اکابرین کیسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے تھے؟
ایک صاحب حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب سے ملنے آئے تھے، انہوں نے مختلف سوالات کئے حضرت والا دامت برکاتہم جواب دیتے رہے۔ ایک سوال انہوں نے یہ پوچھا کہ صدقہ کرنے کی کیا ترتیب ہونی چاہئے؟ اس کی بہتر صورت کیا ہے؟
حضرت نے فرمایا کہ: بزرگوں کا طریقہ یہ رہا ہے کہ اپنی آمدنی میں سے کچھ حصہ مخصوص کردیا جائے مثلاً ایک فیصد یا دس فیصد، جتنی استطاعت ہو، اس حساب سے متعین کرلیا جائے اور پھر وہ اتنا پیسہ صدقہ کردیا جائے
’’حضرت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا بڑا ذوق تھا، اور آپ مصارفِ خیر میں حصہ لینے کی کوشش میں رہتے تھے۔..... انفاق کا یہ معمول تنگی و فراخی ہر حالت میں جاری رہا۔ اور اس کیلئے جو طریقِ کار اپنایا ہوا تھا وہ بڑا سبق آموز اور لائقِ تقلید ہے۔
آپ کا معمول یہ تھا کہ زکوۃ ادا کرنے کے علاوہ آپ کے پاس جب بھی کوئی رقم آتی تو اس کا ایک معین حصہ فوراً مصارف خیر میں خرچ کرنے کے لئے علیحدہ فرمالیتے، اور طے کیا ہوا تھا کہ آمدنی اگر محنت سے حاصل ہوئی ہے تو بیسواں حصہ (پانچ فی صد) اوراگر کسی محنت کے بغیر حاصل ہوئی ہے (مثلاً انعام، ہدیہ، تحفہ وغیرہ) تو اس کا دسواں حصہ فوراً علیحدہ نکال لیاجائے،............. صندوقچی میں ایک تھیلا آپ کے پاس ہمیشہ رہتا تھا، جس پر ’’صدقات و مبرّات‘‘ لکھا رہتا تھا، تنگ دستی کا زمانہ ہو یا فراخی کا، آمدنی کا مذکورہ حصہ آپ فوراً اس تھیلے میں رکھ دیتے تھے، اور جب تک یہ حصہ ’’صدقات ومبرات ‘‘ کے تھیلے میں نہ چلا جاتا، اس وقت تک اس آمدنی کو استعمال نہیں فرماتے تھے، اگر دس روپے بھی کہیں سے آئے ہیں تو فوراً اس کے چھوٹے نوٹ بدلوا کر ایک روپیہ اس تھیلے میں رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے۔ (البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ ج۱ ص ۴۵۹)
حضرت مولانا تھانوی رحمہ اللہ اپنی کمائی کا ایک تہائی خیرات کردیا کرتے تھے اور حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب رحمہ اللہ اپنی کمائی کا ایک خمس (یعنی پانچواں حصہ) خیرات کرتے تھے۔ حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحب کو دیکھا کہ ان کے پاس تین چپاتیاں آتی تھیں، ان میں ڈیڑھ چپاتی خود تناول فرماتے ایک چپاتی خیرات کردیتے تھے اور آدھی کسی کو ہدیہ کردیتے تھے۔ (البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ ج ۲ ۔ ص۸۹۱)
اس ساری بات سے اس طریقِ کار کی اہمیت کا اندازہ ہوا ویسے تو ہر شخص صدقہ کی اہمیت سے واقف ہوتا ہے اور کچھ نہ کچھ صدقہ کرتا ہی رہتا ہے لیکن اس التزام اور اس طرح کی پابندی کا فائدہ یہ ہوگا کہ ساری کی ساری آمدنی مکمل طور پر صدقے کی چھلنی سے چھن کر آئے گی اور گویا کہ انسان کے پاس جو کچھ بھی آ رہا ہے، اس کے ایک ایک پیسے کا صدقہ دیا جارہا ہے، اس طریقِ کار سے برکت بھی ہوگی اور صدقہ کا اہتمام بھی رہے گا کیونکہ کوئی وقت ایسا نہیں ہوگا کہ جب اس کے پاس مال آیا ہو اور اس نے اس کا صدقہ نہ دیا ہو۔
