میرے انتقال سے چار ماہ دس دن پہلے تجھے طلاق؟
سوال: السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ میرے انتقال سے چار ماہ دس دن پہلے تجھے طلاق ہے.
تو کیا جب اس کا انتقال ہوگا تو طلاق کی کیا صورت ہوگی؟
واقع ہوگی یا نہیں؟
اور اس کو وراثت میں حصہ ملے گا یا نہیں
جواب مع حوالہ تحریر کرکے شکریہ کا عنایت فرمائیں
سائل: اسلم غازی
المرسل: عبدالرشید غازی آبادی
ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ میرے انتقال سے چار ماہ دس دن پہلے تجھے طلاق ہے.
تو کیا جب اس کا انتقال ہوگا تو طلاق کی کیا صورت ہوگی؟
واقع ہوگی یا نہیں؟
اور اس کو وراثت میں حصہ ملے گا یا نہیں
جواب مع حوالہ تحریر کرکے شکریہ کا عنایت فرمائیں
سائل: اسلم غازی
المرسل: عبدالرشید غازی آبادی
جواب: شاید بیوی کو میراث سے محروم کرنا چاہتا ہے. اور عدت وفات کی چھٹی کرنا چاہتا ہے کیونکہ اگر نارمل عورت ہوگی تو 130 دن کے اندر اندر اس کی عدت طلاق بغیر کسی احکام عدت کے پورا کئے ہوئے ختم ہوجائے گی. تین حیض مکمل ہوجائینگے. اب نکاح میں نہ رہی تو میراث بھی نہیں ملیگی.
دوسری بات یہ کہ موت کا وقت متعین نہیں ہے. اس لئے موت سے دو ماہ قبل بھی جماع کیا تھا تو رجوع بھی ہوجائے گا. کیونکہ طلاق رجعی ہے اور دوبارہ نکاح میں آجائے گی. اور میراث بھی ملیگی اور عدت وفات بھی گذارنی ہوگی. ..
باقی مرد کو ایسے مبھم طلاق نہیں دینا چاہئے.
دوسری بات یہ کہ موت کا وقت متعین نہیں ہے. اس لئے موت سے دو ماہ قبل بھی جماع کیا تھا تو رجوع بھی ہوجائے گا. کیونکہ طلاق رجعی ہے اور دوبارہ نکاح میں آجائے گی. اور میراث بھی ملیگی اور عدت وفات بھی گذارنی ہوگی. ..
باقی مرد کو ایسے مبھم طلاق نہیں دینا چاہئے.
واللہ اعلم
............
الجواب و بالله التوفيق:
اس مسئلہ میں علامہ حصکفی رحمہ اللہ کا نقطہ اور علامہ شامی رحمہ اللہ کا نقطئہ نظر الگ الگ ہے۔ نیز امام صاحب اور صاحبین رحمھما اللہ کے درمیان بھی اختلاف ہے۔ علامہ شامی کا رجحان پیش کیا جاتا ہے۔ جو بندہ کی نگاہ میں قوی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس صورت میں طلاق پڑجائیگی ۔ اور چونکہ شوہر فار بالطلاق ہے۔ یعنی ایسے انداز سے طلاق دے کر بیوی کو میراث سے محروم کرنا چاھتا ہے۔ اور فار بالطلاق کا حکم یہ ہے کہ اس کی عدت ابعد الاجلین ہے۔ اس لئے طلاق پڑنے کے باوجود میراث کی حق دار ہوگی۔ اور اس پر عدت وفات بھی لازم ہوگی۔
قلت: على أن الشرط ليس هو الموت بل مضي شهرين بعد الحلف وهذا محتمل الوقوع وعدمه، فإذا لم يمض لم يوجد الشرط. فإن قيل: يمكن تكميل ذلك من الماضي كأنت طالق أمس. قلت: هنا يحتمل أن يموت بعد شهرين فاعتبر حقيقة كلامه بخلاف الأمس تأمل (قوله مستندا لأول المدة) هذا قول الإمام، وعندهما يقع عند الموت مقتصرا وقد انتفت أهلية الإيقاع أو الوقوع فيلغو، فقوله لا عند الموت رد لقولهما رحمتي (قوله وفائدته أنه لا ميراث لها إلخ) اعترضه الشرنبلالي بما حاصله أن عدم