روزہ میں انجکشن یا ٹیکہ لگوانے کا حکم
سوال: کیا رگ میں انجیکشن لگانے سے روزہ پر اثرپڑتا ہے؟
الحمد للہ
رمضان میں روزہ دار کےلیےانجیکشن کے استعمال کی دوحالتیں ہیں :
پہلی حالت:
یہ انجیکشن مغذی ہوں یعنی بطور غذا استعمال کیے جاتے ہوں جوکھانے پینے سے مستغنی کردیں ، ایسے انجیکشن کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اس لیے کہ یہ کھانے پینے کے قائم مقام ہیں ۔
دوسری حالت:
وہ انجیکشن مغذی نہ ہوں ایسے انجیکشن کے استعمال سے روزہ نہیں ٹوٹتا ، اس میں کوئي فرق نہیں کہ یہ انجیکشن رگ میں لگایا جائے یا پھر عضلات میں ۔
لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ یہ انجیکشن بھی رات کے وقت استعمال کیے جائيں تاکہ روزے میں احتیاط ہوسکے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذيل سوال کیا گيا:
ماہ رمضان میں دن کے وقت روزے دار کا رگ یا عضلات میں انجیکشن لگانے کا حکم کیا ہے، کیا اس کا روزہ فاسد ہوجائے گا اوراس پرقضاء واجب ہوگي کہ نہیں ؟
شیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا:
اس کا روزہ صحیح ہے اس لئے کہ رگ میں انجیکشن لگانا کھانا پینا تو نہیں ، اوراسی طرح عضلات میں لگائے جانے ٹیکے بھی بالاولی صحیح ہیں، لیکن اگر احتیاط کرتے ہوئے روزہ کی قضاء میں روزہ رکھے تویہ بہتر اوراچھا ہے، اورجب ضرورت محسوس ہوایسے ٹیکے رات میں لگانے زيادہ بہتر اور احسن ہیں اور احتیاط بھی اسی میں ہے تاکہ اس مسئلہ میں اختلاف سے بچا جاسکے ۔اھـ دیکھیں: مجموع الفتاوی ( 15 / 257 ) ۔
شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی سے عضلات یا رگ اور چوتڑ میں ٹیکے لگانے کے حکم کے بارہ میں سوال کیا گيا توان کا جواب تھا:
رگ، عضلات اورچوتڑ میں ٹیکا لگانے میں کوئي حرج نہيں، اوراس سے روزہ دار کا روزہ نہيں ٹوٹتا، اس لیے کہ یہ روزہ توڑنے والی اشیاء میں شامل نہیں، اورنہ ہی یہ روزہ توڑنے والی اشیاء کے معنی میں اور قائم مقام ہے، اورنہ ہی یہ کھانا پینا اور کھانے پینے کی معنی میں شامل ہوتا ہے۔
ہم پہلے یہ بیان کرچکے ہیں کہ یہ اثرانداز نہيں ہوتا ، بلکہ مریض کو وہ ٹیکے اثر انداز ہونگے جو کھانے پینے سے مستغنی کردیں ۔ ا ھـ
دیکھيں: فتاوی الصیام ( 220 ) ۔
اللجنۃ الدائمۃ سے مندرجہ ذيل سوال کیا گيا:
رمضان میں دن کے وقت روزہ کی حالت میں بطور علاج یا مغذی ٹیکے لگانے کا حکم کیا ہے؟
کمیٹی کا جواب تھا:
روزہ دار کے لئے عضلات اور رگ میں ٹیکے سے علاج کروانا جائز ہے، لیکن روزہ دار کے لیے مغذی ٹیکے لگوانے جائز نہيں اس لیے کہ یہ کھانے پینے کے معنی میں شامل ہوتے ہیں اس کا استعمال کرنا رمضان میں روزہ افطارکرنے کا ایک حیلہ شمار ہوگا ، اوراگر رگ اورعضلات میں رات کو ٹیکا لگوانا ممکن ہو تو یہ اولی اوربہتر ہے۔ اھـ
دیکھیں: فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 252 ) ۔
واللہ اعلم .
