محدثین اور مورخین کے نزدیک یہ طے شدہ بات ہے کہ سب سے آخری صحابی حضرت ابو الطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ ہیں جن کی وفات دوسری صدی کے بالکل اوائل میں ہوئی.. آپ کے انتقال کے بعد روئے زمین حضرت محمد صلى الله علیہ وسلم کے صحبت یافتہ حضرات سے یکسر محروم ہوگئی.. لیکن چھٹی صدی ہجری کے اواخر میں ایک ہند نژاد شخص نے اپنے آپ کو صحابی رسول بتا کر ایک اچھا خاصا بھونچال کھڑا کردیا.. یہ شخص رتن سنگھ ہندی ہیں جو ہندوستان میں بابا رتن اور ہندوستانی صحابی کے نام سے جانے جاتے ہیں..
بابا رتن بھنڈہ نامی گاؤں میں پیدا ہوئے جو سندھ اور دہلی کے راستے میں واقع ہے. علامہ مناظراحسن گیلانی نے بابا رتن کی تاریخ وفات 632ھ اور قبر بھنڈہ میں بتائی ہے.. بہرکیف آپ ہندوستانی باشندے ہیں.. ایک دن موسم گرما کی رات میں چھت پر بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک انھوں نے دیکھا کہ چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے.. چاند کا ایک حصہ مشرق میں ایک مغرب میں منقسم ہوگیا.. اندھیرا چھاگیا.. پھر تھوڑی دیر بعد دونوں اس طرح مل گئے جیسے اس میں شگاف ہی نہ ہوا ہو.. آپ کو حیرت ہوئی.. اس کی تحقیق کروائی تو معلوم ہوا کہ حجاز میں نبی آخرالزماں نے کفّارِ مکہ کے مطالبہ پر یہ معجزہ دکھلایا ہے.. ملاقات کی غرض سے ملک حجاز کیلئے عازمِ سفر ہوئے اور تحفے میں املی اپنے ساتھ لے گئے.. آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور آپ کے ہاتھوں مشرف باسلام ہوئے..
(ملخص حضرت رتن سنگھ)
بابا رتن حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی میں مدینہ میں موجود تھے.. وہاں ناچے بھی، گائے بھی.. جنگ خندق کے علاوہ یہودیوں کیخلاف بعض جہاد میں شریک تھے.. حضور صلى الله عليہ وسلم کے سامنے انہوں نے املی کا تحفہ پیش کیا.. حضور صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے ان کو کھجوریں دیں.. اپنے دست مبارک سے ان کی پیٹھ ٹھونکی.. درازیٴ عمر کی دعا دی..
(ماخوذ.. ایک ہندوستانی صحابی.. ص:۳۵)
واپسی کے بعد ایک پیپل کے درخت پر جا کر بیٹھ گئے اور صدیوں بیٹھے رہے.. جب آپ نے اپنے بارے میں صحابیٴ رسول ہونے کا دعویٰ کیا تو لوگوں میں عجیب وغریب چرچے ہونے لگے.. کچھ لوگ عقیدت و محبت کی نگاہ سے دیکھنے لگے اور کچھ لوگوں نے ان کی برائی بیان کرنا شروع کی.. تاجروں، سیاحوں اور مُریدوں نے اس بات کو مشرق سے مغرب تک پہنچادیا.. رفتہ رفتہ یہ بات محدثین، نُقاد، ماہرین علوم اور اربابِ علم و فضل کی مجلسوں میں موضوعِ بحث بن گئی..
بابا رتن سے بہت سی احادیث مروی ہیں جن کی تعداد چار سو سے بھی متجاوز ہے.. ان کی وہ روایات جو احادیث رسول پر مبنی ہیں، ان کی بابت علماء محدثین کا خیال ہے کہ وہ موضوع ہیں.. بابا رتن سے روایت کردہ وہ احادیث جو ان کے احوال و کوائف پر مشتمل ہیں، وہ اتنی متضاد ہیں کہ اُن سے کوئی بات اخذ نہیں کی جاسکتی.. ان تمام روایات کا مرکز موسیٰ بن مجلّی صوفی ہے جس کے بارے میں امام ذہبی نے لکھا ہے کہ یہ روایات اس جاہل کی وضع کردہ ہیں..
(جہان کتب:۲۵)
اصابہ میں لکھا ہے کہ بابا رتن کی صحابیت کا سب سے پہلے انکار کرنے والے امام حافظ شمس الدین ذہبی ہیں.. امام ذہبی نے اپنی کتاب میزان میں اس مسئلہ کو بڑی بسط و تفصیل سے لکھا ہے بلکہ انھوں نے ان کی صحابیت کی تردید میں ایک مستقل رسالہ لکھا ہے جس کا نام 'کِسرُ وثن رتن' (رتن نامی بت کی شکستگی) ہے جس میں وہ خوب خوب برسے ہیں.. امام ذہبی نے جو کچھ لکھا یا کہا ہے اور ان کے بارے میں جو ان کا خیال ہے وہ سب ایسے ہی نہیں ہے بلکہ انھوں نے حدیث اور تاریخی حقائق کو سامنے رکھ کر کہی ہیں.. کیوں کہ سات سو سال (۷۰۰) تک کسی صحابی کا زندہ رہنا قطعی طور پر مستبعد ہے.. اس لئے کہ حدیث شریف میں ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا..
