Friday 1 April 2016

علامہ محمد حسن باندوی رحمہ اللہ

علامہ محمد حسن باندوی کی وفات کی خبر سے نہ صرف  دارالعلوم وقف دیوبند، دارالعلوم دیوبند بلکہ دیگر ادارے بھی مغموم والمناک ہوگئے. آپ دارالعلوم وقف دیوبند میں ابتدائے قیام سے ہی استاذ تھے، اس سے قبل انھوں نے دارالعلوم دیوبند میں بھی اپنی تدریسی خدمات انجام دیں، ان کا تدریسی دورانیہ تقریباً ۵۰؍ سال پر محیط ہے، گذشتہ کئی ماہ سے وہ تنفس کے مرض میں مبتلاء تھے، دو تین روز قبل ان کے مرض میں شدت ہوگئی تھی، اور بالآخر 30مارچ کو تقریباً 80 سال کی عمر میں دنیا فانی سے کوچ کر گئے، مرحوم کی رحلت کی خبر ملتے ہی دارالعلوم وقف دیوبند میں ایصال ثواب اور دعاؤں کا اہتمام کیا گیا، اور بعد ظہر تمام طلبہ نے اپنے مشفق استاذ کو نمناک آنکھوں سے سپرد خاک کیا، دارالعلوم وقف دیوبند میں بعد نماز مغرب تعزیتی اجلاس کا انعقاد کیا گیا. مھدی حسن عینی رائے بریلی رقمطراز ہیں کہ خلاق عالم نےکرہ ارضی پرکچھ ایسی شخصیات پیداکی ہیں جن کاطرہ امتیاز ہی ان کی گمنامی ہواکرتی ہے، زمانہ میں ان کی خدمات،ان کےعلوم ومعارف اوران کےفیضان کاڈنکابجتاہے، لیکن اہل زمانہ انکی شخصیت وہویت سےیکسر ناواقف ہوتے ہیں،اس کی وجہ ایسےلوگوں کی فنافی اللہی،ترک دنیا،
زھد فی الدنیا اوررغبت اخروی ہوتی ہے، ،اس فانی دنیا میں انسانوں کے پردۀسماعت سےاموات کے نہ جانے کتنےاعلانات اور خبریں ٹکراتی ہیں؛اور ٹکرائینگے!! ہرنکھرتی ہوئ صبح اورہرڈھلتی ہوئ شام کسی نہ کسی شخص کےلئے منتہائےزیست کاپیغام لاتی ہے؛پھراس شخص کودارالفناءسےدارالبقاء کی جانب کوچ کر جانا ہوتا ہے!موت سے کس کودستگاری ہے:آج وہ کل ہماری باری ہے!
لیکن کچھ ہستیاں اور شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں؛جنکی موت کی خبر سنتے ہی ہرآنکھ برسنے لگتی ہے،گردو پیش کےاحوال سوگوارنظر آنے لگتےہیں ،قلب کوایک دھچکا اوروجود میں لرزہ طاری ہو نے لگتا ہے،حواس معطل اور ہوش ناکارہ ہوکر رہ جاتا ہے،چمن میں فضائےماتمی اورسرپر یتیمی کاسایہ منڈلانے لگتا ہے، انہیں نابغہ روزگار،
یکتائےزمانہ شخصیات میں سے عارف باللہ زاھد زماں حضرت قاری صدیق صاحب باندوی کےہم وطن اورآپ کی خصوصی توجہات و عنایات کی خمیر میں تیار ہوکر نصف صدی تک علوم شریعت کی پاسبانی اوروراثت نبوی کی آبیاری کرنےوالےامام المنطق والفلسفہ محقق دوراں حضرت مولاناعلامہ حسن صاحب باندوی کی ذات گرامی تھی،جنہیں کل تک طول عمری، وسعت فیضان کی دعاء دی جاتی تھی،آج رحمت و مغفرت کےسابقہ لاحقہ سےیادکیاجا
رہاہے،
ولادت…………………............
باندہ کے ایک چھوٹے سےقریہ موضع سبادہ میں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی،
تعلیم و تعلم ...................
