Thursday, 24 May 2018

ھمارے اکابر کی ناقص عبارتوں کو پیش کیا ہے

ھمارے اکابر کی ناقص عبارتوں کو پیش کیا ہے
سوال: کیا یہ صحیح ہے؟
دارالعلوم دیوبند ومفتیان کرام کے اہم فتاوے
(۱۱) مفتی اعظم محمود الحسن گنگوہیؒ ’’فتاوی محمودیہ‘‘ میں فرماتے ہیں:اگر کوئی باتنخواہ امام ہے اور
رمضان شریف میں تراویح کی بھی امامت کرے گا، تو اس کی اجرت میں اضافہ کر دیا جائے تو متأخرین کے فتویٰ کے مطابق کوئی اشکال نہیں۔
(۲) حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین صاحبؒ (مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند): تراویح میں قرآن سنانے سے متعلق وہی توسیع پیدا کی جائے جو تعلیم قرآن حدیث وفقہ وامامت اور اذان واقامت کے متعلق دی گئی ہے، بھاؤ تاؤ نہ کریں؛ لیکن سننے والوں کا فریضہ ہے کہ وہ قرآن سنانے والے کی خدمت اپنی حیثیت سے زیادہ کریں؛ لہٰذا حافظ قرآن کے لئے نذرانہ لینا جائز ہے اور ندرانہ لینے والے حافظ کے پیچھے قرآن سننا بھی باعث اجر وثواب ہے، نیز نذرانہ لینے والے حافظ کے پیچھے تراویح پڑھنا بالکل صحیح ہے اور اس کا پورا ثواب بھی ملے گا۔ (جواب نمبر: ۱۱۶۲)
(۳) حضرت مولانا منت ﷲ صاحب۔ (امیر شریعت بہار واڑیسہ) مذکورہ بالا فتویٰ کی تصدیق فرماتے ہیں۔
(۴) شیخ اسلام حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی فرماتے ہیں: اس سے پہلے دینی کاموں پر جو رقم دی جاتی تھی ، وہ اجارہ نہیں تھا؛ بلکہ بیت المال سے وظیفہ تھا، اب چونکہ بیت المال نہیں رہے؛ اس لئے مسلمانوں کو ضروری ہے کہ ہر دینی خدمت پر معاوضہ دیں۔ (اسلام اور جدید معاشی مسائل ۲/ ۲۰۹)
(۵) حضرت مولانا مفتی شبیر احمد صاحب قاسمی (مفتی اعظم مدرسہ شاہی مرادآباد):
صرف تراویح میں ختم قرآن پر ہی اجرت کی بحث نہیں؛ بلکہ نفس تراویح پر اجرت کا معاملہ ہے، اگر کسی جگہ ’’الم تر کیف‘‘ سے تراویح کی نماز ہوتی ہو اور امام اس پر اجرت لیتا ہے، تو فقہائے متأخرین اور اہل فتویٰ میں سے کسی نے بھی اس کو ناجائز نہیں کہا ہے۔ (ماہنامہ ندائے شاہی ستمبر ۲۰۰۴ء)
(۶) حضرت مولانا مفتی سلیم الدین صاحب قاسمی (مفتی اعظم شادرہ دہلی): اسی سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ: تراویح کی نماز کی حفاظت کرنا ہر مسلمان کے لئے واجب اور ضروری ہے، جس کی امامت کے لئے اگر کسی کو با اجرت متعین کیا جائے تو اس زمانے میں بھی ضرورتاً ایسا معاملہ کرنا جائز ہے؛ اس لئے رمضان میں تراویح وتر کی امامت کے بدلہ بطور رقم اجرت لینا جائز ہے۔
(۷) حضرت مولانا مفتی مکرم احمد صاحب (شاہی امام مسجد فتح پوری دہلی) فرماتے ہیں کہ تراویح کی امامت کا نذرانہ لینا جائز ہے، متأخرین فقہاء کی یہی رائے ہے۔
(۸) حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلہ العالی (شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند) فرماتے ہیں کہ: اس مسئلے میں خوشی کے موقع پر کمیٹی اور مصلیوں کوچاہئے کہ وہ امام کی اضافی خدمت کا اہتمام کریں، یہ ایک طرح کا انعام ہے۔ (مفتی سعید احمد ۲۲؍ رجب ۱۴۳۲ھ)
دستخط مفتی حبیب الرحمن صاحب (مفتی دارالعلوم دیوبند)
دستخط مولانا ریاست علی بجنوری (استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند)
دستخط مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری (شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند)
نوٹ: مفسر قرآن حضرت مولانا انیس احمد صاحب قاسمی بلگرامی نے دارالعلوم دیوبند سے قدیم اور جدید فتوؤں پر تفصیلی بات چیت کرکے ایک تحقیقی کتاب: ’’معاوضہ علی الطاعت‘‘ یا معاوضہ علی الخدمت‘‘ لکھی ہے۔ اس کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
اب اگر اس کے بعد کوئی بھی اجرت اور نذرانۂ تراویح کو حرام کہتا ہے، تو وہ شخص بددین اور فتنہ پرور ہے۔
شائع کردہ زیر اہتمام:
حضرت الحاج مفتی خلیل الرحمن صاحب قاسمی دامت برکاتہم ناندیڑ

جواب: صحيح نہیں ہے ھمارے اکابر کی ناقص عبارتوں کو پیش کیا ہے اور کہیں ان کی عبارت سے اپنی خواہش کے مطابق معنی ومطلب نکالا ہے جوکہ سراسر ناانصافی ہے
مزید تفصیل کے لئے "معاوضہ علی التراويح کی شرعی حیثیت"
اس کتاب کی طرف رجوع کیجئے سب باتوں کا تسلی بخش باحوالہ جواب ھے
یہ چھوٹاسا رسالہ دارالعلوم دیوبند سے شائع ہوا ہے.
محمد شاکر قاسمی
دارالافتاء  (واٹس ایپ گروپ)

No comments:

Post a Comment