Sunday, 6 May 2018

والدین پر اولاد کے حقوق

اہل علم نے والدین کے 143 جبکہ اولاد کے 153 حقوق و فرائض تعلیم فرمائے ہیں. کتنی عجیب بات ہے کہ والدین کے حقوق پر خوب روشنی ڈالی گئی ہے لیکن اولاد کے حقوق پر معاشرہ میں لاعلمی پائی جاتی ہے. حتی کہ مفسرین اور سیرت نگاروں نے سیر حاصل بحثیں فرماتے ہوئے ضخیم کتابیں تالیف و تصنیف فرمائی ہیں، جن کے مطالعہ کے لئے فہم بھی ضروری ہے اور فراست بھی، آج کے دور میں یہ دونوں ضروری امور ناپید ہیں، کیونکہ آج کی سائنسی ایجادات نے انسان کے لئے جہاں زندگی میں کئی طرح کی آسائشیں مہیا کی ہیں، وہاں بہت سے اسلامی شعائر سے بھی نابلد کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی نوجوان اولاد نسبتاً زیادہ بے راہ رو ہو رہی ہے۔ خاندانی اجتماعی نظام درہم برہم ہورہا ہے۔ افراتفری۔ انتشار و افتراق کا دور دورہ ہے۔ میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا ٹیلی ویژن وغیرہ عریاتی اور فحاشی پھیلانے میں بہت گھناؤنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسلامی اصولوں کے تحت زندگی بسر کرنے کے لئے نوجوان نسل کی آگہی کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں۔ یہ تو اللہ کی مہربانی ہے کہ چند دینی جماعتیں اس میدان میں قابلِ قدر خدمات سرانجام دے رہی ہیں، جن پر مغربی میڈیا بنیاد پرستی، دہشت گردی اور مذہبی شدت پسندی وغیرہ کے الزامات لگا رہا ہے۔ یہود و نصاریٰ مسلم ممالک پر غاصبانہ قبضہ جما رہے ہیں۔ ان حالات میں ہماری نوجوان نسل کو قرآن و سنت کے احکامات پر عمل کر کے اپنی زندگیاں سنوارنے کی اشد ضرورت ہے۔ مؤلف نے اس ضمن میں نہایت ضروری اور اہم امور، جن کا زیادہ تر تعلق عمر رسیدہ والدین سے ادب و احترام کے ساتھ پیش آنے کا ہے، زیادہ وضاحت کرنے کی سعی کی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ منظور فرمائے۔ آمین۔ امام ابو زکریا محی الدین النووی ؒ ایک جلیل القدر امام اور بلند پایہ محدث گزرے ہیں۔ آپ کی متعدد تصانیف میں سے ریاض الصالحین ایک بہترین تصنیف ہے، جس کے ذریعے ہر دور میں علماء ومورخین اشاعت دین اور اصلاح اعمال و اخلاق کی تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ آپ نے روز مرہ زندگی سے متعلق ایک نئے انداز کے ساتھ احادیث نبویؐ کو جمع کیا۔ احادیث کو بیان کرنے سے پہلے متعلقہ مضمون کے بارے میں قرآنی آیات کے حوالے بھی دیئے ہیں تاکہ قارئین کرام دونوں طریقوں سے مستفید ہو سکیں۔ مولف نے امام صاحب کی مذکورہ کتاب میں سے صرف انہی احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی پاک ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ:
’’اے اللہ کے رسول ؐ! میرے اچھے برتاؤ کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟
آپؐ نے فرمایا:
تمہاری ماں۔
کہا پھر؟
فرمایا:
تمہاری ماں۔
کہا پھر؟
فرمایا:
تمہاری ماں ،
کہا پھر؟
فرمایا: تمہارا باپ‘‘۔
اس حدیث مبارکہ پر بار بار غور کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بچوں کو پالنے پوسنے، اُن کی تعلیم و تربیت اور دیکھ بھال میں ماں کی خدمات و احسانات باپ سے کہیں زیادہ ہیں، جو محنت و مشقت طلب بھی ہیں اور ایثار و قربانی سے بھرپور اور الفت و محبت سے لبریز بھی۔ اس لئے ماں کے ساتھ احسان و مروت بھی بڑھ گئے ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ باپ سے نیک برتاؤ کوبھی کسی طرح نظر اندار نہیں کیا گیا۔بندگی رب یعنی حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد میں سب سے پہلا حق والدین کا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: ترجمہ:
’’تم لوگ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے اچھا سلوک کرو‘‘۔ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہوا:ترجمہ: ’’اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور والدین سے اچھا سلوک کیا کرو‘‘۔اسلام کی بلند اور پاکیزہ تعلیمات نے والدین کے ساتھ حسن مروت کی ہر حال میں تلقین کی ہے، یہاں تک کہ اپنے ایمان و عقیدے کو مضبوط رکھتے ہوئے غیرمسلم والدین سے بھی خیرو بھلائی سے پیش آنے کی نصیحت کی جا رہی ہے، غور کیجئے: ترجمہ:
’’اور اگر وہ (یعنی تمہارے والدین) تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ اسے شریک کرے جس کا تجھے علم نہیں تو (اسلام و ایمان پر قائم رہنا) اور ان کا کہا نہ ماننا، البتہ دنیوی معاملات میں ان سے بھلائی کے ساتھ رفاقت کرنا، مگر چلنا اس شخص کی راہ پر جس نے میری طرف رجوع کیا۔۔۔‘‘معلوم ہوا کہ عقیدہ اور ایمان ایسا مضبوط سہارا ہے جس پر بندۂ مومن کو کسی لمحہ کوئی آنچ نہیں آنے دینی چاہئے ،وہ سب کچھ چھوڑ دے، سب سے روٹھ جائے، مگر اپنے رب کی بندگی کبھی نہ چھوڑے۔بڑھاپا انسان کی زندگی میں کمزوری اور ناتوانی کا دور ہے، اس وقت اس کے اعضاء سست اور مضمحل ہو جاتے ہیں اور وہ کام کاج کے قابل نہیں رہتا، کسمپرسی کے ان لمحات میں وہ آرام و سکون چاہتا ہے، وہ آرزو مند ہوتا ہے کہ کوئی اس کا سہارا بنے، اسے تسلی دے۔ وہ اگر بیمار پڑ جائے، تو اس کی تیمار داری کے لئے کوئی موجود ہو، تو انہی لمحات کے لئے رب العالمین اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے: 
ترجمہ: ’’اگر (تمہارے والدین میں سے) کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ ہی انہیں جھڑکو اور ان سے ادب سے بات کرو اور ان پر حم کرتے ہوئے انکساری و خاکساری سے پیش آؤ اور (ان کے لئے ہمیشہ) دُعا گو ر ہو، اے میرے رب! ان پر رحم فرما، جیسے (رحمت و شفقت) سے انہوں نے بچپن میں مجھے پالا پوسا تھا‘‘۔سبحان اللہ! رب کریم کی بے پایاں رحمتوں اور بخششوں کا کون اندازہ لگا سکتا ہےٖ! اس کے کلام کے حسن وجمال کو کون پہنچ سکتا ہے، مندرجہ بالا آیات کو دوبارہ پڑھئے، آپ نئی لذت سے آشنا ہوں گے، دُنیا کی کوئی تہذیب اور کلچر، کوئی مذہب اور ازم اسلام کے پیش کردہ اخلاقیات کی گرد تک کو نہیں پہنچ سکتا۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے انہوں نے کہا:کسی مسلمان کے اگر ماں باپ زندہ ہیں اور وہ صبح کے وقت اُن کی خیریت دریافت کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جنت کے دو دروازے کھول دیتا ہے، اگر والدین میں سے ایک ہی ہے تو ایک دروازہ اور اگر اس نے والدین میں سے کسی کو ناراض کر دیا تو اللہ اُس شخص سے اُس وقت تک راضی نہیں ہو گا جب تک وہ اس سے راضی نہ ہو جائیں‘‘۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اگر ’’ماں باپ ظلم کریں، جب بھی‘‘اس سے بھی اہم یہ حدیث ہے طیسلہ بن میاں کہتے ہیں کہ مَیں جنگ میں تھا، وہاں بعض گناہ سرزد ہوئے، جو مجھے گناہ کبیرہ معلوم ہوئے تھے۔مَیں نے ابن عمرؓ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ وہ گناہ کیا ہیں؟ مَیں نے عرض کیا یہ؟ فرمایا: 
یہ تو گناہ کبیرہ نہیں، گناہ کبیرہ تو نو(9) ہیں:
’’1. شرک، 
2. ناحق قتل، 
3. جہاد سے فراری، 
4. قذف محصنہ (شریف عورت پر بدکاری کی تہمت لگانا) 
5. سود خوری، 
6. مال یتیم کھانا، 
7. مسجد میں الحاد پھیلانا 
8. (دین کا) مذاق اڑانا اور 
9. والدین کا بیٹے کی نافرمانی کی وجہ سے رو پڑنا‘‘۔
پھر ابن عمرؓ نے اس شخص سے پوچھا:
’’کیا تم جہنم سے ڈرتے ہو اور چاہتے ہو کہ جنت میں جاؤ؟ 
کہا: اللہ کی قسم! یہی چاہتا ہوں، 
پوچھا: کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ 
جواب دیا کہ والدہ ہیں، 
