ایک گاڑی اگر پچاس ہزار کی ھے اور قسطوں پر اسکی قیمت ساٹھ ھزار ہوتی ہے ایسی صورت میں کیا گاڑ؛ی لینا جائز ہے یا نہیں؟ مگر ہمیں پتہ ہے کہ ان قسطوں میں کچھ حصہ سود کا بھی شامل ہے ؟ آپ کے مسائل اور ان کا حل کتاب میں اس مسئلہ کو درست بتا یا ہے کہ قسطوں کی رقم ایک بار مقرر کردے تو یہ سود کے حکم میں شامل نہیں ہو گا. اس مسئلہ کا حل بتا دیں۔
Published on: Aug 13, 2015 جواب # 60582
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1052-844/D=10/1436-U
نقد فروخت کرنے میں سامان کی قیمت کم ہو اور ادھار میں زیادہ ہوجائے ایسا جائز ہے بشرطیکہ کوئی ایک قیمت متعین ہوکر حتمی طور پر معاملہ اس پر ہوجائے مثلاً نقد لے رہے ہیں تو نقد قیمت پر، ادھار لے رہے ہیں تو ادھار قیمت پر، تذبذب اور تردد نہ رہے مثلاً اگر نقد ادا کردیا تو اتنا ادھار ادا کیا تو اتنا۔ پھر ادھار قیمت قسطوں میں ادا کرنے کی بات بھی طے ہوسکتی ہے، حرج نہیں۔ مگر اس میں بھی وقت بڑھنے کے اعتبار سے قیمت میں اضافہ کی بات نہ ہو، مطلب یہ کہ قسطوں میں ادا کی جانے والی رقم اور مدت دونوں متعین ہوجائے، مذکورہ صورت اس وقت جائز ہے جب آپ براہ راست کسی (شو روم) سے خرید رہے ہوں، اور اگر بینک کے ذریعہ خریدیں تو ضروری ہے کہ بینک گاڑی خریدکر اپنے اضافہ کیساتھ (خواہ وہ سود کے نام سے ہو) آپ کے ہاتھ فروخت کرے؛ لیکن بینک ایسا نہیں کرتے ہیں ، وہ تو لون (قرض) دیتے ہیں جسے قسطوں میں وصول کرتے ہیں، ایسی صورت میں اضافہ یقینا سود ہے اور اس طرح لون پر گاڑی لینا جائز ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 548-548/Sd=10/1436-U
ادھار کی وجہ سے مبیع کی قیمت میں اضافہ کرنا مطلقاً سود نہیں ہوتا، صورت مسئولہ میں اگر گاڑی کی اصل قیمت پچاس ہزار ہے؛ لیکن قسطوں پر لینے کی صورت میں اس کی قیمت ساٹھ ہزار ہوتی ہے، تو قسطوں پر ساٹھ ہزار میں گاڑی خریدنا جائز ہے، بشرطیکہ عقید کے وقت ہی گاڑی کی ایک قیمت متعین ہوجائے اور قسطوں کی ادائیگی کی مدت بھی طے کرلی جائے، نیز وقت مقررہ پر کسی قسط کی عدم ادائیگی کی صورت میں قیمت بڑھانے کی شرط نہ ہو یا اگر شرط ہو تو مشتری کو متعینہ مدت میں قیمت ادا کرنے کا اطمینان ہو۔
واضح رہے کہ عموماً بینکوں سے قسطوں پر گاڑی خریدنے میں سود کی شکل پائی جاتی ہے، بینک گاڑی کا مالک نہیں ہوتا، وہ گاڑی کی مالک کمپنی کو نقد رقم ادا کردیتا ہے اور خریدار کے نام لون جاری کرکے قسطوار وصول کرتا ہے؛ لہٰذا بینک کے ذریعے مذکورہ تفصیل کے مطابق قسطوں پر گاڑی خریدنا اُسی وقت جائز ہوگا جبکہ بینک گاڑی کا مالک ہوجائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
میں بینک میں فسکڈ ڈپوزٹ 500000روپے کرواتا ہوں تو مجھے کچھ سالوں میں سود کیساتھ 10,00000 ملیں گے۔
اور میں بینک سے 70,00000روپے کا لون لیتا ہوں، لون کا جو سود ہے؟ میں پہلے والے فکسڈ ڈپوزٹ میں جو سود مل رہا ہے، وہاں پر لون کا سود بھرتا ہوں، تو سود کو سود مٹ رہا ہے۔ یہ جائز ہے کیا؟
Published on: Oct 24, 2015 جواب # 61234
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 776-776/Sd=1/1437-U
سودی لین دین ناجائز ہے، قرآن کریم اور احادیث میں سودی لین دین پر سخت وعیدیں آئی ہیں، البتہ پیسوں کی حفاظت کے لیے بینک میں رقم جمع کروانے کی گنجائش ہے، لیکن اُس سے حاصل ہونے والی سودی رقم سے کسی طرح کا انتفاع جائز نہیں ہے ؛ بلکہ ثواب کی نیت کے بغیر غرباء مساکین پر اُس کا تصدق واجب ہے ، لہذا صورتِ مسوٴولہ میں اولا تو آپ کیلئے سودی قرض لینا ہی جائز نہیں ہے اور اگر لے لیاہے، تو فکسڈ ڈیپازٹس سے حاصل ہونے والی سودی رقم کے ذریعے لون کی وجہ سے واجب شدہ سود کی ادائے گی جائز نہیں ہے،بلکہ سودی رقم کا ثواب کی نیت کے بغیر غرباء مساکین پر تصدق ضروری ہے۔ قال اللّٰہ تعالی:
و أحل اللّٰہ البیع و حرم الربوا۔
( البقرة:۲۷۵)
عن جابر رضي اللّٰہ عنہ قال لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا و موکلہ وکاتبہ وشاہدیہ،وقال: ہم سواء۔( مشکاة المصابیح، ص: ۲۴۴، باب الربا، الفصل الأول) وعن أبی ہریرة رضي اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الربوا سبعون جزء اً أیسرہا أن ینکح الرجل أمہ۔( مشکاة المصابیح، ص:۲۴۶، باب الربا، الفصل الثالث) قال البنوري نقلًا عن العلامة الکشمیري: یُستَفَادُ من کتب فقہائنا کالہدایة و غیرہا أن من مَلَکَ بملک خبیث ولم یمکنہ الردُّ الی المالک ، فسبیلُہ التصدق علی الفقراء ، قال: ان المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغَ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبةَ۔( معارف السنن:۱/۳۴، أبواب الطہارة)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
No comments:
Post a Comment