فضیل احمد ناصری القاسمی
شعر و ادب "زبان " کی بلندی، حسن، پرکاری اور زور آوری کا بہترین ذریعہ ہے- جوشخص زبان کی نزاکتوں، باریکیوں، اداؤں، مزاج اور نکات سے "عاری "ہے، وہ زبان کا "قاتل " تو ہوسکتا ہے، خادم نہیں- ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف اور ایک کلمہ کی جگہ دوسرا کلمہ استعمال کرلیا جائے تو بسا اوقات مضمون کی روح تک سلب ہوجاتی ہے، بلکہ یہی غلطی قرآن میں ہو تو نیکی برباد گناہ لازم- اس لئے زیر استعمال زبانوں کے قواعد جاننا ضروری ہیں- جولوگ زبان وادب کی خدمت میں مصروف ہیں،وہ "جوئےشیر " کے "فرہاد "ہیں - ان کی قدرافزائی ہونی چاہئے- زبان کے ارتقا، فروغ اور مستحکم کرنے کیلئے مختلف وسائل کا سہارا لیا جارہاہے- مضامین لکھےجارہےہیں، متنوع افکار وخیالات اور نو بہ نو گوشے نکالےجارہےہیں- جرائد و رسائل، اخبارات اور ریڈیو کےذریعے "ادب "کو پرکشش بنانے کی انتھک کوششیں جاری ہیں- ہندوستانی نقطۂ نظر سے دیکھاجائے تو اس باب میں مدارس اسلامیہ "کلیدی "اور "ابجدی " حیثیت رکھتےہیں- اگر یہ مدارس نہ ہوں تو اردو کس مپرسی کا شکار ہوجائے- گیسوئے اردو آج بھی مدارس اسلامیہ کی منت پذیر ہے- مدارس کی اردو گرچہ "قدامت بردار "ہے، مگر اس سے "سرمایہ ہائے قدیم "محفوظ اور قابلِ استفادہ ہیں- فضلائے مدارس کے سامنے غالب یا کسی قدیم شعرا کا کلام پڑھ دیجئے، وہ اس کی روح تک اترجائیں گے اور اس کی تہوں میں مخفی "جواہر "نکال کر رکھ دیں گے، مگر دوسروں میں یہ بات اب نہیں پائی جاتی- اب عالم یہ ہے کہ اردوکے "صحافی "لکھتے "ہندی "میں ہیں اور ٹائپ "اردو "میں کرواتےہیں- اور اردو ایسی کہ "سنسکرت "کا گمان ہو-................ بات کہیں سے کہیں نکل گئی-عرض یہ کرنا تھا کہ "فروغ ادب " کیلئے جہاں اور طریقے اپنائے گئے، ان میں سے ایک "مشاعرہ "بھی ہے-
"مشاعرہ "عربی لفظ ہے، جس کا معنیٰ ہے "ایک دوسرے کو شعر سنانا- لغوی اعتبار سے اس کا مصداق "بیت بازی "ہے، مگر اس کا استعمال اس مجلس کے لیے ہوتا ہے، جہاں چند شعرا عوام کے درمیان اپنا کلام پڑھ کر سنائیں-اردو مشاعرہ کی اپنی ایک تاریخ ہے اور مقناطیسیت بھری تاریخ........ مگر کچھ برسوں سے اس تاریخ کے ساتھ بھی "تعرض " گوارا کرلیا گیا ہے -صورت حال یہ ہے کہ مشاعرے اب "بالی ووڈ "کی "نوعِ ثانی "بالفاظِ دیگر "بی ٹیم "بن چکےہیں-مردوں کےساتھ عورتوں، بلکہ "زنخوں "کی شمولیت نے انہیں "شجرممنوعہ "قرار دے دیا ہے-کوئی مجلس اس وقت تک مشاعرےکانام نہیں پاتی، جب تک کہ زنخہ نما خواتین اس میں شریک نہ ہوں-اشتہار چھپتاہے تو قارئین کی نگاہیں "مکشوفات "(شاعرات) کو ڈھونڈتی ہیں- اگر مل گئیں اور "مرغوبات "ملیں، تب تو شمولیت پکی ہے، ورنہ مشاعرہ "مجلسِ مرثیہ "قرارپائےگا- بگاڑ اس حد تک آچکا کہ مشاعرے از اول تا آخر "گناہوں کا ہمالہ "نظر آتے ہیں- اشعار اس قدر گندے اور فحش کہ " شرافت" منہ چھپاتی پھرے- سرتاسر اسلام مخالف- ہیجان خیز وشہوت انگیز- فسق وفجور کا کھلاہوا مظاہرہ-ہرشاعر اپنی "داستانِ عشق "سناتا اور ہجروفراق کے درد اچھالتا دکھائی دیتا ہے-سارےہی شعرا فاجر و فاسق- بعض "بنت عنب "کے بھی اسیر-........
ناظرینِ مشاعرہ کی دھڑکن اس وقت دوہری ہونے لگتی ہے، جب "کوئی حسیں ہوتاہے سرگرمِ نوازش "پھرتو "ہاں اور، ہاں اور " کاسلسلہ رکتاہی نہیں-یہ مکشوفات اپنی تمام تر "فتنہ سامانیوں" اور "محشرخیزیوں " کیساتھ رونقِ اسٹیج ہوتی ہیں اور مشاعرہ پڑھتے وقت "ابلیس " اپنی پوری توانائی ناظرین کو "سحرزدہ "کرنے بمیں لگادیتاہے- اب تو بعض مشاعروں میں "صنف نازک "نظامت کا "گراں قدر " فریضہ بھی انجام دیتی دکھائی دیتی ہیں-مشاعرہ ہی نہیں ،دیگر ادبی نشستوں میں بھی شرکت اور نظامت تک چل رہی ہے- اللہ کی پناہ-جولوگ مسلمان نہیں ، وہ میری اس تحریر کے ہرگز مخاطب نہیں ،میراخطاب ان لوگوں سےہے جو مسلمان کہلاتے ہیں اور اللہ کی بنائی "حدیں "توڑتےہوئے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے-طیادرکھئے، عورتیں پردہ کی چیز ہیں ، ان کا حسن پردہ ہی میں ہے -جب عورتیں بلاضروت اپنے "محرم " کےساتھ بھی نہیں نکل سکتیں ،تو بلاضرورت اور تنہا انہیں تقریبات میں کیوں کر اجازت ہوسکتی ہے؟ اس طرح کی ادبی مجلسیں حرام ہیں- جوگناہ "ماہرینِ سخن "کےحصےمیں لکھائےگا ، وہی انتظامیہ اور ناظرین کے حصے میں بھی-
ولاتعاونواعلی الاثم والعدوان، واتقوااللہ، ان اللہ سریع الحساب-
Saturday, 16 April 2016
مشاعرے؛ بالی ووڈ کی جدید قسم
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment