Sunday, 13 May 2018

ترویحہ میں پڑھی جانے والی تسبیح کی تحقیق

ترویحہ میں پڑھی جانے والی تسبیح کی تحقیق
تراویح میں چار رکعت كے بعد جو دعاء پڑھی جاتی ہے:
(سُبحان ذی المُلک والمَلَکوت) اس کی تحقیق مطلوب ہے بحوالہ؟
الجواب بعون الملک الوھاب :
اس میں تین باتوں کی تحقیق کرنی ہے:
پہلی بات؛ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ترویحہ (چار رکعت کے بعد کچھ دیر بیٹھنا)  ثابت ہے؟
جواب: جی امام بیھقی نے سنن کبری میں ایک روایت نقل کی ہے: (عن عائشة رضي الله عنها قالت:  ثم كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي أربع ركعات في الليل ، ثم يتروَّح ، فأطال حتى رحمتُه ، فقلت: بأبي أنت وأمي يا رسول الله ، قد غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تأخر، قال: أفلا أكون عبداً شكوراً (قال البيهقی : تفرد به المغيرة بن زياد وليس بالقوي .
وقوله : ( ثم يتروَّح ) إن ثبتَ فهو أصلٌ في تروُّح الإمام في صلاة التراويح [السنن الكبرى 4294]. والله أعلم .
تویہ روایت ترویحہ(چار رکعت کے بعد وقفہ کرنے)  کی اصل ہوسکتی ہے ۔
مذہب حنفی میں تراویح کی چار رکعت کے بعد بیٹھنامستحب ہے ، محیط برھانی میں ہے : ( والانتظار بين كل ترويحتين مستحب بقدر ترويحة عند أبي حنيفة رحمه الله ) ج2 ص181 ۔
دوسری بات :  کیا ترویحہ کے لئے کوئی خاص دعا منقول ہے ؟
جواب :  نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا سلف صالحین سے کوئی خاص دعا ،منقول نہیں ہے ۔ البتہ اہل حرمین سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ : اہل مکہ ترویحات کے دوران طواف کرتے تھے ، اور اہل مدینہ طواف کے بدلہ چار رکعت کا اضافہ کرتے تھے ، اس طرح سے اہل مدینہ چار ترویحات کی جگہ 16 رکعتیں پڑھتے تھے ، تو تراویح کی رکعتیں 36 تھیں ، اور تین وتر ملاکر  ان کے یہاں کل رکعتیں 39 تھیں ۔[الحاوی الکبیر ج۲ص۲۹۱] ۔
قال ابن القیم فی (بدائع الفوائد) [ج4ص109] : قال الفضل : "رأيت أحمد بن حنبل يقعد بين التراويح ويردّد هذا الكلام (لا إله إلا الله وحده لا شريك له أستغفر الله الذي لا إله إلا هو) وجلوسُ أبي عبد الله للاستراحة ، لأن القيام إنما سمي تراويح لما يتخلَّله من الاستراحة بعد كل ترويحة".
اورفقہ حنفی کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ :دو ترویحہ کے درمیان نمازی کو اختیار ہے چاہے تو تسبیح کرے، چاہے حمد و ثناء کرے، اور اگر چاہے تو سکوت اختیار کرے اور اگلی رکعات کا انتظار کرے۔ ملاحظہ فرمائیں : [ محیط برھانی  ۲؍۱۸۱ ، جوھرہ نیرہ۳۸۵ ] ۔
تیسری بات : پھر یہ مشہور دعا(تسبیح) جو پڑھی جاتی ہے وہ کہاں سے آئی ؟
جواب :  فقہ حنفی کی کتابوں میں سب سے پہلے یہ دعا قہستانی کی شرح وقایہ میں ملتی ہے ، اور قہستانی نے اس کا حوالہ [منہج العباد] نامی کتاب کا  دیاہے ، پھر قہستانی کی کتاب سے ابن عابدین نے [رد المحتار] میں نقل کیا ہے ، پھر ابن عابدین سے یہ دعاءکتب فقہ وفتاوی میں رائج ہوئی۔
لیکن مذکورہ دعا کے الفاظ چند روایتوں  میں وارد ہوئے ہیں ،وہ یہ ہیں :
1- عن عوف بن مالك الأشجعي، قال: قمتُ مع رسول الله- صلى الله عليه وسلم - ليلةً، فقام فقرأ سورةَ البقرة، لا يمرُّ بآَيةِ رحمةٍ إلا وقفَ فسأل، ولا يمرُّ بآيةِ عذابٍ إلا وقفَ فتعوَّذ، قال: ثم ركع بقَدْر قيامه، يقول في ركوعه: "سُبحان ذي الجَبَروت والمَلَكوت والكِبرياء والعَظَمة" ثم سجد بقَدْر قيامه، ثم قال في سُجوده مِثلَ ذلك...[ ابوداود873 ] .
۲۔ عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ لِأُصَلِّيَ بِصَلَاتِهِ، فَافْتَتَحَ فَقَرَأَ قِرَاءَةً لَيْسَتْ بِالْخَفِيضَةِ وَلَا بِالرَّفِيعَةِ، قِرَاءَةً حَسَنَةً يُرَتِّلُ فِيهَا يُسْمِعُنَا، قَالَ: ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِنْ قِيَامِهِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ نَحْوًا مِنْ رُكُوعِهِ، فَقَالَ: «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» ، ثُمَّ قَالَ: « الْحَمْدُ لِلَّهِ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ، وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ » ، حَتَّى فَرَغَ مِنَ الطَّوْلِ، وَعَلَيْهِ سَوَادٌ مِنَ اللَّيْلِ . [ مسند احمد23411 ] .
