Tuesday, 8 May 2018

ڈاکٹر فرحت ہاشمی کے نظریات کا جائزہ؛ مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلھم کا فتویٰ.﴿فتویٰ نمبر: 486؍1﴾

ڈاکٹر فرحت ہاشمی کے نظریات کا جائزہ
مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلھم کا فتویٰ
﴿فتویٰ نمبر: 486؍1﴾
سوال: سائلہ نے اسلام آباد کے ایک ادارے 'الہدیٰ انٹرنیشنل' سے ایک سالہ ڈپلومہ کورس ان اسلامک اسٹڈیز (one year diploma course in I.S) کیا ہے. سائلہ اس ادارے میں طلب علم کی جستجو میں گئی تھی اور ان کے خفیہ عقائد سے ناواقف تھی، ایک سالہ کورس کے بعد ان کے عقائد کچھ صحیح معلوم نہ ہوئے تو سوچا کہ علماء کرام سے فتویٰ طلب کیا جائے تاکہ امت مسلمہ کی بیٹیوں تک عقائد صحیحہ کو پہنچا کر ان کو گمراہی سے بچایا جاسکے، ہماری استاد اور الہدیٰ انٹر نیشنل کی نگران محترمہ فرحت ہاشمی صاحبہ کے نظریات کا نچوڑ پیش خدمت ہے۔
۱۔ اجماع امت سےہٹ کر ایک نئی راہ اختیار کرنا
۲۔ غیر مسلم اور اسلام بیزار طاقتوں کے نظریات کی ہمنوائی
۳۔ تلبیس حق و باطل
۴۔فقہی اختلافات کے ذریعے دین میں شکوک و شبہات پیدا کرنا
۵۔آسان دین
۶۔ آداب و مستحبات کو نظر انداز کرنا
اب ان بنیادی نقاط کی کچھ تفصیل درج ذیل ہے:
۱۔اجماع امت سے ہٹ کر نئی راہ اختیار کرنا
۱۔قضائے عمری سنت سے ثابت نہیں صرف توبہ کرلی جائے قضا ء ادا کرنیکی ضرورت نہیں ہے
۲۔۳ طلاقوں کو ایک شمار کرنا
۳۔نفل نمازیں صلوٰۃ التسبیح ، رمضان میں طاق راتوں خصوصاً ۲۷ ویں شب میں اجتماعی عبادت کا اہتمام اور خواتین کے جمع ہونے پر زور دینا
۲۔غیر مسلم، اسلام بیزار طاقتوں کے خیالات کی ہمنوائی:
۱۔ مولوی (عالم)، مدارس اور عربی زبان سے دور رہیں،
۲۔ علماء دین کو مشکل بناتے ہیں آپس میں لڑتے ہیں، عوام کو فقہی بحثوں میں الجھاتے ہیں، بلکہ ایک موقع پر تو فرمایا کہ اگر آپ کو کسی مسئلے میں صحیح حدیث نہ ملے تو ضعیف لے لیں لیکن علماء کی بات نہ لیں،
۳۔ مدارس میں گرامر، زبان سکھانے، فقہی نظریات پڑھانے میں بہت وقت ضائع کیا جاتا ہے، قوم کو عربی زبان سیکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ لوگوں کو قرآن صرف ترجمہ سے پڑھادیا جائے،
ایک موقع پر کہا (ان مدارس می جو ۷،۷،۸،۸ سال کے کورس کروائے جاتے ہیں یہ دین کی روح کو پیدا نہیں کرتے ہیں) اشارہ درس نظامی کی طرف ہے،
۴۔ وحید الدین خان کی کتابیں طالب علموں کی تربیت کیلئے بہترین ہیں نصاب میں بھی شامل ہیں اور اسٹالز پر بھی رکھی جاتی ہیں، کسی نے احساس دلایا کہ ان کے بارے میں علماء کرام کی رائے کیا ہے تو کہا کہ "حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے."
۳۔ تلبیس حق و باطل:
۱۔ تقلید شرک ہے (لیکن کونسی بر حق ہے اور کس وقت غلط ہے یہ کبھی نہیں بتایا)
۲۔ ضعیف حدیث پر عمل کرنا تقریباً ایک جرم بناکر پیش کیا جاتا ہے (کہ جب بخاری صحیح ترین احادیث کا مجموعہ ہے تو ضعیف کیوں قبول کی جائے)
۴۔ فقہی اختلافات کے ذریعہ دین میں شکوک و شبہات پیدا کرنا:
۱۔ اپنا پیغام، مقصد اور متفق علیہ باتوں سے زیادہ زور دوسرے مدارس اور علماء پر طعن و تشنیع،