ابتدائی تعلیم مقامی مکتب میں حاصل کی ۱۹۵۱ عیسوی میں جامعہ عربیہ ہتھورا باندہ کے ابتدائی دن تھے،چار طلباء کل تھےجنہیں لےکرقاری صدیق صاحب نے کاروان علم و عمل کو آگےبڑھایاتھا،ان چار میں سےایک مولانامحمد حسن باندوی بھی تھے،ابتدائی زمانہ میں ہی مولانامحمد حسن صاحب اپنی پاکیزہ طبیعت،
حسن اخلاق،طلب علم کی کڑھن اورجذبہ ایثاروخدمت کی وجہ سےقاری صدیق صاحب کےمنظور نظر بن گئے،
جامعہ ہتھورا کے سرپرست مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی محمود الحسن صاحب گنگوہی قدس سرہ العزیز تھے،
وہیں سے علامہ حسن صاحب حضرت مفتی صاحب کی توجہات کامرکز بن گئے،
دارالعلوم آئے،ایک طویل عرصہ یہاں گزاراعلمی سیرابی حاصل کی،حضرت شیخ الاسلام مولاناسیدحسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ سےبخاری شریف پڑھی،دارالعلوم کے زمانہ طالب علمی سے ہی حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند سے والہانہ محبت اور غایت درجہ کاعشق  تھا،جس کا اثر یہ ہوا کہ فراغت کے بعدبہت جلد بحیثیت مدرس دارالعلوم میں آپ کی تقرری ہوئی،آپ حضرت حکیم الاسلام کے سفروحضر کےساتھی،باوفارفیق سفر،
جلوت وخلوت کےشریک بن گئے،قاری صاحب کےلئےاپنی تمام ترجیحات وخواہشات کو نچھاورکرکے وفاداری وجاں نثاری کاایساعملی مظہر و پیکر بنےکہ تقسیم کےقضیہ نامرضیہ کے موقعہ پرعلامہ حسن باندوی نے بھی مادر علمی کو محبوب وہم سفرکےلئےقربان کردیا،علیحدہ ہوگئے،بعدمیں دارالعلوم وقف کے نمایاں و ممتاز مسند نشیں درس ہوئے،اورتادم حیات اپنےمفوضہ خدمات کوباوقاراندازمیں انجام دینے کےخوگر رہے،
علمی سفر................
آپ کی ابتدائی وثانوی تعلیم جامعہ عربیہ ہتھوراباندہ میں ہوئی ،سند فضیلت ازھر ھند دارالعلوم دیوبند سےحاصل کی....
موقرو مشاھیر اساتذہ گرامی............
عارف باللہ حضرت قاری صدیق صاحب باندوی کےبعد
حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی
حضرت حکیم الاسلا قاری محمد طیب صاحب
حضرت مولاناعلامہ بلیاوی صاحب
حضرت مولانا فخر الدین صاحب مرآدابادی
جیسےعباقرہ وقت آفتاب علوم ومعارف کےسایہ عاطفت میں آپ نےاپنی علمی تشنگی بجھائی،محنت سے پڑھا،ممتاز رہے.ہرشعبہ میں فعال و
متحرک،فرض شناس ونمایاں ہوناآپ کاامتیازی وصف تھا،
تدریس...................
نقلیات کے ساتھ عقلیات اور علم کلام آپ کاخصوصی مشغلہ تھا،دارالعلوم میں آپ کے شرح عقائدکےدرس کی طوطی بولتی تھی،آپ نےعلم الصیغہ ہدایۃ النحو، ملاحسن، قطبی،
میبذی،نورالانوار وغیرہ کے معرکۃ الآراء دروس سےایک طویل عرصہ تک ہزاروں تشنگان علوم کو سیراب کیا،
آپ کاطریقہ درس نہایت صاف شفاف،ڈھلےاوردھلےالفاظ،نپاتلاپیرایہ،اوراوقع فی النفس کر
دینے کاملکہ ہی آپ کا وصف جداگانہ تھا،دارالعلوم وقف میں آپ کو ابوداؤد شریف جیسی موقر اوراہم ترین حدیث کی کتاب سونپی گئی،
طلبہ کے بقول علم پھوٹتاتھا،
دلائل وشواھد کالاحق و سابق اور طریقہ تطبیق آپ کے درس حدیث کو ممتازاوراکابرین حدیث کی یادگاربناتاتھا،
بیعت وسلوک..................
