور تہذیبی اعتبار سے بھی مملکت اپنے آپ کو مغرب کے حوالہ کررہی ہے۔
اس پوری صورت حال میں سب سے نازک مسئلہ بیت المقدس کا ہے، مسجد اقصیٰ یہودیوں کے حوالہ کر دی جائے، اس کے لئے حالیہ برسوں میں مغربی طاقتوں کی شہہ پر بہت تیز رفتار قدم اُٹھائے گئے ہیں، سب سے پہلے ایک ظالم وجابر آمر نے–کہ اگر وہ اپنے ملک میں سچائی کے ساتھ انتخاب کرائے تو دس فیصد ووٹ بھی حاصل نہ کر پائے–مصر میں عوام کی منتخب حکومت جو”الاخوان المسلمون“ کے زیر انتظام تھی، کو طاقت اور پیسے کے بل پر معزول کیا؛ تاکہ فلسطینیوں کا کوئی پُرسان حال باقی نہیں رہے، اور اسرائیل کے پڑوس میں کوئی ایسا ملک نہیں رہ پائے، جو اسرائیل کے عزائم میں رکاوٹ بن سکے، پھر نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ” حماس “کو –جو اسرائیل کے سخت مظالم کا شکار ہے اور جو اپنے ارض وطن کی آزادی کی جدوجہد کر رہا ہے– دہشت گرد قرار دے دیا گیا، پھر ” الاخوان المسلمون“ کو جس نے ہمیشہ قانون وآئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اسلامی اصولوں پر حکومت کے قیام کی کوشش کی ہے ، بھی دہشت گرد قرار دے دیا گیا، عجیب بات ہے کہ اسرائیل ۸۴۹۱ءسے دہشت گردی کا مسلسل مرتکب ہو رہا ہے، اور اس نے بار بار اقوام متحدہ کے فیصلے کی دھجیاں اڑائی ہیں، وہ تو دہشت گرد نہیں ہے، اور جس تنظیم نے کبھی دہشت گردی کا کوئی عمل نہیں کیا اور جمہوری طریقہ کار کو اختیار کیا، وہ دہشت گرد ہوگئی؛ حالاں کہ اصل مسئلہ اس آمرانہ سرکاری دہشت گردی کا ہے ، جس کے زیر سایہ عرب ممالک کے عوام مظلومیت اور مقہوریت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔
اس وقت ”بیت المقدس“ کا مسئلہ ایک دوراہے پرہے، بجائے اس کے کہ خلیجی ممالک بالخصوص والی حرمین شریفین مطالبہ کرتے کہ اسرائیل ۷۶۹۱ء کی سرحدوں پر واپس جائے، صورت حال یہ ہے کہ امریکہ کے صدر ٹرمپ نے بیت المقدس میں اپنا سفارت خانہ منتقل کرنے کا اعلان کیا اور باضابطہ مغربی اخبارات میں ٹرمپ کی طرف سے وضاحت کی گئی کہ ہم نے اس مسئلہ پر سعودی عرب ، مصر اوربعض دیگر خلیجی ملکوں سے گفتگو کر لی ہے، افسوس کہ ہمارے ان حکمرانوں کو یہ بھی توفیق نہیں ہوسکی کہ وہ اس اعلان کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کرتے اور دو ٹوک انداز پر ٹرمپ کی تردید کرتے، ۴اپریل ۸۱۰۲ءکو سعودی عرب کے ولی عہد نے بیان دیا کہ اسرائیل کو اپنی سرزمین پر قابض رہنے کا حق حاصل ہے، کاش !یہی بیان فلسطینیوں کے بارے میں آتا، یہاں تک کہ اب سعودیہ کی طرف سے فلسطینیوں پر دباو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ ٹرمپ کے فارمولے کو قبول کرلیں؛ ورنہ انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، جب سعودی عرب نے ٹرمپ کی آمد پر مسلم ممالک کے سربراہان کو دعوت دی تو یہ اس طرح گرتے پڑتے ریاض پہنچے کہ گویا نہیں پہنچے تو دنیا وآخرت تباہ ہو جائے گی؛ لیکن ۴۱دسمبر ۷۱۰۲ ءکوجب ترکی نے بیت المقدس کے مسئلہ پر ورلڈ مسلم لیگ کا اجلاس طلب کیا تو سعودی عرب، مصر اور عرب امارات وغیرہ نے اعلیٰ سطحی نمائندگی سے بھی گریز کیا اور کم درجے کے نمائندہ کو بھیجا، گویا ارادی طور پر مسجد