ایس اے ساگر
کہاوت مشہور ہے کہ ”آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام،“ آم کے متعلق نئی تحقیقات نے اس کہاوت کو درست ثابت کردیا ہے. نے صرف گٹھلیوں کے بلکہ چھلکوں کے بھی دام وصول کئے جاسکتے ہیں. پھلوں کے بادشاہ ”آم“ کے غذائی فوائد سے تو سبھی آگاہ ہیں لیکن اس سے آخرت بھی سنواری جاسکتی ہے.
کیا ہیں دنیاوی فوائد ؟
شاید آپ کو معلوم نہ ہو کہ آم کا چھلکا بھی غذائی اعتبار سے بے شمار فوائد کا حامل ہے۔ محققین نے آم کے چھلکے کے فوائد جاننے کیلئے متعدد تحقیقات کی ہیں۔ پتہ چلا کہ آم کے چھلکے میں ایسے اجزاءپائے جاتے ہیں جو انسان کو کئی اقسام کے کینسر اور شوگر سے پرامن رکھتے ہیں۔آم کے چھلکے میں موجود اجزاءانسانی جسم کے خلیات میں موجودان مخصوص مالیکیولز کو منظم رکھتے ہیں جو خون میں کولیسٹرول کی مقدار کو کنٹرول کرتے ہیں، یہی مالیکیولز خون میں شوگر کی سطح کو بھی مستحکم رکھتے اور موٹاپے کے عوامل کو کم کرتے ہیں۔
چھلکوں کا استعمال :
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آم کا چھلکا کیسے کھایا جائے؟ محققین کہتے ہیں کہ آپ چھلکے کوآم سے اتار کر بھی کھا سکتے ہیں اور آم کے گودے کے ساتھ بھی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ملک شیک یا دیگر ڈشوں میں آم استعمال کرتے ہوئے اس کا چھلکا نہیں اتارنا چاہیے۔ آپ جب کبھی آم کھائیں تو اس کا چھلکا بھی ساتھ کھانا چاہئے، اس سے آپ کا جسم مضبوط ہو گا اور آپ کئی طرح کی بیماریوں سے پرامن رہیں گے۔
آخرت کا فائدہ :
حضرت میاں اصغر حسین صاحب رحمة الله عليه کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت والد صاحب ( مفتی شفیع عثمانی صاحب ) ان کے گھر تشریف لے گئے تو انھوں نے آموں سے تواضع کی. جب آم چوس کر فارغ ہوگئے تو والد صاحب گٹھلیوں اور چھلکوں سے بھری ہوئی ٹوکری اُٹھاکر باہر پھینکنے کیلئے چلے، حضرت میاں صاحب رحمة الله عليه نے دیکھا تو پوچھا:
”یہ ٹوکری کہاں لے کر چلے؟“
عرض کیا:
”چھلکے باہر پھینکنے جارہا ہوں.“
ارشاد ہوا،
”پھینکنے آتے ہیں یا نہیں؟“
والد صاحب نے کہا کہ،
”حضرت، یہ چھلکے پھینکنا کون سا خصوصی فن ہے جسے سیکھنے کی ضرورت ہو؟“
فرمایا:
ہاں! تم اس فن سے واقف نہیں، لاؤ، مجھے دو.“
خود ٹوکری اُٹھاکر پہلے چھلکے گٹھلیوں سے الگ کئے، اس کے بعد باہر تشریف لائے اور سڑک کے کنارے تھوڑے تھوڑے فاصلے سے معین جگہوں پر چھلے رکھ دئے اور ایک خاص جگہ گٹھلیاں ڈال دیں، والد صاحب کے استفسار پر ارشاد ہوا کہ:
”ہمارے مکان کے قرب وجوار میں تمام غرباء ومساکین رہتے ہیں، زیادہ تر وہی لوگ ہیں جن کو نانِ جویں بھی بمشکل ہی میسر آتی ہے، اگر وہ پھلوں کے چھلکے یکجا دیکھیں گے تو ان کو اپنی غریبی کا شدت سے احساس ہوگا اور بے مایگی کی وجہ سے حسرت ہوگی اور اس ایذا دہی کا باعث میں بنوں گا اس لئے متفرق کرکے ڈالتا ہوں اور وہ بھی ایسے مقامات پر جہاں جانوروں کے گلےگزرتے ہیں، یہ چھلکے ان کے کام آجاتے ہیں اور گٹھلیاں ایسی جگہ رکھی ہیں جہاں بچےکھیلتے کودتے ہیں، وہ ان گٹھلیوں کو بھون کر کھالیتے ہیں، یہ چھلکے اور گٹھلیاں بھی بہرحال ایک نعمت ہیں، اُن کو بھی ضائع کرنا مناسب نہیں۔“
راقم الحروف( مفتی تقی عثمانی صاحب ) کے برادرِ مرحوم مولانا محمد زکی کیفی صاحب جو اس واقعے کے وقت موجود تھے تحریر فرماتے ہیں:
”یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنے کی ہے کہ میاں صاحب رحمة الله عليه خود تو شاید ہی کبھی کوئی آم چکھ لیتے ہوں، عموماً مہمانوں ہی کیلئے ہوتے تھے اور محلے کے غریب بچوں کو بلا بلا کر کھلانے میں استعمال ہوتے تھے، اس کے باوجود چھلکے گٹھلیوں کا یکجا ڈھیر کردینے سے گریز فرماتے تھے کہ غریبوں کی حسرتکا سبب نہ بن جائیں۔
No comments:
Post a Comment