کثرت کا مظاہرہ
فتح مکہ کے موقع پر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شب میں مقام "مر الظهران" پہنچے تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا:
"آگ روشن کی جائے."
چناں چہ مؤرخین کے بقول:
"أوقدت عشرة آلاف نار."
دس ہزار مقامات پر آگ روشن کی گئی، حالاں کہ فوج کی کل تعداد ہی دس ہزار تھی۔
مقصد کیا تھا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک ساتھ اکٹھے نہیں ٹہرے بل کہ الگ الگ قیام کیا اور اتنی آگ جلائی۔
"آگ روشن کی جائے."
چناں چہ مؤرخین کے بقول:
"أوقدت عشرة آلاف نار."
دس ہزار مقامات پر آگ روشن کی گئی، حالاں کہ فوج کی کل تعداد ہی دس ہزار تھی۔
مقصد کیا تھا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک ساتھ اکٹھے نہیں ٹہرے بل کہ الگ الگ قیام کیا اور اتنی آگ جلائی۔
ربوں میں رواج تھا کہ جب کبھی صحرا میں خیمہ زن ہوتے توہر خیمہ کے باہر آگ جلاتے ۔
یوں اہل مکہ نے سمجھاکہ یہ لشکر تیس ہزار پر مشتمل ہے۔ ہتھیارڈال دینے کے علاوہ اب ان کے پاس کوئی چارہ کارنہ تھا۔ ابوسفیان نے بھی، جسے حضور صلى الله عليه و سلم نے لشکر کے ملاخطے کے لیے بلایا تھا، اہل مکہ کوسمجھایا کہ مزاحمت کی بجائے ہتھیار ڈال دینے میں ہی خیرہے۔
حضور صلى الله عليه و سلم کسی قسم کی خوں ریزی سے بچنا چاہتے تھے ۔آپ صلى الله عليه و سلم نے لشکر کو چھ حصوں میں تقسیم کیا، جن میں سے ہرایک الگ الگ راستے سے مکہ میں داخل ہوا۔ آپ صلى الله عليه و سلم نے سپہ سالاروں کوحکم دے رکھا تھا کہ وہ ا س وقت تک ہتھیار نہ اٹھائیں۔ تاوقتیکہ کوئی ان کے مقابلے میں آجائے۔ خوں ریزی سے بچنے اور پر امن فتح کے حصول کے لیے آپ صلى الله عليه و سلم نے اعلان فرمادیا کہ
1. جوکعبہ میں پناہ لیں گے، انھیں امان ہے؛
2. جوابوسفیان کے گھر میں پناہ لیں گے، انھیں امان ہے اور
3. جواپنے گھرو ں میں رہیں گے، ان کے لیے بھی امان ہے۔
حضور صلى الله عليه و سلم فلاح دارین کے لیے معبوث ہوئے تھے، چناں چہ اپنی شان رحیمی کے سبب خچروانکساری سے جھکے ہوئے مکے میں فاتحانہ داخل ہوئے ۔ایسے میں آپ صلى الله عليه و سلم کے پیش نظر نہ تواحساس تفاخر تھااورنہ ہی جذبہ انتقام ۔آپ صلى الله عليه و سلم انتہائی عاجزی کے ساتھ کعبہ کی طرف بڑھتے ہوئے اللہ کا شکر اداکررہے تھے، جس نے آپ صلى الله عليه و سلم کو ناقابل برداشت دورابتلا کے بعد اس عظیم مشن میں کام یابی سے سرفراز کیا۔ آپ صلى الله عليه و سلمنے کعبہ کے دروازے میں کھڑے ہوکر قریش کو مخاطب کرتے ہوئے استفسارکیا۔ 'تمھارا کیاخیال ہے کہ میں تمھارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟' انھوں نے عرض کیا:
'حضو ر!آپ (صلى الله عليه و سلم ) کریم ہیں او رکریم باپ کے فرزند ہیں ۔'
حضور صلى الله عليه و سلم نے فرمایا:
'آج کے دن تم پر کوئی سرزنش نہیں۔ اللہ تمھاری مغفرت کرے۔ بے شک وہ بہت مہربان اوربڑا رحم کرنے والا ہے۔ جاؤ، تم سب آزاد ہو۔'
یوں مکہ سے مشرکین کا خاتمہ ہوگیا۔ آپ صلى الله عليه و سلم بیت اللہ میں رکھے ہوئے بتوں کوتوڑتے ہوئے فرمارہے تھے:
'حق آگیا اورباطل مٹ گیا۔ بلاشبہ باطل مٹنے ہی کے لائق تھا۔'
اورتقریبا تمام اہل مکہ نے، جوایک روز پہلے تک اسلام کے دشمن تھے، حضورصلى الله عليه و سلم کے صحابی ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا۔
No comments:
Post a Comment