Friday 25 May 2018

ایک دن میں قرآن ختم کرنا؟

ایک دن میں قرآن ختم کرنا؟
سوال (۹۷۱):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: تراویح کی نماز میں ایک دن کے اندر قرآنِ کریم پڑھنا کیسا ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
ایک ہی رات میں تراویح کے اندر پورا قرآن ختم کرنا اصلاً تو ناجائز نہیں ہے؛ لیکن عام طور پر ایسے شبینہ میں اتنا تیز قرآن پڑھا جاتا ہے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا، نیز پہلی رکعت میں مقتدی حضرات رکوع سے پہلے بیٹھ کر باتیں کرنے لگتے ہیں، اور اسے کے علاوہ بھی بہت سے منکرات پائے جاتے ہیں، اس لئے ایک رات میں قرآن ختم کرنے کا اہتمام نامناسب اور قابل ترک ہے، اور بہت سے مفاسد پر مشتمل ہے۔ (مستفاد: احسن الفتاویٰ ۳؍۵۲۱، فتاویٰ دینیہ ۱؍۵۷۱)
عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لم یفقہ من قراء القرآن في أقل من ثلاث، ہٰذا حدیث حسن۔ (سنن الترمذي / أبواب القراء ات ۲؍۱۲۳)
ویجتنب المنکرات ہذرمۃ القراء ۃ وترک تعوذ وتسمیۃ وطمانینۃ وتسبیح واستراحۃ۔ (الدر المختار، باب الوتر والنوافل ۲؍۴۷ کراچی، ۲؍۴۹۹ زکریا، مراقي الفلاح، الصلاۃ / فصل في التراویح ۴۱۶) 
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ
۲۵؍۹؍۱۴۱۳ھ
................
شبینہ:
بعض جگہ ایک شب میں قرآن ختم کرنے کا رواج ہے، لیکن اسی میں ایک خرابی تو یہ ہوتی ہے کہ اکثر نفلوں کی جماعت میں قرآن پڑھا جاتا ہے اور نفلوں میں تین یا تین آدمیوں سے زیادہ کی جماعت کرنا مکروہ ہے۔
دوسرے غور کر کے دیکھا جاوے تو اس میں اکثر نیت نمود و شہرت اور دکھلاوے کی ہوتی ہے۔ حفاظ تو زیادہ ترداد ملنے کے امید وار رہتے ہیں اور بعض عوض مالی کا طمع بھی رکھتے ہیں اور مہتمم اور منتظم کو اکثر تو سامعین میں شامل ہو کر قرآن مجید سننے کا موقع ہی کم ملتا ہے۔ چائے، شربت وغیرہ کے انتظام سے ہی ان کو فرصت نہیں ملتی اور اگر بھاگے دوڑے شامل ہوئے بھی تو اطمینان اور سکونِ قلب مفقود ہوتا ہے، کیوں کہ دل تو انتظام میں پھنسا ہوا ہوتا ہے۔ رہے سامعین تو اکثر کی یہ حالت ہوتی ہے کہ کوئی لیٹا ہے، کوئی بیٹھا ہے کوئی گفتگو میں مصروف ہے۔ اس بے توجہی اور بے پرواہی کے ساتھ قرآن پاک کا سننا قرآن کی بے حرمتی اور بے ادبی ہے، اس سے آج کل کے اس نئے مروّجہ شبینہ کا حال بھی معلوم ہوسکتا ہے جس میں سننے اور پڑھنے والے کسی کے لیے بھی نماز کی پابندی نہیں ہے۔ بغیر نماز کے ہی پڑھنے والے پڑھتے ہیں اور سننے والے بغیر نماز کے ہی سنتے ہیں۔ کیوں کہ اس میں بھی نفلوں کی جماعت کی خرابی کے سوا مندرجہ بالا سب قباحتیں موجود ہوتی ہیں۔
