احکام رمضان المبارک و مسائل زکوٰة
رمضان المبارک کے روزے رکھنا اسلام کا تیسرا فرض ہے۔ جو اس کے فرض ہونے کا انکار کرے مسلمان نہیں رہتا اور جو اس فرض کو ادا نہ کرے وہ سخت گناہ گار فاسق ہے۔
روزہ کی نیت:
نیت کہتے ہیں دل کے قصد وارادہ کو، زبان سے کچھ کہے یا نہ کہے۔
روزہ کے لیے نیت شرط ہے، اگر روزہ کا ارادہ نہ کیا اور تمام دن کچھ کھایا پیا نہیں تو روزہ نہ ہوگا۔
مسئلہ: رمضان کے روزے کی نیت رات سے کرلینا بہتر ہے اور رات کو نہ کی ہوتو دن کو بھی زوال سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے تک کرسکتا ہے؛ بشرطیکہ کچھ کھایا پیا نہ ہو۔
جن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے:
(۱) کان اور ناک میں دوا ڈالنا،
(۲) قصداً منہ بھر قے کرنا،
(۳) کلی کرتے ہوئے حلق میں پانی چلا جانا،
(۴) عورت کو چھونے وغیرہ سے انزال ہوجانا،
(۵) کوئی ایسی چیز نگل جانا جو عادةً کھائی نہیں جاتی ، جیسے لکڑی، لوہا، کچا گیہوں کا دانہ وغیرہ،
(۶) لوبان یا عود وغیرہ کا دھواں قصداً ناک یا حلق میں پہنچانا، بیڑی، سگریٹ، حقہ پینا اسی حکم میں ہیں،
(۷) بھول کر کھاپی لیا اور یہ خیال کیا کہ اس سے روزہ ٹوٹ گیا ہوگا پھر قصداً کھاپی لیا،
(۸) رات سمجھ کر صبح صادق کے بعد سحری کھالی،
(۹) دن باقی تھا؛ مگر غلطی سے یہ سمجھ کر کہ آفتاب غروب ہوگیا ہے، روزہ افطار کرلیا۔
تنبیہ: ان سب چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، مگر صرف قضا واجب ہوتی ہے، کفارہ لازم نہیں ہوتا۔
(۱۰) جان بوجھ کر بدون بھولنے کے بی بی سے صحبت کرنے یا کھانے پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور قضا بھی لازم ہوتی ہے اور کفارہ بھی۔
کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے ورنہ ساٹھ روزے متواتر رکھے، بیچ میں ناغہ نہ ہو ورنہ پھر شروع سے ساٹھ روزے پورے کرنے پڑیں گے اور اگر روزہ کی بھی طاقت نہ ہوتو ساٹھ مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھرکر کھانا کھلاوے۔ آج کل شرعی غلام یا باندی کہیں نہیں ملتے؛ اس لیے آخری دو صورتیں متعین ہیں۔
وہ چیزیں جن سے روزہ ٹوٹتا نہیں؛ مگر مکروہ ہوجاتا ہے:
(۱) بلاضرورت کسی چیز کو چبانا یا نمک وغیرہ چکھ کر تھوک دینا، ٹوتھ پیسٹ یا منجن یا کوئلہ سے دانت صاف کرنا بھی روزہ میں مکروہ ہیں۔
(۲) تمام دن حالت جنابت میں بغیر غسل کیے رہنا۔
(۳) فصد کرانا، کسی مریض کے لیے اپنا خون دینا جو آج کل ڈاکٹروں میں رائج ہے یہ بھی اس میں داخل ہے۔
(۴) غیبت یعنی کسی کی پیٹھ پیچھے اس کی برائی کرنا یہ ہرحال میں حرام ہے، روزہ میں اس کا گناہ اور بڑھ جاتا ہے۔
(۵) روزہ میں لڑنا جھگڑنا، گالی دینا خواہ انسان کو ہو یا کسی بے جان چیز کو یا جاندار کو، ان سے بھی روزہ مکروہ ہوجاتا ہے۔
وہ چیزیں جن سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور مکروہ بھی نہیں ہوتا!