اقصیٰ کے مسئلہ کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی گئی، قرآن نے تویہودکو مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا ہے، اور اس دشمنی کو آج ہم شب وروز سر کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، مگران ہی سے بعض عرب ملکوں کی دوستی عروج پر ہے،اور اس کے برخلاف اپنے مسلمان ترک بھائیوں سے نفرت ہے، جنہوں نے پانچ سو سال سے زیادہ بیت المقدس کو بچا کر رکھا اور آخری خلیفہ نے یہودیوں کے فلسطین میں آباد ہونے کے مقابلہ اپنی معزولی کو ترجیح دی، محمد بن نائف کو بلا وجہ معزول کرنے کے بعد اخبارات میں خبریں آئیں کہ اسرائیل کے پندرہ جنگی جہاز ریاض میں اتر چکے ہیں، اور سعودیہ کی طرف سے اس کی کوئی تردید نہیں کی گئی، اور اب خبر آئی ہے کہ سعودیہ حج کے سارے انتظامات اسرائیلی کمپنی کے حوالہ کر رہا ہے، افسوس:
میر کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے بیٹے سے دوا لیتے ہیں
حالات بتا رہے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کا مسئلہ اس وقت نہایت نازک مرحلہ میں داخل ہو چکا ہے، افسوس کہ ان سطور کے لکھے جانے کے دوران ہی ۴۱ مئی ۸۱۰۲ء کو فرعونِ وقت ٹرمپ کے فیصلہ کے مطابق امریکہ کا سفارت خانہ بیت المقدس میں منتقل ہوچکا اور اس کے خلاف احتجاج کے دوران بڑی تعداد میں فلسطینی شہید ہوئے؛ لیکن سوائے ترکی کے کسی مسلم ملک کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ امریکہ کے اس ایک طرفہ اور ظالمانہ اقدام پر امریکہ سے اپنے سفیر کو واپس طلب کر لے، ترکی نے اسرائیل سے تو اپنا سفیر واپس بلایا ہی امریکہ سے بھی اپنے سفیر کو واپس طلب کرلیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ طیب اردگان کو جس قدر خراج محبت پیش کیا جائے کم ہے اور عالم اسلام کی بزدلی ،بے حمیتی اور غیرت اسلامی سے محرومی پر جس قدر رویا جائے کم ہے۔
افسوس صد افسوس کہ فلسطین کے پڑوسی مسلم ممالک نہ صرف یہ کہ مسجد اقصی کے تحفظ کے لئے کچھ نہیں چاہتے؛ بلکہ جو فلسطینی مزاحمت کر رہے ہیں، ان پر بھی دباو ¿ ڈال رہے ہیں؛بلکہ کچھ عرصہ پہلے ایک خفیہ پلان بھی منظر عام پر آچکا ہے، معلوم نہیں اس کی حقیقت کیا ہے؟ کہ اسرائیل حماس پر حملہ آور ہوگا، اور جب ان کو غزہ چھوڑنا پڑے گاتو مصری فوج ان کو بھگا کر سینا کے بے آب وگیاہ صحراءمیں لے جائے گی، وہاں ان کو آباد کیا جائے گا، اور ان کی آباد کاری کے لئے سعودی عرب اور بعض خلیجی ممالک فائنانس کریں گے؛ تاکہ فلسطین کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے، اور اسرائیل پورے خطہ پر قابض ہو جائے، ظاہر ہے اس کے بعد کی منزل مسجد اقصیٰ کا انہدام ہے، جس میں اسرائیل کے لئے کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی، خدا نہ کرے کہ یہ سازش کبھی پایہ ¿ تکمیل کو پہنچے اور ملت اسلامیہ کی آنکھیں ایسا برا وقت دیکھنے پر مجبور ہو جائیں۔