البتہ اگر خلوصِ نیت سے ریا اور دکھلاوے کے بغیر، دلی شوق ورغبت کے ساتھ قرآن مجید کو پڑھا اور سنا جائے اور سنانے والے بھی اخلاص کے ساتھ پڑھنے کے علاوہ تلاوت قرآن مجید میں صحت لفظی اور تجوید کا پورا لحاظ رکھیں اور مالی عوض کا بھی ان کو لالچ نہ ہو۔ پھر چاہے قرآن مجید ایک شب میں ختم ہوجائے یا جس قدر بھی آسانی کے ساتھ ہو سکے اسی قدر کو غنیمت سمجھیں تو یہ ایک امرِ محمود اور قرآن مجید کی اشاعت اور لوگوں کو اس کی طرف رغبت وشوق دلانے کا باعث ہے۔ اور اگر نماز میں قرآن مجید سننے کا شوق ہو تو پھر ان امور کے لحاظ کے ساتھ اس امر کا بھی خاص خیال رکھا جائے کہ نفلوں کے اندر جماعت میں تین یا تین سے زیادہ آدمی شامل نہ ہونے پائیں۔ پھر بھی افضل یہی ہے کہ تین راتوں میں قرآن پاک ختم کریں، اس سے کم میں ختم نہ کیاجاوے، البتہ تنہا نفلوں میں جس قدر چاہیں پڑھیں۔ بعض سلف صالحین سے ایک شب و روز میں تین مرتبہ قرآن پاک کا ختم کرنا بھی ثابت ہے۔ مگر یہ عمل ان کا قرآن پاک کے ساتھ شغف و انہماک اور محبت کی وجہ سے تھا اور پھر وہ تنہا اور اکیلے اس پر شوق و رغبت کے ساتھ عمل کرتے تھے۔ ان کے عمل سے مروّجہ شبینوں کے جواز پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔
..........
سوال # 61776
ایک حدیث میں آیا ہے کہ جس نے تین دن میں قرآن مجید ختم کیا اس نے کچ نہ پایا
کیا یہ بات واقعی کسی صحیح حدیث میں آئی ہے یا کسی نے اپنی طرف سے کہہ دیا ہے؟ اگر یہ ٹھیک ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ قرآن پاک کو کم از کم کتنے دن میں ختم کرلینے کی اجازت ہے۔
(۴) ایک عام قاری کو ایک دن میں کتنا قرآن پڑھنا چاہیے ؟
Published on: Oct 22, 2015 
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 891-856/Sn=1/1437-U
(۱، ۲) تین دن میں نہیں؛ بلکہ تین دن سے کم میں قرآن کریم ختم کرنے والے سے متعلق اس طرح کی بات آئی ہے، حدیث کے الفاظ یہ ہیں: لا یفقہ من قرأہ في أقلّ من ثلاث یعنی جو شخص تین دن سے کم میں قرآن کریم ختم کرے گا وہ اس کے ظاہری معنی کو بھی سمجھ نہ سکے گا؛ اس لیے کہ جلد بازی کی وجہ سے معنی کی طرف دھیان نہ دے سکے گا۔ (ابودادوٴ مع بذل المجہود، ۷/۱۸۱، ط: دار الکتب العلمیہ، بیروت) ہکذا فی غنیة المتملی (ص: ۴۹۶، ط: اشرفی)
(۳) تین دن میں، اس سے کم وقت میں قرآن کریم ختم کرنا عامةً پسندیدہ نہیں ہے، ولا یستحب أن یختم في أقل من ثلاثة أیام إلخ (کبیری، ۴۹۶) 
(۴) شرعاً اس کی کوئی تحدید نہیں ہے، جتنی توفیق ہو، اتنا پڑھ لے۔
..............
