Wednesday, 9 May 2018

تعلیق طلاق میں تخصیص کی نیت قضاء معتبر نہیں---- 1799

تعلیق طلاق میں تخصیص کی نیت قضاء معتبر نہیں
-----------------------
سلسلہ نمبر 
(1799)
سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تم تبسم سے ملی تو ہمارا تمھارا رشتہ ختم  زید کی بیوی تو نہیں ملی لیکن خود تبسم اسکے گھر گئی اور زید کی بیوی نے اخلاقا اس سے بات بھی کرلی ایسی صورت میں کیا طلاق پڑجائے گی اگر پڑے گی تو کتنی؟؟ بینوا توجروا
اس کا جواب حوالہ کے ساتھ دیا جائے
--------------------
الجواب وبالله التوفيق:
یمین کا مدار الفاظ پہ ہوتا ہے اغراض پہ نہیں۔
سوال میں مذکور الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ تبسم سے ملنا عام ہے خواہ جہاں بھی ملے۔
اور اسی ملنے پہ طلاق کی شرط لگائی ہے۔لہذا تبسم سے ملتے ہی ایک طلاق بائنہ واقع ہوجائے گی۔ ہاں اگر تبسم سے ملنے کی کسی خاص کیفیت کی نیت شوہر نے کی ہو تو پھر اسے واضح کرکے لکھیں اس کا حکم بھی بتایا جائے گا۔
سر دست ایک طلاق بائنہ پڑگئی ہے ۔
نئے مہر دین کے ساتھ نیا نکاح کرے۔
واذا اضافہ إلی الشرط وقع عقیب الشرط مثل ان یقول لا مرأتہ ان دخلت الدار فانت طالق (الھدایۃ کتاب الطلاق‘ باب الایمان فی الطلاق ۲/۳۸۵ ط شرکۃ علمیہ ملتان)
وفی الھندیۃ (۴۲۰/۱):وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا۔۔۔(۴۷۰/۱)
فإذا علق الطلاق وقع عقیبہ و انحلت الیمین ۔ (الفقہ الحنفی وأدلتہ، مکبتہ وحیدی پشاور ۲/۲۳۳)
وتنحل الیمین إذا وجد الشرط۔ (شامی، کراچی ۳/۳۵۵، زکریا ۴/۶۰۹)

واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
22 شعبان  1439 ہجری

No comments:

Post a Comment