اب یہ بات تو ظاہر ہے کہ عالم اسلام میں سوائے ترکی کے ،نیز عالم عر ب اور خلیج میں سوائے قطر کے اکثر ممالک اس بڑی منافقانہ سازش کو قبول کر چکے ہیں، اور مسلم حکمراں ایک ایسے نفاق میں مبتلا ہیں، جو اَب خفیہ راز نہیں رہا، حکمرانوں کے علاوہ اگر کوئی اس کے خلاف آواز اُٹھا سکتا تھا تو وہ علماءتھے؛ لیکن ان جیسے ممالک میں علماءربانیین کی ایک بڑی جماعت کو جیل کی کوٹھری میں ڈال دیا گیا ہے، اور وہ ناقابل بیان مظالم کے شکار ہیں، کچھ وہ اہل علم ہیں جو اس صورت حال سے اپنے دل میں ضرور کسک محسوس کرتے ہیں اور ان کا ضمیر ان کو ملامت کرتا ہے؛ لیکن وہ واقعی مجبور ہیں، اس لیے انہوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے ، بہر حال انہیں معذور سمجھنا چاہئے، لیکن علماءوائمہ مساجد کا ایک گروہ ایسا بھی ہے، جنہیں پیسوں کے ذریعہ حکومتوں نے خرید کر لیا ہے، اگر وہ سکوت اختیار کرتے تب بھی سمجھا جاتا کہ یہ ان کی مجبوری ہے؛ لیکن اس سے آگے بڑھ کر وہ حکومت کے ہر خلاف شریعت عمل پر مہر تصویب ثبت کرتے جاتے ہیں، مصر کے سابق اور موجودہ مفتی اعظم کا حال پوری دنیا کے مسلمانوں نے دیکھا کہ انہوں نے کس طرح الاخوان المسلمون کے غیرت مند اور با حمیت مسلمانوں کی خون ریزی کو جائز ٹھہرایا، اور مصر کے دستور سے اس دفعہ کے حذف کرنے کو قبول کر لیا، جس کی رو سے دستور کی بنیاد کتاب وسنت کو قرار دیا گیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ ان حالات میں علماءاور عام مسلمانوں کی ذمہ داری کیا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے، او ر اس سوال کا تعلق مسلمانوں میں سے کچھ افراد سے ، کسی خاص جماعت سے، کسی خاص گروہ اور تنظیم سے نیز کسی خاص خطہ اور علاقہ کے رہنے والوں سے نہیں ہے؛ بلکہ پوری ملت اسلامیہ سے ہے، تو آئیے ہم غور کریں کہ موجودہ حالات میں مقامات مقدسہ اور بالخصوص مسجد اقصیٰ کی حرمت کی بقا کی لئے ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں:
۱۔ ہم چوں کہ بیت المقدس اور حرمین شریفین سے بڑے فاصلہ پر ہیں؛ اس لئے ہم براہ راست اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد نہیں کرسکتے؛ لیکن ہم یہ تو کرسکتے ہیں کہ اپنا احتجاج درج کر
وائیں، اور مسلم ممالک بالخصوص سعودی عرب، مصر، عرب امارات، اردن اور شام کے سفارت خانوں تک اپنا احتجاجی نوٹ پہنچائیں کہ وہ ۷۶۹۱ء میں اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں پر ہرگز اسرائیل کے قبضہ کو تسلیم نہیں کریں اور جب تک اسرائیل اس کو تسلیم نہیں کرے، اس سے ہر طرح کے تعلقات منقطع رکھیں اور اگر ہیں تو منقطع کرلیں۔
۲۔ اختلاف مسلک ومشرب سے بالاتر ہوکر تمام دینی جماعتیں اور اہم ادارے جیسے جمعیة علماءہند، جماعت اسلامی ہند، جمعیة اہل حدیث، دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوة العلمائ، جامعہ اشرفیہ مبارکپور، جامعہ سلفیہ بنارس، جامعة الفلاح اعظم گڑھ وغیرہ تمام مسلم ملکوں سے اور خاص کر مذکورہ ملکوں سے مطالبہ کریں کہ وہ امریکہ واسرائیل کے سامنے سر نہ جھکائیں، اور اللہ پر بھروسہ کرکے پوری قوت کے ساتھ مزاحمت کریں، حماس کو دہشت گرد تنظیم ماننے سے انکار کردیں، اور اسرائیل کو دہشت گرد قرار دیں۔