(۱) مسواک کرنا ۔
(۲) سر یا مونچھوں پر تیل لگانا۔
(۳) آنکھوں میں دوا، یا سُرمہ ڈالنا۔
(۴) خوشبو سونگھنا۔
(۵) گرمی اور پیاس کی وجہ سے غسل کرنا۔
(۶) کسی قسم کا انجکشن یا ٹیکہ لگوانا۔
(۷) بھول کر کھانا پینا۔
(۸) حلق میں پانی ڈالنا یا بلاقصد چلا جانا۔
(۱۰) خود بخود قے آجانا۔
(۱۱) سوتے ہوئے احتلام (غسل کی حاجت) ہوجانا۔
(۱۲) دانتوں میں سے خون نکلے؛ مگر حلق میں نہ جائے تو روزہ میں خلل نہیں آیا۔ (۱۳) اگر خواب میں یا صحبت سے غسل کی حاجت ہوگئی اور صبح صادق ہونے سے پہلے غسل نہیں کیا اور اسی حالت میں روزہ کی نیت کرلی تو روزہ میں خلل نہیں آیا۔
وہ عذر جن سے رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہوتی ہے:
(۱) بیماری کی وجہ سے روزہ کی طاقت نہ ہو، یا مرض بڑھنے کا شدید خطرہ ہوتو روزہ نہ رکھنا جائز ہے، بعد رمضان اس کی قضا لازم ہے۔
(۲) جو عورت حمل سے ہو اور روزہ میں بچہ کو یا اپنی جان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتو روزہ نہ رکھے، بعد میں قضا کرے۔
(۳) جو عورت اپنے یا کسی غیر کے بچہ کو دودھ پلاتی ہے، اگر روزہ سے بچہ کو دودھ نہیں ملتا، تکلیف پہنچتی ہے تو روزہ نہ رکھے پھر قضا کرے۔
(۴) مسافر شرعی (جو کم از کم اڑتالیس میل کے سفر کی نیت پر گھر سے نکلا ہو) اس کے لیے اجازت ہے کہ روزہ نہ رکھے، پھر اگر کچھ تکلیف ودقت نہ ہوتو افضل یہ ہے کہ سفر ہی میں روزہ رکھ لے اگر خود اپنے آپ کو یا اپنے ساتھیوں کو اس سے تکلیف ہوتو روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہے۔
(۵) بحالت روزہ سفر شروع کیا تو اس روزة کا پورا کرنا ضروری ہے اور اگر کچھ کھانے پینے کے بعد سفر سے وطن واپس آگیا تو باقی دن کھانے پینے سے احتراز کرے، اور اگر ابھی کچھ کھایا پیا نہیں تھا کہ وطن میں ایسے وقت واپس آگیا جب کہ روزہ کی نیت ہوسکتی ہو یعنی زوال سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل تو اس پر لازم ہے کہ روزہ کی نیت کرلے۔
(۶) کسی کو قتل کی دھمکی دے کر روزہ توڑنے پر مجبور کیا جائے تو اس کے لیے توڑ دینا جائز ہے پھر قضا کرلے۔
(۷) کسی بیماری یا بھوک پیاس کا اتنا غلبہ ہوجائے کہ کسی مسلمان دیندار ماہر طبیب یا ڈاکٹر کے نزدیک جان کا خطرہ لاحق ہوتو روزہ توڑدینا جائز؛ بلکہ واجب ہے اور پھر اس کی قضا لازم ہوگی۔
(۸) عورت کے لیے ایام حیض میں اور بچہ کی پیدائش کے بعد جو خون آتا ہے یعنی نفاس اس کے دوران میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔ ان ایام میں روزہ نہ رکھے بعد میں قضا کرے۔ بیمار، مسافر، حیض ونفاس والی عورت جن کے لیے رمضان میں روزہ رکھنا اور کھانا پینا جائز ہے ان کو بھی لازم ہے کہ رمضان کا احترام کریں، سب کے سامنے کھاتے پیتے نہ پھریں۔