کہا: اللہ کی قسم! اگر تم اُس سے نرمی سے باتیں کرو اور اُس کو کھلاؤ تو جنت میں ضرور جاؤ گے بشرطیکہ گناہ کبیرہ سے اجتناب کرو۔قرآنی آیات پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے ماں کی تکلیف اور پریشانی کا اپنی کتاب مبین میں الگ ذکر فرمایا:ترجمہ: ’’اور ہم نے انسان کو اپنے والدین سے (حسن سلوک کا) تاکیدی حکم دیا، اس کی ماں نے کمزوری سہتے ہوئے اسے اٹھائے رکھا اور دو سال اس کے دودھ چھڑانے میں لگے، لہٰذا میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا بھی (بالآخر) میرے پاس ہی لوٹ آنا ہے‘‘۔
ترجمہ: ’’ہم نے انسان کو حکم دیا کہ وہ اپنے والدین سے اچھا سلوک کرے، اس کی ماں نے مشقت سے اسے پیٹ میں رکھا اور مشقت سے جنا، اس کے اٹھانے اور دودھ چھڑانے میں 30 ماہ لگے‘‘۔
اس بے مثال ایثار و قربانی اور تکلیف و مشقت کی وجہ سے ماں کا مرتبہ اور اجر باپ کی نسبت کہیں بڑھ گیا ہے، اِسی لئے نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: 
ترجمہ:
’’جنت تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے‘‘۔مقصود اس سے یہ ہے کہ اپنی ماؤں کی خدمت کرلو اور جنت لے لو۔ ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے ماں، باپ کی خدمات پر غور کریں، خصوصاً ماں کی قربانیوں کا جائزہ لیں کہ اس بے چاری نے سردی اور گرمی کی راتیں بچوں کی خاطر کس فکر اور درد مندی سے گزاری ہیں اور خود بے آرام ہو کر بھی بچوں کو آرام دیا ہے۔ ماں کو آرام کی کہاں فرص تسوئی بے ڈھب تو آ گئی شام تک پڑے لتوں کی ہوگئی کیا گت ہے بچھونا بھی تر بتر لت پتصبح اُٹھ کے کھنگالتی ہے تمام جاڑے پالے کا وقت اور یہ کامحضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ایک بار ایک یمنی کو دیکھا کہ اپنی پیٹھ پر ماں کو اُٹھائے ہوئے طواف کعبہ کر رہا ہے اور زبان پر یہ شعر جاری تھا:ترجمہ: ’’مَیں اِس کے لئے (اپنی ماں کے لئے) ایک سواری کا اونٹ ہوں، جب سواروں کو ڈرایا جائے تو مَیں نہیں ڈرتا‘‘۔
پھر عبداللہ نے ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مخاطب ہو کر پوچھا: کیا مَیں نے ماں کے احسان کا بدلہ چکا دیا ہے؟ ابن عمر نے جواب دیا نہیں، اس کی ایک آہ کا بدلہ بھی نہ ہوا۔یہ مضمون خصوصاً زمانۂ حاضر کے نوجوانوں کے لئے زیب قرطاس کیاگیاہے، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے اکثر نوجوان، لڑکے اور لڑکیاں عقل و خرد سے عاری، اخلاق و ادب سے فارغ، اپنے ماں باپ کے سامنے گستاخ اور مُنہ پھٹ دکھائی دیتے ہیں، اس میں کس کا قصور ہے؟ والدین، حکومت، ماحول، ناقص، تعلیم و تربیت، فضول اور غلط ذرائع ابلاغ، سب شامل ہیں۔ ہمارا نظام تعلیم انگریز کا چھوڑا ہوا ہے، جو دور غلامی کی یاد دلاتا ہے۔ اسے بدلنے کی آج تک کوشش نہیں کی گئی ہے، بلکہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم نے کئی خرابیاں پیدا کی ہیں اور نوجوانوں کو بے حیائی کی دلدل میں پھنسا دیا ہے۔ پھر ذرائع ابلاغ ٹی وی، اخبارات، انٹرنیٹ وغیرہ کی عریانی اور بیہودہ ڈائجسٹوں کی بھرمار نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ ادھر دیندار لوگوں نے آپس کی تفرقہ بازیوں اور جھوٹ سے نیکی کی قوت کو مزید کمزور بنا دیا ہے اور نظام جاہلیت کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا ہے، جو ناقابل معافی جرم ہے، ذرا بتلایئے کہ ہم رب ِ کریم کے حضور کس طرح سرخرو ہو سکتے ہیں؟ترجمہ: ’’اے میری رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز کا پابند بنا دیجئے، اے ہمارے رب، دُعا کو قبول فرمایئے، اے ہمارے رب، مجھے اور میرے والدین اور سب اہل ایمان کو اپنے سایۂ رحمت و غفران میں ڈھانپ لیجئے جب روز محشر (احتساب) ہو‘‘۔آمین ثم آمین

2 comments:

  1. اولادپر والدین کے حقوق

    ReplyDelete
  2. والدین کے حقوق پر بہت ساری تحریں ملتی ہیں مگر اولاد کے حقوق پر کوئی کیوں نہیں لکھتا ہے

    ReplyDelete