یوں تو علامہ محمد حسن باندوی کی شخصیت سازی و سانچہ گری میں حضرت قاری صدیق صاحب باندوی ہی اصل اور اساس تھے،قاری صاحب ہی کی سرپرستی میں آپ نے قاعدہ بغدادی سے بخاری تک کا علمی سفراور طالب علمی سے رجال سازی کا عملی سفر پورا کیا،دارالعلوم میں حضرت مفتی اعظم مفتی محمود الحسن صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ہی چونکہ آپ کے پیرومرشدتھے،مفتی صاحب سےہی آپ کااصلاحی تعلق تھا،
ان دونوں کے علاوہ آپ کی شخصیت پرحضرت حکیم الاسلام کاغلبہ تھا،اورقاری طیب صاحب ہی آپ کے لئے سب کچھ تھے،
تصنیف........................
آپ نےدرس نظامی کی اہم ترین کتابوں کی بے نظیرشرح لکھی،جس میں ملاحسن،
میبذی،قطبی تصورات و تصدیقات،نورالانوار،علم الصیغہ،ہدایۃ النحو وغیرہ کثیر کتابوں کی شروحات لکھیں جو بازاروں میں شائع ہوئیں اور
طالبان علوم نبوت آج بھی ان سے خوب فیضیاب ہوتے ہیں،
مولانا ہمیشہ سے لکھنے کے عادی رہے،جتنی بھی کتابوں کی تشریح کی ان سب کو مقبولیت عامہ حاصل ہوئی،
لیکن آپ کاسب سےعظیم الشان اورفقید المثال علمی کارنامہ و فنی ورثہ درس نظامی کی متداول کتاب،عقائد کی روح شرح عقائد نسفی کی معرکۃ الآراء شرح المعروف باحسن الفوائد ہے،شرح عقائد نسفی کا آپ نے سالہاں سال تک ممتازوہردلعزیزدرس دیا
تھا،بس تشریح کے لئےقلم اٹھایا،اور تشریح کاحق ادا کردیا،صاف ستھراترجمہ،
بھرپور جامع ومانع شرح،
ہرعبارت مربوط و مسلسل،
اردو آپ کی برجستہ و شستہ،
سلیس وبےغبارتھی ہی،
احسن الفوائدمیں اس کا عنصر نمایاں طور پرغالب وظاہر ہے،
ابن الانور فخر المحدثین مولانا سید انظر شاہ کشمیری،اور خطیب الاسلام مولانامحمد سالم صاحب قاسمی کی تقاریظ سے مزین و مستند آپ کےاس علمی شرح نے میدان علم وفن میں اپناایک منفرد
ومعتبرمقام بنایاہے،آپ کی دیگرتصانیف میں "دیوان علی" کااردوترجمہ بھی ہے.۲۲۵ صفحات پرمشتمل مترجم اسکین شدہ کتاب اردو محفل فورم پردستیاب ہے.
اوصاف  وخصائل..............
آپ شروع سےہی یکسوئی مزاج،خاموش،ایک"تارک الدنیا،
تنہائی  پسند انسان تھے،
سادہ اورگم نام زندگی بسرکی،
تام جھام سےاس قدرمتنفر تھے کہ ان کی شناخت کسی اجنبی کےلیے کیا کسی طالب علم کے لئے بھی مشکل ترین ہوا کرتی تھی، آپ حدیث رسول "لایشارالیہ بالاصابع "کےمکمل مصداق اور عملی پرتو تھے.