۲۔ ایمان، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج کے بنیادی فرائض، سنتیں، مستحبات، مکروہات سکھانے سے زیادہ اختلافی مسائل میں الجھایا گیا (پروپیگنڈا ہے کہ کسی تعصب کا شکار نہیں اور صحیح حدیث کو پھیلا رہے ہیں،
۳۔ نماز کے اختلافی مسائل رفع یدین فاتحہ خلف الامام ،ایک وتر ،عورتوں،کو مسجد جانے کی ترغیب، عورتوں کی جماعت ان سب پر صحیح حدیث کے حوالہ سے زور دیا جاتا ہے،
۴۔ زکوٰۃ میں غلط مسائل بتائے جارہے ہیں، خواتین کو تملیک کا کچھ علم نہیں،
۵۔ آسان دین:
۱۔ دین مشکل نہیں ،مولویوں نے مشکل بنادیا ہے ،دین کا کوئی مسئلہ کسی بھی امام سے لے لیں اس بھی ہم دین کے دائرے میں ہی رہتے ہیں؟
۲۔حدیث میں آتا ہے کہ آسانی پیدا کرو تنگی نہ کرو ،لہذا جس امام کی رائے آسان معلوم ہو وہ لے لیں،
۳۔ روزانہ یٰس پڑھنا صحیح حدیث سے ثابت نہیں، نوافل میں اصل صرف چاشت اور تہجد ہے، اشراق اور اوابین کی کوئی حیثیت نہیں،
۴۔ دین آسان ہے، بال کٹوانے کی کوئی ممانعت نہیں، امہات المؤمنین میں سے ایک کے بال کٹے ہوئے تھے،
۵۔ دین کی تعلیم کے ساتھ ساتھ پکنک، پارٹیاں، اچھا لباس، زیورات کا شوق، محبت۔ من حرم زینۃ اللہ ۔۔۔۔
۶۔ خواتین دین کو پھیلانے کیلئے گھر سے ضرور نکلیں،
۷۔ محترمہ کا اپنا عمل طالبعلموں کیلئے حجت ہے، محرم کے بغیر تبلیغی دوروں پرجانا،قیام اللیل کیلئے راتوں کو نکلنا ،میڈیا کے ذریعہ تبلیغ (ریڈیو، ٹی وی، آڈیو)،
۶۔ آداب و مستحبات کی رعایت نہیں:
۱۔ خواتین ناپاکی کی حالت میں بھی قرآن پاک چھوتی ہیں، اٰیات پڑھتی ہیں
۷۔ متفرقات:
۱۔ قرآن کا ترجمہ پڑھاکر ہر معاملہ میں خود اجتہاد کی ترغیب دینا
۲ ۔ قرآن و حدیث کی فہم کیلئے جو اکابر علماء کرام نے علوم سیکھنے کی شرائط رکھی ہیں ان کو بیکار، جاہلانہ باتیں اور سازش قرار دینا،
۳۔کسی فارغ التحصیل طالبہ کے سامنے دین کا کوئی حکم یا مسئلہ رکھا جائے تو اس کا سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ صحیح حدیث سے ثابت ہے یا نہیں،
ان تمام باتوں کا نتیجہ یہ ہے کہ گلی گلی، محلے محلے الہدیٰ کی برانچز کھلی ہوئی ہیں اور ہر قسم کی طالبہ، خواہ اس کی تجوید بھی درست نہ ہوئی ہو آگے پڑھارہی ہے، اور لوگوں کو مسائل میں الجھایا جارہا ہے۔
گھر کے مردوں کا تعلق مسجد سے ہے (جہاں نماز کا طریقہ فقہ حنفی کے مطابق ہے) گھر کی عورتیں مردوں سے الجھتی ہیں ہمیں مساجد کے مولویوں پر اعتماد نہیں۔
مطلوبہ سوالات:
۱۔ مذکورہ بالا تمام مسائل کی شرعی نقطہ نظر سے وضاحت فرماکر مشکور فرمائیں۔
۲۔ محترمہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی کے اس طریقہ کار کی شرعی حیثیت، نیز محترمہ کی گلاسگو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی شرعی حیثیت کیا ہے۔
۳۔ ان کے اس کورس میں شرکت کرنا، لوگوں کو اس کی دعوت دینا اور ان سے تعاون کرنے کی شرعی نقطہ نظر سے وضاحت فرمادیجئے۔ جزاکم اللہ خیرا احسن الجزاء
مستفتیہ مسز سیما افتخار
(one year diploma holder from Al Huda International Islamabad)