روزہ کی قضا
(۱) کسی عذر سے روزہ قضا ہوگیا تو جب عُذر جاتا رہے جلد ادا کرلینا چاہیے۔ زندگی اور طاقت کا بھروسہ نہیں، قضا روزوں میں اختیار ہے کہ متواتر رکھے یا ایک ایک دودو کرکے رکھے۔
(۲) اگر مسافر سفر سے لوٹنے کے بعد یا مریض تندرست ہونے کے بعد اتنا وقت نہ پائے کہ جس میں قضا شدہ روزے ادا کرے تو قضا اس کے ذمہ لازم نہیں۔ سفر سے لوٹنے اور بیماری سے تندرست ہونے کے بعد جتنے دن ملیں، اتنے ہی کی قضا لازم ہوگی۔
سحری
روزہ دار کو آخر رات میں صبحِ صادق سے پہلے پہلے سحری کھانا مسنون اور باعثِ برکت وثواب ہے۔ نصف شب کے بعد جس وقت بھی کھائیں سحری کی سنت ادا ہوجائے گی؛ لیکن بالکل آخر شب میں کھانا افضل ہے۔ اگر موٴذّن نے صبح سے پہلے اذان دے دی تو سحری کھانے کی ممانعت نہیں؛ جب تک صبح صادق نہ ہوجائے۔ سحری سے فارغ ہوکر روزہ کی نیت دل میں کرلینا کافی ہے اور زبان سے بھی یہ الفاظ کہہ لے تو اچھا ہے بِصَوْمِ غَدٍ نَّوَیْتُ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ․
اِفطاری
آفتاب کے غروب ہونے کا یقین ہوجانے کے بعد افطار میں دیر کرنا مکروہ ہے، ہاں جب اَبر وغیرہ کی وجہ سے اشتباہ ہوتو دو چار منٹ انتظار کرلینا بہتر ہے اور تین منٹ کی احتیاط بہرحال کرنا چاہیے۔
کھجور اور خرما سے افطار کرنا افضل ہے اور کسی دوسری چیز سے افطار کریں تو اس میں بھی کوئی کراہت نہیں، افطار کے وقت یہ دُعا مسنون ہے اَللّٰہُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ اور افطار کے بعد یہ دعا پڑھے ذَہَبَ الظَّمَاءُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ․
تراویح
(۱) رمضان المبارک میں عشاء کے فرض اور سنت کے بعد بیس رکعت سنت موٴکدہ ہے۔
(۲) تراویح کی جماعت سنت علی الکفایہ ہے۔ محلہ کی مسجد میں جماعت ہوتی ہواور کوئی شخص علیحدہ اپنے گھر میں اپنی تراویح پڑھ لے تو سنت ادا ہوگئی، اگرچہ مسجد اور جماعت کے ثواب سے محروم رہا اور اگر محلہ ہی میں جماعت نہ ہوئی تو سب کے سب ترک سنت کے گنہگار ہوں گے۔
(۳) تراویح میں پورا قرآن مجید ختم کرنا بھی سنت ہے۔ کسی جگہ حافظِ قرآن سنانے والانہ ملے یا ملے؛ مگر سنانے پر اجرت ومعاوضہ طلب کرے تو چھوٹی سورتوں سے نماز تراویح ادا کریں، اُجرت دے کر قرآن نہ سنیں؛ کیوں کہ قرآن سنانے پر اجرت لینا اور دینا حرام ہے۔
(۴) اگر ایک حافظ ایک مسجد میں بیس رکعت پڑھ چکا ہے، اس کو دوسری مسجد میں اسی رات تراویح پڑھنا درست نہیں۔
