رمضان میں افطار کے وقت اجتماعی دعا کرنا
۱۵۴۶ - سوال: حدیث میں ہے کہ رمضان المبارک میں افطار کے وقت دعاء قبول ہوتی ہے۔
( ۲ ) لہٰذا اس وقت گھر میں اہل و عیال کے ساتھ اجتماعی طور پر، قبلہ کی طرف رخ کرکے، اس طرح دعا کرنا کہ پیچھے اہل و عیال آمین کہتے رہیں اور دعاء کا طریقہ بھی سیکھتے رہیں، جائز ہے یا نہیں؟
الجواب حامدا و مصلیا؛
بغیر کسی التزام کے، کبھی کبھار ایسا کرنا [اجتماعی دعاء کرنا] جائز ہے، معمول نہیں بنانا چاہئے، دعاء، در حقیقت انفرادی عمل ہے ؛ اس لیے انفراداً دعاء کرنی چاہئے۔ (۱) بہر صور ت یعنی اجتماعی دعاء ہو، یا انفرادی، مغرب کی جماعت ترک نہیں ہونی چاہئے۔ فقط،
واللہ اعلم با لصواب۔
------------------------------
(۱) اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً ۭاِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْن َ ۵۵ۚ (۷- الاعراف:۵۵)
قال الآلوسي: تَضَرُّعاً أي ذوي تضرع أو متضرعين … وهو من الضراعة وهي الذل والاستكانة يقال ضرع فلان لفلان إذا ذل له واستكان، وقال الزجاج: التضرع التملق وهو قريب مما قالوا أي ادعوه تذللا، وقيل:التضرع مقابل الخفية. واختاره أبو مسلم أي ادعوه علانية وَخُفْيَةً أي سرا.ــــــــــ أخرج ابن المبارك، وابن جرير، وأبو الشيخ عن الحسن قال: لقد كان المسلمون يجتهدون في الدعاء وما يسمع لهم صوت إن كان إلا همسا بينهم وبين ربهم وذلك أنه تعالى يقول: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً وأنه سبحانه ذكر عبدا صالحا فرضي له فعله فقال تعالى: إِذْ نادى رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [مریم:۳] وفي رواية عنه أنه قال:بين دعوة السر ودعوة العلانية سبعون ضعفا.(روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني- شهاب الدين محمود بن عبد اللہ الحسيني الألوسي (م:۱۲۷۰هـ):۴؍۳۷۸، سورۃ الأعراف:۵۵،ت: علي عبد الباري عطية،ط: دار الكتب العلمية - بيروت)
فقیہ الامت حضرت مفتی محمودحسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں رقم طراز ہیں:
یہ طریقہ کہ ایسے وقت اس طرح اجتماعی دعاء کی جائے، حضرت نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور فقہاء مجتہدین سے ثابت نہیں، اگر امام صاحب تعلیم کے لئے ایک دو دفعہ دعاء کروادے، پھر روزے دار اپنی اپنی جداگانہ دعاء کرلیا کرے، تو بہتر ہے اور اس اجتماعی دعاء کوترک کیا جائے۔ (فتاویٰ محمودیہ: ۱۰؍۲۱۳، کتاب الصوم، فصل فی التسحر و الافطار، افطار کے وقت اجتماعی دعاء ثابت نہیں ہے، ط:دار المعارف- دیوبند)
استاذ گرامی حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
’’دعاء اصل میں انفرادی عمل ہے، یہ خدا اور بندے کے درمیان رازونیاز اور سرگوشی کا درجہ رکھتی ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر چیز خدا سے مانگنے کا حکم دیا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر ایک کی ضرورتیں الگ ہوتی ہیں، بعض ایسی بھی ضرورتیں ہوتی ہیں، جن کا بندہ اپنے مالک کے سامنے ذکر کرتا ہے، وہ کسی اور کے سامنے ان کا ذکر نہیں کرسکتا؛ اسی لیے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ ؓ کا عام معمول انفرادی دعاء کا تھا، خاص خاص مواقع پر اجتماعی دعاکی جاتی تھی، جیسے قنوت نازلہ، بارش کے لیے دعاء استسقاء ،یا مسلمان کسی خاص آزمائش سے گزررہے ہوں، تو ان کے لئے دعاء، اس لئے اگر افطار سے پہلے معمول بنائے اور لازم سمجھے بغیر کبھی کبھی اجتماعی دعاء کرلی جائے، تو ا س کی گنجا ئش ہے، لیکن اس کو روزانہ کا معمول نہ بنایا جائے، اور اس پر اصرار نہ کیا جائے اور اسے ضروری نہ سمجھا جائے۔‘‘ (کتاب الفتاویٰ :۳؍۴۲۹، روزے سے متعلق سوالات، سحرو افطارکے احکام، افطار کے وقت اجتماعی دعاء، ط: نعیمیہ- دیوبند)
No comments:
Post a Comment