"أرئیتُم لیلتّکُم ہٰذہ فانّہ علٰی رأس مِأة سَنةٍ لا یبقٰی علی وجہ الأرض مِمَّنْ ہُو الیَوم عَلیہا أحدٌ..
" تم لوگ اس رات کو دیکھ رہے ہو.. ایک صدی بعد تم میں سے کوئی بھی سطح زمین پر باقی نہیں رہے گا.."
(ابن ماجہ)
محققین کے نزدیک ایسے بہت سارے سوالات ہیں جو بابا رتن سنگھ ہندی کے دعوی صحابیت کو جھٹلا دیتے ہیں.. ایسے چند غور طلب سوالات مندرجہ ذیل ہیں..
*** اگر آپ واقعی صحابی ہیں تو علماء اسمائے رجال نے آپ کا تذکرہ اپنی کتابوں میں کیوں نہیں کیا..؟؟؟
*** آخری صحابی حضرت ابوالطفیل رضى اللہ تعالى عنه ہیں جن کی وفات دوسری صدی کے بالکل اوائل میں ہوئی.. تو سوال یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اگر رتن سنگھ ہندی کو صحابی جانتے تو صحابہ کرام و تابعین سے بیان کرتے اور تابعین حضرت ابوالطفیل رضى اللہ تعالى عنہ کو آخری صحابی نہ سمجھتے..
*** بابا رتن کا یہ کہنا کہ
"میں حضرت فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا کی شادی میں موجود تھا."
یہاں یہ سوال پیدا کررہا ہے کہ حضرت فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا کی شادی کے موقع پر کیا ایک لمبا چوڑا شادی کا پروگرام تھا کہ شرکت کرنے والوں کی کثرت کی وجہ سے کوئی بابا رتن کو پہچان نہ سکا اور ان کا نام سیر و حدیث میں جگہ نہ بناسکا..؟؟؟
*** بابا رتن سنگھ ہندی کی غزوہ احزاب اور دوسرے غزوات میں شرکت ہوئی، پھر ان کی شرکت کا ثبوت سیر و تاریخ میں نہیں ملتا.. ایسا کیوں..؟؟؟
*** آخری زمانے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس غیر ملکی وفد بکثرت آتے تھے.. آپ ان کو تعلیم دیتے تھے.. وہ واپس جاکر اپنے یہاں تعلیم وتبلیغ کی قندیلیں روشن کرتے تھے.. تاریخ ہند بابا رتن سنگھ ہندی کی ایسی تحریکی تگ ودَو سے ناواقف کیوں ہے..؟ پھر عرب و ہند کے مابین اقتصادی لائن سے اچھے روابط تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین باہر سے آنے والے لوگوں کا اکرام کرتے اور ان سے ان کے ملکی احوال معلوم کرتے، پھر حدیث کے تحت ان کو بیان فرماتے تھے.. سوال یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے "ان کو بتائی جانے والی تعلیم" اور ان کی حاضری پردہ اخفا میں کیوں رہ گئی..؟؟؟
*** "واپسی کے بعد ایک پیپل کے درخت پر جاکر بیٹھ گئے اور صدیوں بیٹھے رہے." دل میں کھٹکتی بات یہ ہے کہ سات صدی تک آدمی کیسے بیٹھا رہے گا جبکہ انسان کیلئے حرکت، آرام، نیند، تھکاوٹ، آپسی میل ملاپ اور اشیائے خورد ونوش وغیرہ انتہائی ناگزیر ہیں.. ان کے بغیر بابا رتن سنگھ ہندی کیسے زندہ رہ گئے..؟؟؟
*** تاریخی حوالوں سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ ساتویں صدی میں ہندوستان میں مسلمان فاتح بن کر آئے اور یہاں کی حکومت ان کے زیر قیادت رہی.. انھوں نے علم و عمل کی قندیلیں روشن کیں جن سے افادہ استفادہ کی راہیں ہموار ہوئیں.. بابا اگر واقعی صحابی تھے تو یہ حضرات ان سے ملاقاتیں کرتے مگر تاریخ اس سے خاموش ہے.. بالخصوص غزنی خاندان علم اور اہل علم کا دلدادہ تھا مگر ان کے زمانے میں بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے.. چوتھی صدی میں محمود سبکتگین نے ہندوستان پر لگاتار حملے کیے اور ملک میں گھسے مگر ان کے متعلق کوئی خبر نہیں ملی.. مہدی، منصور، مامون الرشید، ہارون الرشید وغیرہ کے ہندوستان سے اچھے روابط تھے.. اگر بابا صاحب کا وجود ہوتا تو ضرور ان لوگوں کو اس کی اطلاع ملتی..
الغرض اس طرح کی چند اور بنیادی باتیں ہیں جو ان کے دعوائے صحابیت کو مخدوش بنادیتی ہیں اور محقق امام ذہبی کے فیصلہ کی تائید و توثیق کرتی ہیں..
(مولانا عبیداللہ فاروق بارہ بنکی کے ایک تحقیقی مضمون سے ماخوذ)
(بشکریہ: عامر عبداللہ)
No comments:
Post a Comment