۳۔ خاص طور پر سعودی عرب کے سامنے یہ بات رکھی جائے کہ موجودہ ولی عہد نے جو راستہ اختیار کیا ہے، یہ صریحاََ اسلام مخالف ہے، یہ سعودی روایات کے بھی خلاف ہے، یہ خود اس ملک کے دستور کے بھی مغائر ہے، جس میں کتاب وسنت کو ملک کے لئے دستور کا درجہ دیا گیاہے، یہ حرمین شریفین کی تولیت کے عظیم منصب کے لئے مطلوبہ اوصاف واقدار کے برعکس ہے اور یہ مغرب نواز پالیسی، دینی، معاشی، اخلاقی اور دفاعی ہر پہلو سے خود مملکت کے لئے نقصاندہ ہے، نیز یہ ملک اور شاہی خاندان کے اندر بھی ایک بڑے انتشار کا سبب ثابت ہو سکتا ہے؛ اس لئے وہ اس نئی پالیسی سے باز آجائیں اور اپنے اُس مقام ومرتبہ کا لحاظ کریں، جو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نسبت سے ان کو عطا کیا ہے۔
۴۔ اس وقت مسئلہ فلسطین مخلصین اور منافقین کو پرکھنے کا ایک پیمانہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہودونصاریٰ کو حرم مکی سے بغض تھا؛ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو قدرت کے باوجود حج نہ کرے تو مجھے اس سے غرض نہیں کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر، (ترمذی، حدیث نمبر: ۲۱۸) یعنی اس وقت کعبة اللہ سے محبت اخلاص کے لئے معیار تھا، موجودہ دور میں یہودونصاریٰ کو مسلمانوں سے سب سے زیادہ بغض اس بات سے ہے کہ وہ انبیاءبنی اسرائیل کے مرکز بیت المقدس پر کیوں قابض ہیں؛ اس لئے اس وقت جو شخص یا جو حکومت مسئلہ فلسطین کو نظر انداز کرتی ہے، اور یہودیوں کے ہاتھ اس کا سودا کرنے کو تیار ہے، وہ اس دور کے منافقین ہیں؛ اس لئے ایسے ملکوں کے سرکاری عہدہ داروں اور سرکاری مولویوں کو اداروں اور تنظیموں میں مدعو کرنے سے گریز کیا جائے، اسی طرح اگر اعداءاسلام کی ہم نوا ان ظالم حکومتوں کی طرف سے کوئی دعوت آئے تو اسے قبول نہیں کیا جائے، اور صاف طور پر لکھا جائے کہ مسئلہ فلسطین میں آپ کی مسلمان مخالف پالیسی کی وجہ سے ہم لوگ اس دعوت کو رد کررہے ہیں۔
۵۔ فلسطین کا سودا کرنے میں جن ملکوں کا نام سامنے آرہا ہے، دینی کاموں کے لئے نہ ان سے عطیہ مانگا جائے اور نہ ان کا عطیہ قبول کیا جائے؛ کیوں کہ ایسے ممالک مسجدیں اور عمارتیں بنواکر یا تھوڑی بہت رقمی امداد کر کے اپنے حقیقی مکروہ چہرے کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔
۶۔ اسرائیل اور اسرائیل نواز امریکی کمپنیوں کا مستقل طور پر بائیکاٹ کیا جائے، یہ نہ سوچا جائے کہ ہمارے سامان نہ خریدنے سے کمپنی تو بند نہیں ہوگی، پھر اس کا کیا فائدہ؟؛ بلکہ اس بات کو پیش نظر رکھا جائے کہ ہمیں یہ کام ایک دینی فریضہ کے طور پر کرنا ہے، بلا سے کہ ہمارے اس عمل سے دشمن کو خاطر خواہ نقصان نہ پہنچے؛ لیکن ہم عند اللہ ظالم کی حمایت کے گناہ سے تو بچیں گے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ظالموں سے تمہارا تعلق نہیں ہونا چاہئے، (لاترکنوا الی الذین ظلموا ، ھود: ۳۱۱)
۷۔ یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان ۷۶۹۱ءکے پہلے کی طرح زیادہ سے زیادہ مسجد اقصیٰ کی زیارت کا شرف حاصل کریں، اور بیت المقدس کے سفر کا اہتمام کریں؛ تاکہ ظاہر ہو کہ مسلمانوں کو اس مسجد سے اب تک ویسا ہی تعلق ہے، جیسا تعلق پہلے تھا۔
۸۔ مسجد اقصیٰ کے موضوع پر زیادہ سے زیادہ جلسے کئے جائیں، جمعہ کے بیانات میں ،مدارس اسلامیہ کے سالانہ جلسوں میں، مسلم جماعتوں اور تنظیموں کے پروگراموں میں اس موضوع کو پیش کیا جائے، مضامین کے ذریعہ یہودیوں کی قتل وغارت گری، ظلم وبربریت اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کو خوب واضح کیا جائے، برادران وطن کے ساتھ مل کر مسئلہ فلسطین پر سیمینار رکھے جائیں، اور اس میں زبانی بیانات، تحریری دستاویزات اور تصویروں کے ذریعہ فلسطینیوں کی مظلومیت کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کیا جائے۔
۹۔ اس وقت ہمارے دینی مدارس میں تاریخ کا مضمون گویا پڑھایا ہی نہیں جاتا؛ لیکن کم سے کم سیرت نبویﷺ کے ساتھ مقامات مقدسہ کی تاریخ کو شاملِ نصاب کیا جائے ؛تاکہ آنے والی نسل کا اپنے مقدس مقامات سے محبت و اعتقاد کا رشتہ بغیر کسی کمی کے قائم رہے۔
۰۱۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ مسئلہ فلسطین کی اہمیت،مغرب کی دوہری پالیسی اوراس سلسلے میں موجودہ مسلم حکمرانوں کی کوتاہی کو ہر ہر مسلمان تک پہنچایا جائے، اور اس کو پُر امن اور مہذب احتجاج کا ذریعہ بنایا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم کسی برائی کو دیکھو تو قوت سے بدلنے کی کوشش کرو، قوت صرف ہتھیار ہی کی نہیں ہوتی، قانون کی بھی ہوتی ہے، اور جمہوری معاشرے میں اتحادو اجتماعیت کی بھی ہوتی ہے، اگر قوت کا استعمال ممکن نہ ہو توزبان سے روکنا ضروری ہے، آج کل پُرامن احتجاج کی جو صورتیں اختیار کی جاتی ہیں، یا جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، یہ سب زبان ہی سے روکنے کے زمرہ میں آتے ہیں، اور اگر زبان سے بھی کہنا ممکن نہ ہو تو انسان دل میں کڑھن محسوس کرے، یہ ایمان کا بالکل آخری درجہ ہے، (مسلم، حدیث نمبر: ۹۴) اب اگر کوئی شخص حکمرانوں کے روبرو کچھ بول نہ سکے، دل کی کڑھن کے ساتھ خاموشی اختیار کر لے تو وہ ایمان کے آخری درجہ میں ہے، اگر کڑہن محسوس کرنے کے بجائے وہ خوشامد اور چاپلوسی کرنے لگے، جیسا کہ اس وقت عالم اسلام کے بعض علماءوارباب افتاءکا حال ہے تو گویا وہ ایمان کے اس آخری درجہ سے بھی محروم ہے، جہاں تک ہندوستان کی بات ہے توعالم اسلام اور مقامات مقدسہ کے بارے میں اس کی ایک روشن تاریخ رہی ہے؛ چنانچہ ہندوستان کے علماءاور اکابر نے خلافت عثمانیہ کے سقوط کے وقت خاموشی اختیار نہیں کی اور یہ نہیں سوچا کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے، یہ پرایا مسئلہ ہے؛ بلکہ اس وقت کے متحدہ ہندوستان میں اس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا گیا، اور خلافت تحریک وجود میں آئی، ملت کے ذمہ داروں کے لئے لمحہء فکرہے کہ اگر اسلامی اقدار کے خلاف کھلے ہوئے عناد، یہودونصاریٰ کی دوستی اور مقامات مقدسہ کے احترام کی پامالی پر بھی ہماری رگ حمیت نہیں پھڑکے اور ہماری دینی غیرت کو جوش نہیں آئے تو پھر کون سا وقت ہوگا جب ہم اللہ سے کئے ہوئے اس وعدہ کو پورا کر سکیں گے کہ ہم نے اپنے پورے وجود کو خدا کے ہاتھوں بیچ دیا ہے، (توبہ: ۱۱۱) اور یہ کہ ہمارا کچھ نہیں ہے، ہم اللہ اور صرف اللہ کے لئے ہیں: إن صلاتی ¸ ونسکی ¸ ومحیای¸ ومماتی ¸ للہ رب العالمین (انعام:۲۶۱)
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

No comments:

Post a Comment