حضرت نے فرمایا کہ: بزرگوں کا طریقہ یہ رہا ہے کہ اپنی آمدنی میں سے کچھ حصہ مخصوص کردیا جائے مثلاً ایک فیصد یا دس فیصد، جتنی استطاعت ہو، اس حساب سے متعین کرلیا جائے اور پھر وہ اتنا پیسہ صدقہ کردیا جائے
’’حضرت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا بڑا ذوق تھا، اور آپ مصارفِ خیر میں حصہ لینے کی کوشش میں رہتے تھے۔..... انفاق کا یہ معمول تنگی و فراخی ہر حالت میں جاری رہا۔ اور اس کیلئے جو طریقِ کار اپنایا ہوا تھا وہ بڑا سبق آموز اور لائقِ تقلید ہے۔
آپ کا معمول یہ تھا کہ زکوۃ ادا کرنے کے علاوہ آپ کے پاس جب بھی کوئی رقم آتی تو اس کا ایک معین حصہ فوراً مصارف خیر میں خرچ کرنے کے لئے علیحدہ فرمالیتے، اور طے کیا ہوا تھا کہ آمدنی اگر محنت سے حاصل ہوئی ہے تو بیسواں حصہ (پانچ فی صد) اوراگر کسی محنت کے بغیر حاصل ہوئی ہے (مثلاً انعام، ہدیہ، تحفہ وغیرہ) تو اس کا دسواں حصہ فوراً علیحدہ نکال لیاجائے،............. صندوقچی میں ایک تھیلا آپ کے پاس ہمیشہ رہتا تھا، جس پر ’’صدقات و مبرّات‘‘ لکھا رہتا تھا، تنگ دستی کا زمانہ ہو یا فراخی کا، آمدنی کا مذکورہ حصہ آپ فوراً اس تھیلے میں رکھ دیتے تھے، اور جب تک یہ حصہ ’’صدقات ومبرات ‘‘ کے تھیلے میں نہ چلا جاتا، اس وقت تک اس آمدنی کو استعمال نہیں فرماتے تھے، اگر دس روپے بھی کہیں سے آئے ہیں تو فوراً اس کے چھوٹے نوٹ بدلوا کر ایک روپیہ اس تھیلے میں رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے۔ (البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ ج۱ ص ۴۵۹)
حضرت مولانا تھانوی رحمہ اللہ اپنی کمائی کا ایک تہائی خیرات کردیا کرتے تھے اور حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب رحمہ اللہ اپنی کمائی کا ایک خمس (یعنی پانچواں حصہ) خیرات کرتے تھے۔ حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحب کو دیکھا کہ ان کے پاس تین چپاتیاں آتی تھیں، ان میں ڈیڑھ چپاتی خود تناول فرماتے ایک چپاتی خیرات کردیتے تھے اور آدھی کسی کو ہدیہ کردیتے تھے۔ (البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ ج ۲ ۔ ص۸۹۱)
اس ساری بات سے اس طریقِ کار کی اہمیت کا اندازہ ہوا ویسے تو ہر شخص صدقہ کی اہمیت سے واقف ہوتا ہے اور کچھ نہ کچھ صدقہ کرتا ہی رہتا ہے لیکن اس التزام اور اس طرح کی پابندی کا فائدہ یہ ہوگا کہ ساری کی ساری آمدنی مکمل طور پر صدقے کی چھلنی سے چھن کر آئے گی اور گویا کہ انسان کے پاس جو کچھ بھی آ رہا ہے، اس کے ایک ایک پیسے کا صدقہ دیا جارہا ہے، اس طریقِ کار سے برکت بھی ہوگی اور صدقہ کا اہتمام بھی رہے گا کیونکہ کوئی وقت ایسا نہیں ہوگا کہ جب اس کے پاس مال آیا ہو اور اس نے اس کا صدقہ نہ دیا ہو۔
اگر انسان زیادہ اوسط متعین نہیں کرسکتا تو کل آمدنی کا ایک فیصد ہی متعین کرلے یعنی کہ اگر کسی کی ماہانہ آمدنی مِل ملا کے بیس ہزار روپے بنتی ہو اور اس نے ایک فیصد صدقہ متعین کیا ہوا ہے تو کل 200 روپے بنیں گے۔ اب ہوسکتا ہے کہ وہ ماہانہ بنیاد پر مذکورہ رقم سے زیادہ ہی صدقہ کیا کرتا ہو لیکن اگر یہ طریقہ اپنا لیا تو ہر ہر رقم میں سے صدقہ کشید ہوکر وہ آمدنی پاکیزہ اور بابرکت ہوتی جائیگی۔ اور صدقہ میں بھی کبھی تعطل نہیں آئے گا۔
No comments:
Post a Comment