ج:
الجواب حامدًا ومصلیاً:
سوال میں جن نظریات کا ذکر کیا گیا ہے خواہ وہ کسی کے بھی نظریات ہوں ان میں سے اکثر غلط ہیں، بعض واضح طور پر گمراہانہ ہیں، مثلاً اجماع امت کو اہمیت نہ دینا، تقلید کو علی الاطلاق شرک قرار دینا، جس کا مطلب یہ ہے کہ چودہ سو سال کی تاریخ میں امت مسلمہ کی اکثریت جو ائمہ مجتہدین میں سے کسی کی تقلید کرتی رہی ہے وہ مشرک تھی، یا یہ کہنا کہ قضاء عمری فوت شدہ نمازوں کو قضاء کرنے کی ضرورت نہیں، صرف توبہ کافی ہے۔ (۲،۱)
بعض نظریات جمہور امت کے خلاف ہیں مثلاً تین طلاقوں کو ایک قرار دینا، بعض بدعات ہیں مثلاً صلاۃ التسبیح کی جماعت (۳)، یا قیام اللیل کیلئے راتوں اہتمام کے ساتھ لوگوں کو نکالنا، یا خواتین کو جماعت سے نماز پڑھنے کی ترغیب، بعض انتہائی گمراہ کن ہیں مثلاً قرآن کریم کو صرف ترجمہ سے پڑھ کر پڑھنے والے کو اجتہاد کی دعوت، یا اس بات پر لوگوں کو آمادہ کرنا کہ وہ جس مذہب میں آسانی پائیں اپنی خواہشات کے مطابق اسے اختیار کرلیں یا کسی کا اپنے عمل کو حجت قرار دینا (۴)۔ اور ان میں سے بعض نظریات فتنہ انگیز ہیں مثلا ًعلماء و فقہاء سے بد ظن کرنا، دینی تعلیم کے جو ادارے اسلامی علوم کی وسیع و عمیق تعلیم کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، ان کی اہمیت ذہنوں سے کم کرکے مختصر کورس کو علم دین کیلئے کافی سمجھنا، نیز جو مسائل کسی امام مجتہد نے قرآن و حدیث سے اپنے گہرے علم کی بنیاد پر مستنبط کئے ہیں ان کو باطل قرار دیکر اسے قرآن و حدیث کے خلاف قرار دینا اور اس پر اصرار کرنا۔
جو شخصیت یا ادارہ مذکورہ بالا نظریات رکھتا ہو اور اس کی تعلیم و تبلیغ کرتا ہو وہ نہ صرف گمراہانہ، گمراہ کن یا فتنہ انگیز نظریات کا حامل ہے بلکہ اس سے مسلمانوں کے درمیان افتراق و انتشار پیدا ہونے کا قوی اندیشہ ہے، اور اگر کوئی شخص سہولتوں کی لالچ میں اس قسم کی کوششوں سے دین کے قریب آئیگا بھی تو مذکورہ بالا فاسد نظریات کے نتیجے میں وہ گمراہی کا شکار ہوگا۔ لہٰذا جو ادارہ یا شخصیت ان نظریات کی حامل اور مبلغ ہو، اور اپنے دروس میں اس قسم کی ذہن سازی کرتی ہو اس کے درس میں شرکت کرنا ،اور اس کی دعوت دینا ان نظریات کی تائید ہے جو کسی طرح جائز نہیں (5)، خواہ اس پاس کسی قسم کی ڈگری ہو، اور گلاسگو یونیورسٹی کی ڈگری بذات خود اسلامی علوم کے لحاظ سے کوئی قیمت نہیں رکھتی، بلکہ غیر مسلم ممالک کی یونیورسٹیوں میں مستشرقین نے اسلامی تحقیق کے نام پر اسلامی احکام میں شکوک و شبہات پیدا کرنے اور دین کی تحریف کا ایک سلسلہ عرصہ دراز سے شروع کیا ہوا ہے۔ان غیر مسلم مستشرقین نے (جنہیں ایمان تک کی توفیق نہیں ہوئی) اس قسم کے اکثر ادارے در حقیقت اسلام میں تحریف کرنے والے افراد تیار کرنے کیلئے قائم کئے ہیں ، اور ان کے نصاب و نظام کو اس انداز سے مرتب کیا ہے کہ اس کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے (الا ماشاءاللہ) اکثر دجل و فریب کا شکار ہوکر عالم اسلام میں فتنے برپا کرتے ہیں۔ لہٰذا گلاسگو یونیورسٹی سے اسلامی علوم کی کوئی ڈگری نہ صرف یہ کہ کسی شخص کے مستند عالم ہونے کی کوئی دلیل نہیں بلکہ اس سے اس کی دین فہمی کے بارے میں شکوک پیدا ہونا بھی بیجا نہیں۔دوسری طرف بعض اللہ کے بندے ایسے بھی ہیں جنہوں نے ان یونیورسٹیوں سےڈگریاں حاصل کیں۔ اور عقائد فاسدہ سے محفوظ رہے، اگرچہ ان کی تعداد کم ہو ۔لہٰذا یہ ڈگری نہ کسی کے مستند عالم ہونے کی علامت ہے اور نہ محض اس ڈگری کی وجہ سے کسی کو مطعون کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس کے عقائد و اعمال درست ہوں ۔
مذکورہ بالا جواب ان نظریات پر مبنی ہے جو سائلہ نے اپنے استفتاء میں ذکر کئے ہیں اب کون شخص ان نظریات کا کس حد تک قائل ہے؟ اس کی ذمہ داری جواب دہندہ پر نہیں ہے۔۔
واللہ سبحانہ اعلم
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
دار الافتاء دار العلوم کراچی۱۴
۲۱۔۴۔۱۴۲۲ھ

https://youtu.be/AjCNuMoMr2Y
جب مفتی طارق مسعود صاحب نے
عورت کے حالت حیض میں قرآن کی تلاوت کو منع کیا تو  ہانگ کانگ میں الھدی انٹرنیشنل والوں نے پمفلیٹ تقسیم کیا جو جمہور امت سے ہٹ کر ہے کہ عورت حالت حیض میں قرآن کی تلاوت کر سکتی ہے دلیل یہ ہے کہ اس پر کوئی حدیث نہیں
جبکہ قرآن کی آیت موجود ہے.
اسکا مفتی طارق مسعود صاحب نے عمدہ جواب دیا
لازمـــــــاً سنیں
اور زیادہ سے زیادہ شیـــــــئر کـــــــریں تاکہ جو ماں بہنوں نے اب تک یہ خطأ کی ہے آئندہ نہ کریں

Reply to Dr farahat hashmi by mufti tariq masood sahab

No comments:

Post a Comment