(۵) جس شخص کی دوچار رکعت تراویح کی رہ گئی ہو تو جب امام وتر کی جماعت کرائے اس کو بھی جماعت میں شامل ہوجانا چاہیے، اپنی باقی ماندہ تراویح بعد میں پوری کرے۔
(۶) قرآن کو اس قدر جلد پڑھنا کہ حروف کٹ جائیں بڑا گناہ ہے، اس صورت میں نہ امام کو ثواب ہوگا، نہ مقتدی کو۔ جمہور علماء کا فتویٰ یہ ہے کہ نابالغ کو تراویح میں امام بنانا جائز نہیں۔
اِعتکاف
(۱) اعتکاف اس کو کہتے ہیں کہ اعتکاف کی نیت کرکے مسجد میں رہے اور سوائے ایسی حاجات ضروریہ کے جو مسجد میں پوری نہ ہوسکیں (جیسے پیشاب، پاخانہ کی ضرورت یا غسل واجب اور وضو کی ضرورت) مسجد سے باہر نہ جائے۔
(۲) رمضان کے عشرئہ اخیر میں اعتکاف کرنا سنت موٴکدہ علی الکفایہ ہے۔ یعنی اگر بڑے شہروں کے محلہ میں اور چھوٹے دیہات کی پوری بستی میں کوئی بھی اعتکاف نہ کرے تو سب کے اوپر ترکِ سنت کا وبال رہتا ہے اور کوئی ایک بھی محلہ میں اعتکاف کرے تو سب کی طرف سے سنت ادا ہوجاتی ہے۔
(۳) بالکل خاموش رہنا اعتکاف میں ضروری نہیں؛ بلکہ مکروہ ہے؛ البتہ نیک کلام کرنا اور لڑائی جھگڑے اور فضول باتوں سے بچنا چاہیے۔
(۴) اعتکاف میں کوئی خاص عبادت شرط نہیں، نماز، تلاوت یا دین کی کتابوں کا پڑھنا پڑھانا یا جو عبادت دل چاہے کرتا رہے۔
(۵) جس مسجد میں اعتکاف کیاگیا ہے، اگر اس میں جمعہ نہیں ہوتا، تو نماز جمعہ کے لیے اندازہ کرکے ایسے وقت مسجد سے نکلے جس میں وہاں پہنچ کر سنتیں ادا کرنے کے بعد خطبہ سن سکے۔ اگر کچھ زیادہ دیر جامع مسجد میں لگ جائے، جب بھی اعتکاف میں خلل نہیں آتا۔
(۶) اگر بلا ضرورت طبعی شرعی تھوڑی دیر کو بھی مسجد سے باہر چلا جائے گا تو اعتکاف جاتا رہے گا، خواہ عمداً نکلے یا بھول کر۔ اس صورت میں اعتکاف کی قضا کرنا چاہیے۔
(۷) اگر آخر عشرہ کا اعتکاف کرنا ہوتو ۲۰/تاریخ کو غروبِ آفتاب سے پہلے مسجد میں چلا جائے اور جب عید کا چاند نظر آجائے تب اعتکاف سے باہر ہو۔
(۸) غسلِ جمعہ یا محض ٹھنڈک کے لیے غسل کے واسطے مسجد سے باہر نکلنا مُعتکف کو جائز نہیں۔
شبِ قدر
چونکہ اس امت کی عمریں بہ نسبت پہلی امتوں کے چھوٹی ہیں؛ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک رات ایسی مقرر فرمادی ہے کہ جس میں عبادت کرنے کا ثواب ایک ہزار مہینہ کی عبادت سے بھی زیادہ ہے؛ لیکن اس کو پوشیدہ رکھا؛ تاکہ لوگ اس کی تلاش میں کوشش کریں اور ثواب بے حساب پائیں۔ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شبِ قدر ہونے کا زیادہ احتمال ہے یعنی ۲۱ ویں، ۲۳ ویں، ۲۵ویں، ۲۷ویں، ۲۹ویں شب۔ اور ۲۷ویں شب میں سب سے زیادہ احتمال ہے۔ ان راتوں میں بہت محنت سے عبادت اور توبہ واستغفار اور دعا میں مشغول رہنا چاہیے۔ اگر تمام رات جاگنے کی طاقت یا فرصت نہ ہوتو جس قدر ہوسکے جاگے اور نفل نماز یا تلاوتِ قرآن یا ذکر وتسبیح میں مشغول رہے اور کچھ نہ ہوسکے تو عشاء اور صبح کی نماز جماعت سے ادا کرنے کا اہتمام کرے، حدیث میں آیا ہے کہ یہ بھی رات بھر جاگنے کے حکم میں ہوجاتا ہے، ان راتوں کو صرف جلسوں تقریروں میں صرف کرکے سوجانا بڑی محرومی ہے، تقریریں ہر رات ہوسکتی ہیں، عبادت کا یہ وقت پھر ہاتھ نہ آئے گا۔
البتہ جولوگ رات بھر عبادت میں جاگنے کی ہمت کریں، وہ شروع میں کچھ وعظ سن لیں، پھر نوافل اور دعا میں لگ جائیں تو دُرست ہے۔
ترکیب نمازِ عید
اول زبان یا دل سے نیت کرو کہ دو رکعت نمازِ عید واجب مع چھ زائد تکبیروں کے پیچھے اس امام کے۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لو اور سُبْحَانَکَ اللّٰہم پڑھو پھر دوسری اور تیسری تکبیر میں ہاتھ کانوں تک اٹھاکر چھوڑ دو اور چوتھی میں باندھ لو اور جس طرح ہمیشہ نماز پڑھتے ہوپڑھو۔ دوسری رکعت میں سورت کے بعد جب امام تکبیر کہے تم بھی تکبیر کہہ کر پہلی، دوسری اور تیسری دفعہ میں ہاتھ کانوں تک اٹھاکر چھوڑ دو اور چوتھی تکبیر کہہ کر بلاہاتھ اُٹھائے رکوع میں چلے جاؤ۔ باقی نماز حسب دستور تمام کرو۔ خطبہ سُن کر واپس جاؤ۔ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ․
مسائل زکوٰة
وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّکوٰةَ․
مسئلہ: اگر کسی کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا ہے یا اس میں سے کسی ایک کی قیمت کے برابر روپیہ یا نوٹ ہے تو اس پر زکوٰة فرض ہے۔ نقد روپیہ بھی سونے چاندی کے حکم میں ہے (شامی) اور سامانِ تجارت اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے تو اس پر بھی زکوٰة فرض ہے۔
مسئلہ: کارخانے اور مِل وغیرہ کی مشینوں پر زکوٰة فرض نہیں؛ لیکن ان میں جو مال تیار ہوتا ہے اس پر زکوٰة فرض ہے ، اسی طرح جو خام مال کارخانہ میں سامان تیار کرنے کے لیے رکھا ہے اس پر بھی زکوٰة فرض ہے (درمختار وشامی)
مسئلہ: سونے چاندی کی ہر چیز پر زکوٰة واجب ہے، زیور، برتن؛ حتی کہ سچاگوٹہ، ٹھپہ، اصلی زری، سونے چاندی کے بٹن، ان سب پر زکوٰة فرض ہے، اگرچہ ٹھپہ گوٹہ اور زری کپڑے میں لگے ہوئے ہوں۔
مسئلہ: کسی کے پاس کچھ روپیہ، کچھ سونا یا چاندی اور کچھ مالِ تجارت ہے؛ لیکن علیحدہ علیحدہ بقدر نصاب ان میں سے کوئی چیز بھی نہیں ہے تو سب کو ملاکر دیکھیں اگر اس مجموعہ کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہوجائے توزکوٰة فرض ہوگی اور اگر اس سے کم رہے تو زکوٰة فرض نہیں (ہدایہ)
