Thursday 28 April 2016

امت مسلمہ کا دور خلافت

تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی
خلافت کیا ہے اور اس کا اسلام سے کیا تعلق ہے؟ کیا مسلمانوں کا خلافت قائم کرنا لازمی ہے؟ مسلمانوں نے خلافت کے قیام کی کب کب کوششیں کیں؟ شیعہ مسلمان خلافت کے نام سے پریشان کیوں ہو اٹھتے ہیں اور آج اگر خلافت قائم ہوتی ہے تو اس کے لئے کیا شرائط ہونگیں؟ یہ تمام سوالات موجودہ سیاسی حالات کے پیش نظر اہمیت کے حامل ہوتے جارہے ہیں۔ اس کا اہم سبب ہے عراق میں ایک ایسی طاقت کا ابھار جو دنیا میں اسلامی خلافت کے قیام کا اعلان کرچکی ہے اور اپنے ایک رہنما کو خلیفہ بنا چکی ہے۔
عراق و شام کے بعض خطوں پر مشتمل یہ ملک کیا واقعی اسلامی ملک ہے اور یہاں جو حکومت قائم ہوئی ہے کیا وہ واقعی خلافت ہے؟ یہاں جو ابوبکر البغدادی کو خلیفۃ المسلمین قرار دیا گیا ہے وہ کتنا درست ہے ؟ اس بات کا فیصلہ تو حالات سے واقفیت رکھنے والے علماء کرسکتے ہیں مگر ہم یہاں اسلام اور تاریخ کی روشنی میں یہ صرف یہ بتاناچاہتے ہیں کہ خلافت کیاہے؟اور اس کے لئے کس قسم کی کوششیں ہوتی رہی ہیں؟
خلافت کیا ہے؟
اسلامی نظام حیات کے داعی کے طور پر رسول اکرم ﷺ دنیا میں تشریف لائے۔آپ کو اللہ نے اپنی کتاب عطا فرمائی جسے قرآن کریم کہا جاتا ہے اور آپ کی سیرت کو دنیا والوں کے لئے نمونہ عمل بنا کر بھیجا۔ قرآن و احادیث کے اندر بار بار فرمایا گیا کہ رسول کی اطاعت اصل میں اللہ کی اطاعت ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اللہ نے رسول کو دنیا میں اپنا نائب و خلیفہ بناکر بھیجا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو اپنی اطاعت کی دعوت دی اور جن لوگوں نے اس طریقہ زندگی کو اپنایا انھیں مومن ومسلم کہا گیا۔جن لوگوں نے اسلام قبول کیا وہ خود بخود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید کے دائرے میں آگئے اور آپ ان کے دنیا و دین کے رہنما ہوگئے۔ عہدنبوی میں مسلمانوں کے تمام مذہبی، سیاسی، سماجی فیصلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کیا کرتے تھے۔ جب آپ کا انتقال ہوا تو یہ لازم تھا کہ مسلمان کسی شخص کو اپنا لیڈر مان لیں جو، ان کے تمام معاملات کا ذمہ دار ہو۔ اسلام تو مکمل ہوچکا تھا لہٰذا اب آگے کے تمام معاملات اللہ کی کتاب اور رسول کی سیرت کے مطابق طے ہونے تھے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا اس کے فوراً بعد مدینہ کے مسلمان ایک مقام پر جمع ہوئے جسے ثقیفہ بنی ساعدہ کہا جاتا تھا اور اس مسئلے کو حل کرنے میں لگ گئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشیں کون ہو اور مملکت اسلامی کی ذمہ داری کون سنبھالے؟ یہ مسئلہ اس لئے بھی اہم تھا کہ کسی ملک کو سربراہ کے بغیر نہیں چھوڑا جاسکتا ۔ ایسے حالات میں بدامنی پھیل سکتی ہے، انارکی سر اٹھاسکتی ہے اور کوئی دشمن حملہ کر سکتا ہے۔ کسی قوم کو لیڈر کے بغیر ہونا ویسا ہی ہے جیسے بھیڑوں کا کوئی ریوڑبغیر چرواہے کے۔ چنانچہ مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر مسلمانوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین سے پہلے ہی ایک میٹینگ کی اوراپنا رہنما اور لیڈر امت مسلمہ کے سب سے بزرگ اور افضل انسان حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو منتخب کیا۔ یہ پہلے خلیفہ تھے جن کے کندھوں پر پوری ملت کا بوجھ تھا۔ اسلامی مملکت کے سربراہ تھے اور دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ بھی ان کے نام سے تھراتے تھے مگر انھوں نے اپنے لئے کوئی محل نہیں بنوایا بلکہ عام لوگوں کی طرح گذارا کرتے تھے۔ انھوں نے خود اپنے گذارے کے لئے کپڑے بیچنے کا کام کیا۔ تقریباً ڈھائی سال تک وہ خلیفہ رہے اور ان کے انتقال کے بعد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے۔ تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنی اور چوتھے خلیفہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما ہوئے۔ پانچویں خلیفہ حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہ ہوئے ۔ اس طرح تیس سال مکمل ہوگئے۔ خلافت راشدہ تیس سال تک ہی قائم رہی یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق جو حکومت چلی وہ صرف تیس سال قائم رہی اس کے بعد ملوکیت یعنی بادشاہت شروع ہوگئی۔
ملوکیت اور خلافت کا فرق :
اسلامی خلافت کا جو طریقہ تھا وہ اصل جمہوری طریقہ تھا۔ سب سے پہلا جو خلیفہ منتخب ہوا اسے چننے کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے کچھ خاص اہل علم اور باشعور حضرات جمع ہوئے اور چند ناموں پر غور کرنے کے بعد ایک نام پر اتفاق کر لیا، اس کے بعد عام لوگوں نے بھی اسے خلیفہ تسلیم کرلیا اور اس کی صورت تھی زبانی ووٹ (بیعت) ۔ دوسرا خلیفہ بھی یونہی چنا گیا۔ حالانکہ خود حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نام کی سفارش کی تھی۔ اس طرح سے باقی خلفاء بھی بیعت کے ذریعے منتخب ہوئے تھے۔ یہاں ایک بات خیال رکھنے کی ہے کہ اسلام میں اس بات کو پسند نہیں کیا جاتا کہ کوئی شخص خود کو حکمرانی کا امیدوار بنا کر پیش کرے، لہٰذا سبھی خلفاء کو دوسروں نے جمہوری طریقے سے منتخب کیا حالانکہ وہ اس کے خواہشمند نہ تھے اور نہ ہی امیدوار تھے۔ اس کے برخلاف بادشاہت اور ملوکیت میں یہ ہوتا ہے کہ ایک انسان بزور قوت یا حیلہ بہانہ کے ذریعے خود کو ملک کا حکمراں بناکر پیش کردیتا ہے اور ملک کے اوپر قابض ہوکر تمام سیاہ سپید کا مالک ہوجاتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی تھی کہ میرے بعد تیس سال تک خلافت راشدہ رہے گی اور اس کے بعد ملوکیت ہوجائیگی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ تیس سال تک خلافت رہی اور اس کے بعد جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پہلے مسلمان بادشاہ بنے۔ اسلامی خلافت جس طرز پر تیس سال سے چلی آرہی تھی اس سے الگ ہوگئی۔ جس طرح باقی خلفاء کے نام پر مسلمانوں کے اتفاق ر ائے کرلیا تھا اس طرح ان کے نام پر نہیں کیا بلکہ انھوں نے مختلف لوگوں سے الگ الگ طریقے سے بیعت لی اور پھر اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹے یزید کے لئے بیعت لے لی جس کے فسق و فجور کے بارے میں بہت کچھ مورخین نے لکھا ہے۔خلافت اسلامی کی جگہ پر جو ملوکیت کی بدعت آئی اس نے پورے اسلامی نظام کی بنیاد کو ہی درہم برہم کردیا مگر اس کے اندر بھی یہ ہمت نہیں تھی کہ وہ خود کو ملوکیت کہے اور حکمراں خود کو بادشاہ کہہ سکیں لہٰذا اسے خلافت بنوامیہ کہا گیا اور بادشاہوں کو بھی خلیفہ کہا گیا۔ یہ لوگ خود کو خلفاء راشدین کی طرح ہی امیر المومنین کہلواتے تھے۔
