خانہ کعبہ؛ مقدس اور بابرکت
خانہ کعبہ کا ایک ایک جزو مقدس اور بابرکت ہے مگر اس کے کچھ مقامات اپنی خاص پہچان رکھتے ہیں۔ ان میں کعبہ شریف کے داخلی اور خارجی دروازے، طوق حجر اسود، میزاب، غلاف کعبہ، شاذروان کعبہ اور اندرونی حصہ اپنی خاص پہچان رکھتے ہیں۔ مسجد حرمین شریفین کے امور کے محقق محی الدین الھاشمی لکھتے ہیں کہ ماضی میں مسلمان حکمرانوں کے ہاں خانہ کعبہ اوراس کے متعلق امور انتہائی اہمیت کے حامل رہے۔ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدلا مگر خانہ کعبہ کے بارے میں مسلمان خلفاء کی محبت میں کوئی کمی نہ آئی۔ خانہ کعبہ کہ اندورنی اور بیرونی دیواروں پر معلق ’چراغوں‘ سے مسلمان خلفاء کی اس مقدس مقام کے ساتھ محبت کا اندازہ با آسانی کیا جاسکتا ہے۔ آج بھی خانہ کعبہ کے ساتھ تانبے، لوہے، چاندی اور شیشے کی بنی 100 ایسی قندیلیں معلق ہیں۔ ان میں سے بعض پر عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کا نام کندہ ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ قندیلیں عباست دور خلافت کے اوئل میں متعلق کی گئی تھیں۔
باب کعبہ:
باب کعبہ ’بیت اللہ‘ کے اہم تاریخی رازوں میں سے ایک ہے۔ آج تک ان گنت بار باب کعبہ کو مختلف انداز میں ڈیزان کیا گیا۔ جب ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ بنایا اس وقت اس کا کوئی دروازہ نہیں تھا بلکہ خانہ کعبہ کی مشرقی اور مغربی سمت سے اندر داخل ہونے کے دو راستے رکھے تھے تھے جو کھلے رہتے تھے۔ کئی سال تک خانہ کعبہ ’دروازے‘ کے بغیر رہا۔ یہاں تک کہ بادشاہ تبع کے دور میں پہلی بار خانہ کعبہ کے دروازے بنائے،چابی اور غلاف بنائے گئے۔
باب کعبہ ’بیت اللہ‘ کے اہم تاریخی رازوں میں سے ایک ہے۔ آج تک ان گنت بار باب کعبہ کو مختلف انداز میں ڈیزان کیا گیا۔ جب ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ بنایا اس وقت اس کا کوئی دروازہ نہیں تھا بلکہ خانہ کعبہ کی مشرقی اور مغربی سمت سے اندر داخل ہونے کے دو راستے رکھے تھے تھے جو کھلے رہتے تھے۔ کئی سال تک خانہ کعبہ ’دروازے‘ کے بغیر رہا۔ یہاں تک کہ بادشاہ تبع کے دور میں پہلی بار خانہ کعبہ کے دروازے بنائے،چابی اور غلاف بنائے گئے۔
قریش مکہ نے آتش زدگی اور سیلاب سے متاثر ہونے کےبعد خانہ کعبہ کو دوبارہ مرمت کیا اور کا مغربی دروازہ بند کردیا۔ صرف مشرقی دورازے کو کھلا رکھا۔ اس کےبعد آج تک دو پٹوں پرمشتمل 14 ہاتھ لمبا دروازہ خانہ کعبہ کی زینت ہے۔
سعودی محقق الھاشمی کا کہنا ہے کہ خانہ کعبہ کی دوسری بار تعمیر عبداللہ بن زبیر کے دور میں کی گئی۔ تاہم باب کعبہ کی شکلیں تبدیل ہوتی رہیں۔ عباسی خلیفہ المقتفی نے551ھ باب کعبہ بنایا گیا۔ اس کے بعد یمنی خلیفہ مظفر نے 659ھ میں خانہ کعبہ کے لیے چاندی سے تیار کردہ دروازہ عطیہ کیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد شاہ ناصر حسن نے 761 ھ میں ساگوان کی لکڑی سے خانہ کعبہ کا دروازہ تیار کیا۔
ترک خلیفہ سلیمان القانونی نے لکڑی کا دروازہ تیار کرکے خانہ کعبہ میں لگوایا۔ اس پر سونے اور چاندی کی قلع کاری کی گئی اور آیت کریمہ "وقل رب أدخلني مدخل صدق واخرجني مخرج صدق واجعل من لدنك سلطانا نصيرا". تحریر کرائی۔
سنہ 1045ھ میں سلطان مراد کے دور میں خانہ کعبہ کی تعمیر نو کی گئی۔ اس دوران نیا باب کعبہ بھی نصب کیا گیا۔ یہ دروازہ بھی سونے اور چاندی سے تیار کیا گیا تھا۔ 1119ھ میں باب کعبہ کی دوبارہ تجدید کی گئی۔
موجودہ آل سعود دور حکومت میں باب کعبہ10 ذی الحج 1366ھ میں تبدیل کیا گیا۔ نئے باب کعبہ کی موٹائی 2.50 سینٹی میٹر ہے جب کہ لمبائی3.10 میٹر رکھی گئی ہے۔ المونیم سے تیار کیے گئے باب کعبہ پر سونے کا پانی چڑھایا گیا۔ آل سعود خاندان کے دور میں یہ پہلا باب کعبہ تھا جو آج بھی خادم الحرمین الشریفین میوزیم میں آج بھی موجود ہے۔ دوسرا باب کعبہ شاہ خالد رحمہ اللہ کے دور میں بنایا گیا۔ شاہ خالد کے دور میں ایک تبدیلی یہ آئی کہ خانہ کعبہ کے دو دروازے بنانے کا حکم دیا گیا۔ اب ’خارجی باب کعبہ‘ اور دوسرا باب کعبہ جسے باب التوبہ کا نام دیا گیا سے خانہ کعبہ کی چھت تک جانے کا راستہ بنایا گیا۔ دوسرا باب کعبہ تیار کرنے کا سہرا الشیخ الصاغہ احمد ابراہیم بدر کے سر جاتا ہے جنہوں نے 1397ھ میں باب کعبہ کا کام شروع کیا۔ اس باب میں لکڑی کی 10 سینٹی میٹر چوڑی تختیاں لگائی گئیں۔ تکمیل کے بعد اس پر سونے کا پانی چڑھایا گیا۔ باب کعبہ کی تیاری میں 13ملین ریال خرچ ہوئے۔ اسے 1399ھ میں نصب کیا گیا اور آج تک یہی باب کعبہ موجود ہے۔
ہالہ حجر اسود:
خانہ کعب میں نصب حجر اسود کے گرد نصب کردہ ہالہ کو صدیوں قبل خالص چاندی سے تیار کیا۔ سب سے پہلے حجر اسود کا ہالہ عبدللہ بن زبیر نے 64 ھ میں بنوایا۔ ہالہ اس لیے بنایا گیا تاکہ حجر اسود کو کسی قسم کی گزند پہنچنے سے بچایا جا سکے اور اس کی خوبصورت میں اضافہ کیا جائے۔
خانہ کعب میں نصب حجر اسود کے گرد نصب کردہ ہالہ کو صدیوں قبل خالص چاندی سے تیار کیا۔ سب سے پہلے حجر اسود کا ہالہ عبدللہ بن زبیر نے 64 ھ میں بنوایا۔ ہالہ اس لیے بنایا گیا تاکہ حجر اسود کو کسی قسم کی گزند پہنچنے سے بچایا جا سکے اور اس کی خوبصورت میں اضافہ کیا جائے۔
عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے 189ھ میں سابق طوق حجر اسود میں خرابی کے بعد نیا ہالہ تیار کیا۔
قرامطہ کے دور میں حجر اسود کو بھی نقصان پہنچا۔ بنی شیبہ نے 339 میں نیا ہالہ حجر اسود تیار کیا۔ سدنہ خاندان کے تیار کردہ ہالہ کو 1079ھ میں تبدیل کیا گیا۔
عثمانی خلیفہ سلطان عبدالمجید خان نے 1268ھ میں نیا ہالہ حجر اسود بنوایا۔ یہ ہالہ خاصل سونے سے تیار کیا گیا اور اس پر آیت الکرسی نقش کی گئی۔ یہ ہالہ 13 سال تک رہا۔ اس کے بعد 1281ھ میں سلطان عبدالعزیز نےچاندی سے نیا ہالہ تیار کرایا۔ حجر اسود کا آخری ہالہ عثمانی خلیفہ سلطان محمد رشاد نے 1331ء میں بنوایا اور یہ ہالہ آل سعود کے دور تک قائم رہا۔