مسئلہ: مِلوں اور کمپنیوں کے شیئرز پر بھی زکوٰة فرض ہے؛ بشرطیکہ شیئرز کی قیمت بقدر نصاب ہو یا اس کے علاوہ دیگر مال مِل کر شیئرہولڈر مالک نصاب بن جاتا ہو؛ البتہ کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت میں؛ چونکہ مشینری اور مکان اور فرنیچر وغیرہ کی لاگ بھی شامل ہوتی ہے جو درحقیقت زکوٰة سے مستثنیٰ ہے؛ اس لیے اگر کوئی شخص کمپنی سے دریافت کرکے جس قدر رقم اس کی مشینری اور مکان اور فرنیچر وغیرہ میں لگی ہوئی ہے، اُس کو اپنے حصے کے مطابق شیئرز کی قیمت میں سے کم کرکے باقی کی زکوٰة دے تو یہ بھی جائز اور درست ہے۔ سال کے ختم پر جب زکوٰة دینے لگے اس وقت جو شیئرز کی قیمت ہوگی وہی لگے گی۔ (درمختار وشامی)
مسئلہ: پراویڈنٹ فنڈ جو ابھی وصول نہیں ہوا اُس پر بھی زکوٰة فرض ہے؛ لیکن ملازمت چھوڑنے کے بعد جب اس فنڈ کا روپیہ وصول ہوگا، اس وقت اس روپیہ پر زکوٰة فرض ہوگی، بشرطیکہ یہ رقم بقدرِ نصاب ہو یا دیگر مال کے ساتھ مل کر بقدر نصاب ہوجاتی ہو وصولیابی سے قبل کی زکوٰة پراویڈنٹ کی رقم پر واجب نہیں، یعنی پچھلے سالوں کی زکوٰة فرض نہیں ہوگی۔
مسئلہ: صاحب نصاب اگر کسی سال کی زکوٰة پیشگی دے دے تو یہ بھی جائز ہے؛ البتہ اگر بعد میں سال پورا ہونے کے اندر مال بڑھ گیا تو اس بڑھے ہوئے مال کی زکوٰة علیحدہ دینا ہوگی۔ (درمختار وشامی)
جس قدر مال ہے اس کا چالیسواں حصہ(۴۰---۱) دینا فرض ہے یعنی ڈھائی فیصد مال دیا جائے گا۔ سونے، چاندی اور مال تجارت کی ذات پر زکوٰة فرض ہے اس کا ۴۰---۱ دے اگر قیمت دے تو یہ بھی جائز ہے؛ مگر قیمتِ خرید نہ لگے گی، زکوٰة واجب ہونے کے وقت جو قیمت ہوگی اس کا ۴۰---۱دینا ہوگا (درمختار،ج:۲)
مسئلہ: ایک ہی فقیر کو اتنا مال دے دینا کہ جتنے مال پر زکوٰة فرض ہوتی ہے، مکروہ ہے؛ لیکن اگر دے دیا تو زکوٰة ادا ہوگئی اور اس سے کم دینا بغیر کراہت کے جائز ہے۔ (ہدایہ ج۱)
مسئلہ: زکوٰة ادا ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ جو رقم کسی مستحقِ زکوٰة کو دی جائے وہ اس کی کسی خدمت کے معاوضہ میں نہ ہو۔
مسئلہ: ادائیگی زکوٰة کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ زکوٰة کی رقم کسی مستحق زکوٰة کو مالکانہ طور پر دے دی جائے، جس میں اس کو ہر طرح کا اختیار ہو، اس کے مالکانہ قبضہ کے بغیرزکوٰة ادا نہ ہوگی۔
از: حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ، سابق مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند
No comments:
Post a Comment