۳۔ ( إِنَّ لِلَّهِ فِي سَمَاءِ الدُّنْيَا مَلَائِكَةً خُشُوعًا لَا يَرْفَعُونَ رُءُوسَهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، فَإِذَا قَامَتِ السَّاعَةُ رَفَعُوا رُءُوسَهُمْ ثُمَّ قَالُوا: رَبَّنَا مَا عَبَدْنَاكَ حَقَّ عِبَادَتِكَ "، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: وَمَا يَقُولُونَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " أَمَّا أَهْلُ السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَقُولُونَ: سُبْحَانَ ذِي الْمُلْكِ وَالْمَلَكُوتِ، وَأَمَّا أَهْلُ السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ فَيَقُولُونَ: سُبْحَانَ ذِي الْعِزِّ وَالْجَبَرُوتِ، وَأَمَّا أَهْلِ السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ فَيَقُولُونَ: سُبْحَانَ الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ، فَقُلْهَا يَا عُمَرُ فِي صَلَاتِكَ . [ قیام اللیل للمروزی256] ۔
۴۔"إن لله بحراّ من نور حوله ملائكةٌ من نور على جبل من نور، بأيديهم حرابٌ من نور، يسبّحون حول ذلك البحر: سُبحان ذي المُلك والمَلكوت، سبحان ذي العِزة والجَبَروت، سبحان الحيّ الذي لا يموت، سُبُّوح قدوس ربُّ الملائكة والروح، فمن قالها في يوم مرة أو شهر أو سنة مرة، أو في عمره غفر الله له ما تقدم من ذنبه وما تأخر ولو كانت ذنوبه مثل زبد البحر أو مثل رمل عالج، أو فرَّ من الزَّحف". "الديلمي عن أنس" [كنزالعمال 3840] ۔
شاید یہی روایات اس دعا کی اصل ہوسکتی ہیں،ان میں سے فرشتوں کی تسبیح والی روایات سند کے اعتبار سے بہت زیادہ کمزور ہیں، مزید یہ کہ ان روایتوں میں اس تسبیح کا ترویحات میں  پڑھنےکا کوئی ذکر نہیں ہے۔واللہ اعلم ۔
اکابرین دیوبند کا موقف : مرغوب الفتاوی [ج3ص429 ] پر حاشیہ میں یہ لکھا ہے :
ہمارے اس زمانہ میں تسبیحِ تراویح میں بہت غلو ہونے لگاہے، خصوصا برطانیہ کی اکثر مساجد میں تراویح کی یہ تسبیح (سبحان ذی الملک والملکوت۔۔۔الخ)بڑے بڑے پوسٹر اور اشتہارکی شکل میں قبلہ کی دیوار پربڑی تعداد میں چسپاں کی جاتی ہے،حالانکہ کسی مستحب کے ساتھ زیادہ اہتمام اور واجب کا سا معاملہ ہونے لگے ، تو فقہاء اس کے ترک حکم فرماتے ہیں۔اور یہاں حال یہ ہے کہ عوام تو عوام،علماء تک اسے بڑے اہتمام سے پڑھتے ہیں، اور لطف یہ کہ بالجہر پڑھنے کا رواج عام ہوتا جارہاہے۔
اولا:اس تسبیح کا ثبوت حدیث سے مشکل ہے ، علامہ شامی نے ضرور اسے لکھاہے ،اور ان کی اتباع میں یہ دعا ہماری کتب فقہ وفتاوی میں درج ہوگئی ہے ،حالانکہ جو دعائیں اور اذکار احادیث میں مروی ہیں ان کا پڑھنا زیادہ ثواب رکھتاہے۔
اسی وجہ سے حضرتِ اقدس مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی ؒ کا معمول اس کے بجائے (سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر) پڑھنے کا تھا۔
حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحبؒ تحریر فرماتے ہیں : احقر کہتا ہے کہ کلمہ(سبحان اللہ )الخ کی بہت فضیلت احادیث صحیحہ میں وارد ہے ، اس لئے تکرار اس کا افضل ہے ، اور یہی معمول ومختار تھا حضرت محدث وفقیہ گنگوہی ؒ کا ۔[فتاوی دار العلوم دیوبند ص246ج4،سوال نمبر1761]۔
حضرت حکیم الامت مولانا تھانویؒ سے کسی نے پوچھا کہ: آپ ترویحہ میں کیا پڑھتے ہیں ؟فرمایا : شرعا کوئی ذکر متعین تو ہےنہیں ، باقی میں پچیس مرتبہ درود شریف پڑھ لیتاہوں۔[تحفۂ رمضان ص۱۱۱] ۔
خلاصہ :ترویحہ میں پڑھنے کی کوئی دعا احادیث سے ثابت نہیں ہے، یہ جو مشہور تسبیح ہے اس کے پڑھنے کی گنجائش ہے ،لیکن اس کو ضروری نہیں سمجھنا چاہئے،اور نہ بالجہر پڑھنا چاہئے۔اس کےبجائےوہ اذکارِمسنونہ پڑھناجن کی فضیلت ثابت ہے زیادہ بہتر ہے ،اور یہی سلف صالحینؒ اور اکابرین دیوبندؒ کا معمول رہا ہے ۔واللہ الموفق والہادی الی الصواب۔

No comments:

Post a Comment