انتہائی سادہ مزاج .غریب طبیعت اور ہرطرح سےاندرونی وبیرونی سیاست سے دور قناعت پسند فطرت کے مالک تھے.جبہ ودستار والی ظاہر داری.چاپلوسی .تملق سے کبھی واسطہ نہیں رکھا.اسی وجہ سے دارالعلوم کی پچاس سال سے زائد خدمت کے باوجود زندگی بھر کرائےکےمکان میں رہے.ادارے سے ملنے والےمحدود مشاہرہ پر ہی اکتفاء کیا،آپ کی سادگی کاعالم یہ تھا کہ محدث ہونے کے باوجود کبھی کبھی سائیکل پر بیٹھ کر درس حدیث کےلئے پہونچ جایاکرتے
تھے،گمنامی کی زندہ دلیل ان سے راقم السطور کی ایک ملاقات ہے،ہوا کچھ یوں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کےکچھ طلباءاورایک پروفیسر
دیوبند آئے ہوئےتھے،جن میں سے کچھ کا تعلق باندہ سے تھا،
انہوں نے علامہ مرحوم سے ملاقات کی خواہش ظاھر کی راقم الحروف ان کی معیت میں حضرت کے گھرپہونچا،
حضرت دھوپ میں زمین پر اکڑوبیٹھے تسبیح پڑھ رہےتھے،
بدن پرپیوندشدہ،پراگندہ لباس تھا،ایسا محسوس ہورہاتھا کہ کوئی مجذوب اپنی دھن میں مست،حب الہی میں سرشار
ہے، ان کی یہ حالت دیکھ کر ہمارے علیگی دوستوں کویقین ہی نہیں ہواکہ یہی آفتاب علم محدث جلیل علامہ محمدحسن باندوی ہیں،ہم سب کے آنکھوں میں آنسو آگئے،زھدوورع کی اس طرح کی مثال ترقی کے اس دورمیں تقریباًناپیدہوچکی
ہے،حضرت علامہ کی ایک اور خصوصیت تھی کہ آپ طلبہ کے لئے بیحد مشفق اور ان سے نہایت بےتکلف تھے،ان کےدکھ درد میں برابر شریک تھے،
استاذی کا رعب ودبدہ ان کے آس پاس پھی نہیں بھٹکتی تھی.
حلیہ مبارکہ....................
متوسط قد ،نحیف و نزار جسم اس پر سادگی و سنجیدگی کا لبادہ اوڑھے ہوے،آنکھوں میں عینک،سرپردو پلی ٹوپی، لباس فاخرہ سےدور،دنیا طلبی سے مفرور ،فکر آخرت میں مخمور، تواضع وانکساری سےبھر پور،
یہی اوصاف و انداز آپ کی شخصیت کی یکتائیت وانفرادیت کے اجزائے ترکیبی تھے،
علالت ووفات.....................
علامہ حسن باندوی ایک طویل عرصہ سے گردہ کی بیماری میں مبتلاتھے،آپ کےدونوں وال تقریباًکالعدم ہوچکے تھے،لیکن آپ کی طبیعت سے اس کا احساس کبھی بھی نہیں ہوا،
اسی لئے امسال بھی ششماہی تک اپنانصاب پورےوقارو
فرض شناسی سے مکمل کیا،
گزشتہ ہفتوں سے سانس کی تکلیف زیادہ بڑھی،
۲۵مارچ سے  بہت زیادہ تکلیف بڑھی،ڈاکٹروں نے جانچ کی،
آکسیجن سےبھی کنٹرول نہیں ہوسکا،اطباء نےجواب دے دیا،بالآخر 21جمادی الاخری
1437ھجری بمطابق 30 مارچ 2016بوقت غروب چھ بجے
تقریباً۸۱ سال کی عمرمیں علوم ومعارف کایہ چراغ زھدو ورع کاآفتاب غروب ہوگیا،مختصر علالت کےبعد دیوبندکےتاریخی محلہ دیوان میں آپ کی روح قفس عنصری سے پروازکرگئی،
انالله واناالیه راجعون
تجھیزوتدفین..................
۳۱مارچ کو دوپہربعد نماز ظہر احاطہ مولسری میں ہزاروں غم زدہ علماءوطلباءنیز عوام الناس کے ازدحام میں حضرت مولانا سالم صاحب قاسمی کی ایماء پر مولانامحمد سفیان صاحب مہتمم دارالعلوم وقف  نےآپ کی نمازجنازہ اداکروائی
اور اساتذہ دارالعلوم ووقف دارالعلوم کی موجودگی میں نمناک آنکھوں سےمرحوم کے رفیق اعلی حضرت حکیم الاسلام کےپہلو میں تدفین عمل میں آئی،
پسماندگان ووارثین...............
آپ کے علمی وارثین کی ایک طویل فہرست ہے،جوعلوم عقلیہ ونقلیہ ،ادب وصحافت،
سمیت ہرایک شعبہ میں نمایاں خدمات انجام دےرہے ہیں،
آپ کے نسبی ورثاء میں سے چارصاحبزادیاں اور تین صاحبزادے جناب عبد المتین صاحب ،ڈاکٹر مبین احمد اور برادر عزیز معین احمد قاسمی ہیں.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
mehdihasanqasmi44@gmail.com
09565799937

No comments:

Post a Comment