ميراثها بناء على إمكان انقضاء العدة بشهرين ضعيف والصحيح المفتى به اقتصار العدة عند الإمام على وقت الموت فترثه، نص عليه في شرح الجامع الكبير، إذ لا يظهر الاستناد في الميراث كما في الطلاق، لما فيه من إبطال حقها ومع ضعفه فوجهه غير ظاهر لأن عدة زوجة الفار أبعد الأجلين، وبمضي ثلاث حيض في شهرين حقيقة لا تنقضي عدتها ويبقى شهران وعشرة أيام لإتمام أبعد الأجلين فترثه، فكيف تمنع بإمكان الثلاث في شهرين اهـ. وأوضحه الرحمتي بأن الطلاق يقع عنده مستندا لأول المدة. فإن كان فيها مريضا إلى الموت فقد تحقق الفرار منه وإلا فكذلك لأنه لا يعلم وقوع طلاقه إلا بموته وتعلق حقها بما له ولا يتأتى موته بعد العدة لأنها تجب بالموت عنده على الصحيح لأنها لا تثبت مع الشك في وجود سببها، وعلى الضعيف من أنها تستند إلى حين الوقوع فإنها تكون بأبعد الأجلين لا بمجرد ثلاث حيض في شهرين؛ ولو سلم فلا بد من تحقق ذلك، بأن تعترف بأنها حاضت ثلاثا لا بمضي الشهرين بل ولا بمضي السنة والسنتين، فما ذكره المصنف تبعا للدرر لا ينطبق على قواعد الفقه بوجه فليتنبه له. اهـ.
رد المختار 267/3
شاهد على قاسمی
مزید وضاحت
صاحبین رحمھما اللہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ جملہ ہی لغو ہوجائیگا۔ طلاق واقع نہیں ہوگی ۔۔اصل میں صاحبین کے نزدیک اس طرح کے جملہ میں طلاق مقتصرا واقع ہوتی ہے ۔ یعنی موت کے وقت وجود طلاق کی بات سامنے آئیگی، اور حال یہ ہے کہ موت ہوتے ہی شوہر طلاق واقع کرنے کی اہلیت سے خارج ہوجاتا ہے ۔اس لئے طلاق دینے کی اھلیت ختم ہونے سے سرے سے طلاق واقع نہیں ہوگی ۔گویا نتیجہ کے اعتبار سے جملہ لغو ہوگیا ۔ ۔۔اور اسی تشریح کو طلاق مقتصرا سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔۔۔
امام صاحب رحمہ اللہ کے نزدیک طلاق مستندا واقع ہوتی ہے ۔یعنی طلاق کا ظھور تو موت کے وقت ہوا لیکن طلاق کا وجود اس وقت سے مانا جائیگا جس وقت سے طلاق کی بات کہی ہے ۔جیسے اوپر کی عبارت میں ہے:
انت طالق قبل موتی بشھر ۔۔۔۔۔۔ اس صورت میں طلاق کا ظہور موت کے وقت ہوگا لیکن اس کا وجود موت سے ایک مہینہ پہلے سے مانا جائیگا ۔۔۔۔ یہی مطلب ہے طلاق مستندا واقع ہونے کا ۔۔ ۔
اس لئے آپ کا کہنا کہ طلاق تنجیزی واقع ہوگی۔ یہ بات امام صاحب کے قول کے بھی مخالف ہے اور صاحبین کے نقطہ نظر کے خلاف بھی ۔۔۔
شاھد علی قاسمی
اس مسئلہ میں علامہ حصکفی رحمہ اللہ کا نقطہ اور علامہ شامی رحمہ اللہ کا نقطئہ نظر الگ الگ ہے۔ نیز امام صاحب اور صاحبین رحمھما اللہ کے درمیان بھی اختلاف ہے۔ علامہ شامی کا رجحان پیش کیا جاتا ہے۔ جو بندہ کی نگاہ میں قوی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس صورت میں طلاق پڑجائیگی ۔ اور چونکہ شوہر فار بالطلاق ہے۔ یعنی ایسے انداز سے طلاق دے کر بیوی کو میراث سے محروم کرنا چاھتا ہے۔ اور فار بالطلاق کا حکم یہ ہے کہ اس کی عدت ابعد الاجلین ہے۔ اس لئے طلاق پڑنے کے باوجود میراث کی حق دار ہوگی۔ اور اس پر عدت وفات بھی لازم ہوگی۔