امت مسلمہ کا زوال اور خلافت کا تصور :
بنو امیہ کے بعد بنو عباسیہ کا دور آیا اور مسلمانوں کی حکومت کا دائرہ بڑھتا رہا مگر اسی کے ساتھ کچھ آزاد بادشاہتیں بھی قائم ہوگئیں۔ کچھ دن نبو عباس طاقت ور رہے مگر پھر دھیرے دھیرے کمزور ہوتے گئے۔ اب خلافت بس علامتی خلافت بن کر رہ گئی اور خلیفہ بھی ایک علامتی خلیفہ ۔ دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کی آزاد ریاستیں قائم ہوگئی تھیں جن کا کسی قسم کا تعلق خلیفہ سے نہیں رہتا تھا البتہ علامتی طور پر وہ خلیفہ سے اپنے لئے ایک پروانۂ حکومت ضرور لکھواتے تھے۔ یوروپ سے افریقہ تک اور عرب سے ہندوستان تک درجنوں مسلم سلطنتیں تھیں جو پوری طرح آزاد تھی مگر مرکز خلافت سے حکمرانی کی دستاویز ضرور لکھواتی تھیں ۔کمزور ہونے کے باوجود خلافت کا تصور مسلمانوں کو ایک حکمراں کے ساتھ جوڑے ہوئے ضرور تھا یہ الگ بات ہے کہ اس کی اہمیت کسی شاہ شطرنج سے زیادہ نہ تھی۔ ۹۲۲ھ میں خلافت عباسیہ کا خاتمہ ہوگیا اور اس کی جگہ پر خلافت عثمانیہ قائم ہوئی۔ یہ سلطنت کسی زمانے میں انتہائی طاقت ور تھی مگر ہر حکومت کی طرح اس کا بھی زوال آیا اور جدید ترکی کے معمار کے ہاتھوں رسمی خلافت کابھی خاتمہ بیسویں صدی میں ہوگیا۔
تحریک خلافت :
خلافت اسلامیہ کاخاتمہ تو اسی وقت ہوچکا تھا جب بنو امیہ کے ہاتھوں میں حکومت کی باگ ڈور آئی تھی مگر رسمی خلافت گزشتہ صدی میں اختتام کو پہنچی۔ ابتدا میں مسلمانوں نے اس کے قیام کے لئے خوب تحریکیں چلائیں اور بھارت جیسے ملک میں اس تحریک کا بڑا زور رہا۔ اسی کے لئے جد وجہد کے مقصد سے خلافت کمیٹی وجود میں آئی جو آج بھی باقی ہے کلکتہ کے ایک کمرے تک محدود ہے مگر اس کے بہت سے ممبر بھی شاید نہ جانتے ہوں کہ اس کا مقصد کیا تھا؟ جب ہندوستان میں تحریک آزادی شباب پر تھی تو مسلمانو ں کی تحریک خلافت بھی زور پر تھی اور مولانا محمد علی جوہرؔ ، مولانا شوکت علی، مولانا ابوالکلام آزاد جیسے مسلم رہنما اس تحریک میں پیش پیش تھے۔ اس کی حمایت میں اس عہد کے تمام بڑے بڑے علماء کی تحریریں موجود ہیں۔ یہاں تک کہ مہاتما گاندھی نے بھی اس کی حمایت کی تھی باوجود اس کے خلافت کا قیام دوبارہ ممکن نہ ہوسکا۔ جماعت اسلامی ہند او ر کچھ دوسری جماعتیں کے منشور میں آج بھی خلافت کا قیام شامل ہے مگر حیرت انگیز طور پر عراق اور شام کے بعض علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد آئی ایس آئی ایس نےپچھے دنوں خلافت کے قیام کا اعلان کردیا جس نے عالم اسلام ہی نہیں پوری دنیا کو چونکا دیا ہے۔حالانکہ ان کے تعلق سے جو خبریں آرہی ہیں وہ منفی ہیں اور ایسا لگتا ہے گویا یہ خارجیوں کا کوئی گروہ ہے جو اسلام کا نام لے کر شدت پسندی کے راستے پر چل رہاہے۔سمجھا جارہاہے کہ ابتدا میں اسے پیدا کرنے کام امریکہ اور سعودی عرب نے کیا تھا مگر اب یہی ممالک اسے سے لڑنے میں مصروف ہیں۔

No comments:

Post a Comment