شاہ عبدالعزیز نے اپنے دور میں 1366ھ میں خانہ کعبہ میں کئی ترامیم کیں جن میں ہالہ حجر اسود کی تبدیلی بھی شامل ہے۔
شاہ عبدالعزیز کے دور میں تیار کردہ ہالہ حجر اسود 22 شعبان 1375ھ کو بعد از نماز مغرب نصب کیا گیا۔ البتہ شاہ فہد نے 1422ھ میں اس میں معمولی ترامیم کرائی تھیں۔ مگر ہالہ کو تبدیل نہیں کیا گیا۔
میزاب کعبہ:
میزاب کعبہ وہ خوبصورت پرنالہ ہے جو خانہ کعبہ کی چھت پر جمع ہونے والے پانی کو زمین تک پہنچانے کے لیے بنایا گیا۔ سب سے پہلے میزاب کعبہ قریش نے بنایا جب انہوں نے خانہ کعبہ کی از سر نو تعمیر کی تھی۔ میزاب کعبہ کی تیاری بعثت نبوی سے پانچ سال قبل ہوئی اور آپ صلی اللہ و علیہ وسلم نے بھی اس کی تیاری میں حصہ لیا تھا۔
میزاب کعبہ وہ خوبصورت پرنالہ ہے جو خانہ کعبہ کی چھت پر جمع ہونے والے پانی کو زمین تک پہنچانے کے لیے بنایا گیا۔ سب سے پہلے میزاب کعبہ قریش نے بنایا جب انہوں نے خانہ کعبہ کی از سر نو تعمیر کی تھی۔ میزاب کعبہ کی تیاری بعثت نبوی سے پانچ سال قبل ہوئی اور آپ صلی اللہ و علیہ وسلم نے بھی اس کی تیاری میں حصہ لیا تھا۔
قریش کے دور کے بعد اب تک میزاب کعبہ 12 مرتبہ نئے سرے سے بنایا گیا۔ عبداللہ بن زبیر، حجاج بن یوسف، ولید بن عبدالملک نے میزاب کعبہ سونے سے بنوایا۔ عثمانی خلیفہ سلطان عبدالمجید خان نے 1276ھ میں میزاب کعبہ تیار کرایا۔ یہ آج تک سعودی عرب میں سرکاری میوزیم میں موجود ہے۔ آل سعود کے دور میں شاہ فہد بن عبدالعزیز نے 24 سینٹی میٹر دھانے کا میزاب 1417ء میں تیار کراکے نصب کرایا اور یہ آج تک موجود ہے۔
الشاذوران:
خانہ کعبہ کے زیریں حصے میں زمین سے متصل سنگ مرمر کی اس پٹی کو’’شاذوران‘‘ کہا جاتا ہے جو کعبے کے حجر اسماعیل کے سوا باقی تین سمتوں میں ایک ہی انداز میں بنائی گئی ہے۔
خانہ کعبہ کے زیریں حصے میں زمین سے متصل سنگ مرمر کی اس پٹی کو’’شاذوران‘‘ کہا جاتا ہے جو کعبے کے حجر اسماعیل کے سوا باقی تین سمتوں میں ایک ہی انداز میں بنائی گئی ہے۔
سعودی محقق الھاشمی کا کہنا ہے کہ الشاذوران غیرعرب اصطلاح ہے۔ سب سے پہلے ’شاذوران‘ عبداللہ بن زبیر نے بنائی۔ اس کا مقصد کعبے کی دیواروں کو پانی لگنے سے کمزور ہونے سے بچانا اور غلاف کعبہ کو زائرئن سے تحفظ دلانا تھا۔
عبداللہ بن زبیر کے بعد 542ھ، 636ھ، 660ھ، 670ھ، 1010ھ میں اس کی تجدید کی گئی جب کہ سعودی عرب کی حکومت نے شاہ فہد کے دور میں 1417ء میں الشاذوران کی تجدید کی گئی اور اس کی تیاری میں زرد رنگ کی سنگ مرمر کی جگہ کرارہ نانی نہایت عمدہ پانچ سیٹنی میٹر موٹی ٹائل کا استعمال کیا گیا۔ صحن مطاف سے اس کی اونچائی 11 سینٹی میٹر سے 40 سینٹر میٹر تک ہے۔ الشاذوران میں 36 نئے حصے جوڑے گئے جب کہ حجر اسماعیل میں 46 حصے ہیں جن میں سے 22 بالائی سطح پر،24 دیوار حجر اسود کے ساتھ ہیں۔ اس کے ساتھ غلاف کعبہ کی 57 کڑیاں جوڑی گئی ہیں۔
الھاشمی کا کہنا ہے کہ الشاذوران کے 8 ٹکڑے باب کعبہ کی دائیں جانب نصب ہیں۔ یہ خشک جگہ ہے اور اسے گوندنے کی جگہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی دیواریں اٹھاتے ہوئے ان کا مسالحہ اسی جگہ گوندا تھا۔ یہاں نصب شاذوران کے بلاکوں کی لمبائی 33 سینٹی میٹر اور چوڑائی 21 سینٹر میٹر ہے۔ پہلی بار یہاں پر یہ پتھر خلیفہ ابو جعفرمنصور کے دور میں نصب کیے گئے اوران کے نیچے نیلے رنگ یں 631ھ یعنی آج سے 807 سال پہلی کی تاریخ درج کی گئی۔
غلاف کعبہ 'کسوہ':
خانہ کعبہ کا ذکر غلاف کعبہ کے تذکرے کے بغیر ادھورا ہے۔ سعودی محقق الھاشمی کا کہنا ہے کہ غلاف کعبہ کی تیاری مسلمان خلفاء کی اولین ترجیحات اور دلچسپیوں میں شامل رہی۔ پہلا غلاف تبع الیمانی نامی بادشاہ کےدور میں تیار کیا گیا اور چاند گرہن کے موقع پر اسے کعبے کی زینت بنایا گیا۔ اس کے بعد قریش کے جد امجد قصی بنی کلاب نے زائرین کعبہ کی خدمت کرنے والے السقایہ،[پانی پلانے والے] الرفادہ اور غلاف کعبہ تیار کرنے والوں کو جمع کیا اور نیا غلاف تیار کیا۔ یہ غلاف قریش کے دور تک رہا۔
خانہ کعبہ کا ذکر غلاف کعبہ کے تذکرے کے بغیر ادھورا ہے۔ سعودی محقق الھاشمی کا کہنا ہے کہ غلاف کعبہ کی تیاری مسلمان خلفاء کی اولین ترجیحات اور دلچسپیوں میں شامل رہی۔ پہلا غلاف تبع الیمانی نامی بادشاہ کےدور میں تیار کیا گیا اور چاند گرہن کے موقع پر اسے کعبے کی زینت بنایا گیا۔ اس کے بعد قریش کے جد امجد قصی بنی کلاب نے زائرین کعبہ کی خدمت کرنے والے السقایہ،[پانی پلانے والے] الرفادہ اور غلاف کعبہ تیار کرنے والوں کو جمع کیا اور نیا غلاف تیار کیا۔ یہ غلاف قریش کے دور تک رہا۔
فتح مکہ کے بعد سنہ 8 ھ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یمنی کپڑے سے غلاف کعبہ تیار کرایا۔ اموی دور حکومت میں غلاف سال میں دو بارتبدیل کیا جاتا۔ ایک 10 محرم کو اور دوسری بار ماہ صیام کے آخر میں تبدیل کیا جاتا۔
عباسی خلفاء کے دور میں غلاف کعبہ پر خلیفہ کا نام لکھنے کی روایت پڑی۔ اس کے علاوہ غلاف کی تیاری کی جگہ اور تاریخ بھی لکھی جانے لگی۔
عثمانی دور خلافت میں غلاف کعبہ مصر میں تیار کرنے کے بعد حجاز روانہ کیا جاتا۔ غلاف کی تیاری کے بعد اس کی حجاز روانگی سے قبل مصر میں اور حجاز میں جشن منایا جاتا۔ 1345ھ تک مصر غلاف کعبہ کی تیاری میں سرگرم رہا۔ مگر اس کے بعد مصری حکومت نے غلاف کعبہ کی تیاری روک دی۔ شاہ عبدالعزیز آل سعود نے 1346ھ میں چند ایام کے اندر نیا غلاف تیار کرانے کے بعد اسے کعبے کی زینت بنایا۔ پرانے زمانے میں غلاف کعبہ ریشمی کپڑے سے ہاتھ سے تیار کیا جاتا تھا مگر اب سعودی عرب کی حکومت نے غلاف کعبہ کی تیاری کے لیے ایک باضابطہ کارخانہ قائم کیا ہے جس میں سال بھر ماہرین بہترین اور اعلیٰ معیار کے کپڑے سے غلاف کعبہ تیار کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
No comments:
Post a Comment