قلت: على أن الشرط ليس هو الموت بل مضي شهرين بعد الحلف وهذا محتمل الوقوع وعدمه، فإذا لم يمض لم يوجد الشرط. فإن قيل: يمكن تكميل ذلك من الماضي كأنت طالق أمس. قلت: هنا يحتمل أن يموت بعد شهرين فاعتبر حقيقة كلامه بخلاف الأمس تأمل (قوله مستندا لأول المدة) هذا قول الإمام، وعندهما يقع عند الموت مقتصرا وقد انتفت أهلية الإيقاع أو الوقوع فيلغو، فقوله لا عند الموت رد لقولهما رحمتي (قوله وفائدته أنه لا ميراث لها إلخ) اعترضه الشرنبلالي بما حاصله أن عدم ميراثها بناء على إمكان انقضاء العدة بشهرين ضعيف والصحيح المفتى به اقتصار العدة عند الإمام على وقت الموت فترثه، نص عليه في شرح الجامع الكبير، إذ لا يظهر الاستناد في الميراث كما في الطلاق، لما فيه من إبطال حقها ومع ضعفه فوجهه غير ظاهر لأن عدة زوجة الفار أبعد الأجلين، وبمضي ثلاث حيض في شهرين حقيقة لا تنقضي عدتها ويبقى شهران وعشرة أيام لإتمام أبعد الأجلين فترثه، فكيف تمنع بإمكان الثلاث في شهرين اهـ. وأوضحه الرحمتي بأن الطلاق يقع عنده مستندا لأول المدة. فإن كان فيها مريضا إلى الموت فقد تحقق الفرار منه وإلا فكذلك لأنه لا يعلم وقوع طلاقه إلا بموته وتعلق حقها بما له ولا يتأتى موته بعد العدة لأنها تجب بالموت عنده على الصحيح لأنها لا تثبت مع الشك في وجود سببها، وعلى الضعيف من أنها تستند إلى حين الوقوع فإنها تكون بأبعد الأجلين لا بمجرد ثلاث حيض في شهرين؛ ولو سلم فلا بد من تحقق ذلك، بأن تعترف بأنها حاضت ثلاثا لا بمضي الشهرين بل ولا بمضي السنة والسنتين، فما ذكره المصنف تبعا للدرر لا ينطبق على قواعد الفقه بوجه فليتنبه له. اهـ.
رد المختار 267/3
شاهد على قاسمی
مزید وضاحت
صاحبین رحمھما اللہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ جملہ ہی لغو ہوجائیگا۔ طلاق واقع نہیں ہوگی ۔۔اصل میں صاحبین کے نزدیک اس طرح کے جملہ میں طلاق مقتصرا واقع ہوتی ہے ۔ یعنی موت کے وقت وجود طلاق کی بات سامنے آئیگی، اور حال یہ ہے کہ موت ہوتے ہی شوہر طلاق واقع کرنے کی اہلیت سے خارج ہوجاتا ہے ۔اس لئے طلاق دینے کی اھلیت ختم ہونے سے سرے سے طلاق واقع نہیں ہوگی ۔گویا نتیجہ کے اعتبار سے جملہ لغو ہوگیا ۔ ۔۔اور اسی تشریح کو طلاق مقتصرا سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔۔۔
امام صاحب رحمہ اللہ کے نزدیک طلاق مستندا واقع ہوتی ہے ۔یعنی طلاق کا ظھور تو موت کے وقت ہوا لیکن طلاق کا وجود اس وقت سے مانا جائیگا جس وقت سے طلاق کی بات کہی ہے ۔جیسے اوپر کی عبارت میں ہے:
انت طالق قبل موتی بشھر ۔۔۔۔۔۔ اس صورت میں طلاق کا ظہور موت کے وقت ہوگا لیکن اس کا وجود موت سے ایک مہینہ پہلے سے مانا جائیگا ۔۔۔۔ یہی مطلب ہے طلاق مستندا واقع ہونے کا ۔۔ ۔
اس لئے آپ کا کہنا کہ طلاق تنجیزی واقع ہوگی۔ یہ بات امام صاحب کے قول کے بھی مخالف ہے اور صاحبین کے نقطہ نظر کے خلاف بھی ۔۔۔
شاھد علی قاسمی
No comments:
Post a Comment