Wednesday 27 April 2016

ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ

افغانستان میں طالبان نے قطرمیں واقع اپنے دفتر سے ایک وفد کی پاکستان موجودگی کی تصدیق تو بلآخر کر دی لیکن اس نے ایک مرتبہ پھر پاکستان او طالبان کے درمیان تعلقات کی نوعیت کافی واضح کر دی ہے۔

ایک دن پاکستان جھنجلا کر بیان دیتا ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا محض اس کی ذمہ داری نہیں تو دوسرے دن طالبان ’حاضر جناب‘ کا بیان جاری کر دیتے ہیں۔
افغان دارالحکومت کابل میں 19 اپریل کے طالبان حملے میں 60 سے زائد افراد جان کھوتے ہیں۔ شہری علاقے میں اسے طالبان کی موسم بہار کی ’عمری کارروائی‘ کے پہلے بڑے حملے کے طور پر دیکھا گیا۔ افغان حکومت کا بھنانا درست تھا اور اسے طالبان کو موسم بہار کی کارروائی روکنے میں چار ملکی گروپ کی ناکامی بھی تھی۔ پاکستان اور افغانستان کے اعلی حکام کے درمیان سکائپ وغیرہ پر براہ راست بات ہوئی اور پاکستان سے طالبان کو مذاکرات کے لیے لانے کا تقاضا دہرایا گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ پاکستان نے کابل سے موصول ہونے والا غصہ طالبان کو منتقل کیا جس کے نتیجے میں وہ اور کچھ نہیں تو کم از کم ’افغان پناہ گزین بھائیوں کے مسائل کے حل کے لیے‘ ہی سیدھے پاکستان چلے آئے جیسا کہ بدھ کو ان کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا اگرچہ بیان میں طالبان نے نہ تو اس تین رکنی وفد کا ذکر کیا ہے اور نہ ہی افغان حکومت سے براہ راست مصالحتی عمل کے تحت کسی بات کا اشارہ دیا ہے۔ لیکن اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ پہلے کبھی تو افغان طالبان سرحدی امور پر بات چیت یا اپنے سینیئر رہنما ملا برادر اخوند سمیت دیگر رہنماؤں کی رہائی کے لیے بھی اس طرح باضابطہ اعلان کرکے نہیں آئے ہیں۔ ایسا کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
اسلام آباد میں سفارتی ذرائع بتا رہے ہیں کہ ان کی موجودگی کے دوران گذشتہ برس ملا محمد عمر کی موت کے بعد رک جانے والے مصالحتی عمل پر پاکستان یا طالبان اعتراف کریں یا نہ کریں بات یقیناً ہوگی۔ شاید باضابطہ نہ ہو لیکن کن اکھیوں میں شاید ضرور ہوں گی۔ خیر اس کا حال تو پاکستان یا طالبان کو ہوگا۔
لیکن طالبان کی پاکستان آمد چھپ نہیں سکی لہذا ان کی آمد صورتِ حال کو کوئی رنگ یا سمت دینے کی ایک کوشش دکھائی دیتی ہے۔ طالبان کسی بھی طرح اپنے موسم بہار کی یلغار کے انتہائی ابتدا میں مذاکرات کی جانب لوٹنے کا کوئی بھی اشارہ تک دینے کی حالت میں ہیں۔ اگر وہ تسلیم کرتے ہیں کہ مقصد افغان حکومت سے مذاکرات ہیں تو اس سے ان کے رینک اینڈ فائل پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
ایک جانب جنگی طبل بجانا اور دوسری جانب مذاکرات کی بِین یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ لہذا یہ پانچ سطور کے اس بیان کو اس صورتحال سے نمٹنے کی ایک اچھی کوشش کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
طالبان کی آمد سے پاکستان نے یقیناً یہ ایک مرتبہ پھر ثابت کر دیا ہے کہ ان کا اس تحریک پر اب بھی کافی اثر و رسوخ ہے اور وہ اسے اگر چاہے تو استعمال میں لا بھی سکتا ہے۔ لیکن کیا اس آمد سے مصالحتی عمل کی راہیں دوبارہ کھلنے کی کوئی امید ہے؟ ماضی کو دیکھتے ہوئے کم از کم کابل ابھی پرامید ہونے کو فی الحال تیار نہیں ہے۔
 

No comments:

Post a Comment