......
سوال: یہ ویکسن کیا چیز ہے؟
جواب: بقریہ (ویکسین) کوئی بھی ایسا مادہ (وائرس، بیکٹیریا، دیگر کوئی خوردنامیہ) ہوتا ہے جو جسم میں داخل کے جانے پر جسم کی قوت مدافعت (مناعی نظام) میں اس مادہ کے خلاف اضافہ کرتا ہے یعنی پھر وہ وائرس یا جراثیم جس سے لیا گیا مادہ بقرہ کے طور پر جسم میں داخل کیا گیا ہو، جسم میں داخل ہونے پر کوئی بیماری پیدا نہیں کرسکتا کیونکہ اسی سے بنایا گیا بقرہ (ویکسین)، اسی کے خلاف جسم میں قوت مدافعت پیدا کرچکا ہوتا ہے۔۔۔
.....
روزہ میں انجکشن یا ٹیکہ لگوانے کا حکم
مسئلہ: ا نجکشن سے روزہ نہیں ٹوٹتا ، روزہ اس چیز سے فاسد ہو تا ہے ۔ جو منفذ کے ذریعہ معدہ یا دماغ میں پہنچ جائے انجکشن کی دوا بذریعہ منفذ نہیں جاتی بلکہ عروق اور مسامات کے ذریعہ معدہ میں پہنچی ہے لہذا روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (احسن الفتاوی ج۴؍ ۴۳۲ )
http://www.elmedeen.com/read-book-3124&page=97
..........
الجواب بعون الملک الوھاب:
صورت مسئولہ کے جاننے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلیجئے کہ روزہ کا فساد وعدم فساد اس بات پر موقوف ہے کہ معتاد ذرائع سے کوئی چیز (دوا وغیرہ) دماغ یا معدہ تک پہنچ جائے تو اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے پس صورت مسئولہ میں آجکل کے ماہرین طب کے مطابق انجکشن لگانے سے دوا دماغ یا معدے تک نہیں پہنچتی ہے بلکہ یہ رگوں میں حلول کرکے بدن کو راحت پہنچانے کا ذریعہ بنتی ہے لہٰذا اسکے لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ پھرخواہ یہ انجکشن رگ میں ہو یا گوشت میں نیز اگر کسی انجکشن کا اثر دماغ یا معدے تک پہنچ بھی جاتا ہو تب بھی روزہ نہ ٹوٹے گا کیونکہ یہ معتاد ذریعہ نہیں اور روزہ معتاد ذرائع سے دماغ یا معدے تک کسی چیز کے پہنچنے سے ٹوٹتا ہے البتہ کوئی انجکشن اگر سیدھا معدے پر لگایا جاتا ہو اور براہ راست اس کا تعلق پیٹ کے معدے والے حصے سے ہو تو چونکہ یہ دواء معدے میں براہ راست اتر رہی ہے لہذا اس سے روزہ ٹوٹ جائیگا جیسا کہ فقہاء نے حقنہ میں اس کی تصریح کی ہے۔
لمافی الھندیۃ (۱۹۹/۱): ولا بأس بالحجامۃ ان أمن علی نفسہ الضعف أما اذا خاف فانہ یکرہ وینبغی لہ أن یؤخر الی وقت الغروب۔
وفی الھندیۃ(۲۰۳/۱): ومایدخل من مسام البدن من الدھن لایفطر ھکذا فی شرح المجمع ومن اغتسل فی ماء وجد بردہ فی باطنہ لا یفطرہ۔
وفی الشامیۃ (۳۹۶،۳۹۵/۲): والمفطرانماھوالداخل من المنافذللا تفاق علی ان من اغتسل فی ماء فوجدبردہ فی باطنہ انہ لایفطر۔
از نجم الفتاوی
العبد محمد اسلامپوری
No comments:
Post a Comment