حضرت اسود اور تلاوت کلام اللہ:
دیگر عبادات کی طرح آپ تلاوت کلام اللہ بھی بکثرت فرمایا کرتے تھے اور رمضان المبارک میں اس کیفیت میں مزید اضافہ ہوجاتا۔ چنانچہ مشہور فقیہ امام ابراہیم نخعی فرماتے ہیں:
کان الاسود یختم القرآن فی شہر رمضان فی کل لیلتین وینام فیما بین المغرب والعشاء وکان یختم فیما سویٰ ذالک فی ستۃ۔
(سنن سعید بن منصور ج 2 ص 450)
ترجمہ: آپ رمضان المبارک کے علاوہ چھ دنوں میں قرآن کریم مکمل فرماتے تھے اور رمضان المبارک میں ہر دوسری رات میں قرآن مکمل فرماتے۔ اور ماہ رمضان میں مغرب اور عشاء کے درمیان آرام فرماتے۔
آپ کی تلاوت کا یہ معمول کئی معتبر کتب میں موجود اور مذکور ہے۔ اس سے آپ کی کلام اللہ شریف سے محبت اور لگن معلوم ہوتی ہے۔
نوٹ: قرآن کریم کتنے دنوں میں مکمل کرنا چاہیے اس بارے میں احادیث مختلف ہیں۔ مشہور محدث حضرت امام ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قال بعضہم فی ثلاث و فی خمس واکثرھم علیٰ سبع۔
(صحیح بخاری رقم الحدیث 5052باب فی کم یقراء القرآن)
بعض راویان حدیث کی روایت میں ہے قرآن مجید تین دنوں میں مکمل کرنا چاہیے، بعض پانچ دنوں کا کہتے ہیں اور اکثر راوی حضرات سات دن والی روایت نقل کرتے ہیں۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے اس فرمان سے معلوم ہوا کہ تکمیل قرآن کریم کے لیے دنوں کی کوئی خاص حد مقرر نہیں جس میں کمی یا اضافہ نہ ہوسکتا ہو۔
امت محمدیہ علی صاحبہا التحیہ والسلام میں اہل علم و عمل کی ایک بہت بڑی جماعت ایسی بھی ہے جو تین دن سے بھی کم میں قرآن کریم مکمل فرما لیتی تھی۔ جن میں حضرات صحابہ کرام بھی ہیں اور ائمہ محدثین و فقہاء بھی۔ بلکہ خود امام بخاری رحمہ اللہ کا اپنا معمول رمضان المبارک میں روزانہ ختم قرآن کا تھا۔
(الطبقات لابن سعد ج 2 ص 9)
ایک حدیث مبارک میں ہے کہ قرآن کریم کو کم از کم تین دن میں مکمل کرنا چاہیے۔ جبکہ دوسری طرف دیکھا جائے تو صحابہ کرام اور ائمہ دین کی ایک بڑی جماعت تین دن سے کم میں قرآن کریم مکمل فرماتی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان حضرات کا یہ معمول حدیث کے خلاف ہے یا حدیث کا مطلب اور مراد کچھ اور ہے؟
شارحین حدیث نے اس کے مختلف مطالب بیان کیے ہیں۔ بخوف طوالت ان سب کو نقل نہیں کیا جاتا بلکہ صرف ایک پر اکتفاء کیا جاتا ہے جس سے حدیث کی مراد واضح ہوجاتی ہے۔ چنانچہ ماضی قریب کے عظیم محقق اور محدث امام اہل السنت شیخ التفسیر والحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس حدیث کے دیگر بیان کردہ مطالب کےعلاوہ ایک آسان مطلب یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ) تین دن سے کم میں قرآن کریم ختم نہ کرو (امت پر شفقت اور ترحم کے سلسلہ میں ہے۔ تاکہ ان دنوں میں غور وفکر سے قرآن کریم پڑھا جائے اور اس کے معانی کو سمجھا جاسکے۔ کیونکہ ہر آدمی تو مثلاً امام شافعی رحمہ اللہ نہیں کہ مسئلہ اجماع کو سمجھنے کے لیے تین دن میں نو مرتبہ قرآن کریم ختم کرے اور منتہائے نظر یہ ہو کہ مسئلہ استنباط کرنا ہے۔ ہر ایک کو بھلا یہ مقام کہاں نصیب ہو سکتا ہے؟
(مقام ابی حنیفہ ص 243)
الحاصل: تین دن سے کم میں قرآن کریم مکمل کرنا ہر ایک کے لیے جائز بھی نہیں اور ناجائز بھی نہیں، بلکہ شخص بدلنے سے حکم بدل جائے گا۔
چنانچہ چند حضرات صحابہ اور ائمہ کرام کے بارے میں باحوالہ یہ نقل کیا جا رہا ہے کہ وہ تین دن سے کم میں قرآن کریم مکمل کیا کرتے تھے۔
.....................
بیان حضرت جی مولانا محمد سعد صاحب الکاندھلوی


No comments:

Post a Comment